confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 41: | سطر 41: | ||
==پیغمبر خداؐ کا اصحاب کے ساتھ مشورہ== | ==پیغمبر خداؐ کا اصحاب کے ساتھ مشورہ== | ||
[[رسول خداؐ]] نے جمعہ کے روز دفاعی اقدامات کی کیفیت کے سلسلے میں [[صحابہ|اصحاب]] کے ساتھ مشورہ کیا۔ آپؐ چاہتے تھے کہ مسلمان [[مدینہ]] سے باہر نہ نکلیں۔ [[مہاجرین]] اور [[انصار]] کے اکابرین بھی یہی چاہتے تھے بالخصوص وہ لوگ جو شہر [[مدینہ]] کی سابقہ جنگوں کے تجربے کے پیش نظر، کہتے تھے کہ مسلمان شہر سے باہر نہ جائیں لیکن مسلم نوجوان، یہاں تک [[حمز بن عبد المطلب]] جیسے بزرگ صحابی کا اصرار تھا کہ جنگ شہر سے باہر لڑی جائے۔ آخرکار [[رسول خداؐ]] نے مؤخر الذکر اصحاب کی رائے قبول کی۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص210، | [[رسول خداؐ]] نے جمعہ کے روز دفاعی اقدامات کی کیفیت کے سلسلے میں [[صحابہ|اصحاب]] کے ساتھ مشورہ کیا۔ آپؐ چاہتے تھے کہ مسلمان [[مدینہ]] سے باہر نہ نکلیں۔ [[مہاجرین]] اور [[انصار]] کے اکابرین بھی یہی چاہتے تھے بالخصوص وہ لوگ جو شہر [[مدینہ]] کی سابقہ جنگوں کے تجربے کے پیش نظر، کہتے تھے کہ مسلمان شہر سے باہر نہ جائیں لیکن مسلم نوجوان، یہاں تک [[حمز بن عبد المطلب]] جیسے بزرگ صحابی کا اصرار تھا کہ جنگ شہر سے باہر لڑی جائے۔ آخرکار [[رسول خداؐ]] نے مؤخر الذکر اصحاب کی رائے قبول کی۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص210، 213؛ عروہ، مغازی رسول اللہ، 169ـ168۔</ref> | ||
==رسول خداؐ کی مدینہ سے روانگی== | ==رسول خداؐ کی مدینہ سے روانگی== | ||
[[رسول خداؐ]] ایک ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر [[مدینہ]] سے باہر نکلے،<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، | [[رسول خداؐ]] ایک ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر [[مدینہ]] سے باہر نکلے،<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص63؛ ابن اسحاق کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے لشکر میں 700 افراد شامل تھے: السیر و المغازی، ص326۔</ref> اور ایک رات [[مدینہ]] اور احد کے درمیانی علاقے "شیخان" میں منتظر رہے اور دوسرے دن صبح کے وقت دوبارہ روانہ ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1 ص218ـ216۔</ref> | ||
===عبداللہ بن ابی کا آپؐ سے الگ ہوجانا=== | ===عبداللہ بن ابی کا آپؐ سے الگ ہوجانا=== | ||
ابھی سپاہ اسلام کے مقام احد پر پہنچے تھوڑا سا ہی وقت گذرا ہوگا کہ [[عبداللہ بن ابی]]، نے اس بہانے مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی کہ [[مدینہ]] میں رہ کر لڑنے کے بارے میں اس کی دی ہوئی تجویز کو قبول نہیں کیا تھا۔ وہ ایک جماعت کو لے کر [[مدینہ]] پلٹا۔<ref>عروہ، مغازی رسول اللہ، | ابھی سپاہ اسلام کے مقام احد پر پہنچے تھوڑا سا ہی وقت گذرا ہوگا کہ [[عبداللہ بن ابی]]، نے اس بہانے مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی کہ [[مدینہ]] میں رہ کر لڑنے کے بارے میں اس کی دی ہوئی تجویز کو قبول نہیں کیا تھا۔ وہ ایک جماعت کو لے کر [[مدینہ]] پلٹا۔<ref>عروہ، مغازی رسول اللہ، ص169؛ زہری، المغازی النبویۃ، ص77؛ واقدی، المغازی، ج1، ص219؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج1 ص64۔</ref> اور مسلمانوں کی تعداد 1000 سے گھٹ کر 700 تک پہنچی۔ | ||
