مندرجات کا رخ کریں

"سجدہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

392 بائٹ کا اضافہ ،  9 جون 2022ء
سطر 55: سطر 55:


===محل سجدہ===
===محل سجدہ===
{{اصلی|مہر نماز}}
{{اصلی|سجدہ گاہ}}
محل سجدہ باید [[طہارت|پاک]]<ref>اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۳۵۔</ref> و از جنس زمین یا آنچہ از زمین می‌روید باشد(بہ شرط آنکہ خوردنی و پوشیدنی نباشد)،<ref>اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۵۷۔</ref> بنابراین سجدہ بر کاغذ یا دستمال کاغذی از چوب یا گیاہ (بہ جز پنبہ و کتان) صحیح است۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۳۰-۴۳۲۔</ref> بر اساس روایات، برترین سجدہ‌گاہ تربت [[امام حسین(ع)]] است۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۶۶۔</ref>  
سجدہ کی جگہ [[طہارت|پاک]]<ref>اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۳۵۔</ref> اور زمین یا زمین سے اگنے والی ایسی چیزوں کا ہونا ضروری ہے جو کھانے پینے اور پہنے میں استعمال نہ کی جاتی ہو،<ref>اصفہانی، وسیلۃ النجاۃ، ۱۹۹۳ق، ج۱، ص۱۵۷۔</ref> اس بنا پر لکڑی یا گھاس پھوس سے بنے ہوئے کاغذ اور ٹیشو پیپر پر سجدہ صحیح ہے۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۳۰-۴۳۲۔</ref> احادیث کے مطابق سجدہ گاہ کے لئے سب سے زیادہ بافضیلت چیز تربت [[امام حسینؑ]] ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۳۶۶۔</ref>  


سجدہ بر مواد معدنی مانند طلا و نقرہ و قیر صحیح نیست و بیشتر [[مراجع تقلید]] سجدہ بر سنگہای معدنی مانند [[عقیق]] و [[فیروزہ]] را نیز صحیح نمی‌دانند۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۱۲۔</ref> اما در حال ضرورت می‌توان بر لباس کتان یا پنبہ‌ای سجدہ کرد و در صورت نبود آن بر ہر نوع لباسی، و در صورت نبود آنہا در اینکہ باید بر پشت دست سجدہ کرد یا مواد معدنی مانند عقیق، اختلاف نظر وجود دارد۔<ref> یزدی، العروۃ الوثقی‌، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۳۹۴-۳۹۵۔</ref>
معدنیات جیسے سونا، چاندی اور تارکول صحیح نہیں ہے اور اکثر [[مجتہدین]] معدنی پتھروں جیسے [[عقیق]] اور [[فیروزہ]] پر بھی سجدہ صحیح نہیں سمجھتے۔<ref> نجفی، جواہر الکلام، بیروت، ج۸، ص۴۱۲۔</ref> لیکن مجبوری کے موقع پر پر گپاس اور روئی سے بنے ہوئے کپڑے پر سجدہ کرنا جائز ہے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو ہر قسم کے کپڑے پر اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو ہاتھ کے پشت یا معدنی پتھروں جیسے عقیق و فیروزہ پر سجدہ جائز ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔<ref> یزدی، العروۃ الوثقی‌، ۱۴۲۵ق، ج۲، ص۳۹۴-۳۹۵۔</ref>


