گمنام صارف
"ابواء" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 4: | سطر 4: | ||
==محل وقوع== | ==محل وقوع== | ||
اَبْواء نام کا ایک بڑا دیہات [[ودّان]] کے قریب مکہ اور مدینہ کے راستے پر مدینہ کے جنوب غرب میں (۱۷۰ کیلومتر) اور مکہ سے شمال غرب (۲۰۰ کیلومتر) کے فاصلے پر موجود ہے ۔پینے کا پانی کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے ۔<ref>ابن رستہ، ج۷، ص۱۷۸</ref> | |||
ابواء نام | ابواء کے نام ایک پہاڑ اس کے قریب ہے ۔بعض نے اس کلمے کا معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیلابوں کے آنے کی جگہ یا مختلف لوگوں کے اکٹھے ہونے کی جگہ کو ابوا کہتے ہیں ۔<ref>یاقوت حموی، معجم البلدان،ج۱، ص۱۰۰</ref> | ||
یہاں سے مکہ جانے کے دو راستے نکلتے ہیں ایک راستہ ودان، جحفہ، مكہ اور دوسرا راستہ جحفہ سے مكہ کو جاتا ہے ۔اب قدیم ابواء متروک اور خرابے کی صورت میں موجود ہے اور اسے خریبہ کہتے ہیں جو باغات اور کھیتوں پر مشتمل ہے ۔نیا آباد ہونے والا ابواء شمال میں واقع ہے .آخری دہائیوں میں اس دیہات کے اکثر لوگ بڑے شہروں میں ہجرت کر گئے ہیں۔نئے امکانات کی بدولت اس علاقے میں دوبارہ بحال ہو گئی ہے ۔اب یہاں کی آبادی تقریبا ۷۰۰۰ نفوس پر مشتمل ہے ۔جن میں اکثر قبیلۂ حرب سے تعلق رکھتے ہیں [۱۸]نیز یہاں پرائمری،مڈل اور ہائی سکول پر مشتمل نو(9) سکولوں کے علاوہ مرکز بہداشت موجود ہیں ۔ سال ۲۰۱۰ م میں اس علاقے کے پانی کی قلت کا شکار ہو گئے ۔لہذا شہر کے لوگوں نے پانی کے ٹینکروں کے ذریعے پانی کی فراہمی کیا۔<ref>روزنامہ ریاض، تاریخ ۹/۹/۲۰۱۰ و ۷ آب ۲۰۱۰ و ۱۴ حزیران ۲۰۱۰م.؛ نك: سائٹ انٹرنیٹ روزنامہ الریاض</ref> | |||
== | == تاریخی مقامات== | ||
<!-- | |||
===مقبره مادر پیامبر(ص) === | ===مقبره مادر پیامبر(ص) === | ||
قبر [[آمنه بنت وهب]] مادر [[حضرت محمد]](ص) که در مراجعت از مدینه به مکه در سال ۴۶ قبل از هجرت در ابواء درگذشت،<ref>ابن هشام، ج۱، ص۱۷۷</ref> بنابر مشهور در این محل است.<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ ق، ج۱، ص ۱۳؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص ۵۰.</ref> | قبر [[آمنه بنت وهب]] مادر [[حضرت محمد]](ص) که در مراجعت از مدینه به مکه در سال ۴۶ قبل از هجرت در ابواء درگذشت،<ref>ابن هشام، ج۱، ص۱۷۷</ref> بنابر مشهور در این محل است.<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ ق، ج۱، ص ۱۳؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص ۵۰.</ref> |