گمنام صارف
"حضرت عباس علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←آپ سے منسوب مکانات اور عمارتیں
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 167: | سطر 167: | ||
==آپ سے منسوب مکانات اور عمارتیں== | ==آپ سے منسوب مکانات اور عمارتیں== | ||
ایران اور عراق میں بہت ساری جگہیں ہیں جو تاریخ میں لوگوں کے ہاں قابل احترام رہی ہیں اور نذر و نیاز کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اگر وہاں سے متوسل | ایران اور عراق میں بہت ساری جگہیں ہیں جو تاریخ میں لوگوں کے ہاں قابل احترام رہی ہیں اور نذر و نیاز کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ اگر وہاں سے متوسل ہو جائیں اور نذر دیں تو حاجت پوری ہوتی ہے۔ | ||
===حرم حضرت عباس=== | ===حرم حضرت عباس=== | ||
{{اصلی|حرم حضرت عباس}} | {{اصلی|حرم حضرت عباس}} | ||
کربلا کے شہر میں [[حرم امام حسینؑ]] | کربلا کے شہر میں [[حرم امام حسینؑ]] کے شمال مشرق میں 372 میٹر کے فاصلے پر حضرت عباس کا محل دفن ہے جو شیعوں کی اہم زیارتگاہوں میں سے ایک ہے۔ اور ان دو حرموں کے درمیانی فاصلے کو [[بین الحرمین]] کہا جاتا ہے۔ <ref>[http://iec-md.org/farhangi/haram_hadhrat_abbas.html حرم حضرت ابوالفضلؑ]</ref> | ||
بہت سارے مورخین کی نظر کے مطابق حضرت عباسؑ جو کہ نہر علقمہ کے کنارے شہید ہوئے تھے وہیں پر ہی دفن ہوئے ہیں۔ <ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۵</ref> کیونکہ امام حسینؑ نے دیگر شہدا کے برخلاف آپ کی محل شہادت سے نہیں اٹھایا گنج شہدا نہیں لے گیا۔ | بہت سارے مورخین کی نظر کے مطابق حضرت عباسؑ جو کہ نہر علقمہ کے کنارے شہید ہوئے تھے وہیں پر ہی دفن ہوئے ہیں۔ <ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۵</ref> کیونکہ امام حسینؑ نے دیگر شہدا کے برخلاف آپ کی محل شہادت سے نہیں اٹھایا گنج شہدا نہیں لے گیا۔ | ||
بعض مصنفین جیسے [[مقتل مقرم|مقرم]] کا کہنا ہے کہ حضرت عباس کے بدن کو خیموں میں نہ لے جانے کی وجہ ان کی امام سے کی جانے والی درخواست یا عباسؑ کے بدن کو اٹھانے لیے امام کے بدن میں زخموں کی وجہ سے طاقت کا نہ ہونا نہیں تھی بلکہ امام چاہتے تھے کہ آپ کی الگ بارگاہ بنے اور ایک الگ حرم بنے۔<ref>الموسوي المقرم، العبّاس(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۲۶۲-۲۶۳؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۵-۱۳۷</ref> مقرم نے اپنی اس بات کے لیے کوئی مستند ذکر نہیں کیا ہے۔ | بعض مصنفین جیسے [[مقتل مقرم|مقرم]] کا کہنا ہے کہ حضرت عباس کے بدن کو خیموں میں نہ لے جانے کی وجہ ان کی امام سے کی جانے والی درخواست یا عباسؑ کے بدن کو اٹھانے لیے امام کے بدن میں زخموں کی وجہ سے طاقت کا نہ ہونا نہیں تھی بلکہ امام چاہتے تھے کہ آپ کی الگ بارگاہ بنے اور ایک الگ حرم بنے۔<ref>الموسوي المقرم، العبّاس(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۲۶۲-۲۶۳؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۱۳۵-۱۳۷</ref> مقرم نے اپنی اس بات کے لیے کوئی مستند ذکر نہیں کیا ہے۔ | ||
===مقام کف العباس=== | ===مقام کف العباس=== | ||
سطر 183: | سطر 184: | ||
*[[سقاخانہ]]:ایران کے بعض علاقوں میں شیعوں کی مخصوص نشانیوں میں سے ایک ہے جو شارع عام پر لوگوں کو پانی پلانے اور ثواب کے حصول کے لیے بناتے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں سقاخانہ حضرت عباسؑ کا واقعہ کربلا میں پانی پلانے کی یاد میں بنایا جاتا ہے اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]]و حضرت عباس کے نام سے مزین ہوتا ہے۔ بعض لوگ حاجات پوری ہونے کے لیے وہاں پر شمع بھی جلاتے ہیں یا دھاگہ باندھتے ہیں۔ <ref>اطیابی، «سقاخانہہای اصفہان»، ص۵۵-۵۹.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سقاخانے بنے ہیں جو حضرت عباس کی یادگار ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۰-۲۴۱.</ref> | *[[سقاخانہ]]:ایران کے بعض علاقوں میں شیعوں کی مخصوص نشانیوں میں سے ایک ہے جو شارع عام پر لوگوں کو پانی پلانے اور ثواب کے حصول کے لیے بناتے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں سقاخانہ حضرت عباسؑ کا واقعہ کربلا میں پانی پلانے کی یاد میں بنایا جاتا ہے اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]]و حضرت عباس کے نام سے مزین ہوتا ہے۔ بعض لوگ حاجات پوری ہونے کے لیے وہاں پر شمع بھی جلاتے ہیں یا دھاگہ باندھتے ہیں۔ <ref>اطیابی، «سقاخانہہای اصفہان»، ص۵۵-۵۹.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سقاخانے بنے ہیں جو حضرت عباس کی یادگار ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۰-۲۴۱.</ref> | ||
*[[سقانفار|سَقَّانِفار]]: یا | *[[سقانفار|سَقَّانِفار]]: یا ساقی نِفار یا سقّاتالار اس مکان کا نام ہے جو ایران کا صوبہ [[مازندران]] میں مذہبی عزاداری منعقد کرنے اور نذر ادا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور عام طور پر یہ مکان کسی مذہبی مکان جیسے [[مسجد]]، [[امام بارگاہ]] اور [[حسینیہ]] کے ساتھ میں بنایا جاتا ہے۔سقانفار حضرت عباسؑ سے منسوب ہیں اور بعض لوگ انہیں «ابوالفضلی» بھی کہتے ہیں۔<ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۰.</ref> | ||
==آپ سے منسوب تصویر== | ==آپ سے منسوب تصویر== |