مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ تبوک" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Smnazem
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 25: سطر 25:




'''غزوہ تبوک،''' [عربی میں: '''''غَزْوَةُ تَبُوك'''''] [[رسول خدا(ص) کے غزوات]] میں سے آخری [[غزوہ]] ہے۔ یہ [[غزوہ]] سنہ 9 ہجری کے مہینوں [[رجب المرجب|رجب]] اور [[شعبان المعظم|شعبان]] میں بمقام [[تبوک]] انجام پایا۔ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم(ص)]] نے رومیوں کے ساتھ جنگ کے ارادے سے [[تبوک]] کی طرف عزیمت فرمائی؛ مگر بعض [[صحابہ]] بالخصوص [[مدینہ]] کے [[نفاق|منافقین]] نے سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا یا مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ [[رسول اللہ(ص)]] نے عزیمت سے قبل [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کو [[مدینہ]] میں بطور جانشین مقرر کیا۔ سپاہ [[اسلام]] کئی دنوں تک [[تبوک]] میں قیام کرنے کے بعد رومیوں کے ساتھ جنگ کئے بغیر [[مدینہ]] پلٹ آئی۔ غزوہ تبوک کے سلسلے میں [[قرآن کریم]] کی کئی آیتیں نازل ہوئیں جن کی رو سے منافقین رسوا ہوئے، ان کے چہرے بےنقاب ہوئے اور ان کے منصوبے طشت از بام ہوئے۔  
'''غزوہ تبوک،''' [عربی میں: '''''غَزْوَةُ تَبُوك'''''] [[رسول خدا(ص) کے غزوات]] میں سے آخری [[غزوہ]] ہے۔ یہ [[غزوہ]] سنہ 9 ہجری کے مہینوں [[رجب المرجب|رجب]] اور [[شعبان المعظم|شعبان]] میں بمقام [[تبوک]] انجام پایا۔ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم(ص)]] نے رومیوں کے ساتھ جنگ کے ارادے سے [[تبوک]] کی طرف عزیمت فرمائی؛ مگر بعض [[صحابہ]] بالخصوص [[مدینہ]] کے [[نفاق|منافقین]] نے سپاہ [[اسلام]] میں شمولیت سے انکار کیا یا مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ [[رسول اللہ(ص)]] نے عزیمت سے قبل [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کو [[مدینہ]] میں بطور جانشین مقرر کیا۔ سپاہ [[اسلام]] کئی دنوں تک [[تبوک]] میں قیام کرنے کے بعد رومیوں کے ساتھ جنگ کئے بغیر [[مدینہ]] پلٹ آئی۔ غزوہ تبوک کے سلسلے میں [[قرآن کریم]] کی کئی آیتیں نازل ہوئیں جن کی رو سے منافقین رسوا ہوئے، ان کے چہرے بےنقاب ہوئے اور ان کے منصوبے طشت از بام ہوئے۔


==تبوک==
==تبوک==
سطر 35: سطر 35:
اس زمانے میں [[ایران]] اور [[روم]] دو بڑی طاقتیں تھیں جن کے درمیان طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں لیکن انہیں تیسری بڑی طاقت کا ابھرنا ناقابل برداشت تھا؛ چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں واقع سلطنت روم کے لئے [[فتح مکہ]] اور [[فتح حنین]] کی خبریں اس کے لئے کچھ زيادہ خوش کن نہ تھیں۔ مؤرخین کے بقول سنہ 9 ہجری میں تقریبا پورا [[حجاز]] مسلمانوں کے زیر نگیں آچکا تھا اور بہت سے قبائل چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے اسلام کا اظہار کرنے لگے تھے؛ لیکن اسلامی حکومت کو اپنی سرحدوں باہر [روم کی جانب سے] خطرات لاحق تھے۔ علاقہ [[شام]] پر روم مسلط ہوچکا تھا اور رومی افواج مسلمانوں کی حدود پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگی تھیں۔ آٹا اور گھی فروخت کرنے کی غرض سے [[مدینہ]] آنے والے نبطی [[شام]] کی بعض خبروں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک نبطی نے آپ(ص) کو اطلاع دی کہ رومیوں نے بہت سے لشکر [[شام]] میں فراہم کردیئے ہیں اور ہرقل /  ہراکلیوس عرب کے قبائل "لخم"، "جذام"، "غسان" اور "عاملہ" کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرچکا ہے اور وہ خود شام کے شمالی شہر [[حمص]] تک آچکا تھا رومی فوج کے ہراول دستے [[تبوک]] کے شمال میں واقع "بلقاء" میں تعینات کئے گئے ہیں اور رومی اسلامی حکومت کو اپنے لئے خطرناک اور ان کی دشمنی کو خوفناک نہیں سمجھے تھے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص150ـ 151۔</ref>۔</ref>البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>
اس زمانے میں [[ایران]] اور [[روم]] دو بڑی طاقتیں تھیں جن کے درمیان طویل جنگیں بھی ہوچکی تھیں لیکن انہیں تیسری بڑی طاقت کا ابھرنا ناقابل برداشت تھا؛ چنانچہ جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں واقع سلطنت روم کے لئے [[فتح مکہ]] اور [[فتح حنین]] کی خبریں اس کے لئے کچھ زيادہ خوش کن نہ تھیں۔ مؤرخین کے بقول سنہ 9 ہجری میں تقریبا پورا [[حجاز]] مسلمانوں کے زیر نگیں آچکا تھا اور بہت سے قبائل چاہتے ہوئے یا حتی نہ چاہتے ہوئے اسلام کا اظہار کرنے لگے تھے؛ لیکن اسلامی حکومت کو اپنی سرحدوں باہر [روم کی جانب سے] خطرات لاحق تھے۔ علاقہ [[شام]] پر روم مسلط ہوچکا تھا اور رومی افواج مسلمانوں کی حدود پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگی تھیں۔ آٹا اور گھی فروخت کرنے کی غرض سے [[مدینہ]] آنے والے نبطی [[شام]] کی بعض خبروں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک نبطی نے آپ(ص) کو اطلاع دی کہ رومیوں نے بہت سے لشکر [[شام]] میں فراہم کردیئے ہیں اور ہرقل /  ہراکلیوس عرب کے قبائل "لخم"، "جذام"، "غسان" اور "عاملہ" کو بھی اپنی صفوں میں شامل کرچکا ہے اور وہ خود شام کے شمالی شہر [[حمص]] تک آچکا تھا رومی فوج کے ہراول دستے [[تبوک]] کے شمال میں واقع "بلقاء" میں تعینات کئے گئے ہیں اور رومی اسلامی حکومت کو اپنے لئے خطرناک اور ان کی دشمنی کو خوفناک نہیں سمجھے تھے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص989ـ990۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص150ـ 151۔</ref>۔</ref>البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>


