مندرجات کا رخ کریں

"صارف:E.musavi" کے نسخوں کے درمیان فرق

13,667 بائٹ کا ازالہ ،  16 اپريل 2017ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
موسوی
موسوی


قبرستان وادی السلام، عراق کے شہر نجف اشرف میں ایک بڑا اور تاریخی قبرستان ہے۔ جس کی فضیلت روایات میں ذکر ہونے کی وجہ وہ شیعوں کے درمیان مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ بعض روایات کے مطابق، یہ قبرستان بعض انبیائ و صالحین کی رجعت کا مقام ہے اور دوسری روایات کے مطابق کوئی بھی مومن دنیا کے کسی بھی خطے میں وفات پاتا ہے تو اس کی روح یہاں آتی ہے۔ وادی السلام کے شہر نجف میں واقع ہونے، جہاں شیعوں کے پہلے امام حضرت علی علیہ السلام کا روضہ ہے، کی وجہ سے اس کا مرتبہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ عراق میں عتبات عالیات کی زیارت کرنے والے حضرات اس قبرستان کی بھی زیارت کرتے ہیں۔ انبیائ ما سبق میں سے دو نبی حضرت ھود (ع) اور حضرت صالح (ع) کی طرف منسوب قبریں اور بعض ائمہ معصومین علیہم السلام کے نام سے منسوب مقامات بھی اس قبرستان میں واقع ہیں۔
جمیل بن دراج (متوفی 128 ق) دوسری صدی ہجری کے شیعہ راوی، محدث اور فقیہ ہیں۔ وہ اصحاب اجماع کی فرد ہیں جنہوں نے تقریبا 300 روایات امام صادق اور امام کاظم علیہما السلام سے نقل کی ہیں۔ اسی طرح سے انہوں نے 50 سے زیادہ راویوں سے روایات نقل کی ہیں جن میں زرارہ بن اعین اور محمد بن مسلم شامل ہیں۔ 40 سے زیادہ افراد نے ان سے روایات  نقل کی ہیں جن میں سے بعض اصحاب اجماع جیسے بزنطی شامل ہیں۔ جمیل بن دراج کی روایات زیادہ تر عقائد، اخلاق، آداب اور فقہ کے بارے میں ہیں۔ شیعہ علمائ رجال نے انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔
 
وجہ تسمیہ
 
عربی زبان میں وادی لفظ سیلاب کے مقام اور اس جگہ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ جو دو پہاڑوں کے درمیان پانی جاری ہونے کا راستہ ہو اور جس میں پانی تدریجی طور پر جذب ہوتا ہے۔ فارسی زبان میں یہ لفظ بیابان اور صحرا کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے اور السلام مسلمانوں کے یہاں خدا کے ناموں میں سے ہے اور عربی زبان میں السلام کے معنی ظاہر و باطنی آفات و بلاوں سے سلامتی کے ہیں۔
 
کلینی (متوفی 328 ق) نے اس قبرستان کے سلسلہ میں ایک روایت حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ جس میں کلمہ وادی السلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
 
بعض منابع میں اس قبرستان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ اس کا نام وادی السلام پیغمبر اکرم (ص) بلکہ جبرئیل امین (ع) نے رکھا ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں دفن ہونے والا انسان حساب کتاب اور عالم برزخ کے عذاب محفوظ اور امن و امان میں ہے۔
 
وادی السلام لفظ کے علاوہ بعض روایات میں ظہر الکوفہ (کوفہ کی پشت) کی تعبیر بھی اس قبرستان کے لئے استعمال ہوئی ہے جیسے وہ روایت جسے مجلسی دوم (محمد تقی مجلسی) نے عیاشی سے نقل کیا ہے: قال امیر المومنین صلوات اللہ علیہ: اول بقعۃ عبد اللہ علیھا ظھر الکوفۃ لما امر اللہ الملائکۃ ان یسجدوا لآدم سجدوا علی ظھر الکوفۃ؛ امیر المومنین (ع) نے فرمایا: اولین مقام (روی زمین پر) جس میں اللہ کی عبادت کی گئی وہ پشت کوفہ کا مقام تھا جس وقت خداوند عالم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم (ع) کو سجدہ کریں وہ پشت کوفہ کا مقام تھا جس میں ملائکہ نے سجدہ کیا۔
 
حیثیت جغرافیائی اور سابقہ تاریخی
 
قبرستان وادی السلام عراقی ریاست کے شہر نجف اشرف میں واقع ہے جو جنوب کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کے روضہ اور امام علی کے نام سے موسوم سڑک، مشرق کی سمت سے نجف کربلا روڈ، شمال کی طرف سے حی المھندسین اور مغرب کی سمت میں دریاچہ (بحر النجف) تک منتہی ہوتا ہے۔
 
