مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ تبوک" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 25: سطر 25:




'''غزوہ تبوک،''' [عربی میں: '''''غَزْوَةُ تَبُوك'''''] [[رسول خداؐ کے غزوات]] میں سے آخری [[غزوہ]] ہے۔ یہ [[غزوہ]] سنہ 9 ہجری [[رجب المرجب|رجب]] اور [[شعبان المعظم|شعبان]] میں [[تبوک]] کے مقام پر انجام پایا۔ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے رومیوں کے ساتھ جنگ کے ارادے سے [[تبوک]] کی طرف عزیمت فرمائی؛ مگر بعض [[صحابہ]] بالخصوص [[مدینہ]] کے [[نفاق|منافقین]] نے سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا یا مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ [[رسول اللہؐ]] نے عزیمت سے قبل [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کو [[مدینہ]] میں بطور جانشین مقرر کیا۔ سپاہ [[اسلام]] کئی دنوں تک [[تبوک]] میں قیام کرنے کے بعد رومیوں کے ساتھ جنگ کئے بغیر [[مدینہ]] پلٹ آئی۔ غزوہ تبوک کے سلسلے میں [[قرآن کریم]] کی کئی آیتیں نازل ہوئیں جن کی رو سے منافقین رسوا ہوئے، ان کے چہرے بےنقاب ہوئے اور ان کے منصوبے طشت از بام ہوئے۔
'''غزوہ تبوک،''' [عربی میں: '''''غَزْوَةُ تَبُوك'''''] [[رسول خداؐ کے غزوات]] میں سے آخری [[غزوہ]] ہے۔ یہ [[غزوہ]] سنہ 9 ہجری [[رجب المرجب|رجب]] اور [[شعبان المعظم|شعبان]] میں [[تبوک]] کے مقام پر انجام پایا۔ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے رومیوں کے ساتھ جنگ کے ارادے سے [[تبوک]] کی طرف عزیمت فرمائی؛ مگر بعض [[صحابہ]] بالخصوص [[مدینہ]] کے [[نفاق|منافقین]] نے سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا یا مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ [[رسول اللہؐ]] نے عزیمت سے قبل [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو [[مدینہ]] میں بطور جانشین مقرر کیا۔ سپاہ [[اسلام]] کئی دنوں تک [[تبوک]] میں قیام کرنے کے بعد رومیوں کے ساتھ جنگ کئے بغیر [[مدینہ]] پلٹ آئی۔ غزوہ تبوک کے سلسلے میں [[قرآن کریم]] کی کئی آیتیں نازل ہوئیں جن کی رو سے منافقین رسوا ہوئے، ان کے چہرے بےنقاب ہوئے اور ان کے منصوبے طشت از بام ہوئے۔


==تبوک==
==تبوک==
سطر 56: سطر 56:
جنگ سے گریزان افراد کے مقابلے میں [[دین]] کی راہ میں جانبازی کے شیدائیوں کی بھی کمی نہ تھی لیکن تنگدستی آڑے آرہی تھی چنانچہ انھوں نے [[رسول خداؐ]] سے سواری کی درخواست کی تاکہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں آپؐ کے رکاب میں لڑیں لیکن آپؐ نے فرمایا: "میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے کہ تمہارے حوالے کروں"؛ چنانچہ وہ رونے لگے اور "[[بکائین]]" کے عنوان سے مشہور ہوئے۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبويۃ، ج4، 158۔</ref> خداوند متعال نے [[سورہ توبہ]] کی آیت 92 میں ان کو جنگ سے معاف کردیا۔
جنگ سے گریزان افراد کے مقابلے میں [[دین]] کی راہ میں جانبازی کے شیدائیوں کی بھی کمی نہ تھی لیکن تنگدستی آڑے آرہی تھی چنانچہ انھوں نے [[رسول خداؐ]] سے سواری کی درخواست کی تاکہ رومیوں کے ساتھ جنگ میں آپؐ کے رکاب میں لڑیں لیکن آپؐ نے فرمایا: "میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے کہ تمہارے حوالے کروں"؛ چنانچہ وہ رونے لگے اور "[[بکائین]]" کے عنوان سے مشہور ہوئے۔<ref>ابن ہشام، السیرة النبويۃ، ج4، 158۔</ref> خداوند متعال نے [[سورہ توبہ]] کی آیت 92 میں ان کو جنگ سے معاف کردیا۔


==آخری غزوہ اور مدینہ میں علی(ع) کی جانشینی==
==آخری غزوہ اور مدینہ میں علیؑ کی جانشینی==
[[امیرالمؤمنین|امام علی علیہ السلام]] نے تمام غزوات میں شرکت کی لیکن [[رسول اللہؐ]] نے پہلی بار ـ اپنے آخری [[غزوہ|غزوے]] کے لئے عزیمت سے قبل [[علی(ع)]] کو [[مدینہ]] میں بطور جانشین مقرر کیا جس پر تاریخ و سیرت اور [[حدیث]] کے مآخذ کا تقریبا اتفاق ہے؛ گوکہ بعض مؤرخین نے اس موضوع میں اختلاف کیا ہے۔<ref>رجوع کریں: المسعودی، التنبیہ والاشراف، ص270ـ271۔</ref>
[[امیرالمؤمنین|امام علی علیہ السلام]] نے تمام غزوات میں شرکت کی لیکن [[رسول اللہؐ]] نے پہلی بار ـ اپنے آخری [[غزوہ|غزوے]] کے لئے عزیمت سے قبل [[علیؑ]] کو [[مدینہ]] میں بطور جانشین مقرر کیا جس پر تاریخ و سیرت اور [[حدیث]] کے مآخذ کا تقریبا اتفاق ہے؛ گوکہ بعض مؤرخین نے اس موضوع میں اختلاف کیا ہے۔<ref>رجوع کریں: المسعودی، التنبیہ والاشراف، ص270ـ271۔</ref>


بہر صورت [[منافقین]] [[مدینہ]] میں بغاوت کا ارادہ رکھتے تھے اور [گویا [[رسول اللہؐ]] نے منافقین ہی کے منصوبوں کی ناکامی کے لئے آپ(ع) کو جانشین مقرر کیا تھا چنانچہ] منافقین آپ(ع) کی موجودگی کو اپنی سازشوں کے سامنے رکاوٹ سمجھتے تھے اور [[رسول خداؐ]] کے اس اقدام سے ناراض تھے چنانچہ انھوں نے افواہ اڑائی کہ [[رسول اللہؐ]] مجاہدین کے درمیان [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے تھے؛ یا گرمی اور جنگ کی دشواریوں سے پہلو تہی کرنے والوں نے کہا کہ [[علی(ع)]] بھی ان ہی کی طرح جنگ سے پیچھے رہ گئے ہیں؛ بعض دوسروں نے کہا کہ [[رسول اللہؐ]] کو [[علی(ع)]] کی معیت ناگوار تھی چنانچہ انہیں اپنے گھر کی سرپرستی کے لئے چھوڑ کر گئے ہیں۔ چنانچہ [[علی(ع)]] ہتھیار سنبھال کر شہر کے نواح میں واقع "جُرْفْ" کے مقام پر [[رسول اکرمؐ]] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
بہر صورت [[منافقین]] [[مدینہ]] میں بغاوت کا ارادہ رکھتے تھے اور [گویا [[رسول اللہؐ]] نے منافقین ہی کے منصوبوں کی ناکامی کے لئے آپؑ کو جانشین مقرر کیا تھا چنانچہ] منافقین آپؑ کی موجودگی کو اپنی سازشوں کے سامنے رکاوٹ سمجھتے تھے اور [[رسول خداؐ]] کے اس اقدام سے ناراض تھے چنانچہ انھوں نے افواہ اڑائی کہ [[رسول اللہؐ]] مجاہدین کے درمیان [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے تھے؛ یا گرمی اور جنگ کی دشواریوں سے پہلو تہی کرنے والوں نے کہا کہ [[علیؑ]] بھی ان ہی کی طرح جنگ سے پیچھے رہ گئے ہیں؛ بعض دوسروں نے کہا کہ [[رسول اللہؐ]] کو [[علیؑ]] کی معیت ناگوار تھی چنانچہ انہیں اپنے گھر کی سرپرستی کے لئے چھوڑ کر گئے ہیں۔ چنانچہ [[علیؑ]] ہتھیار سنبھال کر شہر کے نواح میں واقع "جُرْفْ" کے مقام پر [[رسول اکرمؐ]] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
<font color = green>"‌{{حدیث|'''يا نبى الله زعم المنافقون أنك إنما خلفتني انك استثقلتني وتخففت منى'''}}"</font>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج2، ص368۔</ref> (ترجمہ: اے [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] [[منافقین]] گمان کرتے ہیں کہ آپ نے محھے پیچھے چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنے لئے بوجھ سمجھا ہے اور مجھے خفیف کردیا ہے!
<font color = green>"‌{{حدیث|'''يا نبى الله زعم المنافقون أنك إنما خلفتني انك استثقلتني وتخففت منى'''}}"</font>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج2، ص368۔</ref> (ترجمہ: اے [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] [[منافقین]] گمان کرتے ہیں کہ آپ نے محھے پیچھے چھوڑ دیا ہے، مجھے اپنے لئے بوجھ سمجھا ہے اور مجھے خفیف کردیا ہے!


سطر 65: سطر 65:


===متن حدیث===
===متن حدیث===
'''[[حدیث]] منزلت'''، مشہور [[حدیث|احادیث]] نبوی میں سے اور [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ [[حدیث]] ہے۔ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی نسبت [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین(ع)]] کی منزلت اور دیگر [[صحابہ|اصحاب]] پر آپ(ع) کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور [[شیعہ]] علماء کی نظر میں یہ [[حدیث|احادیث]] متواترہ میں سے ہے اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی جانشینی کے لئے آپ(ع) کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔
'''[[حدیث]] منزلت'''، مشہور [[حدیث|احادیث]] نبوی میں سے اور [[اہل سنت|سنی]] علماء کے ہاں بھی تسلیم شدہ [[حدیث]] ہے۔ اس [[حدیث]] میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی نسبت [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کی منزلت اور دیگر [[صحابہ|اصحاب]] پر آپؑ کی برتری اور فوقیت ظاہر کی گئی ہے اور [[شیعہ]] علماء کی نظر میں یہ [[حدیث|احادیث]] متواترہ میں سے ہے اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کی جانشینی کے لئے آپؑ کی اہلیت اور حقانیت کی دلیل ہے۔


یہ [[حدیث]] بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپؐ [[جنگ تبوک]] کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل [[حدیث]] کچھ یوں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] نے [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: <br/> <font color=green>"'''‌{{حدیث|أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی ...}}'''"۔</font> <br/> جو مذکورہ بالا مآخذ کے علاوہ دیگر مآخذ میں بھی موجود ہے۔<ref>صنعانی، المصنَّف ، ج5، ص405ـ406۔</ref>۔<ref>بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301۔</ref>۔<ref>ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج4، ص375؛ ج7 ص195ـ197؛ ج8، ص307۔</ref>۔<ref>بیهقی، السنن الکبری، ج13، ص275ـ276۔</ref>۔<ref>خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج4، 56، 176؛ ج5، ص332؛ ج10، ص499۔</ref>۔<ref>ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص109۔</ref>۔<ref>متقی، کنز العمال، ج11، ص599؛ ج13، ص151، 192 ۔</ref>
یہ [[حدیث]] بارہا اور مختلف مناسبتوں سے مختلف مواقع پر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] سے سنی گئی ہے اور ان مواقع و مناسبتوں میں اہم ترین وہ موقع تھا جب آپؐ [[جنگ تبوک]] کے لئے جارہے تھے۔ مشہور ترین نقل [[حدیث]] کچھ یوں ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرمؐ]] نے [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: <br/> <font color=green>"'''‌{{حدیث|أنتَ مِنّی بِمَنزلةِ هارونَ مِنْ مُوسی ...}}'''"۔</font> <br/> جو مذکورہ بالا مآخذ کے علاوہ دیگر مآخذ میں بھی موجود ہے۔<ref>صنعانی، المصنَّف ، ج5، ص405ـ406۔</ref>۔<ref>بخاری، التاریخ الکبیر، ج7، جزء4، قسم 1، ص301۔</ref>۔<ref>ابونعیم اصفہانی، حليۃ الاولیاء وطبقات الاصفیاء، ج4، ص375؛ ج7 ص195ـ197؛ ج8، ص307۔</ref>۔<ref>بیهقی، السنن الکبری، ج13، ص275ـ276۔</ref>۔<ref>خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج4، 56، 176؛ ج5، ص332؛ ج10، ص499۔</ref>۔<ref>ہیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، ج9، ص109۔</ref>۔<ref>متقی، کنز العمال، ج11، ص599؛ ج13، ص151، 192 ۔</ref>


====حدیث کی ایک اور صورت====
====حدیث کی ایک اور صورت====
روایات کے مطابق [[رسول اللہؐ]] [[منافقین]] کے نقشے سے آگاہ تھے چنانچہ ان کی خائنانہ سازش کو خاک میں ملایا اور [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کو حکم دیا کہ [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور آپؐ کے خاندان نیز [[مہاجرین]] [اور اہل [[مدینہ]]] کی سرپرستی سنبھالیں۔ یہاں [[رسول اللہؐ]] نے یہاں جو تاریخی جملہ کہا اس کو تاریخ نے ثبت کیا ہے اور یہ جملہ [[امیرالمؤمنین]](ع) کی بلافصل خلافت کا ثبوت بھی ہے اور [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کی تابناک زندگی میں ایک نیا اعزاز بھی تھا؛ فرمایا:
روایات کے مطابق [[رسول اللہؐ]] [[منافقین]] کے نقشے سے آگاہ تھے چنانچہ ان کی خائنانہ سازش کو خاک میں ملایا اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو حکم دیا کہ [[مدینہ]] واپس چلے جائیں اور آپؐ کے خاندان نیز [[مہاجرین]] [اور اہل [[مدینہ]]] کی سرپرستی سنبھالیں۔ یہاں [[رسول اللہؐ]] نے یہاں جو تاریخی جملہ کہا اس کو تاریخ نے ثبت کیا ہے اور یہ جملہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی بلافصل خلافت کا ثبوت بھی ہے اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی تابناک زندگی میں ایک نیا اعزاز بھی تھا؛ فرمایا:


<font color = green>"'''{{حدیث|ارجع يا أخي إلى مكانك فإن المدينة لا تصلح الا بي او بك، فأنت ‏خليفتي في أهلي ودار هجرتي وقومي أ ما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي}}۔'''"</font> (ترجمہ: میرے بھائی علی! [[مدینہ]] میں اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ، کیونکہ میرے اور تہمارے سوا کوئی بھی وہاں کے امور کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتا یا [[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے۔ پس تم میرے جانشین اور میرے نمائندے ہو میرے خاندان اور میرے گھر اور میری قوم ([[مہاجرین]]) کے درمیان۔ اے علی! کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ میری نسبت تمہاری منزلت وہی ہو جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] کو حاصل تھی؟ سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔</ref>۔<ref>بحار الانوار، ج21، ص208۔</ref>۔<ref>الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج2، ص337۔</ref>
<font color = green>"'''{{حدیث|ارجع يا أخي إلى مكانك فإن المدينة لا تصلح الا بي او بك، فأنت ‏خليفتي في أهلي ودار هجرتي وقومي أ ما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي}}۔'''"</font> (ترجمہ: میرے بھائی علی! [[مدینہ]] میں اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ، کیونکہ میرے اور تہمارے سوا کوئی بھی وہاں کے امور کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتا یا [[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے۔ پس تم میرے جانشین اور میرے نمائندے ہو میرے خاندان اور میرے گھر اور میری قوم ([[مہاجرین]]) کے درمیان۔ اے علی! کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ میری نسبت تمہاری منزلت وہی ہو جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] کو حاصل تھی؟ سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔</ref>۔<ref>بحار الانوار، ج21، ص208۔</ref>۔<ref>الحاكم النيسابورى، المستدرك على الصحيحين، ج2، ص337۔</ref>


