مندرجات کا رخ کریں

"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

267 بائٹ کا اضافہ ،  17 جون 2016ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 68: سطر 68:
اگرچہ بعض آیات اور احادیث میں تقیہ کو [[مسلمان]] کا [[کافر]] کے مقابلے میں اپنے عقیدے کو چھپانے کے ساتھ مختص کیا گیا ہے۔ لیکن فقہاء اور مفسرین تصریح کرتے ہیں کہ تقیہ صرف اس مورد کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ حتی مسلمان کا مسلمان کے مقابلے میں بھی تقیہ صدق آ سکتی ہے۔<ref> فخر رازی، التفسیرالکبیر، ذیل آل عمران: ۲۸ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۷۵</ref> اہل سنّت کے بہت سارے علماء منجملہ [[شافعی]] حفظ جان کی خاطر مسلمان کا مسلمان کے مقابلے میں بھی تقیہ کی مشروعیت پر تصریح کرتے ہیں۔<ref>سبحانی، الانصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، ج۲، ص۳۳۰ـ۳۳۱</ref>
اگرچہ بعض آیات اور احادیث میں تقیہ کو [[مسلمان]] کا [[کافر]] کے مقابلے میں اپنے عقیدے کو چھپانے کے ساتھ مختص کیا گیا ہے۔ لیکن فقہاء اور مفسرین تصریح کرتے ہیں کہ تقیہ صرف اس مورد کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ حتی مسلمان کا مسلمان کے مقابلے میں بھی تقیہ صدق آ سکتی ہے۔<ref> فخر رازی، التفسیرالکبیر، ذیل آل عمران: ۲۸ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۷۵</ref> اہل سنّت کے بہت سارے علماء منجملہ [[شافعی]] حفظ جان کی خاطر مسلمان کا مسلمان کے مقابلے میں بھی تقیہ کی مشروعیت پر تصریح کرتے ہیں۔<ref>سبحانی، الانصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، ج۲، ص۳۳۰ـ۳۳۱</ref>


<!--
==شیعوں کا تقیہ کی طرف زیادہ رجحان کے عوامل و اسباب==
==عوامل و ریشه‌های گرایش شیعه به تقیه==


