گمنام صارف
"معاویۃ بن ابی سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←اموی خلافت کی تشکیل
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 63: | سطر 63: | ||
<!-- | <!-- | ||
{{اصلی|صلح امام حسن|خلافت بنی امیہ}} | {{اصلی|صلح امام حسن|خلافت بنی امیہ}} | ||
امام علی کی شہادت کے بعد بیت المقدس میں شام کے لوگوں نے معاویہ خلیفہ کی حیثیت سے بیعت کی اور اسے خلیفۃ المسلمین کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ <ref>ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۶۳؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۱</ref> معاویہ پھر عراق کی طرف متوجہ ہوا۔امام حسن نے 12000 افراد کا لشکر کہ جس میں عبد اللہ بن عباس بھی تھا ،مدائن کی طرف روانہ کیا ۔ جب وہ ساباط پہنچا تو انہوں نے اپنے اصحاب | امام علی کی شہادت کے بعد بیت المقدس میں شام کے لوگوں نے معاویہ خلیفہ کی حیثیت سے بیعت کی اور اسے خلیفۃ المسلمین کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ <ref>ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۶۳؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۱</ref> معاویہ پھر عراق کی طرف متوجہ ہوا۔امام حسن نے 12000 افراد کا لشکر کہ جس میں عبد اللہ بن عباس بھی تھا ،مدائن کی طرف روانہ کیا ۔ جب وہ ساباط پہنچا تو انہوں نے اپنے اصحاب کے متعلق خاص طو پر معاویہ کی جانب سے انہیں رشوت دینے اور عبید اللہ بن عباس کی دلجوئی کی کوشش کی وجہ سے تردد کیا .پس امام حسن نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا ۔معاویہ اور امام کے درمیان صلح کی بات چلی ،امام حسن نے حکومت معاویہ کے حوالے کر دی ۔امام نے صلح میں شرط لگائی کہ معاویہ کے بعد حکومت انہیں واپس ملے گی ۔ معاویہ صلح کے بعد کوفے میں آیا اور امام حسین و حسن نے ان سے بیعت لی ۔لوگوں کے اس اکٹھ کی وجہ سے اس سال کا نام {{حدیث|'''عام الجماعة'''}} رکھا گیا کیونکہ امت میں سے خوارج کے علاوہ سب نے ایک شخص کی بیعت کی تھی ۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۶؛ مقائسہ کریں: تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۸۷؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۳؛ ابوالفداء، اسماعیل بن علی عمادالدین صاحب حماة، المختصر فی اخبار البشر، ج۱، ص ۱۸۴</ref> | ||
جاحظ | جاحظ اس سال معاویہ کے بادشاہ بننے اعضائے شورا اور مہاجرین و انصار کی نسبت اسکی استبدادیت کی طرف مائل ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے : معاویہ نے اگرچہ اس سال کا نام عام الجماعۃ رکھا حالانکہ یہ سال «عام فرقه و قهر و جبر و غلبہ » کا سال تھا ۔یہ وہ سال تھا کہ جس میں امامت ملوکیت میں ،نظام نبوی نظام کسرائی میں تبدیل ہوا اور خلافت مغصوب اور قیصری ہوئی ۔ <ref>جاحظ، رسالہ الجاحظ فی بنی امیہ، ص ۱۲۴، چاپ شده ہمراه رسالہ النزاع و التخاصم</ref> | ||
حکومت معاویہ اگرچہ پہلا حاکمیت کا تجربہ تھا کہ جس میں دینی و سیاسی ، قبیلائی اور علاقائی اختلافات میں زور گوئی کے ذریعے اور سیاسی حیلوں کے توسط سے قدرت حاصل کی گئی تھی۔<ref>محمدسہیل طقوش، دولت امویان،با اضافات رسول جعفریان، ترجمہ حجت الله جودکی، ص ۱۹</ref> معاویہ تصریح کرتا ہے کہ اس نے یہ خلافت کو لوگوں کی محبت ، دوستی اور انکی رضایت سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے حاصل کی ہے .<ref>ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج ۴، ص ۸۱</ref> | |||
حکومت معاویہ | بہر حال اس طرح اموی حکومت بن گئ اور معاویہ اس کا خلیفہ بنا ۔ اس سلسلے نے ۹۱ سال (۱۳۲ق.-۴۱ق.) دوام پایا . اس میں ۱۴ نفر خلیفے ہوئے . پہلا معاویہ بن ابی سفیان اور آخری مروان بن محمد جعدی تھا۔ | ||
===خلافت سے پہلے کی کوششیں=== | |||
<!-- | |||
معاویہ در ظاهر اعلام کرده بود که مخالفت او با امام علی برای خلافت نیست. او پیش از جنگ جمل به زبیر نوشت: از مردم شام برای او بیعت گرفته، اگر عراق را تصاحب کند در شام مشکلی نخواهد داشت. زبیر از این نامه خشنود و دلگرم شد.<ref>رک: امین، احمد، اعیان الشیعه، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲</ref> معاویہ برای انتخاب خلیفه جدید، نظریه «شورای بین مسلمانان» را طرح کرده بود. معاویہ بر آن بود تا یکی از شخصیتهای سیاسی قریش، به ویژه آنان را که در شورا حضور داشتند به خود جذب و از آنان بهره برداری سیاسی کند. معاویہ در نامهای به امام علی نیز مسئله را مطرح کرد.<ref>ابن قتیبه، الامامه و السیاسه، ج ۱، ص ۱۲۱</ref> | معاویہ در ظاهر اعلام کرده بود که مخالفت او با امام علی برای خلافت نیست. او پیش از جنگ جمل به زبیر نوشت: از مردم شام برای او بیعت گرفته، اگر عراق را تصاحب کند در شام مشکلی نخواهد داشت. زبیر از این نامه خشنود و دلگرم شد.<ref>رک: امین، احمد، اعیان الشیعه، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲</ref> معاویہ برای انتخاب خلیفه جدید، نظریه «شورای بین مسلمانان» را طرح کرده بود. معاویہ بر آن بود تا یکی از شخصیتهای سیاسی قریش، به ویژه آنان را که در شورا حضور داشتند به خود جذب و از آنان بهره برداری سیاسی کند. معاویہ در نامهای به امام علی نیز مسئله را مطرح کرد.<ref>ابن قتیبه، الامامه و السیاسه، ج ۱، ص ۱۲۱</ref> | ||