==جنگ کی تیاریاں== | ==جنگ کی تیاریاں== | ||
[[رسول خداؐ]] نے لشکر کو منظم اور مرتب کیا اور [[کوہ احد]] کی طرف پشت کرکے دشمن کے سامنے صف آرا ہوئے جبکہ اور [[عبداللہ بن جبیر]] کو تیراندازوں کا ایک دستہ دے کر [[کوہ عینین]] پر تعینات کیا جو احد کے بائیں جانب واقع ہے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220ـ219۔</ref> مشرکین نے بھی صف آرائی کی: میمنہ کی کمان [[خالد بن ولید]] کو جبکہ میسرہ کی کمان [[عکرمہ بن ابوجہل]] کے سپرد کی گئی<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220۔</ref> [[رسول خداؐ]] نے جنگ شروع ہونے سے قبل خطبہ دیا <ref>واقدی، المغازی، ج1، ص223ـ221۔</ref> اور تیراندازوں پر زور دیا کہ مسلمانوں کے عقبی مورچے کی سختی سے حفاظت کریں اور کسی صورت میں بھی اپنا مورچہ نہ چھوڑیں۔<ref>ابن اسحاق، السیر و المغازی، | [[رسول خداؐ]] نے لشکر کو منظم اور مرتب کیا اور [[کوہ احد]] کی طرف پشت کرکے دشمن کے سامنے صف آرا ہوئے جبکہ اور [[عبداللہ بن جبیر]] کو تیراندازوں کا ایک دستہ دے کر [[کوہ عینین]] پر تعینات کیا جو احد کے بائیں جانب واقع ہے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220ـ219۔</ref> مشرکین نے بھی صف آرائی کی: میمنہ کی کمان [[خالد بن ولید]] کو جبکہ میسرہ کی کمان [[عکرمہ بن ابوجہل]] کے سپرد کی گئی<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص220۔</ref> [[رسول خداؐ]] نے جنگ شروع ہونے سے قبل خطبہ دیا <ref>واقدی، المغازی، ج1، ص223ـ221۔</ref> اور تیراندازوں پر زور دیا کہ مسلمانوں کے عقبی مورچے کی سختی سے حفاظت کریں اور کسی صورت میں بھی اپنا مورچہ نہ چھوڑیں۔<ref>ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص326؛ واقدی، المغازی، ج1، ص225ـ224؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص66ـ65؛ بخاری، الصحیح البخاری، ج5، ص29؛ طبری، تاریخ، ج2، ص509۔</ref> | ||
==مسلمانوں کی ابتدائی فتح== | ==مسلمانوں کی ابتدائی فتح== | ||
جنگ شروع ہوئی تو مشرکین کے ایک جنگجو [[طلحہ بن ابی طلحہ]] نے مبارز طلبی کی۔ [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] میدان میں اترے اور اس کو گرا کر ہلاک کردیا چنانچہ مسلمان اس ابتدائی کامیابی سے مسرور ہوئے اور [[تکبیر]] کے نعرے لگا کر اچانک مشرکین کی صفوں پر حملہ آور ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص226ـ225۔</ref> مسلمان بہت تیزی سے مشرکین پر غالب آئے اور مشرکین فرار ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، | جنگ شروع ہوئی تو مشرکین کے ایک جنگجو [[طلحہ بن ابی طلحہ]] نے مبارز طلبی کی۔ [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] میدان میں اترے اور اس کو گرا کر ہلاک کردیا چنانچہ مسلمان اس ابتدائی کامیابی سے مسرور ہوئے اور [[تکبیر]] کے نعرے لگا کر اچانک مشرکین کی صفوں پر حملہ آور ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص226ـ225۔</ref> مسلمان بہت تیزی سے مشرکین پر غالب آئے اور مشرکین فرار ہوئے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص229؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص41ـ40۔</ref> | ||