درباره چگونگی ظهور و رسوخ آموزه تقیه در میان شیعیان می‌توان به موارد زیر اشاره کرد:
شیعوں کے ہاں تقیہ کیسے رائج ہوا اس بارے میں درج ذیل موارد علتوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:
#برخی، وجود عناصر باطنی در نزد شیعیان را از عوامل پیدایش تقیه دانسته‌اند. در آموزه‌های [[باطنی‌گری|باطنی]]، در پس هر ظاهری باطنی نهفته است و حقیقت و باطن دین برای عده خاصی تبیین می‌شود.
# بعض لوگ شیعوں میں موجود باطن گرائی کوان میں تقیہ جیسے عمل کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔
#برخی دیگر شرایط سخت بیرونی را، در پیدایش آموزه تقیه در شیعیان موثر می‌دانند. به شهادت منابع تاریخی، مذهب تشیع در طول حیات خود از جنبه‌های گوناگون اجتماعی و فرهنگی و سیاسی سخت در مضیقه بوده است؛ پس از واقعه صلح [[امام حسن(ع)]]، [[معاویه]] از والیان خود خواست که بر شیعیان سخت بگیرند و [[علی(ع)]] را بر منابر دشنام دهند. این رفتار کمابیش در دوران [[بنی امیه|امویان]] تا زمان [[عمر بن عبدالعزیز]] تداوم داشت<ref>رجوع کنید به ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۱۱، ص۴۳ـ۴۶</ref>و در عصر [[بنی عباس|عباسیان]] نیز به گونه‌ای دیگر ادامه یافت؛ مثلاً، [[متوکل عباسی|متوکل]] علاوه بر حبس و قتل شیعیان، آنان را از زیارت مرقد [[امام حسین(ع)]] منع نمود و حرم حسینی را خراب کرد و ابن سِکیت را به جرم ابراز محبت نسبت به امام حسن و امام حسین(ع) به طرز وحشتناکی کشت<ref>طبری، تاریخ طبری، ج۹، ص۱۸۵؛ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج۱۱، ص۲۳۷</ref>از این رو، امامان شیعه برای حفظ جان خود و شیعیان و جلوگیری از پراکندگی واضمحلال جامعه شیعه، تقیه را لازم می‌دانستند. تقیه [[علی بن یقطین|علی بن یقْطین]]، وزیر شیعی [[هارون الرشید]]، به دستور [[امام کاظم(ع)]] نمونه‌ای از این دست است.<ref>رجوع کنید به آل کاشف الغطاء، اصل الشیعه و اصولها، ص۳۱۵ـ۳۱۶؛ امین، نقض الوشیعه، ص۱۹۸ـ۲۰۰</ref>
# بعض لوگ معاشرے کے سخت حالات کو شیعوں میں تقیہ کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر شیعہ مذہب پوری تاریخ میں مختلف سماجی، ثقافتی اور سیاسی حوالے سے بہت زیادہ دباؤ میں چلے آرہے ہیں؛ صلح [[امام حسن(ع)]] کے واقعے کے بعد [[معاویہ]] نے اپنے گورنروں شیعوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیا اور حضرت [[علی(ع)]] کو ممبروں سے دشنام دینے لگے۔ یہ حالات کم و بیش [[بنی امیہ]] کے دور میں  [[عمر بن عبدالعزیز]] کے زمانے تک جاری رہی۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۱، ص۴۳ـ۴۶</ref> [[بنی عباس]] کے دور میں حالات نے ایک اور انداز اپنایا مثلا، [[متوکل عباسی]] شیعوں کو قتل کرنے اور جیلوں میں بند کرنے کے علاوہ انہیں [[امام حسین(ع)]] کی زیارت سے بھی منع کردیا یہاں تک کہ امام حسین(ع) کے ضریح مطہر کو بھی خراب کر دیا اور ابن سِکیت کو امام حسن(ع) اور امام حسین(ع) کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے پر نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج۹، ص۱۸۵؛ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج۱۱، ص۲۳۷</ref> اس بنا پر ائمہ طاہرین(ع) اپنی اور اپنے شیعوں کی جان کی حفاظت اور انہیں پراکندگی سے بچانے کی خاطر تقیہ کرنے کو ان پر ضروری قرار دیتے تھے۔ [[علی بن یقطین]] جو کہ [[ہارون الرشید]] کا وزیر اور شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا کا [[امام کاظم(ع)]] کے حکم سے تقیہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے۔<ref> آل کاشف الغطاء، اصل الشیعہ و اصولہا، ص۳۱۵ـ۳۱۶؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۹۸ـ۲۰۰</ref>


==تقسیمات تقیه از نظر حکم شرعی==
==حکم شرعی کے حوالے سے تقیہ کی تقسیم==


===حکم تکلیفی===
===حکم تکلیفی===
تقیه از جهات گوناگون تقسیم شده است.<ref>درباره تقسیمات تقیه رجوع کنید به شهید اول، القواعد و الفوائد، قسم ۲، ص۱۵۷ـ ۱۵۸؛ خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۷۴ـ ۱۷۵؛ همو، المکاسب المحرمه، ج۲، ص۲۳۶</ref> [[شیخ مفید]] آن را با نظر به [[حکم تکلیفی|حکم]] آن (وجوب، حرمت، استحباب) تقسیم کرده و از جمله به هنگام ترس از جان، آن را [[واجب]] و در صورت ترس از زیان مالی آن را [[مباح]] دانسته است.<ref>مفید، اوائل المقالات فی المذاهب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶</ref>
تقیہ کی مختلف حوالے سے تقسیم بندی کی جاتی ہے۔<ref> شہید اول، القواعد و الفوائد، قسم ۲، ص۱۵۷ـ ۱۵۸؛ خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۷۴ـ ۱۷۵؛ ہمو، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۳۶</ref> [[شیخ مفید]] تقیہ کو اس کے [[حکم تکلیفی|آحکام]] کے حوالے سے وجوب، حرمت اور استحباب میں تقسیم کرتے ہیں۔ بنابراین جہاں جان پر خطرہ ہو وہاں تقیہ کرنا [[واجب]] لیکن جہاں صرف مالی نقصان کا خطرہ ہو وہاں تقیہ کرنا [[مباح]] سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶</ref>


