مندرجات کا رخ کریں

"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

21 بائٹ کا ازالہ ،  16 مارچ 2019ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{شیعہ عقائد}}
{{شیعہ عقائد}}
'''تَقیہ''' ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی کسی خاص مواقع پر اپنے قلبی عقیدے کے برخلاف کسی عقیدے کا اظہار کرنا یا کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔ تقیہ لغت میں منع کرنا، پرہیز کرنا اور چھپانے کے معنی میں آتا ہے۔ دینی اصطلاح میں تقیہ سے مراد حق اور حقیقت کے برخلاف دوسروں کے عقیدے کے مطابق عمل کرکے اپنے آپ کو ان کے گزند سے محفوظ رکھنے کو تقیہ کہا جاتا ہے۔ [[شیخ مفید]] کی تعبیر کے مطابق مخالفوں کے سامنے کسی دنیوی یا دینی نقصان سے بچنے کی خاطر [[حق]] اور حق پر اعتقاد رکھنے کو چھپانے کا نام تقیہ کہلاتا ہے۔
'''تَقیہ''' ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی کسی خاص مواقع پر اپنے قلبی عقیدے کے برخلاف کسی عقیدے کا اظہار کرنا یا کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔ تقیہ لغت میں منع کرنا، پرہیز کرنا اور چھپانے کے معنی میں آتا ہے۔ دینی اصطلاح میں تقیہ سے مراد حق اور حقیقت کے برخلاف دوسروں کے عقیدے کے مطابق عمل کر کے اپنے آپ کو ان کے گزند سے محفوظ رکھنا ہے۔ [[شیخ مفید]] کی تعبیر کے مطابق مخالفوں کے سامنے کسی دنیوی یا دینی نقصان سے بچنے کی خاطر [[حق]] اور حق پر اعتقاد رکھنے کو چھپانے کا نام تقیہ کہلاتا ہے۔


تقیہ میں [[نفاق]] کے برخلاف کہ جس کا موضوع [[شرک]] اور [[باطل]] کو چھپا کر حق اور حقیقت کا اظہار کرنا ہے، مومن کسی جانی یا مالی ضرر سے بچنے کی خاطر حق اور حقیقت کے اظہار سے خوداری کرتا ہے۔ اس کے جواز پر قرآنی، روائی اور عقلی دلائل موجود ہیں۔ منجملہ ان میں سے ایک عقلی توجیہ جو تقیہ کو جائز قرار دیتی ہے وہ انسان کا خود یا اپنی کمیونٹی کو مخالفین کی ظلم اور ستم سے بچانا ہے۔  
تقیہ میں [[نفاق]] کے برخلاف کہ جس کا موضوع [[شرک]] اور [[باطل]] کو چھپا کر حق اور حقیقت کا اظہار کرنا ہے، [[مومن]] کسی جانی یا مالی ضرر سے بچنے کی خاطر حق اور حقیقت کے اظہار سے خوداری کرتا ہے۔ اس کے جواز پر [[قرآنی]]، روائی اور عقلی دلائل موجود ہیں۔ منجملہ ان میں سے ایک عقلی توجیہ جو تقیہ کو جائز قرار دیتی ہے وہ انسان کا خود یا اپنی کمیونٹی کو مخالفین کی ظلم اور ستم سے بچانا ہے۔  


تقیہ کی بحث پہلی صدی ہجری سے ہی کلامی اور فقہی طور پر مورد بحث واقع ہوتی چلی آرہی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک طرف سے شیعہ علماء کی اکثریت اپنی علمی آثار میں تقیہ کے موضوع پر کوئی نہ کوئی کتاب یا مقالات کی شکل میں اثر چھوڑ گئے ہیں تو دوسری طرف سے بعض فرق جیسے خوارج بھی تقیہ کے جواز کے قائل تھے اور ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق [[مأمون]] عباسی کے دور میں خلیفہ کی دھمکی اور جبر کی وجہ سے بعض دانشمندوں کا ظاہری طور پر قرآن کے مخلوق ہونے کی بات کو قبول کرنا تقیہ کی مصادیق میں سے ہیں۔
تقیہ کی بحث پہلی صدی ہجری سے ہی کلامی اور فقہی طور پر مورد بحث واقع ہوتی چلی آرہی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک طرف سے شیعہ علماء کی اکثریت اپنی علمی آثار میں تقیہ کے موضوع پر کوئی نہ کوئی کتاب یا مقالات کی شکل میں اثر چھوڑ گئے ہیں تو دوسری طرف سے بعض فرق جیسے خوارج بھی تقیہ کے جواز کے قائل تھے اور ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق [[مأمون]] عباسی کے دور میں خلیفہ کی دھمکی اور جبر کی وجہ سے بعض دانشمندوں کا ظاہری طور پر قرآن کے مخلوق ہونے کی بات کو قبول کرنا تقیہ کی مصادیق میں سے ہیں۔
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم