مندرجات کا رخ کریں

"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 123: سطر 123:
* اگر ائمہ معصومین علم لدنی اور علم غیب کے مالک ہیں تو کیوں بعض روایتوں میں خود ائمہ میں سے بعض نے اعتراف کیا ہے کہ آپ(ع) اس طرح کے علوم سے باخبر نہیں ہیں؟ مثلا ایک حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے کسی شخص کے جواب میں جو آپ(ع) کو علم غیب کا مالک سمجھتا تھا فرمایا کہ ہمیں اس طرح کا کوئی علم نہیں ہے اور آپ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ میری ایک کنیز نے کوئی غلط کام انجام دیا ہے اور میں اسے تنبیہ کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی اسے پیدا نہیں کررہا ہوں۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۷</ref>
* اگر ائمہ معصومین علم لدنی اور علم غیب کے مالک ہیں تو کیوں بعض روایتوں میں خود ائمہ میں سے بعض نے اعتراف کیا ہے کہ آپ(ع) اس طرح کے علوم سے باخبر نہیں ہیں؟ مثلا ایک حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے کسی شخص کے جواب میں جو آپ(ع) کو علم غیب کا مالک سمجھتا تھا فرمایا کہ ہمیں اس طرح کا کوئی علم نہیں ہے اور آپ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ میری ایک کنیز نے کوئی غلط کام انجام دیا ہے اور میں اسے تنبیہ کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی اسے پیدا نہیں کررہا ہوں۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۷</ref>
یہ اعتراض [[اہل بیت]] سے متعلق وارد ہونے والی روایات کے مجموعے پر صحیح دقت نہ کرنے کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ قرآن اور روایات کی رو سے ائمہ معصومین علم غیب کے مالک ہیں۔ اس بنا پر وہ روایات جو معصومین کے حوالے سے علم غیب کا انکا کرتی ہیں یا یہ روایات جعلی ہیں یا [[تقیہ]] کی وجہ سے صادر ہوئی ہیں۔ اس بات پر گواہ اسی حدیث کا تتمہ ہے جس میں اشکال وارد کیا گیا ہے، اس روایت میں امام نے اپنے سے علم غیب کی نفی کی ہے لیکن بعد میں اسی راوی کے ساتھ امام کسی ایسی جگہ پر پہنچتے ہیں جہاں کوئی اور موجود نہیں اس وقت آپ قرآن کی آیت سے تمسک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نہ صرف علم غیب کے مالک ہیں بلکہ حجت خدا کیلئے ایسے علوم سے آگاہ ہونا لازمی اور ضروری امر ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے سکیں۔<ref>مظفر، ص۶۲</ref>
یہ اعتراض [[اہل بیت]] سے متعلق وارد ہونے والی روایات کے مجموعے پر صحیح دقت نہ کرنے کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ قرآن اور روایات کی رو سے ائمہ معصومین علم غیب کے مالک ہیں۔ اس بنا پر وہ روایات جو معصومین کے حوالے سے علم غیب کا انکا کرتی ہیں یا یہ روایات جعلی ہیں یا [[تقیہ]] کی وجہ سے صادر ہوئی ہیں۔ اس بات پر گواہ اسی حدیث کا تتمہ ہے جس میں اشکال وارد کیا گیا ہے، اس روایت میں امام نے اپنے سے علم غیب کی نفی کی ہے لیکن بعد میں اسی راوی کے ساتھ امام کسی ایسی جگہ پر پہنچتے ہیں جہاں کوئی اور موجود نہیں اس وقت آپ قرآن کی آیت سے تمسک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نہ صرف علم غیب کے مالک ہیں بلکہ حجت خدا کیلئے ایسے علوم سے آگاہ ہونا لازمی اور ضروری امر ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے سکیں۔<ref>مظفر، ص۶۲</ref>
* اگر ائمہ معصومین اپنی شہادت سے باخبر تھے تو اس واقعے  کا روک تھام ان پر واجب تھا نہ یہ کہ وہ محل وقوع پر تشریف لے جائیں۔ مثلا اگر [[حضرت علی(ع)]] [[۲۱ رمضان]] کی رات کو [[مسجد کوفہ]] میں اپنے اوپر تلوار کی وار سے آگاہ تھے تو ضروری تھا کہ آپ وہاں نہ جاتے۔ ورنہ یہ کام ایک قسم کی خود کشی ہے جو کہ حرام ہے۔
* اگر ائمہ معصومین اپنی شہادت سے باخبر تھے تو اس واقعے  کا روک تھام ان پر واجب تھا نہ یہ کہ وہ محل وقوع پر تشریف لے جائیں۔ مثلا اگر [[حضرت علی(ع)]] [[19 رمضان]] کی رات کو [[مسجد کوفہ]] میں اپنے اوپر تلوار کی وار سے آگاہ تھے تو ضروری تھا کہ آپ وہاں نہ جاتے۔ ورنہ یہ کام ایک قسم کی خود کشی ہے جو کہ حرام ہے۔


اس اعتراض کے کئی جواب دئے گئے ہیں:
اس اعتراض کے کئی جواب دئے گئے ہیں:
confirmed، templateeditor
8,601

ترامیم