====تقیه واجب====
====واجب ====
مورد تقیه [[واجب]]، بنا بر احادیث و فتاوای فقها، جایی است که اضطرار و ضرورت بر آن صدق کند.<ref>رجوع کنید به مفید، همان و حرّ عاملی، وسایل الشیعه، ج۱۶، ص۲۱۴ و شُبَّر، الاصول الاصلیه و القواعد الشرعیه، ص۳۲۱ـ۳۲۲ و خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۷۶</ref> شرط مهم وجوب از دیدگاه فقها، <ref>رجوع کنید به مفید، اوائل المقالات فی المذاهب والمختارات، ص۹۶؛ خمینی، المکاسب المحرمه، ج۲، ص۲۴۲ـ ۲۴۴</ref> به تَبَع تعابیر احادیث، <ref>رجوع کنید به حرّعاملی، وسایل الشیعه، ج۱۶، ص۲۰۳</ref> ترس از جان یا آبروی خود یا بستگان و اطرافیان نزدیک است.
احادیث اور فقہاء کے فتوا کے مطابق جہاں بھی اضطرار صدق آئے وہاں تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔<ref> مفید، ہمان و حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴ و شُبَّر، الاصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، ص۳۲۱ـ۳۲۲ و خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۷۶</ref> فقہاء کے مطابق وجوب تقیہ کیلئے اہم ترین شرط <ref> مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۹۶؛ خمینی، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۴۲ـ ۲۴۴</ref> جسے احادیث سے استخراج کرتے ہیں <ref> حرّعاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۰۳</ref> اپنی یا اپنے متعلقین میں سے کسی کی جان یا عزت کو خطرہ لاحق ہونا ہے۔


====تقیه مستحب====
====مستحب====
[[شیخ انصاری]] مصداق تقیه [[مستحب]] را مدارا کردن با اهل سایر مذاهب و تأکید بر معاشرت با آنها با کارهایی چون عیادت از بیماران، تشییع مردگان و حضور در [[مسجد|مساجد]] و [[نماز|نمازهای]] آنان دانسته است.<ref>انصاری، التقیه، ص۳۹ـ۴۰</ref> در منابع متأخر، این نوع تقیه را با توجه به تعابیر احادیث، <ref>از جمله رجوع کنید به مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۱، ۴۱۷ـ ۴۱۸، ۴۳۸ـ۴۴۱</ref> «‌تقیه مداراتی‌» نامیده‌اند، به این معنا که با مسلمانان دیگر و حتی مشرکان رفتاری نیکو و از سر تسامح در پیش گیرند تا محبت آنها را جلب کنند و از زیانهای احتمالی در آینده بر کنار بمانند.
[[شیخ انصاری]] اہل سنت کے ساتھ مدارا کرنا اور ان کے ساتھ معاشرت کرنا جیسے بیماروں کی عیادت، تشییع جنازہ اور ان کے [[مسجد|مساجد]] میں حاضر ہو کر ان کے ساتھ [[نماز]] پڑھنا وغیرہ کو [[مستحب]] تقیہ کا مصداق  سمجھتے ہیں۔<ref>انصاری، التقیہ، ص۳۹ـ۴۰</ref> متاخرین اس طرح کے تقیہ کو احادیث کی تعابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے <ref> مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۱، ۴۱۷ـ ۴۱۸، ۴۳۸ـ۴۴۱</ref> "تقیہ مداراتی‌" کا نام دیتے ہیں اس معنی میں کہ مسلمانوں کے دیگر مذاہب حتی مشرکین کے ساتھ حسن سلوک اور تسامح سے پیش آتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کرنا اور مستقبل میں ان کے گزند سے محفوظ رہ سکیں۔


====تقیه مباح====
====تقیه مباح====
[[شیخ مفید]] تقیه را در صورت ترس از زیان مالی، [[مباح]] دانسته است.<ref>مفید، اوائل المقالات فی المذاهب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶</ref> [[فخر رازی]] نیز تقیه را برای حفظ مال [[جایز]] شمرده است.<ref>فخر رازی، التفسیرالکبیر، ذیل آل عمران: ۲۸</ref>
[[شیخ مفید]] نے تقیہ کو مالی نقصان کی صورت میں [[مباح]] دانسته قرار دیتے ہیں۔<ref>مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶</ref> [[فخر رازی]] نیز مالی نقصان کی خاطر تقیہ کرنے کو [[جایز]] سمجھتے ہیں۔<ref>فخر رازی، التفسیرالکبیر، سورہ آل عمران کی آیت نمبر:۲۸ کے ذیل میں۔</ref>


