confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←شہادت) |
||
سطر 105: | سطر 105: | ||
}} | }} | ||
=== شہادت === | === شہادت === | ||
حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[ | حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[7 محرم]]، [[9 محرم]] اور دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر [[10 محرم]] کو شہید ہوئے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.</ref> | ||
تاریخ نگاروں نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں:بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابنجوزی، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کی نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنیہاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ ابیالفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمربن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گیا۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھر دیا اور جیسے ہی منہ کے قریب کیا پھر پانی زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کر کے فرات سے باہر آیا۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلا تو [[زید بن ورقاء جہنی]] نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے [[حکیم بن طفیل سنبسی]] نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمہ ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثہ کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.</ref> | تاریخ نگاروں نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں:بغدادی، العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابنجوزی، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کی نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنیہاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ ابیالفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمربن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گیا۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھر دیا اور جیسے ہی منہ کے قریب کیا پھر پانی زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کر کے فرات سے باہر آیا۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلا تو [[زید بن ورقاء جہنی]] نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے [[حکیم بن طفیل سنبسی]] نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمہ ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثہ کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابیطالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.</ref> |