گمنام صارف
"حضرت زینب سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق
←خطبے کے فوری اثرات
imported>Test-fr |
imported>Test-fr |
||
سطر 165: | سطر 165: | ||
حضرت زینبؑ کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیتؑ کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135؛ سید ابن طاؤس، اللہوف، ص221. </ref> | حضرت زینبؑ کے منطقی اور اصولی خطبے نے دربار یزید میں موجود حاضرین کو اس قدر متأثر کیا خود یزید کو بھی اسرائے آل محمد کے ساتھ نرمی سے پیش آنے پر مجبور کیا اور اس کے بعد اہل بیتؑ کے ساتھ کسی قسم کی سخت رویے سے پرہیز کرنا پڑا۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135؛ سید ابن طاؤس، اللہوف، ص221. </ref> | ||
دربار میں حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ | دربار میں حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کے قتل جیسے جرم کو [[ابن زیاد]] کی گردن پر ڈالتے ہوئے اسے لعن طعن کرنا شروع ہو گیا۔ <ref> شیخ مفید، الارشاد، ص358؛ حسن الہی، زینب كبری عقیلہ بنی ہاشم، ص244۔</ref> | ||
یزید نے | یزید نے اپنے کارندوں سے اسرائے آل محمد کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اس موقع پر اگرچہ بعض نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو بھی قتل کیا جائے لیکن [[نعمان بن بشیر]] نے اہل بیتؑ کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ دیا۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص135؛ سید ابن طاؤس، اللہوف، ص221 </ref> اسی تناظر میں یزید نے اسرائے اہل بیت کو شام میں کچھ ایام عزاداری کرنے کی اجازت دے دی۔ بنی امیہ کی خواتین منجملہ [[ہند]] یزید کی بیوی شام کے خرابے میں اہل بیتؑ سے ملاقات کیلئے گئیں اور رسول کی بیٹیوں کے ہاتھ پاؤں چومتی اور ان کے ساتھ گریہ و زاری میں شریک ہوئیں۔ تین دن تک خرابہ شام میں حضرت زینبؑ نے اپنے بھائی پر ماتم کیا۔<ref> ابو مخنف، وقعۃالطف، ص311؛ شیخ عبّاس قمی، نفس المہموم، ص265۔</ref> | ||
آخرکار اسرائے اہل بیتؑ کو عزت و احترام کے ساتھ [[مدینہ]] پہنچایا گیا۔<ref> ابن عساکر، اعلام النسا، ص191۔</ref> | آخرکار اسرائے اہل بیتؑ کو عزت و احترام کے ساتھ [[مدینہ]] پہنچایا گیا۔<ref> ابن عساکر، اعلام النسا، ص191۔</ref> |