====تقیه حرام====
====تقیه حرام====
فقها، به استناد احادیث، تقیه را در مواردی [[حرام]] شمرده‌اند؛ از جمله احکام واجب و حرامی که رعایت کردن آنها از نظر شارع اهمیت بسیار دارد و تقیه کردن در آنها به نابودی اساس دین می‌انجامد، مانند محو کردن [[قرآن]]، از بین بردن [[کعبه]] و نفی [[ضروری دین|احکام ضروری]] یا [[اصول دین]] یا [[اصول مذهب شیعه|مذهب]]، مواردی که کاربرد تقیه به خونریزی و قتل می‌انجامد<ref>به دلیل فَاِذا بَلَغَا لدم فَلا تَقیة</ref>، شرب خمر، مسح بر کفش در وضو و بیزاری جستن از [[امامان شیعه|امامان(ع)]].<ref>برای تفصیل بیشتر و مناقشه نسبت برخی مصداقها رجوع کنید به حرّ عاملی، وسایل الشیعه ج۱۶، ص۲۱۵ـ۲۱۷، ۲۳۴؛ خمینی، المکاسب المحرمه، ج۲، ص۲۲۵ـ۲۲۷؛ همو، الرسائل، ج۲، ص۱۷۷ـ۱۸۴</ref> برخی فقها هم، جز به ضرورت، تقیه کردن را حرام دانسته‌اند.<ref>حرّ عاملی، ,وسایل الشیعه، ج۱۶، ص۲۱۴؛ شبّر، الاصول الاصلیه و القواعد الشرعیه، ص۳۲۱</ref>
فقہا< احادیث کی روشنی میں چند موارد میں تقیہ کرنے کو [[حرام]] سمجھتے ہیں؛ منجملہ یہ کہ دین کے واجبات اور محرمات جن کی رعایت کرنا ضروری اور لازمی ہے جن کی رعایت نہ کرنے سے دین ختم ہونے اور نابود ہونے کا خطرہ ہے جیسے [[قرآن]] کو محو کرنا، [[کعبہ]] کو ویران کرنا دین کے کسی ضروری حکم [[اصول دین]] یا [[فروع دین]] یا [[اصول مذہب]] کا انکار کرنا اس طرح تقیہ کرنا خون ریزی اور قتل و غارت تک متج ہوتی ہیں وہ موارد ہیں جہاں تقیہ کرنا حرام ہے۔<ref>بہ دلیل فَاِذا بَلَغَا لدم فَلا تَقیة</ref>، شراب پینا، وضو میں جوتے پر میح کرنا، [[ائمہ|اماموں]] سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی تقیہ حرام کے مصادیق میں سے ہیں۔ <ref> حرّ عاملی، وسایل الشیعہ ج۱۶، ص۲۱۵ـ۲۱۷، ۲۳۴؛ خمینی، المکاسب المحرمه، ج۲، ص۲۲۵ـ۲۲۷؛ ہمو، الرسائل، ج۲، ص۱۷۷ـ۱۸۴</ref> بعض فقہاء سوائے اضطراری حالت کے تقیہ کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔<ref>حرّ عاملی، ,وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴؛ شبّر، الاصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، ص۳۲۱</ref>


===حکم وضعی===
===حکم وضعی===
[[فقیه|فقیهان]] درباره [[حکم وضعی|احکام وضعی]] عملی که از باب تقیه انجام می‌گیرد معتقدند اگر عمل تقیه‌ای از [[عبادات]] باشد نیاز نیست شخصی که عمل را از روی تقیه انجام داده پس از برطرف شدن شرایط تقیه عبادتش را دوباره (به صورت [[اعاده]] یا [[قضا]]) به جا آورد. به عبارت دیگر؛ فقیهان، کار انجام شده از روی تقیه را [[مُجْزی]] می‌شمارند.<ref>نک. انصاری، التقیه، ص۴۳ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقهیه، ج۵، ص۵۵ ـ۵۷ و خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۸۸ـ۱۹۱</ref>
[[فقہاء]] تقیہ کے طور پر انجام پانے والے کسی عمل کے [[حکم وضعی]] کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر تقیہ کے طور پر انجام دیا جانے والا عمل عبادات میں سے ہو تو اس عمل کو اضطراری حالات کے برطرف ہونے کی بعد ادا یا قضا کے طور پر اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں فقہاء تقیہ کی صورت میں انجام دی جانے والے عمل کو [[مُجْزی]] سمجھتے ہیں۔<ref>نک. انصاری، التقیہ، ص۴۳ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۵ ـ۵۷ و خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۸۸ـ۱۹۱</ref>
-->


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، templateeditor
8,804

ترامیم