مندرجات کا رخ کریں

"اجتہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

311 بائٹ کا اضافہ ،  27 مارچ 2015ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 204: سطر 204:
*اجزا( کافی ہونا) کی بحث بھی اجتہاد کے وضعی احکام میں سے ہے ۔مخطئہ مجتہد اپنے اجتہاد کی بنا پر ایک حکم شرعی بیان کرتا ہے ۔مجتہد اور اس کی تقلید کرنے والے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔کچھ عرصے بعد مجتہد کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے ۔یہاں اجزا کی بحث کی جاتی ہے کہ پہلی رائے کے مطابق انجام کیے گئے اعمال دوبارہ اس نئے حکم کے مطابق انجام دینا چاہیے یا وہی پہلے والے کافی ہیں ۔
*اجزا( کافی ہونا) کی بحث بھی اجتہاد کے وضعی احکام میں سے ہے ۔مخطئہ مجتہد اپنے اجتہاد کی بنا پر ایک حکم شرعی بیان کرتا ہے ۔مجتہد اور اس کی تقلید کرنے والے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔کچھ عرصے بعد مجتہد کی رائے تبدیل ہو جاتی ہے ۔یہاں اجزا کی بحث کی جاتی ہے کہ پہلی رائے کے مطابق انجام کیے گئے اعمال دوبارہ اس نئے حکم کے مطابق انجام دینا چاہیے یا وہی پہلے والے کافی ہیں ۔
=== فتوے  کی حجیت ===
=== فتوے  کی حجیت ===
علماء نے مجتہد کے فتوے کی حجیت کے دلائل ذکر کرتے ہوئے قرآن، احادیث،سیرت اور عقل سے دلائل ذکر کئے ہیں:
علماء نے [[مجتہد]] کے فتوے کی حجیت کے دلائل ذکر کرتے ہوئے [[قرآن]]، احادیث،سیرت اور عقل سے دلائل ذکر کئے ہیں:
===='''قرآن'''====
===='''[[قرآن]]'''====
<font color=green>
<font color=green>
{{حدیث|'''و‌ما‌کانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون'''}}
{{حدیث|'''و‌ما‌کانَ المُؤمِنونَ لِینفِروا کافَّةً فَلَولا نَفَرَ مِن کلِّ فِرقَة مِنهُم طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهوا فِی الدّینِ ولِینذِروا قَومَهُم اِذا رَجَعوا اِلَیهِم لَعَلَّهُم یحذَرون'''}}
سطر 211: سطر 211:
ترجمہ : اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔<ref>سورہ توبہ 122۔</ref>
ترجمہ : اور یہ نہیں ہو سکتا کہ سب کے سب مؤمنین نکل کھڑے ہوں، پھر کیوں نہ ہر گروہ میں ایک جماعت نکلے تا کہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب وہ واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تا کہ وہ ہلاکت سے بچے رہیں۔<ref>سورہ توبہ 122۔</ref>