[[حدیث]] منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے نزدیک [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]] کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی(ع)]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون(ع)]] کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ [[حدیث]] مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔
[[حدیث]] منزلت کو مختلف صورتوں میں اور مختلف عبارات سے نقل کیا گیا ہے تاہم ان ساری روایات کا مشترکہ مضمون یہی ہے کہ "[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہؐ]] کے نزدیک [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی منزلت و مرتبت وہی ہے جو [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے نزدیک [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] کو حاصل تھی۔ عبارت میں مختصر سے اختلاف کا سبب بھی یہ ہے کہ یہ [[حدیث]] مکرر در مکرر اور مختلف مواقع پر نقل ہوئی ہے چنانچہ بعض راویوں نے اس کے مضمون کو [شاید اپنے الفاظ میں] نقل کیا ہے۔


====عنوان حدیث: حدیث منزلت====
====عنوان حدیث: حدیث منزلت====
یہ [[حدیث]] شریف بعد میں [[حدیث منزلت]] کے عنوان سے مشہور اور [[امیرالمؤمنین]] کے اہم ترین مناقب میں شمار ہوئی اور مختلف محدثین و مؤرخین نے مختلف اسناد سے اس کو نقل کیا۔<ref>مثلاً رجوع کریں: کوفی، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیه‌السلام، ج1، ص499ـ542۔</ref>۔<ref>ابن بطريق، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار، ص126 به بعد۔</ref> نیز اس [[حدیث]] سے [[امیرالمؤمنین]](ع) کی [[خلافت بلا فصل]] کی اہم ترین دلیلوں کے کے زمرے میں، استناد کیا گیا۔<ref>علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، ج3، ص5 اور اگلے صفحات۔</ref>۔<ref>الطوسي، نصیرالدین، تجریدالاعتقاد، ص230۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: جاحظ، البيان والتبيين، ص153ـ160۔</ref>۔<ref>ابن تیمیۃ، منہاج السنۃالنبويۃ، ج7، ص325 اور بعد کے صفحات۔</ref>
یہ [[حدیث]] شریف بعد میں [[حدیث منزلت]] کے عنوان سے مشہور اور [[امیرالمؤمنین]] کے اہم ترین مناقب میں شمار ہوئی اور مختلف محدثین و مؤرخین نے مختلف اسناد سے اس کو نقل کیا۔<ref>مثلاً رجوع کریں: کوفی، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیه‌السلام، ج1، ص499ـ542۔</ref>۔<ref>ابن بطريق، عمدة عيون صحاح الأخبار في مناقب إمام الأبرار، ص126 به بعد۔</ref> نیز اس [[حدیث]] سے [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی [[خلافت بلا فصل]] کی اہم ترین دلیلوں کے کے زمرے میں، استناد کیا گیا۔<ref>علم الہدی، الشافی فی الامامۃ، ج3، ص5 اور اگلے صفحات۔</ref>۔<ref>الطوسي، نصیرالدین، تجریدالاعتقاد، ص230۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: جاحظ، البيان والتبيين، ص153ـ160۔</ref>۔<ref>ابن تیمیۃ، منہاج السنۃالنبويۃ، ج7، ص325 اور بعد کے صفحات۔</ref>


====ایک تبصرہ====
====ایک تبصرہ====
[[حدیث]] میں جملہ <font color = green>"{{حدیث|'''لا نبي بعدي'''}}"</font> (= میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اعلان منزلت سے مراد کوئی عام سی تعریف و تجلیل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ <font color = green>"{{حدیث|'''میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین بلافصل [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] ہیں جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی(ع)]] کے جانشین تھے فرق صرف یہ ہے کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی(ع)]] کے جانشین بھی تھے اور پیغمبر بھی تھے جبکہ [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] خلیفہ اور جانشین ہیں لیکن نبی نہیں ہیں'''}}"</font>۔
[[حدیث]] میں جملہ <font color = green>"{{حدیث|'''لا نبي بعدي'''}}"</font> (= میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے) بہت سے شبہات کا ازالہ کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اعلان منزلت سے مراد کوئی عام سی تعریف و تجلیل کے زمرے میں نہیں آتا بلکہ اس حقیقت کو بیان کررہا ہے کہ <font color = green>"{{حدیث|'''میرے بعد میرے خلیفہ اور جانشین بلافصل [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] ہیں جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے فرق صرف یہ ہے کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین بھی تھے اور پیغمبر بھی تھے جبکہ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] خلیفہ اور جانشین ہیں لیکن نبی نہیں ہیں'''}}"</font>۔


[[رسول اللہؐ]] کے اس آخری [[غزوہ|غزوے]] کے دوران [[مدینہ]] میں [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کی جانشینی سے ایک طرف سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ [[امیرالمؤمنین]](ع) آپؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارون(ع)]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسی(ع)]] کے جانشین تھے؛ دوسری طرف سے مذکورہ بالا سطور اور [[حدیث]] کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مدینہ]] میں دشمنان اسلام کے عزائم خطرناک تھے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کے سوا کسی اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ آپؐ نے [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] سے فرمایا: {{حدیث|'''[[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے}}۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔</ref>۔<ref>المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص208۔</ref>۔<ref>الطبري، تاريخ الطبري، ج2، ص368۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔</ref>۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص163۔</ref>۔<ref>الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔</ref>۔<ref>البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔</ref>۔<ref>ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ،  ج5، ص7۔</ref>
[[رسول اللہؐ]] کے اس آخری [[غزوہ|غزوے]] کے دوران [[مدینہ]] میں [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کی جانشینی سے ایک طرف سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ [[امیرالمؤمنین]]ؑ آپؐ کے جانشین اور خلیفہ ہیں بالکل اسی طرح، جس طرح کہ [[حضرت ہارون علیہ السلام|ہارونؑ]] [[حضرت موسی علیہ السلام|موسیؑ]] کے جانشین تھے؛ دوسری طرف سے مذکورہ بالا سطور اور [[حدیث]] کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ [[مدینہ]] میں دشمنان اسلام کے عزائم خطرناک تھے اور ان کا سامنا کرنے کے لئے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کے سوا کسی اور اعتماد نہیں کیا جاسکتا تھا جیسا کہ آپؐ نے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] سے فرمایا: {{حدیث|'''[[مدینہ]] کے حالات میرے اور تمہارے سوا کسی کے ہاتھوں نہیں سدھر سکتے}}۔<ref>المفيد، الإرشاد، ج1، ص156۔</ref>۔<ref>المجلسی، بحار الانوار، ج21، ص208۔</ref>۔<ref>الطبري، تاريخ الطبري، ج2، ص368۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، الكامل في التاريخ، ج1، ص306۔</ref>۔<ref>ابن ہشام، السيرة النبويۃ، ج4، ص163۔</ref>۔<ref>الحلبي، السيرة الحلبيۃ، ج3، ص104۔</ref>۔<ref>البلاذري، انساب الاشراف، ترجمۃ امير المؤمنين، ص10۔</ref>۔<ref>ابن كثير، البدايۃ والنہايۃ،  ج5، ص7۔</ref>


[[رسول اللہؐ]] نے اس [[حدیث]] کے ضمن میں فرمایا: "{{حدیث|إن المدينة لا تصلح إلا بي او بك}}" اور واضح کیا کہ "کہ آپ(ع) صرف [[اہل بیت]] [[رسول اللہ|رسول]] میں ہی [[رسول خداؐ]] کے نمائندے نہیں تھے بلکہ اسلامی حکومت کے دار الحکومت میں آپؐ کے جانشین تھے اور [[فتح مکہ]] کے بعد کے حساس حالات میں میں دارالحکومت کی صورت حال کی اصلاح یا تو آپؐ خود کرسکتے تھے یا پھر [[علی(ع)]] اسے درست کرنے اور آپؐ کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے؛ موقع پرست منافقین اور دشمنان [[اسلام]] کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں، اطراف کے قبائل کو اطاعت پر مجبور کرسکتے ہیں اور انہیں [[مدینہ]] پر وار کرنے سے روک سکتے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں؛ چنانچہ آپؐ ہرگز گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ خود بھی [[تبوک]] چلے جائيں اور [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کو بھی ساتھ لے جائیں۔
[[رسول اللہؐ]] نے اس [[حدیث]] کے ضمن میں فرمایا: "{{حدیث|إن المدينة لا تصلح إلا بي او بك}}" اور واضح کیا کہ "کہ آپؑ صرف [[اہل بیت]] [[رسول اللہ|رسول]] میں ہی [[رسول خداؐ]] کے نمائندے نہیں تھے بلکہ اسلامی حکومت کے دار الحکومت میں آپؐ کے جانشین تھے اور [[فتح مکہ]] کے بعد کے حساس حالات میں میں دارالحکومت کی صورت حال کی اصلاح یا تو آپؐ خود کرسکتے تھے یا پھر [[علیؑ]] اسے درست کرنے اور آپؐ کی غیر موجودگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی اہلیت رکھتے تھے؛ موقع پرست منافقین اور دشمنان [[اسلام]] کو منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں، اطراف کے قبائل کو اطاعت پر مجبور کرسکتے ہیں اور انہیں [[مدینہ]] پر وار کرنے سے روک سکتے ہیں، سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں؛ چنانچہ آپؐ ہرگز گوارا نہیں کرسکتے تھے کہ خود بھی [[تبوک]] چلے جائيں اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو بھی ساتھ لے جائیں۔


[[علی(ع)]] نے [[رسول خداؐ]] کے فرامین سن لئے، آپ کے احکامات و ہدایات کا ادراک کیا اور فرائض کی انجام دہی کے لئے [[مدینہ]] چلے گئے۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمدؐ ص596 اور بعد کے صفحات۔</ref>
[[علیؑ]] نے [[رسول خداؐ]] کے فرامین سن لئے، آپ کے احکامات و ہدایات کا ادراک کیا اور فرائض کی انجام دہی کے لئے [[مدینہ]] چلے گئے۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانى حضرت محمدؐ ص596 اور بعد کے صفحات۔</ref>




