مندرجات کا رخ کریں

"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

227 بائٹ کا اضافہ ،  17 اپريل 2016ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 118: سطر 118:
* [[حضرت سلیمان]] کے صحابی (آصف بن برخیا)<ref>سورہ نمل، آیت نمبر ۴۰ ۔</ref>
* [[حضرت سلیمان]] کے صحابی (آصف بن برخیا)<ref>سورہ نمل، آیت نمبر ۴۰ ۔</ref>
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
<!--
==علم غیب سے متلعق چند مسائل==
درباره علم غیب امامان (ع) مسئله‌ها، اشکال‌ها و شبهه‌هایی مطرح است که متکلمان شیعه کوشیده‌اند به آن‌ها پاسخ دهند. برخی از آن‌ها عبارتند از:
#اگر امامان، عالم به غیب و دارای علم لدنّی‌اند، پس روایت‌هایی که در آن‌ها ایشان تصریح دارند چنین علمی ندارند چیست؟ به عنوان مثال، در حدیثی از [[امام صادق(ع)|امام صادق]] در جواب ادعای کسی که می‌گفت [[امام صادق(ع)|امام]]، عالم به غیب است، فرمود من چنین علمی ندارم و به عنوان شاهد، فرمود کنیزم کار بدی کرده که می‌خواهم او را تنبیه نمایم ولی او را نمی‌یابم.<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۷</ref>


این ایراد ناشی از عدم توجه به مجموع روایت‌های وارد شده از [[اهل بیت]] است. بر اساس ادله [[قرآن|قرآنی]] و روایت‌های معصومین، امامان شیعه دارای علم غیب‌اند. بنابراین، روایت‌هایی که محتوای آن‌ها به انکار این ویژگی از ایشان اشاره دارد حتما یا [[روایت مجعول|مجعول]] است و یا از جهت [[تقیه]] بیان شده است. شاهد این مطلب نیز ادامه همین روایت است که در اشکال بیان شد. در این روایت، حضرت علم غیب را از خویش نفی نموده‌اند ولی در ادامه که به همراه راوی به مکانی دیگر می‌روند که غیر از ایشان کسی در آن‌جا نیست، با استناد به [[آیه]] قران بیان می‌‎کنند که ایشان نه تنها عالم به غیب هستند، بلکه لازم است که حجت خدا چنین علمی را داشته باشند تا بتواند مأموریت و وظیفه خویش را به بهترین وجه انجام دهد.<ref>مظفر، ص۶۲</ref>
==اعتراضات==
ائمہ معصومین کے غیبی امور سے آگاہی سے متعلق مختلف اعتراضات اور اشکالات وراد کئے گئے ہیں جن کا شیعہ علماء نے جواب دئے ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
#اگر ائمہ معصومین علم لدنی اور علم غیب کے مالک ہیں تو کیوں بعض روایتوں میں خود ائمہ میں سے بعض نے اعتراف کیا ہے کہ آپ(ع) اس طرح کے علوم سے باخبر نہیں ہیں؟ مثلا ایک حدیث میں امام جعفر صادق(ع) نے کسی شخص کے جواب میں جو آپ(ع) کو علم غیب کا مالک سمجھتا تھا فرمایا کہ ہمیں اس طرح کا کوئی علم نہیں ہے اور آپ نے مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ میری ایک کنیز نے کوئی غلط کام انجام دیا ہے اور میں اسے تنبیہ کرنا چاہتا ہوں لیکن ابھی اسے پیدا نہیں کررہا ہوں۔<ref>کلینی، ج۱، ص۲۵۷</ref>


#اگر امامان از زمان و علت شهادت خویش باخبر بوده‌اند، وظیفه داشتند که از وقوع آن جلوگیری کنند نه اینکه به محل وقوع آن نیز بروند. مثلا اگر [[حضرت علی(ع)]] از [[حضرت علی#شهادت|ضربت خوردن]] خویش در شب [[۲۱ رمضان]] در [[مسجد کوفه]] خبر داشت، می‌بایست به آنجا نرود. در غیر این صورت، این کار نوعی خودکشی حساب می‌شود.
یہ اعتراض [[اہل بیت]]سے متعلق وارد ہونے والی روایات کے مجموعے پر صحیح دقت نہ کرنے کے نتیجے میں پیش آیا ہے۔ قرآن اور روایات کی رو سے ائمہ معصومین علم غیب کے مالک ہیں۔ اس بنا پر وہ روایات جو معصومین کے حوالے سے علم غیب کا انکا کرتی ہیں یا یہ روایات جعلی ہیں یا [[تقیہ]] کی وجہ سے صادر ہوئی ہیں۔ اس بات پر گواہ اسی حدیث کا تتمہ ہے جس میں اشکال وارد کیا گیا ہے، اس روایت میں امام نے اپنے سے علم غیب کی نفی کی ہے لیکن بعد میں اسی راوی کے ساتھ امام کسی ایسی جگہ پر پہنچتے ہیں جہاں کوئی اور موجود نہیں اس وقت آپ قرآن کی آیت سے تمسک کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نہ صرف علم غیب کے مالک ہیں بلکہ حجت خدا کیلئے ایسے علوم سے آگاہ ہونا لازمی اور ضروری امر ہے تاکہ وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دے سکیں۔<ref>مظفر، ص۶۲</ref>