ایسی روایات بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ بالا سبب بیان کئے بغیر کہا گیا ہے کہ '''[[رسول اکرم(ص)]] رومیوں سے جنگ کی غرض سے [[مدینہ]] سے عزیمت فرمائی۔<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیه وآله، ص220۔</ref>۔<ref>الزهري، المغازي النبوية، ص106۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101۔</ref>  
ایسی روایات بھی منقول ہیں جن میں مذکورہ بالا سبب بیان کئے بغیر کہا گیا ہے کہ '''[[رسول اکرم(ص)]] رومیوں سے جنگ کی غرض سے [[مدینہ]] سے عزیمت فرمائی۔<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیه وآله، ص220۔</ref>۔<ref>الزهري، المغازي النبوية، ص106۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101۔</ref>
 
یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہ(ص)]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبة، المصنف، ج7، ص423۔</ref>
یعقوبی نے لکھا ہے کہ اس مہم سے [[رسول اللہ(ص)]] کا مقصود [[جعفر بن ابی طالب]] کے خون کا انتقام لینا تھا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج2، ص67۔</ref> جو [[جنگ موتہ|جنگ مؤتہ]] میں شہید ہوئے تھے۔ بہر صورت مسلمانوں کے درمیان مشہور یہی تھا کہ یہ جنگ "بنو الاصفر" کے خلاف ہے۔<ref>ابن ابي شيبة، المصنف، ج7، ص423۔</ref>


سطر 45: سطر 45:


کہا جاسکتا ہے کہ اس جنگی مہم کے لئے [[عزیمت]] سے [[رسول اللہ(ص)]] کا مقصد رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے زیادہ وہ حالات و واقعات تھے جو [[مدینہ]] میں رونما ہورہے تھے؛ اور آپ(ص) کے اس اقدام کی وجہ سے ان میں سے کئی خفیہ سازشیں آشکار ہوکر سامنے آئیں جن میں دو اہم سازشیں کچھ یوں تھیں:
کہا جاسکتا ہے کہ اس جنگی مہم کے لئے [[عزیمت]] سے [[رسول اللہ(ص)]] کا مقصد رومیوں کے ساتھ جنگ کرنے سے زیادہ وہ حالات و واقعات تھے جو [[مدینہ]] میں رونما ہورہے تھے؛ اور آپ(ص) کے اس اقدام کی وجہ سے ان میں سے کئی خفیہ سازشیں آشکار ہوکر سامنے آئیں جن میں دو اہم سازشیں کچھ یوں تھیں:
* [[منافقین]] نے وسیع تشہیری مہم چلائی؛ یہاں تک کہ [[عبداللہ بن ابی]] کے گماشتوں نے [[رسول اللہ(ص)]] کے مد مقابل صف بندی کی اور منافقین بعد ازاں واپس [[مدینہ]] آئے۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص103۔</ref>  
* [[منافقین]] نے وسیع تشہیری مہم چلائی؛ یہاں تک کہ [[عبداللہ بن ابی]] کے گماشتوں نے [[رسول اللہ(ص)]] کے مد مقابل صف بندی کی اور منافقین بعد ازاں واپس [[مدینہ]] آئے۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص103۔</ref>
* [[رسول اللہ(ص)]] پر [[تبوک]] سے واپسی کے وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیه وسلم، ص221۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: الطبرسي، اِعلام الوری بأعلام الهدی، ج1، ص245ـ247۔</ref> ان موضوعات کو اگلی سطور میں زیر بحث لایا جائے گا۔
* [[رسول اللہ(ص)]] پر [[تبوک]] سے واپسی کے وقت قاتلانہ حملہ کیا گیا<ref>عروة بن زبیر، مغازي رسول اللّه صلی اللّه علیه وسلم، ص221۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: الطبرسي، اِعلام الوری بأعلام الهدی، ج1، ص245ـ247۔</ref> ان موضوعات کو اگلی سطور میں زیر بحث لایا جائے گا۔


سطر 97: سطر 97:
پیچھے رہوگے تو خدا کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے:
پیچھے رہوگے تو خدا کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکو گے:


<font color = green>"{{قرآن کا متن|'''يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ * إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ'''|ترجمہ=اے ایمان لانے والو ! تمہیں کیا ہے کہ جب کہا جاتا ہے تم سے کہ اللہ کی راہ میں باہر نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین گیر ہو جاتے ہو! کیا تم آخرت کے بدلے اس دنیوی زندگی پر راضی ہو تو نہیں ہے اس دنیوی زندگی کا سرو سامان آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت کم * اگر تم باہر نہ نکلو گے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب کے ساتھ سزا دے گا اور تمہارے بدلے کسی دوسرے گروہ کو کھڑا کر دے گا اور تم انہیں کچھ نقصان نہ پہنچاؤ گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے|سورت=9|آیت=38-39}}"</font><ref>سوره توبه، آیات 38-39۔</ref>  
<font color = green>"{{قرآن کا متن|'''يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انفِرُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الأَرْضِ أَرَضِيتُم بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الآخِرَةِ إِلاَّ قَلِيلٌ * إِلاَّ تَنفِرُواْ يُعَذِّبْكُمْ عَذَاباً أَلِيماً وَيَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ وَلاَ تَضُرُّوهُ شَيْئاً وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ'''|ترجمہ=اے ایمان لانے والو ! تمہیں کیا ہے کہ جب کہا جاتا ہے تم سے کہ اللہ کی راہ میں باہر نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین گیر ہو جاتے ہو! کیا تم آخرت کے بدلے اس دنیوی زندگی پر راضی ہو تو نہیں ہے اس دنیوی زندگی کا سرو سامان آخرت کے مقابلہ میں مگر بہت کم * اگر تم باہر نہ نکلو گے تو وہ تمہیں درد ناک عذاب کے ساتھ سزا دے گا اور تمہارے بدلے کسی دوسرے گروہ کو کھڑا کر دے گا اور تم انہیں کچھ نقصان نہ پہنچاؤ گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے|سورت=9|آیت=38-39}}"</font><ref>سوره توبه، آیات 38-39۔</ref>


سابقہ آیات میں، [[جہاد]] میں شرکت کے سلسلے میں بعض مسلمانوں کی کاہلی کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر شدید تنقید اور ان پر عتاب کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ ہلکے پھلکے یا بوجھل (جس صورت میں بھی ہو) اللہ کی راہ میں جہاد کرو:
سابقہ آیات میں، [[جہاد]] میں شرکت کے سلسلے میں بعض مسلمانوں کی کاہلی کی وجہ سے ان کی کارکردگی پر شدید تنقید اور ان پر عتاب کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ ہلکے پھلکے یا بوجھل (جس صورت میں بھی ہو) اللہ کی راہ میں جہاد کرو:
سطر 160: سطر 160:
تین افراد ایسے بھی تھے جنہں خدا نے [[توبہ]] کرنے کی توفیق کی توفیق دی: "کعب بن مالک"، "مرارہ بن ربیع" اور "ہلال بن امیہ"۔ یہ وہ افراد تھے جو [[جہاد]] سے جان بوجھ کر پیچھے رہے تھے؛ وہ درحقیقت جنگ [[تبوک]] میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن سستی اور کاہلی غالب آئی۔
تین افراد ایسے بھی تھے جنہں خدا نے [[توبہ]] کرنے کی توفیق کی توفیق دی: "کعب بن مالک"، "مرارہ بن ربیع" اور "ہلال بن امیہ"۔ یہ وہ افراد تھے جو [[جہاد]] سے جان بوجھ کر پیچھے رہے تھے؛ وہ درحقیقت جنگ [[تبوک]] میں شرکت کرنا چاہتے تھے لیکن سستی اور کاہلی غالب آئی۔


جنگ ختم ہوئی اور [[رسول خدا(ص)]] [[مدینہ]] واپس آئے تو یہ تینوں فوری طور پر آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن آپ(ص) نے ان سے منہ موڑا اور ان کے ساتھ بات چیت نہ کی؛ تمام مسلمانوں نے بھی ان سے رابطہ منقطع کیا اور ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ یہ افراد تھوڑے ہی عرصے میں اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگے؛ یہاں تک کہ اپنی بیویاں بھی ان سے دوری اختیار کرتی تھیں۔ ان تین افراد کا یہ عمومی مقاطعہ ان کے لئے شدید گھٹن کا سبب بنا تھا۔ ان افراد نے [[رسول اللہ(ص)]] کی پیروی کرتے ہوئے آپس میں بھی رابطہ منقطع کیا تھا۔  
جنگ ختم ہوئی اور [[رسول خدا(ص)]] [[مدینہ]] واپس آئے تو یہ تینوں فوری طور پر آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن آپ(ص) نے ان سے منہ موڑا اور ان کے ساتھ بات چیت نہ کی؛ تمام مسلمانوں نے بھی ان سے رابطہ منقطع کیا اور ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ یہ افراد تھوڑے ہی عرصے میں اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگے؛ یہاں تک کہ اپنی بیویاں بھی ان سے دوری اختیار کرتی تھیں۔ ان تین افراد کا یہ عمومی مقاطعہ ان کے لئے شدید گھٹن کا سبب بنا تھا۔ ان افراد نے [[رسول اللہ(ص)]] کی پیروی کرتے ہوئے آپس میں بھی رابطہ منقطع کیا تھا۔