==مسلمانوں کی شکست== | ==مسلمانوں کی شکست== | ||
جن تیر اندازوں کو لشکر اسلام کے بائیں جانب تعینات کیا گیا تھا [[غنیمت]] کی طمع کرکے اپنا مورچہ چھوڑ گئے اور ان کے سالار [[عبداللہ بن جبیر]] کا اصرار ـ جو انہیں [[رسول خداؐ]] کی فرمانبرداری کی دعوت دے رہے تھے ـ بےسود رہا۔ [[خالد بن ولید]] ـ جو اس سے پہلے بھی تیراندازوں کی تعیناتی کے مقام سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکا تھا۔<ref> واقدی، المغازی، ج1، ص229۔</ref> ـ اس بار درے کے اوپر باقیماندہ چند تیراندازوں پر حملہ کیا اور عکرمہ بھی [پسپائی کے بعد] خالد سے آملا تھا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، | جن تیر اندازوں کو لشکر اسلام کے بائیں جانب تعینات کیا گیا تھا [[غنیمت]] کی طمع کرکے اپنا مورچہ چھوڑ گئے اور ان کے سالار [[عبداللہ بن جبیر]] کا اصرار ـ جو انہیں [[رسول خداؐ]] کی فرمانبرداری کی دعوت دے رہے تھے ـ بےسود رہا۔ [[خالد بن ولید]] ـ جو اس سے پہلے بھی تیراندازوں کی تعیناتی کے مقام سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ناکام کوشش کرچکا تھا۔<ref> واقدی، المغازی، ج1، ص229۔</ref> ـ اس بار درے کے اوپر باقیماندہ چند تیراندازوں پر حملہ کیا اور عکرمہ بھی [پسپائی کے بعد] خالد سے آملا تھا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص232؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص42ـ41۔</ref> اور وہ سب مل کر مشرکین کے پیادوں کے تعاقب میں مصروف مسلمانوں پر پشت سے حملہ کیا۔ اسی اثناء میں کسی نے ندا دی کی [[رسول اللہ|پیغمبر خداؐ]] شہید ہوچکے ہیں۔<ref>زہری، المغازی النبویۃ، ص77؛ ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص27؛ واقدی، المغازی، ج1، ص232۔</ref> یہ خبر مسلمانوں کے حوصلے پست ہونے کا سبب بنی اور بعض نے تو پہاڑ کی پناہ لی۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص235۔</ref> مروی ہے کہ گھمسان کی لڑائی میں کئی مشرکوں نے [[رسول خداؐ]] کے قتل کی غرض سے حملے کئے جن کے نتیجے میں آپؐ کے دانت ٹوٹ گئے اور چہرہ مبارک زخمی ہوا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص244؛ زہری، المغازی النبویۃ، ص77؛ طبری، تاریخ، ج2 ص519۔</ref> جبکہ صرف چند صحابی میدان میں باقی تھے<ref> واقدی، المغازی، ج1 ص240۔</ref> اور [[رسول خداؐ]] کو متعدد چوٹ آئے تھے، آپؐ پہاڑ میں موجود دراڑ کی پناہ میں چلے گئے۔<ref>ابن اسحاق، السیر و المغازی، ص230؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص83؛ طبری، تاریخ، ج2، ص518۔</ref> | ||
[[شیخ مفید]] نے [[ابن مسعود]] سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں کی پریشانی اور افراتفری اس قدر بڑھ گئی کہ پورا لشکر بھاگ گیا اور [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کے سوا [[رسول اللہ]]ؐ کے قریب نہ رہا۔ جملہ لشکر بھاگ کیا اور بعد ازاں معدودے چند افراد آپؐ سے آملے جن میں سب سے پہلے [[عاصم بن ثابت]]، [[ابو دجانہ]] اور [[سہل بن حنیف]] آپؐ کی طرف آگئے۔<ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص256.۔</ref> | [[شیخ مفید]] نے [[ابن مسعود]] سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں کی پریشانی اور افراتفری اس قدر بڑھ گئی کہ پورا لشکر بھاگ گیا اور [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کے سوا [[رسول اللہ]]ؐ کے قریب نہ رہا۔ جملہ لشکر بھاگ کیا اور بعد ازاں معدودے چند افراد آپؐ سے آملے جن میں سب سے پہلے [[عاصم بن ثابت]]، [[ابو دجانہ]] اور [[سہل بن حنیف]] آپؐ کی طرف آگئے۔<ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص256.۔</ref> | ||
===حمزہ سید الشہداء کی شہادت=== | ===حمزہ سید الشہداء کی شہادت=== | ||
مشرکین نے اپنے ہتھیاروں سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور ان کی بڑی تعداد کو شہید کیا؛ سب سے زیادہ اہم [[رسول خداؐ]] کے چچا، [[حمزہ بن عبد المطلب]] تھے جس پر [[جبیر بن مطعم]] کے غلام وحشی نے نیزے کا وار کیا اور پھر ان کا سینہ چاک کیا اور ان کا کلیجہ نکال کر [[ابو سفیان]] کی بیوی ہند کے سپرد کیا جس کا باپ [[جنگ بدر]] میں حمزہ کے ہاتھوں ہلاک ہوچکا تھا۔ ہند بنت عتبہ نے حمزہ کا کلیجہ چپایا۔ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] حمزہ کی شہادت اور ان کے بدن کا مثلہ ہونے پر بہت زیادہ مغموم اور غضبناک ہوئے۔<ref>ابن اسحاق، السیر والمغازی، | مشرکین نے اپنے ہتھیاروں سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور ان کی بڑی تعداد کو شہید کیا؛ سب سے زیادہ اہم [[رسول خداؐ]] کے چچا، [[حمزہ بن عبد المطلب]] تھے جس پر [[جبیر بن مطعم]] کے غلام وحشی نے نیزے کا وار کیا اور پھر ان کا سینہ چاک کیا اور ان کا کلیجہ نکال کر [[ابو سفیان]] کی بیوی ہند کے سپرد کیا جس کا باپ [[جنگ بدر]] میں حمزہ کے ہاتھوں ہلاک ہوچکا تھا۔ ہند بنت عتبہ نے حمزہ کا کلیجہ چپایا۔ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] حمزہ کی شہادت اور ان کے بدن کا مثلہ ہونے پر بہت زیادہ مغموم اور غضبناک ہوئے۔<ref>ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص333ـ329؛ واقدی، المغازی، ج1، ص286ـ285، 290۔</ref> | ||
===شہداء کی تعداد=== | ===شہداء کی تعداد=== | ||
مسلمانوں نے اپنے شہداء کی تدفین کا اہتمام کیا اور [[رسول اللہ|پیغمبرؐ]] نے ایک ایک کرکے شہداء کی میتوں پر ـ جن کی تعداد 70 یا اس سے کچھ زیادہ تھی ـ<ref>ر.ک: واقدی، المغازی، ج1، ص328۔</ref> اور ہر بار یہی فرمایا کہ [[حمزہ بن عبد المطلب|حمزہ سید الشہداء]] کا جسم مطہر بھی ہر شہادت کے ساتھ رکھا جائے۔ اور یوں حمزہ کی میت پر 70 یا کچھ زیادہ، مرتبہ نماز پڑھی۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، | مسلمانوں نے اپنے شہداء کی تدفین کا اہتمام کیا اور [[رسول اللہ|پیغمبرؐ]] نے ایک ایک کرکے شہداء کی میتوں پر ـ جن کی تعداد 70 یا اس سے کچھ زیادہ تھی ـ<ref>ر.ک: واقدی، المغازی، ج1، ص328۔