چندین پاسخ به این اشکال داده شده است:
#اگر ائمہ معصومین اپنی شہادت سے باخبر تھے تو اس واقعے  کا روک تھام ان پر واجب تھا نہ یہ کہ وہ محل وقوع پر تشریف لے جائیں۔ مثلا اگر [[حضرت علی(ع)]] [[۲۱ رمضان]] کی رات کو [[مسجد کوفہ]] میں اپنے اوپر تلوار کی وار سے آگاہ تھے تو ضروری تھا کہ آپ وہاں نہ جاتے۔ ورنہ یہ کام ایک قسم کی خود کشی ہے جو کہ حرام ہے۔
برخی برای فرار از اشکال، معتقد بودند که امام نسبت به برخی امور که در انجام وظایف [[امامت]] و رهبری مسلمانان به آن نیازی نداشتند؛ مانند زمان و علت [[شهادت]] خویش، آگاه نبوده است.<ref>صالحی نجف آبادی، ص۴۵۵-۴۵۶</ref>
برخی با تفکیک بین علم ظاهری و باطنی معتقدند که امام هم نسبت به ظاهر امور آگاهی داشته و هم باطن آنها. آنان در مقام علم ظاهری، مکلف به رعایت ظاهر هستند و وظایف اجتماعی خویش را بر اساس این تکلیف انجام می‌دهند، امّا در مقام آگاهی باطنی، بر اساس علمی که خداوند در جهت انجام رسالت و امامت در اختیار آنان قرار داده، از پایان حوادث و جریانات روزگار و از جمله سرنوشت خویش، باخبرند با این حال، امام وظیفه داشت نسبت به ظاهر امور عمل کند نه باطن آنها. به همین جهت، آنان نمی‌توانستند به واسطه علمی که به زمان و مکان وفات خویش داشتند، از وقوع آن جلوگیری کنند.<ref>مجلسی، مراة العقول، ج۳، ص۱۲۴- ۱۲۵</ref>
باتوجه به ادله و روایات علم غیب امامان، به نظر می‌رسد نظر دوم درست‌تر باشد.
-->


اس اعتراض کے کئی جواب دئے گئے ہیں:
بعض حضرات اعتراض سے بچنے کیلئے اس بات کے معتقد ہیں کہ امام ایسے امور سے آگاہ نہیں ہوتے جو ان کی ذمہ داری نبھانے کیلئے لازمی اور ضروری نہیں ہوا کرتیں، جیسے [[شہادت]] سے باخبر ہونا <ref>صالحی نجف آبادی، ص۴۵۵-۴۵۶</ref>
بعض دوسرے علم ظاہری اور علم باطنی کو جدا کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ امام جس طرح امور کے ظاہر سے آگاہ ہیں اسی طرح ان کے باطن سے بھی آگاہ ہیں۔ علم ظاہری کے مقام پر ائمہ معصومین کی ذمہ داری ظاہر پر عمل کرنا ہے اور اپنے معاشرتی کاموں کو علم ظاہری کی بنیاد پر انجام دینے پر مامور ہیں۔ لیکن علم باطنی کے مقام پر امامت کے اس عظیم فریضے کی انجام دہی کیلئے خدا کی دی ہوئی علم لدنی جس کی بناء پر آپ حضرات واقعے کی انتہاء اور اس کے جزئیات سے باخبر ہیں لیکن اس کے باوجود امام ظاہر پر عمل کرنے پر مامور تھے نہ باطن پر۔ اس بناء پر ائمہ معصومین اپنے علم لذنی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اس واقعے کو نہیں روک سکتے تھے۔<ref>مجلسی، مراۃ العقول، ج۳، ص۱۲۴- ۱۲۵</ref>
ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں موجود احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسرا نظریہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔
==متعلقہ روابط==
==متعلقہ روابط==
* [[نبوت]]
* [[نبوت]]
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم