مندرجات کا رخ کریں

"حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 35: سطر 35:


== تاریخ ولادت و وفات ==
== تاریخ ولادت و وفات ==
قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہؑ کی ولادت کا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن رضا استادی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب میں تاریخ ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبدالعظیمی کی کتاب نور الآفاق ہے<ref> استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱.</ref> جو [[سنہ 1344 ہجری]] میں نشر ہوئی ہے۔<ref> استادی، «آشنایی با حضرت عبدالعظیم و مصادر شرح‌ حال او»، ص۲۹۷.</ref> اس کتاب میں آپ کی تاریخ ولادت  پہلی [[ذیقعدہ]] [[سنہ 173 ہجری]] اور تاریخ وفات [[10 ربیع الثانی]] [[سنہ 201 ہجری]] ذکر ہوئی ہے وہاں سے پھر دوسری کتابوں میں منتقل ہوئی ہے۔<ref> استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱.</ref> اسی کی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں [[1 ذی القعدہ]] کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔<ref> شورای مرکز تقویم مؤسسہ ژئوفیزیک دانشگاه تهران، تقویم رسمی کشور سال ۱۳۹۸ هجری شمسی، ص۹.</ref>
قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہؑ کی ولادت کا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن رضا استادی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب میں تاریخ ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبد العظیمی کی کتاب نور الآفاق ہے<ref> استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱.</ref> جو [[سنہ 1344 ہجری]] میں نشر ہوئی ہے۔<ref> استادی، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او»، ص۲۹۷.</ref> اس کتاب میں آپ کی تاریخ ولادت  پہلی [[ذیقعدہ]] [[سنہ 173 ہجری]] اور تاریخ وفات [[10 ربیع الثانی]] [[سنہ 201 ہجری]] ذکر ہوئی ہے وہاں سے پھر دوسری کتابوں میں منتقل ہوئی ہے۔<ref> استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱.</ref> اسی کی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں [[1 ذی القعدہ]] کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔<ref> شورای مرکز تقویم مؤسسہ ژئوفیزیک دانشگاه تهران، تقویم رسمی کشور سال ۱۳۹۸ هجری شمسی، ص۹.</ref>


بعض علماء نے شاہ عبد العظیمی کے اس نظریئے کی مخالفت کی ہے اور ان کی کتاب میں مذکورہ ان تاریخوں کو جعلی قرار دیا ہے؛ منجملہ آیت‌ اللہ [[شہاب الدین مرعشی نجفی|شہاب‌ الدین مرعشی]]،<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۲.</ref> [[آیت اللہ]] [[موسی شبیری زنجانی]]،<ref> شبیری زنجانی، جرعہ‌ای از دریا، ۱۳۹۴ ہجری شمسی، ج۲، ص۵۱۹.</ref> رضا استادی<ref> استادی، آشنایی با حضرت عبدالعظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱.</ref> و ذبیح‌ اللہ محلاتی.<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۱و۳۲.</ref> قابل ذکر ہیں۔
بعض علماء نے شاہ عبد العظیمی کے اس نظریئے کی مخالفت کی ہے اور ان کی کتاب میں مذکورہ ان تاریخوں کو جعلی قرار دیا ہے؛ منجملہ آیت‌ اللہ [[شہاب الدین مرعشی نجفی|شہاب‌ الدین مرعشی]]،<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۲.</ref> [[آیت اللہ]] [[موسی شبیری زنجانی]]،<ref> شبیری زنجانی، جرعہ‌ای از دریا، ۱۳۹۴ ہجری شمسی، ج۲، ص۵۱۹.</ref> رضا استادی<ref> استادی، آشنایی با حضرت عبدالعظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱.</ref> و ذبیح‌ اللہ محلاتی<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۱و۳۲.</ref> قابل ذکر ہیں۔


==القاب==
==القاب==
گمنام صارف