گمنام صارف
"مصحف امام علی" کے نسخوں کے درمیان فرق
←جمعآوری
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مآخذ) |
imported>E.musavi |
||
سطر 5: | سطر 5: | ||
== جمعآوری == | == جمعآوری == | ||
[[رسول اللہ]] کی قطعی نص اور تصدیق کی بنا پر [[امام علی ]] تمام لوگوں سے زیادہ [[قرآن مجید]] سے آشنا تھے۔ [[پیامبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[حضرت علی (ع)]] نے چھ ماہ کی قلیل مدت میں قرآن مجید کی ترتیبی نزول کے مطابق جمع آوری کا کام انجام دے دیا تھا۔ آپ نے اسے ایک اونٹ پر لاد کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔<ref>سید محمد حسین طباطبائی، قرآن در اسلام، ص ۱۱۳۔ سجستانی، کتاب المصاحف، ص ۱۶؛ سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۶۱.</ref> | [[رسول اللہ]] کی قطعی نص اور تصدیق کی بنا پر [[امام علی ]] تمام لوگوں سے زیادہ [[قرآن مجید]] سے آشنا تھے۔ [[پیامبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[حضرت علی (ع)]] نے چھ ماہ کی قلیل مدت میں قرآن مجید کی ترتیبی نزول کے مطابق جمع آوری کا کام انجام دے دیا تھا۔ آپ نے اسے ایک اونٹ پر لاد کر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔<ref> سید محمد حسین طباطبائی، قرآن در اسلام، ص ۱۱۳۔ سجستانی، کتاب المصاحف، ص ۱۶؛ سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۶۱.</ref> | ||
احادیث کے راویوں نے صراحت کے ساتھ اس کے متعلق بات کی ہے یا [[حضرت علی]] کے ہاتھوں [[قرآن]] کی جمع آوی کے موضوع کو بیان کیا ہے:<ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، ص167.</ref> | احادیث کے راویوں نے صراحت کے ساتھ اس کے متعلق بات کی ہے یا [[حضرت علی]] کے ہاتھوں [[قرآن]] کی جمع آوی کے موضوع کو بیان کیا ہے:<ref> ایازی، مصحف امام علی (ع)، ص167.</ref> | ||
# [[سلیم بن قیس ہلالی]] (متوفا 76 ھ) نے اپنی کتاب میں اس مصحف [[امام علی(ع)]] کی موجودگی بیان کی اور اس کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس نے اس خبر کو چند اصحاب [[پیغمبر(ص)]] اور امام علی(ع) کے نزدیکی ساتھیوں جیسے [[ابوذر غفاری]] (متوفا | # [[سلیم بن قیس ہلالی]] (متوفا 76 ھ) نے اپنی کتاب میں اس مصحف [[امام علی(ع)]] کی موجودگی بیان کی اور اس کی خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس نے اس خبر کو چند اصحاب [[پیغمبر(ص)]] اور امام علی(ع) کے نزدیکی ساتھیوں جیسے [[ابوذر غفاری]] (متوفا 32 ھ)، [[سلمان فارسی]] (متوفا 34 ھ) اور ابن عباس (متوفا 68 ھ) سے نقل کیا ہے۔ | ||
# [[ابن عباس]] بھی ان راویوں میں سے ہے جس نے مستقل طور اس کے متعلق بیان کیا ہے۔ | # [[ابن عباس]] بھی ان راویوں میں سے ہے جس نے مستقل طور اس کے متعلق بیان کیا ہے۔ | ||
=== شہرستانی کا بیان === | === شہرستانی کا بیان === | ||
تفسیر شہرستانی (متوفا 548 ھ) میں مذکور ہے: | تفسیر شہرستانی (متوفا 548 ھ) میں مذکور ہے: | ||
: حضرت علی (ع) قرآن کی جمع آوری کے بعد اپنے غلام [[قنبر]] کی مدد سے بزرگ اصحاب کے پاس لائے۔ وہ اس مجموعے کو بہت مشکل سے لائے کہتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ کے بار کے اندازے کے مطابق تھا۔ حضرت (ع) نے ان سے کہا: یہ کتاب الله ہے جس طرح سے رسول اللہ پر نازل ہوئی تھی۔ میں نے اسے دو جلدوں میں اکٹھا کیا ہے۔ لیکن اصحاب نے کہا تم اسے لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت (ع) نے جواب میں ارشاد فرمایا آئندہ تم اسے ہر گز نہیں دیکھ پاؤ گے۔ میری ذمہ داری تھی کہ جب اسے جمع کر لوں تو تمہیں اس سے آگاہ کروں پھر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے گھر لوٹ آئے:<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، بہ حوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸</ref> | : حضرت علی (ع) قرآن کی جمع آوری کے بعد اپنے غلام [[قنبر]] کی مدد سے بزرگ اصحاب کے پاس لائے۔ وہ اس مجموعے کو بہت مشکل سے لائے کہتے ہیں کہ وہ ایک اونٹ کے بار کے اندازے کے مطابق تھا۔ حضرت (ع) نے ان سے کہا: یہ کتاب الله ہے جس طرح سے رسول اللہ پر نازل ہوئی تھی۔ میں نے اسے دو جلدوں میں اکٹھا کیا ہے۔ لیکن اصحاب نے کہا تم اسے لے جاؤ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت (ع) نے جواب میں ارشاد فرمایا آئندہ تم اسے ہر گز نہیں دیکھ پاؤ گے۔ میری ذمہ داری تھی کہ جب اسے جمع کر لوں تو تمہیں اس سے آگاہ کروں پھر اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے گھر لوٹ آئے:<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، بہ حوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸</ref> | ||