مروی ہے کہ [آج کے نام نہاد بڑے ممالک کی مانند] اس زمانے کی بڑی طاقت [[روم]] کے حکام کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنا جاسوس ان کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا کہ [[روم]] کی پناہ میں چلے جائیں اور آزادانہ زندگی بسر کریں؛ لیکن چونکہ وہ حقیقی مسلمان تھے لہذا انھوں نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ وہ شہر سے نکل گئے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں جاکر گریہ و زاری کرتے تھے۔ 50 دن تک یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ ان کی [[توبہ قبول ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بخش دیا گیا ہے۔  
مروی ہے کہ [آج کے نام نہاد بڑے ممالک کی مانند] اس زمانے کی بڑی طاقت [[روم]] کے حکام کو معلوم ہوا تو انھوں نے اپنا جاسوس ان کے پاس روانہ کیا اور ان سے کہا کہ [[روم]] کی پناہ میں چلے جائیں اور آزادانہ زندگی بسر کریں؛ لیکن چونکہ وہ حقیقی مسلمان تھے لہذا انھوں نے ان کی تجویز مسترد کردی۔ وہ شہر سے نکل گئے اور پہاڑوں اور صحراؤں میں جاکر گریہ و زاری کرتے تھے۔ 50 دن تک یہی صورت حال جاری رہی یہاں تک کہ ان کی [[توبہ قبول ہوئی اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا کہ انہیں بخش دیا گیا ہے۔


<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ'''|ترجمہ=اور ان تینوں پر کہ جو پیچھے رہ گئے تھے، یہاں تک کہ یہ عالم ہوا کہ زمین ان پر باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنے سے تنگ ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ سے بچاؤ کے لیے کوئی جائے پناہ سوا خود اسی کے نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ ہی وہ ہے جو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، بڑا مہربان|سورت=9|آیت=117}}</font><ref>سوره توبه، آیه 117۔</ref>۔646۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج‏4، ص‏179۔</ref>۔<ref>ابن حنبل، مسند احمد، ج‏6، ص‏389۔</ref>۔<ref> سبل الهدی والرشاد، ج‏9، ص‏379۔</ref>
<font color = green>{{قرآن کا متن|'''وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ'''|ترجمہ=اور ان تینوں پر کہ جو پیچھے رہ گئے تھے، یہاں تک کہ یہ عالم ہوا کہ زمین ان پر باوجود اپنی وسعت کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنے سے تنگ ہو گئے اور انہوں نے سمجھا کہ اللہ سے بچاؤ کے لیے کوئی جائے پناہ سوا خود اسی کے نہیں ہے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف توجہ فرمائی کہ وہ توبہ کریں یقینا اللہ ہی وہ ہے جو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے، بڑا مہربان|سورت=9|آیت=117}}</font><ref>سوره توبه، آیه 117۔</ref>۔646۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج‏4، ص‏179۔</ref>۔<ref>ابن حنبل، مسند احمد، ج‏6، ص‏389۔</ref>۔<ref> سبل الهدی والرشاد، ج‏9، ص‏379۔</ref>
سطر 169: سطر 169:
[[رسول اللہ(ص)]] نے سپاہ کی تیاری میں تیزرفتاری سے کام لینے کا حکم دیا تھا مگر شدید گرمی، طویل سفر اور بعض اصحاب کی غربت آڑے آرہی تھی<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص992۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ102۔</ref> یہاں تک کہ اس سپاہ کو "جیش العسر" کا نام دیا گیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref> [[عروہ بن زبیر]]  نے [[غزوہ]] [[تبوک]] کو [[غزوۃ العسر]] کا نام دیا ہے۔<ref>نیز رجوع کریں: عروة بن زبیر، ص220۔</ref>
[[رسول اللہ(ص)]] نے سپاہ کی تیاری میں تیزرفتاری سے کام لینے کا حکم دیا تھا مگر شدید گرمی، طویل سفر اور بعض اصحاب کی غربت آڑے آرہی تھی<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص992۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص101ـ102۔</ref> یہاں تک کہ اس سپاہ کو "جیش العسر" کا نام دیا گیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref> [[عروہ بن زبیر]]  نے [[غزوہ]] [[تبوک]] کو [[غزوۃ العسر]] کا نام دیا ہے۔<ref>نیز رجوع کریں: عروة بن زبیر، ص220۔</ref>


چنانچہ [[رسول اللہ(ص)]] نے اس [[غزوہ|غزوے]] میں ـ سابقہ [[غزوہ|غزوات]] کے برعکس، ـ اپنا مقصود واضح طور پر بیان فرمایا تاکہ لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ [[رسول اکرم(ص)]] نے ابتداء میں [[مدینہ]] کے نواح میں  [[ثنی الوداع|ثَنی الوداع]] میں پڑاؤ ڈال دیا اور بعد ازاں 30000 مجاہدین کے ہمراہ [[مدینہ]] سے شمال کی جانب [[روم]] کی سرحدوں کی جانب عزیمت فرمائی۔<ref>واقدی ج3، ص992، 996، 1002۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص199۔</ref> ایک روایت کے مطابق سپاہ [[اسلام]] 10000 سواروں اور 20000 پیادوں پر مشتمل تھا؛ ہر قبیلے کو اپنا پرچم عطا کیا گیا؛ کام کاج کے اس موسم میں اتنی بڑی سپاہ کی فراہمی اللہ تعالی کے وعد و وعید کے ذریعے ممکن ہوئی۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref>  
چنانچہ [[رسول اللہ(ص)]] نے اس [[غزوہ|غزوے]] میں ـ سابقہ [[غزوہ|غزوات]] کے برعکس، ـ اپنا مقصود واضح طور پر بیان فرمایا تاکہ لوگ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔ [[رسول اکرم(ص)]] نے ابتداء میں [[مدینہ]] کے نواح میں  [[ثنی الوداع|ثَنی الوداع]] میں پڑاؤ ڈال دیا اور بعد ازاں 30000 مجاہدین کے ہمراہ [[مدینہ]] سے شمال کی جانب [[روم]] کی سرحدوں کی جانب عزیمت فرمائی۔<ref>واقدی ج3، ص992، 996، 1002۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، قسم1، ص199۔</ref> ایک روایت کے مطابق سپاہ [[اسلام]] 10000 سواروں اور 20000 پیادوں پر مشتمل تھا؛ ہر قبیلے کو اپنا پرچم عطا کیا گیا؛ کام کاج کے اس موسم میں اتنی بڑی سپاہ کی فراہمی اللہ تعالی کے وعد و وعید کے ذریعے ممکن ہوئی۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref>