خداوند کریم نے اس آیت میں (1)لفظ "لولا" کے ذریعے مومنین کو ترغیب دی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے نکلے؛(2)اس جماعت پر واجب ہے کہ وہ واپسی پر مؤمنین کو انذار (ڈرانا) کرے ۔(3) جس چیز سے انذار کیا گیا اسے جان لینے بعد حکم الہی کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہوئے بچنا واجب ہے اگر ایسا نہ ہو تو وجوب انذار کی لغویت لازم آتی ہے  نیز عرف وجوب انذار اور انذار کے بعد بچنے کے درمیان ملازمے کا لحاظ کرتا ہے ۔(4) مجتہد کا فتوی اس انذار کا ایک مصداق ہے ۔لہذا اس پر عمل کرنا بھی واجب ہے تا کہ اس پر عمل کر کے مخالفت الہی سے بچا جائے ۔<ref>مدارک العروۃ الوثقی ،بیار جمندی،ج1 ص 6۔</ref>۔
خداوند کریم نے اس [[آیت]] میں (1)لفظ "لولا" کے ذریعے مومنین کو ترغیب دی ہے کہ ان میں سے ایک جماعت دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے نکلے؛(2)اس جماعت پر واجب ہے کہ وہ واپسی پر مؤمنین کو انذار (ڈرانا) کرے ۔(3) جس چیز سے انذار کیا گیا اسے جان لینے بعد [[حکم]] الہی کی وجہ سے اس پر عمل کرتے ہوئے بچنا واجب ہے اگر ایسا نہ ہو تو وجوب انذار کی لغویت لازم آتی ہے  نیز عرف وجوب انذار اور انذار کے بعد بچنے کے درمیان ملازمے کا لحاظ کرتا ہے ۔(4) [[مجتہد]] کا فتوی اس انذار کا ایک مصداق ہے ۔لہذا اس پر عمل کرنا بھی واجب ہے تا کہ اس پر عمل کر کے مخالفت الہی سے بچا جائے ۔<ref>مدارک العروۃ الوثقی ،بیار جمندی،ج1 ص 6۔</ref>۔
<font color=green>
<font color=green>
{{حدیث|'''فَسـئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون'''}}
{{حدیث|'''فَسـئَلوا اَهلَ الذِّكرِ اِن كُنتُم لاتَعلَمون'''}}
</font><br/>
</font><br/>
پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔<ref>سورہ نحل 43  ؛ سورہ انبیاء 7۔</ref>
پس اگر تم نہیں جانتے ہو تو تم اہل ذکر سے سوال کرو۔<ref>سورہ نحل 43  ؛ سورہ انبیاء 7۔</ref>
خدا وند کریم نے جہالت کی صورت میں اہل ذکر (یعنی علماء) سے سوال کرنے کا وجوبی حکم دیا  ہے اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ سوال کرنا عمل کیلئے مقدمہ ہے پس آیت کا یہ معنی ہے کہ تم اہل ذکر سے سوال کرو تا کہ ان کے جواب کے مطابق عمل کرو ۔یہاں یہ کہنا کہ آیت میں تو صرف سوال کرنے حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، یہ درست نہیں کیونکہ  اہل ذکر سے صرف سوال کرنے کا حکم دینا اور انکے جواب پر عمل کرنے کا وجوبی حکم نہ ہو تو ایسے سوال کرنے کا حکم دینا لغو اور عبث ہے اور خدا کا عبث کام کا حکم دینا قبیح ہے ۔ پس عالم کا فتوی جاہل کیلئے حجت ہے اگر وہ حجت نہ ہو تو جاہل کو عالم سے سے پوچھنے کا حکم دینے کا لغو ہونا لازم آتا ہے ۔شان نزول کی وجہ سے صرف اہ کتاب کے علماء مراد لینا درست نہیں چونکہ شان نزول مخصص نہیں ہوتا ہے نیز یہ کہنا کہ : آیت کہہ رہی کہ نہ جاننے کی صرت میں اہل ذکر سے پوچھو تا کہ تمہیں علم حاصل ہو جائے ،بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ فہم عرفی کے خلاف ہے چونکہ یہاں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی مانند ہے۔ مریض کا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے مقصود صرف بیماری کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کے مطابق عمل کرنا مقصود ہوتا ہے ۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی ، الاجتہاد و التقلید ص 88 و 89۔</ref>
خدا وند کریم نے جہالت کی صورت میں اہل ذکر (یعنی علماء) سے سوال کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] دیا  ہے اور آیت کا ظاہر یہ ہے کہ سوال کرنا عمل کیلئے مقدمہ ہے پس آیت کا یہ معنی ہے کہ تم اہل ذکر سے سوال کرو تا کہ ان کے جواب کے مطابق عمل کرو ۔یہاں یہ کہنا کہ آیت میں تو صرف سوال کرنے حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ، یہ درست نہیں کیونکہ  اہل ذکر سے صرف سوال کرنے کا حکم دینا اور انکے جواب پر عمل کرنے کا [[وجوبی]] [[حکم]] نہ ہو تو ایسے سوال کرنے کا حکم دینا لغو اور عبث ہے اور خدا کا عبث کام کا حکم دینا قبیح ہے ۔ پس عالم کا فتوی جاہل کیلئے حجت ہے اگر وہ حجت نہ ہو تو جاہل کو عالم سے سے پوچھنے کا [[حکم]] دینے کا لغو ہونا لازم آتا ہے ۔شان نزول کی وجہ سے صرف اہل کتاب کے علماء مراد لینا درست نہیں جیسا کہ شان نزول میں ذکر کیا گیا ہے  چونکہ شان نزول مخصص نہیں ہوتا ہے نیز یہ کہنا کہ : آیت کہہ رہی کہ نہ جاننے کی صرت میں اہل ذکر سے پوچھو تا کہ تمہیں علم حاصل ہو جائے ،بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ فہم عرفی کے خلاف ہے چونکہ یہاں جاہل کا عالم کی طرف رجوع کرنا مریض کے ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے کی مانند ہے۔ مریض کا ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنے سے مقصود صرف بیماری کو جاننا نہیں ہوتا بلکہ ڈاکٹر کے بتائے ہوئے کے مطابق عمل کرنا مقصود ہوتا ہے ۔<ref>التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی ، الاجتہاد و التقلید ص 88 و 89۔</ref>


