مندرجات کا رخ کریں

"افعال کا حسن اور قبح" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 11: سطر 11:
:حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہے۔ لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔<ref>شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ص ؛نیز ر ک: میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص261؛قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ض8 ص 181،.... ۔</ref>
:حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہے۔ لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔<ref>شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ص ؛نیز ر ک: میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص261؛قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ض8 ص 181،.... ۔</ref>


پہلے اور دوسرے معنا کی نسبت عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسر معنا کی نسبت عدلیہ افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ  انکار کرتے ہیں ۔ افعال کے حسن اور قبح کے قائلین کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے :
پہلے اور دوسرے معنا کی نسبت عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسر معنا کی نسبت عدلیہ بعض افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ  کلی طور پر انکار کرتے ہیں <ref>جعفر سبحانی،الٰہیات،ض 231۔</ref>۔ افعال کے حسن اور قبح کے قائلین کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے :


حسن اور قبح افعال کی ذوات کو لاحق ہوتا ہے ۔
:حسن اور قبح افعال کی ذوات کو لاحق ہوتا ہے ۔
حسن اور قبح افعال کی ذات کو نہیں بلکہ ان کی ایسی صفات کو لاحق ہوتا ہے جو فعل کیلئے لازم ہوتی ہیں۔
:حسن اور قبح افعال کی ذات کو نہیں بلکہ ان کی ایسی صفات کو لاحق ہوتا ہے جو فعل کیلئے لازم ہوتی ہیں۔
فعل کی ایسی صفت سے متصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبح کا باعث بنتا ہے ۔
:فعل کی ایسی صفت سے متصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبح کا باعث بنتا ہے ۔
حسن میں صرف قباحت کے موجب کا نہ پایا جانا ہی کافی ہے ۔
:حسن کیلئے قباحت کا نہ پایا جانا ہی کافی ہے ۔


==حسن اور قبح کا ذاتی اور عقلی ہونا==
==حسن اور قبح کا ذاتی اور عقلی ہونا==
گمنام صارف