===جنگ میں شرکت پر قرآن کی تاکید===
===جنگ میں شرکت پر قرآن کی تاکید===
[[قرآن]] نے اس جنگ کے سوا کسی بھی جنگ میں شرکت کرنے پر اتنا زور نہيں دیا تھا۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref> [[قرآن]] نے ہر قسم کے لب و لہجے سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شرکت کی ترغیب دلائی ہے جس کو [[سورہ توبہ]] کی آیات 38 اور 39 سمیت کئی دوسری آیات میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے؛ بطور مثال:  
[[قرآن]] نے اس جنگ کے سوا کسی بھی جنگ میں شرکت کرنے پر اتنا زور نہيں دیا تھا۔<ref>سبحانی، منشور جاوید ج7 ص72۔</ref> [[قرآن]] نے ہر قسم کے لب و لہجے سے مسلمانوں کو اس جنگ میں شرکت کی ترغیب دلائی ہے جس کو [[سورہ توبہ]] کی آیات 38 اور 39 سمیت کئی دوسری آیات میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے؛ بطور مثال:


<font color = green>"'''{{حدیث|اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ}}'''"</font> کیا زمین سے چپکے ہوئے ہو اور جہاد کے لئے نہیں نکلتے ہو یا کیا تم اس فانی دنیا کی چمک دمک پر راضي ہوچکے ہو جہاد اور شہادت کے مقابلے میں؟ <font color = green>"'''{{حدیث|أَ رَضِیتُمْ بِالْحَیاةِ الدُّنْیا مِنَ الْآخِرَة}}'''"</font>؛ یا کیا دنیاوی زندی کی متاع آخرت کی ابدی زندگی کے سامنے ناچیز نہیں ہے؟ <font color = green>"'''{{حدیث|فَما مَتاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ}}'''"</font> کیا ایک عقلمند انسان کے لئے اس قسم کا سودا پسند کرنا ممکن ہے؟ پھر دھمکی کے لب و لہجے میں ارشاد فرماتا ہے: <font color = green>"'''{{حدیث|إِلَّا تَنْفِرُوا یُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِیماً}}'''"</font>، یا کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر نہیں جاؤگے تو [[اسلام]] کی بسط لپٹ جائے گی؟ یاد رکھو کہ اس صورت میں دوسروں کو تمہاری جگہ لے کر آئے گا؛ <font color = green>"'''{{حدیث|وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَكُمْ}}'''"</font> جو تم سے زيادہ جرئت کے مالک ہونگے اور تم خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے؛ <font color = green>"'''{{حدیث|وَلا تَضُرُّوهُ شَیْئاً}}'''"</font>؛ یہ ایک خیال گفتگو نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جب وہ اپنے دین پاک کی حفاظت کا ارادہ فرماتا ہے کر گذرتا ہے: <font color = green>"'''{{حدیث|وَاللَّهُ عَلى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ}}'''"</font> اس آیت میں دوسری قوم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ایرانی ہیں اور بعض دوسروں نے کہا ہے کہ یہ اہلیان [[یمن]] ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل اور جان نثاریوں سے [[اسلام]] کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔<ref>مکارم شیرازی، تفسير نمونه، ج‏7، ص: 414۔</ref>
<font color = green>"'''{{حدیث|اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ}}'''"</font> کیا زمین سے چپکے ہوئے ہو اور جہاد کے لئے نہیں نکلتے ہو یا کیا تم اس فانی دنیا کی چمک دمک پر راضي ہوچکے ہو جہاد اور شہادت کے مقابلے میں؟ <font color = green>"'''{{حدیث|أَ رَضِیتُمْ بِالْحَیاةِ الدُّنْیا مِنَ الْآخِرَة}}'''"</font>؛ یا کیا دنیاوی زندی کی متاع آخرت کی ابدی زندگی کے سامنے ناچیز نہیں ہے؟ <font color = green>"'''{{حدیث|فَما مَتاعُ الْحَیاةِ الدُّنْیا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ}}'''"</font> کیا ایک عقلمند انسان کے لئے اس قسم کا سودا پسند کرنا ممکن ہے؟ پھر دھمکی کے لب و لہجے میں ارشاد فرماتا ہے: <font color = green>"'''{{حدیث|إِلَّا تَنْفِرُوا یُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِیماً}}'''"</font>، یا کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر نہیں جاؤگے تو [[اسلام]] کی بسط لپٹ جائے گی؟ یاد رکھو کہ اس صورت میں دوسروں کو تمہاری جگہ لے کر آئے گا؛ <font color = green>"'''{{حدیث|وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْرَكُمْ}}'''"</font> جو تم سے زيادہ جرئت کے مالک ہونگے اور تم خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے؛ <font color = green>"'''{{حدیث|وَلا تَضُرُّوهُ شَیْئاً}}'''"</font>؛ یہ ایک خیال گفتگو نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ جب وہ اپنے دین پاک کی حفاظت کا ارادہ فرماتا ہے کر گذرتا ہے: <font color = green>"'''{{حدیث|وَاللَّهُ عَلى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ}}'''"</font> اس آیت میں دوسری قوم کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ایرانی ہیں اور بعض دوسروں نے کہا ہے کہ یہ اہلیان [[یمن]] ہیں جنہوں نے اپنے علم و عمل اور جان نثاریوں سے [[اسلام]] کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔۔<ref>مکارم شیرازی، تفسير نمونه، ج‏7، ص: 414۔</ref>