دینی روایات کے مطابق اس قبرستان کی تاریخ قبل از اسلام تک پہچتی ہے البتہ تاریخی منابع میں قبل از اسلام اس کی حالت کے بارے میں کوئی خاص اطلاع دسترسی میں نہیں ہے۔ اس کے باوجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی اس جگہ پر مردوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ متون دینی میں اس قبرستان کی تاریخ حضرت آدم (ع) کو ملائکہ کے سجدہ تک منتہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس روایت میں جو امام علی علیہ السلام سے منسوب ہے، اسی مکان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں اللہ نے فرشتوں کو حضرت آدم (ع) کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔
ں
بعض دوسری دینی روایات کے مطابق بعض انبیائ اس قبرستان میں دفن ہیں اور مجلسی کی روایت جو انہوں نے عیاشی سے نقل کی ہے اس کے اعتبار سے یہ مقام حضرت آدم (ع) اور ان کے بعد کے انبیائ کی نماز گاہ رہا ہے۔
 
قبرستان وادی السلام زمانہ قدیم ہی سے ایرانی زائرین کے قافلوں کی زیارت اور رفت و آمد کا مقام رہا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں میں، جس میں عراقی ریاست نا امنی کا شکار رہی ہے، زیادہ تر قافلے زائرین کو وہاں جانے سے منع کرتے ہیں، کیونکہ یہ قبرستان اپنی عظیم وسعت، بلند مقبروں اور بیحد قدیم حجروں کی وجہ سے نا امن معلوم ہوتا ہے۔
 
اہمیت و فضیلت
 
اس کی اہمیت کا مہم ترین سبب اس کا روضہ امیرالمومنین کے جوار میں ہونا ہے۔ منابع شیعہ میں قبرستان وادی السلام کے سلسلہ میں بہت سی باتیں بیان ہوئی ہیں اور دوسرے فضائل بھی اس کے لئے شمار کئے گئے ہیں۔ اس سلسلہ کی بعض روایات کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:
 
تفسیر عیاشی میں ایک روایت نقل ہوئی ہے جس کے مطابق شب معراج پیغمبر اکرم (ص) جبرئیل (ع) کے ہمراہ کوفہ اور وادی السلام تشریف لے گئے اور وہاں پر نماز پڑھی ہے۔ اس روایت کے اعتبار سے وادی السلام حضرت آدم اور انبیائ کی نماز گاہ رہا ہے۔
 
کلینی (متوفی 328 ق) نے امام علی علیہ السلام سے قبرستان وادی السلام کے سلسلہ میں ایک روایت نقل کی ہے۔ جس کے مطابق حضرت علی (ع) اپنے ایک صحابی کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے ہیں اور اس جگہ پر فرماتے ہیں: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ یمُوتُ فِی بُقْعَةٍ مِنْ بِقَاعِ الْأَرْضِ إِلَّا قِیلَ لِرُوحِهِ الْحَقِی بِوَادِی السَّلَامِ وَ إِنَّهَا لَبُقْعَةٌ مِنْ جَنَّةِ عَدْنٍ؛ روی زمین پر کوئی بھی مومن نہیں مرتا ہے مگر یہ کہ اس کی روح کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ وادی السلام میں حاضر ہو، بیشک یہ جنت عدن کا ایک گوشہ ہے۔
 
اسی طرح سے حدیث میں آیا ہے کہ روی زمین پر یہ اولین جگہ تھی جس میں اللہ کی عبادت کی گئی تھی۔
 
اسی طرح سے حضرت علی علیہ السلام سے بعض روایات اس شہر نجف اور وادی السلام سے تعلق خاطر اور اس شہر اور قبرستان وادی السلام میں دفن ہونے،  کے حوالہ سے نقل ہوئی ہیں۔ جیسے وہ روایت جس میں آپ نے اللہ سے دعا کی ہے کہ وہ اس شہر کو ان کا مدفن قرار دے۔
 
قبرستان کے اندر موجود مقبرے
 
اس عظیم قبرستان میں موجود قبروں کے علاوہ اس میں بعض مقبرے بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو ہمیشہ شیعہ زائرین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ اسی طرح سے بزرگان کی قبر پر عمارت تعمیر کی گئی ہے جو مذہبی، تاریخی اور فنی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں جیسے:
 
ھود و صالح (ع) کا مقبرہ
 
بعض روایات کے مطابق اللہ کے دو پیغمبر حضرت ھود (ع) اور حضرت صالح (ع) کی قبریں اس قبرستان میں واقع ہیں۔ وادی السلام میں ان دونوں حضرات سے منسوب دو مقبرے موجود ہیں۔ ان دونوں مقبروں پر ابتدائی طور پر علامہ بحر العلوم کی کوشش سے گچ اور سنگ سے گنبد اور عمارت تعمیر کی گئی۔ اور اس کے بعد سن 1337 ق میں اسے ایک ایرانی مخیر نے تجدید بنائ کے ساتھ گنبد پر کاشی کاری کرائی۔
 
امام مھدی،امام صادق و امام سجاد کے مقامات
 
وادی السلام کے شمالی حصہ میں ایک جگہ مقام امام مھدی (ع) اور مقام امام صادق (ع) کے نام سے موسوم موجود ہے۔ جس پر ایک نسبتا قدیم عمارت دو بورڈ اور ایک نیلا گنبد موجود ہے جو ان دونوں اماموں کے نماز کے مقام کو معین کرتے ہیں۔ عمارت کے اندر ایک کنواں، امام مھدی کے کنویں کے نام سے معروف ہے اور اس کے اطراف میں چند قبریں بنی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ امام مھدی علیہ السلام کو اس مقام پر دیکھا گیا ہے۔
 
اس عمارت کی تعمیر علامہ بحر العلوم کی سعی کا نتیجہ ہے۔ یہ بنائ سن 1330 ق تک باقی تھی جسے اس سال سید محمد خان نام کے ایک شخص نے تجدید بنائ کرائی تھی اور اس وقت وہ اسی صورت میں باقی ہے۔ اس شخص نے اس مقام پر نیلے رنگ کے پتھروں سے ایک گنبد بھی تعمیر کرایا تھا۔
 
عمارت کے اندر ایک پتھر نصب کیا گیا ہے جس پر امام زمانہ (ع) کی زیارت نقش کی گئی ہے۔ اس سنگ پر کتابت کی تاریخ سن 1200 ق درج ہے۔ امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے:
 
جو بھی میرے جد کی زیارت کرے اور دو رکعت نماز پڑھے، اس کے بعد اور دو رکعت نماز پڑھے، پھر ایک اور دو رکعت نماز پڑھے۔ پہلی دو رکعت امیرالمومنین کی قبر کے مقام پر، دوسری دو رکعت مقام راس الحسین پر، اور تیسری دو رکعت حضرت مھدی (ع) کے منبر کے پاس۔
 
اس جگہ پر ایک اور مقام، مقام امام صادق علیہ السلام کے نام سے منسوب موجود ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ کے سلسلہ میں کوئی اطلاع دسترسی میں نہیں ہے۔ حرم کے مغرب کی سمت میں ایک کیلو میٹر کے فاصلہ پر بحر النجف کے کنارے تقریبا 250 میٹر کے فاصلہ پر صافی صفا کے مقبرہ کے پاس ایک مسجد اور مقام امام سجاد علیہ السلام کے بیتوتہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ مسجد جس کی مساحت 18/15 میٹر ہے، اس کے دیواروں اور گنبد پر کاشی کاری موجود ہے اور اس کے اندر ایک محراب امام سجاد (ع) کے محل نماز کے عنوان سے بنایا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جس وقت آپ امام علی علیہ السلام کی زیارت کے لئے نجف آئے تو اس مقام پر نماز پڑھی اور یہاں شب بسر کی۔
 
صفویہ کے دور میں اس مقام پر ایک بنائ تعمیر کی گئی تھی وہ اب بھی قائم ہے۔ عثمانی حکومت کے خاتمہ پر یہ عمارت تعمیر ہوئی اور اس کی محراب کی خوب صورت پتھر سے تزئین کی گئی جس کے اوپر حروف مقطعات کے نقوش درج تھے۔ البتہ اس کے مفاہیم کسی کے لئے بھی واضح نہیں ہیں۔
 
اس قبرستان میں مدفون مشاہیر
 
بہت سے دینی، سیاسی اور سماجی شیعہ مشاہیر اپنی وصیت کی بنائ پر یا ان کے قریبیوں خواہش پر اس قبرستان میں دفن ہوئے ہیں۔ ظاہری طور پر ان کا اصلی مقصد شیعوں کے پہلے امام (ع) کے جوار میں﷽دفن ہونے کا شرف حاصل کرنا ہے۔ اس قبرستان میں مدفون بعض مشاہیر کے اسمائ ذیل میں ذکر کئے جا رہے ہیں:
 
سید جمال الدین گلپایگانی
سید محمد باقر صدر
سید جمال‌الدین اَفجِه‌ای
سید علی قاضی طباطبایی
رئیس علی دلواری
محمد حسین کاشف الغطاء
محمد رضا تنکابنی
سید محمد باقر حکیم
 
قبرستان میں خرافاتی اعمال
 
ایرانی کیلینڈر کے نویں مہینہ آذر 1391 میں شفقنا نیوز ایجنسی نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں اس قبرستان کے سلسلہ میں عوام کی طرف سے ہونے خرافات کا ذکر کیا تھا۔ اس خبر کے مطابق، بعض افراد وہاں کی قبروں پر اپنا نام نقش کرتے ہیں  تا کہ مرنے کے بعد ان کی روح اس قبرستان میں منتقل ہو جائے۔ یا اس کی خاک تبرک کے طور پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور یہ کہ اپنے ناخون اور بال کو یہاں دفن کر دیتے ہیں۔ اس نیوز ایجنسی نے ان کاموں کو خرافاتی اعمال میں سے قرار دیا ہے۔  
 
فوٹو گیلری
گمنام صارف