اہل سنت سجدہ بر فرش، زیلو و آنچہ نجس نباشد را ہم جایز می‌دانند۔<ref>زحیلی، الفقہ الإسلامی و أدلّتہ،‌ دار الفکر، ج۱، ص۷۳۱۔</ref> [[وہابیت|وہابیون]] سجدہ شیعیان بر مُہر یا تربت را بہ بہانہ‌ہایی مانند [[شرک]]، پرستش قبر، [[تبرک]]، یا [[بدعت]] مورد ہجمہ قرار دادہ و در مکانہایی مانند [[مسجد الحرام]] و [[مسجد النبی]] با آن برخورد تندی می‌کنند۔<ref group="یادداشت"> آیت اللہ خویی نمونہ‌ای از این برخوردہا را در تفسیر خود نقل کردہ است۔ ایشان می‌گوید: در سال ۱۳۵۳ برای حج مشرف شدم، شخصی دانشمند- بہ نام شیخ زین العابدین- در مسجد النبی مراقب بود ہر کس روی مہر سجدہ می‌کرد مہر او را می‌گرفت۔ بہ او گفتم: آیا رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تصرف در مال مسلمان را بدون اذن و رضایت او حرام نکردہ است؟
اہل سنت فرش، زیلو اور ہر وہ چیز جو نجس نہ ہو اس پر سجدہ جائز سمجھتے ہیں۔<ref>زحیلی، الفقہ الإسلامی و أدلّتہ،‌ دار الفکر، ج۱، ص۷۳۱۔</ref> [[وہابیت|وہابی]] شیعوں کی طرف سے تربت امام حسینؑ کے بنے ہوئے سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کو [[شرک]]، قبر کی پرستش، [[تبرک]] یا [[بدعت]] کہہ کر اعتراض کرتے ہوئے [[مسجد الحرام]] اور [[مسجد النبی]] وغیرہ میں ان کے ساتھ شدت سے پیش آتے ہیں۔<ref group="نوٹ"> آیت اللہ خویی نے اس طرح کے برتاؤ کا ایک نمونہ اپنی تفسیر میں یوں بیان کرتے ہیں: سنہ 1974ء کو حج کے موقع پر ایک دانشور بنام شیخ زین العابدین مسجد النبی میں طاق میں بیٹھا تھا کہ جو بھی سجدہ گاہ پر سجدہ کرتا اس کے سجدہ گاہ کو چھینتا تھا۔ اس موقع پر میں نے ان سے کہا: آیا رسول اللَّہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمان کے مال میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنے کو حرام قرار نہیں دیا ہے؟
گفت: بلی حرام کردہ است۔
گفتم: پس چرا اموال این مسلمانان را از آنہا بہ زور میگیری و حال اینکہ اینہا شہادت بہ «لا إِلہَ إِلَّا اللَّہُ»* و «محمد عبدہ و رسولہ» میدہند؟
گفت: اینہا مشرک ہستند و مہر را بت قرار دادہ و برای مہر سجدہ میکنند (نہ برای خدا)۔
گفتم: حاضر ہستی دربارہ این موضوع با ہم مذاکرہ کنیم؟ گفت: مانعی ندارد۔
شروع بہ صحبت کردم و سرانجام آن شخص از کاری کہ مرتکب شدہ بود عذر خواہی و استغفار کرد۔ خویی، البیان فی تفسیر القران، ص۵۲۳۔</ref>


جای پیشانی نمازگزار باید از جای ایستادن او بیش از چہار انگشت بستہ بلندتر یا پایین‌تر نباشد۔ سجدہ‌گاہ باید استقرار داشتہ و تکان نخورد؛ بدین معنا کہ پیشانی روی آن قرار گرفتہ و ثبات پیدا کند۔ بنابر این، سجدہ بر گِل صحیح نیست۔<ref>بروجردی، مستند العروۃ، مدرسۃ دار العلم، ج۲، ص۱۹۱۔</ref>
اس نے کہا: جی بالکل حرام قرار دیا ہے۔
 
میں نے کہا: پس ان مسلمانوں کے اموال کو زبردستی ان سے چھین لیتے ہو؟ جبکہ یہ لوگ "لا إِلہَ إِلَّا اللَّہُ" * اور "محمد عبدہ و رسولہ" کی گواہی دیتے ہیں؟
 
اس نے کہا: یہ لوگ مشرک ہیں اور ان سجدہ گاہوں کو بت قرار دے کر اس کے لئے سجدہ کرتے ہیں(نہ خدا کے لئے)۔
 
میں نے کہا: کیا تم حاضر ہو اس موضوع پر مجھ سے بحث کرنے کے لئے؟ اس نے کہا: کوئی بات نہیں میں تیار ہوں۔
 
ہم نے اس موضوع پر آپس میں گفتگو کرنا شروع کیا آخر کار یہ شخص اپنے کئے پر مجھ سے معافی مانگا اور استغار کیا۔ خویی، البیان فی تفسیر القران، ص۵۲۳۔</ref>
 
نمازی کی پیشانی رکھنے کی جگہ کھڑے ہونے کی جگہ سے چار ملے ہوئے انگلیوں سے زیاده بلند یا نیچے نہ ہو۔ سجدہ‌ کرنے کی جگہ متحرک نہ ہو؛ یعنی جب اس پر پیشانی رکھی جائے تو ثابت باقی رہے۔ اسی بنا پر گھاڑے پر سجدہ صحیح نہیں ہے۔<ref>بروجردی، مستند العروۃ، مدرسۃ دار العلم، ج۲، ص۱۹۱۔</ref>


==سجدہ برای معصومان==
==سجدہ برای معصومان==
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم