گمنام صارف
"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←قرآن
imported>Mabbassi م (←قرآن) |
imported>Mabbassi م (←قرآن) |
||
سطر 208: | سطر 208: | ||
===='''[[قرآن]]'''==== | ===='''[[قرآن]]'''==== | ||
<font color=green> | <font color=green> | ||
*{{حدیث|'''وماکانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون'''}}<ref>سورہ توبہ 122۔</ref></font><br/> | |||
ترجمہ : اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔ | ترجمہ : اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔ | ||
خداوند کریم نے اس [[آیت]] میں (1)لفظ "لولا" کے ذریعے مومنین کو ترغیب دی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے نکلے؛(2)اس جماعت پر واجب ہے کہ وہ واپسی پر مؤمنین کو انذار (ڈرانا) کرے ۔(3) جس چیز سے انذار کیا گیا اسے جان لینے بعد [[حکم]] الہی کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہوئے بچنا واجب ہے اگر ایسا نہ ہو تو وجوب انذار کی لغویت لازم آتی ہے نیز عرف وجوب انذار اور انذار کے بعد بچنے کے درمیان ملازمے کا لحاظ کرتا ہے ۔(4) [[مجتہد]] کا فتوی اس انذار کا ایک مصداق ہے ۔لہذا اس پر عمل کرنا بھی واجب ہے تا کہ اس پر عمل کر کے مخالفت الہی سے بچا جائے ۔<ref>مدارک العروۃ الوثقی ،بیار جمندی،ج1 ص 6۔</ref>۔ | خداوند کریم نے اس [[آیت]] میں: | ||
(1)لفظ "لولا" کے ذریعے مومنین کو ترغیب دی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے نکلے؛(2)اس جماعت پر واجب ہے کہ وہ واپسی پر مؤمنین کو انذار (ڈرانا) کرے ۔(3) جس چیز سے انذار کیا گیا اسے جان لینے بعد [[حکم]] الہی کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہوئے بچنا واجب ہے اگر ایسا نہ ہو تو وجوب انذار کی لغویت لازم آتی ہے نیز عرف وجوب انذار اور انذار کے بعد بچنے کے درمیان ملازمے کا لحاظ کرتا ہے ۔(4) [[مجتہد]] کا فتوی اس انذار کا ایک مصداق ہے ۔لہذا اس پر عمل کرنا بھی واجب ہے تا کہ اس پر عمل کر کے مخالفت الہی سے بچا جائے ۔<ref>مدارک العروۃ الوثقی ،بیار جمندی،ج1 ص 6۔</ref>۔ | |||
<font color=green> | <font color=green> | ||
*{{حدیث|'''فَسـئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون'''}}<ref>سورہ نحل 43 ؛ سورہ انبیاء 7۔</ref></font><br/> | |||
پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔ | پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔ | ||
خدا وند کریم نے جہالت کی صورت میں اہل ذکر (یعنی علماء) سے سوال کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] دیا ہے اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ سوال کرنا عمل کیلئے مقدمہ ہے پس آیت کا یہ معنی ہے کہ تم اہل ذکر سے سوال کرو تا کہ ان کے جواب کے مطابق عمل کرو ۔یہاں یہ کہنا کہ آیت میں تو صرف سوال کرنے حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، یہ درست نہیں کیونکہ اہل ذکر سے صرف سوال کرنے کا حکم دینا اور انکے جواب پر عمل کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] نہ ہو تو ایسے سوال کرنے کا حکم دینا لغو اور عبث ہے اور خدا کا عبث کام کا حکم دینا قبیح ہے ۔ پس عالم کا فتوی جاہل کیلئے حجت ہے اگر وہ حجت نہ ہو تو جاہل کو عالم سے سے پوچھنے کا [[حکم]] دینے کا لغو ہونا لازم آتا ہے ۔شان نزول کی وجہ سے صرف اہل کتاب کے علماء مراد لینا درست نہیں جیسا کہ شان نزول میں ذکر کیا گیا ہے چونکہ شان نزول مخصص نہیں ہوتا ہے نیز یہ کہنا کہ : آیت کہہ رہی کہ نہ جاننے کی صرت میں اہل ذکر سے پوچھو تا کہ تمہیں علم حاصل ہو جائے ،بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ فہم عرفی کے خلاف ہے چونکہ یہاں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی مانند ہے۔ مریض کا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے مقصود صرف بیماری کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کے مطابق عمل کرنا مقصود ہوتا ہے ۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی ، الاجتہاد و التقلید ص 88 و 89۔</ref> | خدا وند کریم نے جہالت کی صورت میں اہل ذکر (یعنی علماء) سے سوال کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] دیا ہے اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ سوال کرنا عمل کیلئے مقدمہ ہے پس آیت کا یہ معنی ہے کہ تم اہل ذکر سے سوال کرو تا کہ ان کے جواب کے مطابق عمل کرو ۔یہاں یہ کہنا کہ آیت میں تو صرف سوال کرنے حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، یہ درست نہیں کیونکہ اہل ذکر سے صرف سوال کرنے کا حکم دینا اور انکے جواب پر عمل کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] نہ ہو تو ایسے سوال کرنے کا حکم دینا لغو اور عبث ہے اور خدا کا عبث کام کا حکم دینا قبیح ہے ۔ پس عالم کا فتوی جاہل کیلئے حجت ہے اگر وہ حجت نہ ہو تو جاہل کو عالم سے سے پوچھنے کا [[حکم]] دینے کا لغو ہونا لازم آتا ہے ۔شان نزول کی وجہ سے صرف اہل کتاب کے علماء مراد لینا درست نہیں جیسا کہ شان نزول میں ذکر کیا گیا ہے چونکہ شان نزول مخصص نہیں ہوتا ہے نیز یہ کہنا کہ : آیت کہہ رہی کہ نہ جاننے کی صرت میں اہل ذکر سے پوچھو تا کہ تمہیں علم حاصل ہو جائے ،بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ فہم عرفی کے خلاف ہے چونکہ یہاں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی مانند ہے۔ مریض کا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے مقصود صرف بیماری کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کے مطابق عمل کرنا مقصود ہوتا ہے ۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی ، الاجتہاد و التقلید ص 88 و 89۔</ref> |