سطر 246: سطر 246:
* الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الرسل والملوک، (التاریخ الطبری)، محمد ابوالفضل ابراہیم، الطبعۃ الثانیۃ، دار المعارف مصر، النشر: 1387 ه‍ / 1967 ع‍
* الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الرسل والملوک، (التاریخ الطبری)، محمد ابوالفضل ابراہیم، الطبعۃ الثانیۃ، دار المعارف مصر، النشر: 1387 ه‍ / 1967 ع‍
* عروة بن زبیر، مغازی رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ، بروایۃ ابی الاسود، ط محمد مصطفی اعظمی، ریاض، 1401 ه‍ / 1981 ع‍
* عروة بن زبیر، مغازی رسول اللّه صلی اللّه علیہ وآلہ، بروایۃ ابی الاسود، ط محمد مصطفی اعظمی، ریاض، 1401 ه‍ / 1981 ع‍
* علم الہدی، علی بن حسین بن موسی بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن امام موسی کاظم(ع)، الشافی فی الامامۃ، چاپ عبدالزہراء حسینی خطیب، تہران، 1410 ه‍
* علم الہدی، علی بن حسین بن موسی بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن امام موسی کاظمؑ، الشافی فی الامامۃ، چاپ عبدالزہراء حسینی خطیب، تہران، 1410 ه‍
* الکوفی، محمدبن سلیمان، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، چاپ محمدباقر محمودی، قم، 1412 ه‍
* الکوفی، محمدبن سلیمان، مناقب الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، چاپ محمدباقر محمودی، قم، 1412 ه‍
* المسعودی، ابو الحسن علی بن حسین بن علی، التنبیہ والاشراف، لیدن، 1894 ع‍ بمطبعۃ بریل، افیست دار صادر بیروت۔ لبنان۔
* المسعودی، ابو الحسن علی بن حسین بن علی، التنبیہ والاشراف، لیدن، 1894 ع‍ بمطبعۃ بریل، افیست دار صادر بیروت۔ لبنان۔
* الطوسی، محمدبن محمد نصیرالدین، تجرید الاعتقاد، چاپ محمدجواد حسینی جلالی، قم، 1407 ه‍
* الطوسی، محمدبن محمد نصیرالدین، تجرید الاعتقاد، چاپ محمدجواد حسینی جلالی، قم، 1407 ه‍
* الواقدی، محمدبن عمر، المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن، 1966ع‍
* الواقدی، محمدبن عمر، المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن، 1966ع‍
* الیعقوبی، أحمد بن أبی یعقوب بن جعفر، تاریخ الیعقوبی، مؤسسہ ونشر فرہنگ اہل بیت(ع) - قم ۔ دار صادر بیروت  1379 ه‍ / 1960 ع‍
* الیعقوبی، أحمد بن أبی یعقوب بن جعفر، تاریخ الیعقوبی، مؤسسہ ونشر فرہنگ اہل بیتؑ - قم ۔ دار صادر بیروت  1379 ه‍ / 1960 ع‍
* الصنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنَّف، چاپ حبیب الرحمان اعظمی، بیروت 1403 ه‍‍ / 1983ع‍
* الصنعانی، عبدالرزاق بن ہمام، المصنَّف، چاپ حبیب الرحمان اعظمی، بیروت 1403 ه‍‍ / 1983ع‍
* ابن ابی شیبۃ، المصنَّف فی الاحادیث والآثار، چاپ سعید محمد لحّام، بیروت 1409ه‍ / 1989ع‍
* ابن ابی شیبۃ، المصنَّف فی الاحادیث والآثار، چاپ سعید محمد لحّام، بیروت 1409ه‍ / 1989ع‍
سطر 262: سطر 262:
* ابن حنبل، احمد، مسند ابن حنبل، بیروت 1414 ه‍ /1993 ع‍
* ابن حنبل، احمد، مسند ابن حنبل، بیروت 1414 ه‍ /1993 ع‍
* المجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، مؤسسۃ الوفاء - بیروت - لبنان - الطبعۃ الثانیۃ 1403 ه‍ / 1983 ع‍
* المجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، مؤسسۃ الوفاء - بیروت - لبنان - الطبعۃ الثانیۃ 1403 ه‍ / 1983 ع‍
* المفيد، الشيخ محمد بن محمد بن النعمان، الارشاد في معرفۃ حجج الله علي العباد، مؤسسۃ ال البيت(ع) لإحیاء التراث، قم 1413ه‍
* المفيد، الشيخ محمد بن محمد بن النعمان، الارشاد في معرفۃ حجج الله علي العباد، مؤسسۃ ال البيتؑ لإحیاء التراث، قم 1413ه‍
* الحاکم النیسابورى، محمد بن عبد الله بن محمد (المتوفی ۴۰۵ه‍)، المستدرک على الصحیحین، تحقیق: دکتور یوسف المرعشلى، الطبعۃ الاولى ، دار المعرفۃ، بیروت - لبنان۔ 1406 ه‍
* الحاکم النیسابورى، محمد بن عبد الله بن محمد (المتوفی ۴۰۵ه‍)، المستدرک على الصحیحین، تحقیق: دکتور یوسف المرعشلى، الطبعۃ الاولى ، دار المعرفۃ، بیروت - لبنان۔ 1406 ه‍
* الصالحی الشامی، سبل الہدى والرشاد ...، دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان الطبعۃ الأولى 1414 ه‍ - 1993 ع‍
* الصالحی الشامی، سبل الہدى والرشاد ...، دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان الطبعۃ الأولى 1414 ه‍ - 1993 ع‍
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,344

ترامیم