</ref> اور ہر بار یہی فرمایا کہ [[حمزہ بن عبد المطلب|حمزہ سید الشہداء]] کا جسم مطہر بھی ہر شہادت کے ساتھ رکھا جائے۔ اور یوں حمزہ کی میت پر 70 یا کچھ زیادہ، مرتبہ نماز پڑھی۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص97؛ واقدی المغازی، ج1 ص310؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص44؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص336۔</ref> شہدائے احد ـ جنہیں کوہ احد کے دامن میں سپرد خاک کیا گیا ہے ـ کے اسماء قدیم کتب میں بیان ہوئے ہیں۔ مشرکین میں سے بھی 20 سے کچھ زائد افراد مارے گئے۔ | ||
===ابو سفیان کا موقف=== | ===ابو سفیان کا موقف=== | ||
بالآخر دو لشکر ایک دوسرے سے جدا ہوئے، [[ابو سفیان]] دامن کوہ کے قریب آیا ـ جہاں مسلمان موجود تھے ـ اور بتوں کی ثناگوئی کرتے ہوئے یوم احد کو [[غزوہ بدر|یوم بدر]] کے برابر قرار دیا۔<ref>زہری، المغازی النبویۃ، | بالآخر دو لشکر ایک دوسرے سے جدا ہوئے، [[ابو سفیان]] دامن کوہ کے قریب آیا ـ جہاں مسلمان موجود تھے ـ اور بتوں کی ثناگوئی کرتے ہوئے یوم احد کو [[غزوہ بدر|یوم بدر]] کے برابر قرار دیا۔<ref>زہری، المغازی النبویۃ، ص78؛ ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص333ـ329؛ واقدی، المغازی، ج1 ص297ـ296؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص327۔</ref> | ||
==جنگ کی تاریخ== | ==جنگ کی تاریخ== | ||
غزوہ احد بروز شنبہ، 7 [[شوال المکرم|شوال]] سنہ 3 ہجری ـ بمطابق 23 مارچ سنہ 625 عیسوی، انجام پایا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، | غزوہ احد بروز شنبہ، 7 [[شوال المکرم|شوال]] سنہ 3 ہجری ـ بمطابق 23 مارچ سنہ 625 عیسوی، انجام پایا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص199؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص36؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص312ـ311۔</ref> تاہم بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ 15 شوال کے دن ہوئی ہے۔<ref>ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص324؛ ابن حبیب، المحبر، ص113ـ112؛ طبری، تاریخ، ج2، ص534۔</ref> | ||
==آیات کریمہ کا نزول== | ==آیات کریمہ کا نزول== | ||
منابع و مآخذ جنگ احد کی شان میں نازل ہونے والی کئی آیات کریمہ ـ منجملہ: [[سورہ آل عمران]] کی آیات 121 سے 129 تک، ـ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص319 اور بعد کے | منابع و مآخذ جنگ احد کی شان میں نازل ہونے والی کئی آیات کریمہ ـ منجملہ: [[سورہ آل عمران]] کی آیات 121 سے 129 تک، ـ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص319 اور بعد کے صفحات؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج2، ص106 اور بعد کے صفحات؛ طبری، تفسیر، ج4، ص45 بہ بعد۔</ref> نیز اس جنگ کے بارے میں متعدد [[احادیث]] [رسول اللہؐ]] سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>بخاری، صحیح البخاری، ج5، ص40ـ39؛ البکری، معجم ما استعجم، ج1، ص117۔</ref> [[رسول اللہؐ]] غزوہ احد کے بعد کبھی کبھی شہدائے احد کے مزار پر حاضری دیتے تھے۔<ref>بخاری، صحیح البخاری، ج5، ص29۔</ref> اور اس کے بعد بھی جو لوگ [[مدینہ]] کے سفر پر جاتے تھے، شہدائے احد کی زیارت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ | ||