===خطبہ تبوک===
===خطبہ تبوک===
رومی افواج کی بلقاء تک رسائی اور [[رسول خدا(ص)]] کے خلاف جنگی منصوبوں کی خبر پاکر آپ(ص) نے کچھ اصحاب، حالات سے آگہی کے لئے بلقاء روانہ کئے اور کچھ [[مدینہ]] کے اطراف اور [[مکہ]] روانہ کئے تاکہ قبائل کو جنگ کے لئے تیار کریں جن میں نو مسلم قبائل "خزاعہ، مزینہ اور جہینہ" جیسے قبائل شامل تھے۔
رومی افواج کی بلقاء تک رسائی اور [[رسول خدا(ص)]] کے خلاف جنگی منصوبوں کی خبر پاکر آپ(ص) نے کچھ اصحاب، حالات سے آگہی کے لئے بلقاء روانہ کئے اور کچھ [[مدینہ]] کے اطراف اور [[مکہ]] روانہ کئے تاکہ قبائل کو جنگ کے لئے تیار کریں جن میں نو مسلم قبائل "خزاعہ، مزینہ اور جہینہ" جیسے قبائل شامل تھے۔


آپ(ص) نے ثنیہ الوداع میں پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ صاحب حیثیت افراد ناداروں کی مدد کریں اور جس نے جو کچھ پس انداز کیا ہے خیرات کرے۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور ایک دوسرے کی مدد سے بڑی سپاہ تشکیل دی؛ لشکر فراہم ہوا تو آپ(ص) نے [[خطبہ تبوک|خطبہ]] دیا اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:  
آپ(ص) نے ثنیہ الوداع میں پڑاؤ ڈالا اور حکم دیا کہ صاحب حیثیت افراد ناداروں کی مدد کریں اور جس نے جو کچھ پس انداز کیا ہے خیرات کرے۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا اور ایک دوسرے کی مدد سے بڑی سپاہ تشکیل دی؛ لشکر فراہم ہوا تو آپ(ص) نے [[خطبہ تبوک|خطبہ]] دیا اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:
<font color = green>{{حدیث|اے لوگو! سب سے سچا کلام [[قرآن|اللہ کی کتاب]]، مناسب ترین تلقین تقوی کی تلقین، بہترین ملت [[ملت ابراہیم]]، بہترین [[سنت]] سنت [[رسول اللہ|محمد]]، شریف ترین ذکر، ذکر خدا اور بہترین داستان یہی [[قرآن]] ہے؛ بہترین امور ثابت اور مستحکم سنتیں اور بدترین امور نو ظہور اور ہیں؛ بہترین ہدایت انبیاء کی ہدایت اور شریف ترین قتل ہونا شہادت اور بہترین مقتولین اللہ کی راہ میں شہادت پانے والے ہیں؛ تاریک ترین اندھا پن ہدایت کے بعد ضلالت ہے اور بہترین کام، زیادہ فائدہ پہنچانے والا کام ہے؛ بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کی جائے اور بدترین اندھا پن دلوں کا اندھا پن ہے؛ اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نچلے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔  
<font color = green>{{حدیث|اے لوگو! سب سے سچا کلام [[قرآن|اللہ کی کتاب]]، مناسب ترین تلقین تقوی کی تلقین، بہترین ملت [[ملت ابراہیم]]، بہترین [[سنت]] سنت [[رسول اللہ|محمد]]، شریف ترین ذکر، ذکر خدا اور بہترین داستان یہی [[قرآن]] ہے؛ بہترین امور ثابت اور مستحکم سنتیں اور بدترین امور نو ظہور اور ہیں؛ بہترین ہدایت انبیاء کی ہدایت اور شریف ترین قتل ہونا شہادت اور بہترین مقتولین اللہ کی راہ میں شہادت پانے والے ہیں؛ تاریک ترین اندھا پن ہدایت کے بعد ضلالت ہے اور بہترین کام، زیادہ فائدہ پہنچانے والا کام ہے؛ بہترین ہدایت وہ ہے جس کی پیروی کی جائے اور بدترین اندھا پن دلوں کا اندھا پن ہے؛ اوپر والا (دینے والا) ہاتھ نچلے (لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔


چھوٹی خواہش ـ جو ضرورت کو پورا کرے ـ اس خواہش سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور اللہ کی یاد سے غافل کردے؛ بدترین ([[توبہ]] اور) معذرت موت کے موقع پر کی جانے والی معذرت ہے اور بدترین ندامت و پشیمانی [[قیامت]] کی پشیمانی ہے؛ بعض لوگ وہ ہیں جو [[نماز جمعہ]] کے لئے نہیں آتے مگر گاہے بگاہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ یاد ہی نہیں آتا مگر نیت و ارادے کے بغیر؛ اور زبان کی بدترین گناہ جھوٹ ہے اور بہترین بےنیازی دل کی بےنیازی ہے۔  
چھوٹی خواہش ـ جو ضرورت کو پورا کرے ـ اس خواہش سے بہتر ہے جو زیادہ ہو اور اللہ کی یاد سے غافل کردے؛ بدترین ([[توبہ]] اور) معذرت موت کے موقع پر کی جانے والی معذرت ہے اور بدترین ندامت و پشیمانی [[قیامت]] کی پشیمانی ہے؛ بعض لوگ وہ ہیں جو [[نماز جمعہ]] کے لئے نہیں آتے مگر گاہے بگاہے اور کچھ لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ یاد ہی نہیں آتا مگر نیت و ارادے کے بغیر؛ اور زبان کی بدترین گناہ جھوٹ ہے اور بہترین بےنیازی دل کی بےنیازی ہے۔


بہترین سفر خرچ تقوی اور پرہیزگاری اور حکمت کی اساس اللہ کا خوف ہے، دل میں پڑنے والی بہترین چیز یقین ہے اور شک و تردد کا تعلق [[کفر]] سے ہے؛ ایک دوسرے سے دوری کرنا جاہلیت کا عمل، ملاوٹ کرنا جہنم کی پیپ اور گندگی ہے؛ بدمستی (حالت نشہ) اگ کا انگارا اور شعر گوئی ابلیس سے ہے، شراب تمام گناہوں کا تھیلا، عورتیں شیطان کا جال، نوجوانی جنون کا ایک شعبہ ہے، بدترین کاروبار سودخوری اور بدترین کھانا مال یتیم کا کھانا ہے؛ نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ ہی سے بدبخت ہو؛ تم میں سے ہر ایک بالآخر چار زراع کے گھر (قبر) میں قرار پائے گا؛ ہر کام کرتے وقت اس کو انجام کو مد نظر رکھنا چاہئے اور ہر امر کا معیار اس کا انجام ہے، بدترین سودخوری، جھوٹ، ہے اور ہر مستقبل قریب ہے، مؤمن پر سب و شتم کرنا فسق اور اس کے ساتھ جنگ کرنا کفر اور اس کا گوشت کھانا (= غیبت کرنا) اللہ کی نافرمانی اور اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت جیسی ہے؛ اور جو اللہ پر [[توکل|بھروسا]] کرے وہی اس کے لئے کافی ہے اور جو صبر کرے کامیاب ہوتا ہے، جو دوسروں کے جرائم کو معاف کرے خدا اس کے جرائم کو معاف کرتا ہے اور جو غصہ پی لے خدا اس کو اجر دیتا ہے، جو مصیبت پر صبر کرتا ہے خدا اس کو اس کا صلہ دیتا ہے، جو اپنے فضائل عام کرنے کے درپے ہوتا خدا اس کی رسوائی کے اسباب فراہم کرتا ہے، اور جو اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرتا ہے خداوند متعال اس کے فضائل کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دیتا ہے اور جو نافرمانی کرے خدا اس کو عذاب دیتا ہے۔ خداوندا مجھے اور میری امت کو بخش دے، خداوندا مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ میں خداوند متعال سے اپنے اور تمہارے لئے مغفرت کی التجا کرتا ہوں}}</font>۔  
بہترین سفر خرچ تقوی اور پرہیزگاری اور حکمت کی اساس اللہ کا خوف ہے، دل میں پڑنے والی بہترین چیز یقین ہے اور شک و تردد کا تعلق [[کفر]] سے ہے؛ ایک دوسرے سے دوری کرنا جاہلیت کا عمل، ملاوٹ کرنا جہنم کی پیپ اور گندگی ہے؛ بدمستی (حالت نشہ) اگ کا انگارا اور شعر گوئی ابلیس سے ہے، شراب تمام گناہوں کا تھیلا، عورتیں شیطان کا جال، نوجوانی جنون کا ایک شعبہ ہے، بدترین کاروبار سودخوری اور بدترین کھانا مال یتیم کا کھانا ہے؛ نیک بخت وہ ہے جو دوسروں سے نصیحت حاصل کرے اور بدبخت وہ ہے جو ماں کے پیٹ ہی سے بدبخت ہو؛ تم میں سے ہر ایک بالآخر چار زراع کے گھر (قبر) میں قرار پائے گا؛ ہر کام کرتے وقت اس کو انجام کو مد نظر رکھنا چاہئے اور ہر امر کا معیار اس کا انجام ہے، بدترین سودخوری، جھوٹ، ہے اور ہر مستقبل قریب ہے، مؤمن پر سب و شتم کرنا فسق اور اس کے ساتھ جنگ کرنا کفر اور اس کا گوشت کھانا (= غیبت کرنا) اللہ کی نافرمانی اور اس کے مال کی حرمت اس کے خون کی حرمت جیسی ہے؛ اور جو اللہ پر [[توکل|بھروسا]] کرے وہی اس کے لئے کافی ہے اور جو صبر کرے کامیاب ہوتا ہے، جو دوسروں کے جرائم کو معاف کرے خدا اس کے جرائم کو معاف کرتا ہے اور جو غصہ پی لے خدا اس کو اجر دیتا ہے، جو مصیبت پر صبر کرتا ہے خدا اس کو اس کا صلہ دیتا ہے، جو اپنے فضائل عام کرنے کے درپے ہوتا خدا اس کی رسوائی کے اسباب فراہم کرتا ہے، اور جو اس سلسلے میں خاموشی اختیار کرتا ہے خداوند متعال اس کے فضائل کو زیادہ سے زیادہ پھیلا دیتا ہے اور جو نافرمانی کرے خدا اس کو عذاب دیتا ہے۔ خداوندا مجھے اور میری امت کو بخش دے، خداوندا مجھے اور میری امت کو بخش دے۔ میں خداوند متعال سے اپنے اور تمہارے لئے مغفرت کی التجا کرتا ہوں}}</font>۔