:<font color=green>{{حدیث|یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا}}</font>ترجمہ:پروردگارا! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ | :<font color=green>{{حدیث|یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا}}</font>ترجمہ: پروردگارا! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔ | ||
جن لوگوں نے مصحف امام علی (ع) کو چھوڑ دیا تھا شہرستانی ان سے سوالیہ لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے: | جن لوگوں نے مصحف امام علی (ع) کو چھوڑ دیا تھا شہرستانی ان سے سوالیہ لہجے میں مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے: | ||
:کس طرح انہوں نے علی بن ابی طالب کے جمع کئے ہوئے قرآن کا مطالبہ نہیں کیا؟ کیا [[زید بن ثابت]] اس سے بہتر لکھ سکتا تھا؟ آیا [[سعید بن عاص]] اس سے بہتر ادیب اور عرب کے فنون و قواعد سے آشنا تر تھا؟ کیا وہ پیغمبر خدا سے زیادہ | :کس طرح انہوں نے علی بن ابی طالب کے جمع کئے ہوئے قرآن کا مطالبہ نہیں کیا؟ کیا [[زید بن ثابت]] اس سے بہتر لکھ سکتا تھا؟ آیا [[سعید بن عاص]] اس سے بہتر ادیب اور عرب کے فنون و قواعد سے آشنا تر تھا؟ کیا وہ پیغمبر خدا سے زیادہ نزدیکتر تھے یا علی نزدیکتر تھے؟ ہاں! ان سب نے علی (ع) کے کام کو چھوڑ دیا اور اسکے مصحف کو ایک طرف رکھ دیا اور اسے فراموش کر دیا حالانکہ [[علی بن ابی طالب|علی]] جب رسول کے دفن، کفن اور [[نماز]] سے فارغ ہوئے تو انہوں نے قسم کھائی کہ میں جب تک قرآن کو اکٹھا نہ کر لوں [[نماز جمعہ]] کے علاوہ کسی کام کیلئے اپنی عبا کندھوں پر نہیں ڈالوں گا۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ جس طرح [[قرآن]] نازل ہوا اسی طرح کسی کم و کاست اور تحریف و تبدیلی کے بغیر جمع کریں۔ [[رسول اللہ]] ہمیشہ انہیں [[آیات]] اور [[سورتوں]] کے اصل مقامات سے آگاہ کرتے اور تقدم و تاخر انکے سامنے بیان کرتے تھے <ref> ایازی، مصحف امام علی (ع)، ص۱۷۲-۱۷۳، بہ حوالہ شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الانوار، ج۱، ص۱۲۰؛ نیز ر.ک: شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ.</ref> | ||
=== ابن ندیم کا بیان === | === ابن ندیم کا بیان === | ||
[[ابن ندیم]] اپنی کتاب [[الفہرست ابن ندیم|الفہرست]] مییں کہتا ہے: | [[ابن ندیم]] اپنی کتاب [[الفہرست ابن ندیم|الفہرست]] مییں کہتا ہے: | ||
: [[پیغمبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[امام علی (ع)]] تین دن تک اپنے گھر میں رہے اور قرآن کی جمع آوری میں مشغول رہے۔ یہ سب سے پہلا قرآن تھا جسے اکٹھا کیا گیا تھا۔ یہ جعفر کے خاندان کے پاس تھا؛ میں نے اسے اپنے زمانے میں [[ابو یعلی حمزه حسنی]] کے پاس دیکھا جو علی بن ابی طالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا اور اس کے کچھ صفحات ضائع ہو چکے تھے۔ طول تاریخ میں خاندانِ حسن اسے ارث کے طور پر ایک دوسرے سے لیتے رہے۔ اس مصحف کی آیات اور سورتوں کی ترتیب یہ ہے ...<ref>ابن الندیم، الفہرست، ص۳۰.</ref> | : [[پیغمبر (ص)]] کی رحلت کے بعد [[امام علی (ع)]] تین دن تک اپنے گھر میں رہے اور قرآن کی جمع آوری میں مشغول رہے۔ یہ سب سے پہلا قرآن تھا جسے اکٹھا کیا گیا تھا۔ یہ جعفر کے خاندان کے پاس تھا؛ میں نے اسے اپنے زمانے میں [[ابو یعلی حمزه حسنی]] کے پاس دیکھا جو علی بن ابی طالب کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا اور اس کے کچھ صفحات ضائع ہو چکے تھے۔ طول تاریخ میں خاندانِ حسن اسے ارث کے طور پر ایک دوسرے سے لیتے رہے۔ اس مصحف کی آیات اور سورتوں کی ترتیب یہ ہے ...<ref> ابن الندیم، الفہرست، ص۳۰.</ref> | ||
اس وقت ہمارے پاس ابن ندیم کی الفہرست کے نسخے میں سورتوں کی ترتیب مکمل طور پر موجود نہیں ہے۔ اس تبدیلی کا سبب واضح نہیں ہے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۶۸.</ref> | |||
== مصحف کے اجزا== | == مصحف کے اجزا== | ||