==غزوہ احد میں [[امیرالمؤمنین]] ؑ کا کردار== | ==غزوہ احد میں [[امیرالمؤمنین]] ؑ کا کردار== | ||
تمام مؤرخین و محدثین کا اتفاق ہے کہ [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کا کردار دوسری جنگوں کی مانند، بے مثل و بےنظیر تھا۔ اس سلسلے میں منقولہ روایات میں سے چند روایات درج ذیل ہیں: | تمام مؤرخین و محدثین کا اتفاق ہے کہ [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کا کردار دوسری جنگوں کی مانند، بے مثل و بےنظیر تھا۔ اس سلسلے میں منقولہ روایات میں سے چند روایات درج ذیل ہیں: | ||
# آپ ؑ [[رسول خداؐ]] کے علمبردار تھے۔<ref>ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج42 | # آپ ؑ [[رسول خداؐ]] کے علمبردار تھے۔<ref>ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج42 ص72؛ طبرسی، إعلام الوری، ج1 ص374۔</ref> | ||
عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی، ص186۔</ref> اور بقولے [[مہاجرین]] کا پرچم سنبھالئے ہوئے تھے۔ <ref>مفید، الإرشاد، ج1 | عمادالدین طبری، بشارۃ المصطفی، ص186۔</ref> اور بقولے [[مہاجرین]] کا پرچم سنبھالئے ہوئے تھے۔ <ref>مفید، الإرشاد، ج1 ص80؛ واقدی، المغازی، ج1 ص215؛ طبری، تاریخ الطبری، ج2 ص516۔</ref> | ||
# مشرکین کا پرچمدار طلحہ بن طلحہ آپ ؑ کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ <ref>واقدی، المغازی، ج1، ص226۔ | # مشرکین کا پرچمدار طلحہ بن طلحہ آپ ؑ کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ <ref>واقدی، المغازی، ج1، ص226۔ | ||
طبری، تاریخ الطبری، ج2، | طبری، تاریخ الطبری، ج2، ص509؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویّۃ، ج3، ص158۔</ref> افراد نے یکے بعد دیگرے مشرکین کا پرچم اٹھایا جو آپ ؑ کے ہاتھوں مارے گئے؛ جس کے بعد مشرکین کا پرچم لہراتا نظر نہيں آیا۔<ref>مفید، الإرشاد: 88/1؛ طبری، عمادالدین، بشارۃ المصطفی، ص186؛ طبری، تاریخ الطبری: 514/2۔</ref> | ||
# خالد بن ولید کے حملے کے بعد سپاہ اسلام کی اکثریت نے فرار کی راہ اپنائی تو آپ ؑ نے [[رسول اللہؐ]] کی جان کا تحفظ کیا۔<ref> تاریخ الطبری: 518/ | # خالد بن ولید کے حملے کے بعد سپاہ اسلام کی اکثریت نے فرار کی راہ اپنائی تو آپ ؑ نے [[رسول اللہؐ]] کی جان کا تحفظ کیا۔<ref> تاریخ الطبری: 518/2؛ واقدی، المغازی، ج1، ص240؛ مفید، الإرشاد، ج1، ص82۔</ref> | ||
# [[ابن اسحق]] کی روایت کے مطابق اس جنگ میں 22 مشرکین ہلاک ہوئے <ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویّۃ، ج3، ص135۔</ref> جن میں سے 12 افراد کو آپ ؑ نے ہلاک کیا۔<ref>مفید، الإرشاد، ج1، ص91۔</ref> | # [[ابن اسحق]] کی روایت کے مطابق اس جنگ میں 22 مشرکین ہلاک ہوئے <ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویّۃ، ج3، ص135۔</ref> جن میں سے 12 افراد کو آپ ؑ نے ہلاک کیا۔<ref>مفید، الإرشاد، ج1، ص91۔