سطر 201: سطر 201:
بایں حال بعض روایات کے مطابق، [[روم]] کے فرمانروا نے اپنے نمائندے آپ(ص) کے پاس روانہ کئے جنہیں آپ(ص) نے محبت کے ساتھ قبول کیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔</ref> اسی دوران [[رسول اللہ(ص)]] نے [[دومۃ الجندل]] کے حاکم [[اکیدر بن عبدالملک کندی|اُکیدِر بن عبدالملک کِندی]]، نیز "اَذرُح"، "جربا" اور "اَیلہ" کے باشندوں کے ساتھ [[جزیہ]] کی ادائیگی کی شرط پر صلح کرلی۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1029ـ1032۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص37۔</ref>۔<ref>البلاذري، فتوح البلدان، ص59، 68۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص108ـ 109۔</ref>
بایں حال بعض روایات کے مطابق، [[روم]] کے فرمانروا نے اپنے نمائندے آپ(ص) کے پاس روانہ کئے جنہیں آپ(ص) نے محبت کے ساتھ قبول کیا۔<ref>رجوع کنید به البلاذري، انساب الاشراف، ج1، ص368۔</ref>۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص999۔</ref> اسی دوران [[رسول اللہ(ص)]] نے [[دومۃ الجندل]] کے حاکم [[اکیدر بن عبدالملک کندی|اُکیدِر بن عبدالملک کِندی]]، نیز "اَذرُح"، "جربا" اور "اَیلہ" کے باشندوں کے ساتھ [[جزیہ]] کی ادائیگی کی شرط پر صلح کرلی۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1029ـ1032۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج1، ص37۔</ref>۔<ref>البلاذري، فتوح البلدان، ص59، 68۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص108ـ 109۔</ref>


==مدینہ واپسی==  
==مدینہ واپسی==
[[رسول اللہ(ص)]] کے ماہ مبارک [[رمضان المبارک|رمضان]] سنہ 9 ہجری میں [[مدینہ]] تشریف فرما ہوئے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1056۔</ref>۔<ref>الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص68۔</ref>  
[[رسول اللہ(ص)]] کے ماہ مبارک [[رمضان المبارک|رمضان]] سنہ 9 ہجری میں [[مدینہ]] تشریف فرما ہوئے۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1056۔</ref>۔<ref>الیعقوبی، تاریخ، ج2، ص68۔</ref>


آنحضرت(ص) نے ان لوگوں کی قسم قبول کرلی جو مسلمان تھے لیکن [[منافقین]] کی افواہوں یا ذاتی اور خاندانی مسائل کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے؛ تاہم حکم دیا کہ تین افراد کا مقاطعہ کریں۔ ان افراد نے [[توبہ]] کرلی اور خدا نے ان کی [[توبہ]] قبول کرلی اور اسی مناسبت سے [[سورہ توبہ]] کی آیات 117 تا 119 نازل فرمائیں۔<ref>الزهري، المغازي النبوية، ص108ـ111۔</ref>۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1049ـ 1056۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص111۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابن قدامة، کتاب التوابین، ص94ـ101۔</ref>
آنحضرت(ص) نے ان لوگوں کی قسم قبول کرلی جو مسلمان تھے لیکن [[منافقین]] کی افواہوں یا ذاتی اور خاندانی مسائل کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے؛ تاہم حکم دیا کہ تین افراد کا مقاطعہ کریں۔ ان افراد نے [[توبہ]] کرلی اور خدا نے ان کی [[توبہ]] قبول کرلی اور اسی مناسبت سے [[سورہ توبہ]] کی آیات 117 تا 119 نازل فرمائیں۔<ref>الزهري، المغازي النبوية، ص108ـ111۔</ref>۔<ref>الواقدي، المغازي، ج3، ص1049ـ 1056۔</ref>۔<ref>الطبري، تاریخ الطبري، ج3، ص111۔</ref>۔<ref>نیز رجوع کریں: ابن قدامة، کتاب التوابین، ص94ـ101۔</ref>
سطر 226: سطر 226:
{{حوالہ جات|2}}
{{حوالہ جات|2}}
</div>
</div>
[[fa:غزوه تبوک]]
[[en:The Battle of Tabuk]]


==مآخذ==
==مآخذ==
سطر 289: سطر 286:
{{پیغمبر اسلام}}
{{پیغمبر اسلام}}
{{رسول خدا(ص) کے غزوات}}
{{رسول خدا(ص) کے غزوات}}
[[fa:غزوه تبوک]]
[[en:The Battle of Tabuk]]
[[es:Batalla de Tabuk]]


[[زمرہ:رسول اللہ]]
[[زمرہ:رسول اللہ]]
[[زمرہ:غزوات]]
[[زمرہ:غزوات]]
گمنام صارف