</ref> | ||
# [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کی جانفشانی دیکھ کر [[جبرائیل]] نے آپ ؑ کی تعریف و تمجید کی اور ان کی مشہور ملکوتی ندا "'''لا سیفَ إلّا ذوالفقارِ ولا فتی إلّا علیٌّ'''" کی صدائے بازگشت میدان احد میں ہی سنائی دی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج2، | # [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کی جانفشانی دیکھ کر [[جبرائیل]] نے آپ ؑ کی تعریف و تمجید کی اور ان کی مشہور ملکوتی ندا "'''لا سیفَ إلّا ذوالفقارِ ولا فتی إلّا علیٌّ'''" کی صدائے بازگشت میدان احد میں ہی سنائی دی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج2، ص514؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص552؛ کلینی، الکافی، ج8 ص90-110۔</ref> | ||
# اس جنگ میں آپ ؑ کے جسم پر لگے زخموں کی تعداد 90 تک پہنچی۔<ref>قمی، تفسیر القمّی، ج1، | # اس جنگ میں آپ ؑ کے جسم پر لگے زخموں کی تعداد 90 تک پہنچی۔<ref>قمی، تفسیر القمّی، ج1، ص116؛ طبرسی، مجمع البیان، ج2، ص826؛ الخرائج والجرائح، ج1، صص235-148۔</ref> | ||
# آپ ؑ ہی کی استقامت کی وجہ سے ہزیمت زدہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک بار پھر [[رسول خداؐ کے گرد مجتمع ہوئی۔ <ref>مفید، الإرشاد، ج1 | # آپ ؑ ہی کی استقامت کی وجہ سے ہزیمت زدہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک بار پھر [[رسول خداؐ کے گرد مجتمع ہوئی۔ <ref>مفید، الإرشاد، ج1 ص91؛ اربلی، کشف الغمّۃ، ج1، ص196؛ ابن ہشام، السیرۃ النبویّۃ، 159/3۔</ref> | ||
# جب آپ ؑ کا ہاتھ ٹوٹ گیا اور پرچم گر گیا تو [[رسول خداؐ]] نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ پرچم آپ ؑ کے بائیں ہاتھ میں دیں کیونکہ وہ دنیا اور [[آخرت]] میں میرے علمدار ہیں۔ <ref>ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب: 299/3۔</ref> | # جب آپ ؑ کا ہاتھ ٹوٹ گیا اور پرچم گر گیا تو [[رسول خداؐ]] نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ پرچم آپ ؑ کے بائیں ہاتھ میں دیں کیونکہ وہ دنیا اور [[آخرت]] میں میرے علمدار ہیں۔ <ref>ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب: 299/3۔</ref> | ||
# [[جبرائیل]] نے [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کے جہاد کی طرف اشارہ کرکے [[رسول اللہؐ]] کی خدمت میں عرض کیا کہ "یہ جانفشانی ہے"، تو آپؐ نے فرمایا: "''وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں"، [[جبرائیل]] نے عرض کیا "میں بھی آپ سے ہوں اے [[رسول خداؐ|رسول خدا]]۔ <ref>طبرانی، المعجم الکبیر، ج1، ص318، | # [[جبرائیل]] نے [[امیرالمؤمنین|علی ؑ]] کے جہاد کی طرف اشارہ کرکے [[رسول اللہؐ]] کی خدمت میں عرض کیا کہ "یہ جانفشانی ہے"، تو آپؐ نے فرمایا: "''وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں"، [[جبرائیل]] نے عرض کیا "میں بھی آپ سے ہوں اے [[رسول خداؐ|رسول خدا]]۔ <ref>طبرانی، المعجم الکبیر، ج1، ص318، ح941؛ ابن حنبل، فضائل الصحابۃ، ج2، ص657، ح1119؛ الطبرسي، احمد بن علی، الاحتجاج، الاحتجاج، ج2 ص165۔</ref> | ||
==متعلقہ مآخذ== | ==متعلقہ مآخذ== |