====احادیث ====
====احادیث ====
سطر 235: سطر 235:
'''تیسرا گروہ''': ایسی روایات کا ہے جن میں علم کے بغیر فتوی دینے اور [[قیاس ،[[استحسان]] وغیرہ کے ذریعے قضاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے ایسی روایات کی کثیر تعداد موجود ہے ۔ گویا [[آئمہ طاہرین]] کی یہ روایات ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق فتوی دینے کے جواز کو بیان کرتی ہیں۔
'''تیسرا گروہ''': ایسی روایات کا ہے جن میں علم کے بغیر فتوی دینے اور [[قیاس ،[[استحسان]] وغیرہ کے ذریعے قضاوت کرنے سے منع کیا گیا ہے ایسی روایات کی کثیر تعداد موجود ہے ۔ گویا [[آئمہ طاہرین]] کی یہ روایات ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق فتوی دینے کے جواز کو بیان کرتی ہیں۔


====سیرت عقلاء====
====[[سیرت عقلاء]]====
دنیا کے عقلاء کی سیرت رہی ہے کہ جاہل عالم کی طرف رجوع کرتا ہے اسی طرح مریض علاج کیلئے طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب عقلاء کی یہ سیرت رہی اور شارع کی طرف سے کوئی ممنوعیت بھی نہیں آئی ہے تو اس سے کشف کرتے ہیں کہ اس نے اس کی اجازت دی ہے اور وہ اس رجوع پر راضی ہے ۔
دنیا کے عقلاء کی سیرت رہی ہے کہ جاہل عالم کی طرف رجوع کرتا ہے اسی طرح مریض علاج کیلئے طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب عقلاء کی یہ سیرت رہی اور شارع کی طرف سے کوئی ممنوعیت بھی نہیں آئی ہے تو اس سے کشف کرتے ہیں کہ اس نے اس کی اجازت دی ہے اور وہ اس رجوع پر راضی ہے ۔


'''اعتراض''' :عقلاء کی یہ سیرت اور عمل اس وقت حجت ہے جب اس پر شارع کی رضایت موجود ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ سیرت نسل عن نسل آئمہ کے زمانے تک منتہی ہوتی ہو  جبکہ یہ سیرت آئمہ کے زمانے تک منتہی نہیں ہوتی ہے کیونکہ علم فقہ ہمارے زمانے کے علوم نظری میں سے ہے کہ جس میں فقیہ اپنے اجتہاد کے ذریعے ایک ظنی حکم کو حاصل کرتا ہے لہذا جاہل اس عالم کی طرف رجوع کرتا ہے کہ جس کا علم ظنی اجتہاد پر موقوف ہوتا ہے  جبکہ اصحاب آئمہ کا علم وجدانی ہوتا تھا چونکہ وہ آئمہ]] سے  خود ملاقات کے ذریعے علم حاصل کرتے تھے لہذا اصحاب [[آئمہ]] کا آج کے زمانے کی مانند [[اجتہاد]] ظنی نہیں تھا اس وجہ سے ان کے زمانے کے جاہل کا عالم کی طرف رجوع بھی آج کے زمانے کے جاہل کے عالم کی طرف رجوع کی مانند نہیں ہے ۔ پس جس سیرت کے آپ مدعی ہیں وہ آئمہ کے زمانے میں موجود نہیں ہے اور جو سیرت [[آئمہ]] کے زمانے میں موجود تھی اور اس پہ [[آئمہ]] کی رضایت موجود تھی وہ آپ کے پاس نہیں ہے اس وجہ سے اس سیرت پہ شارع کی رضایت موجود نہیں ہے ۔ پس یہ سیرت عقلاء [[آئمہ]] کی رضایت کے نہ ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے ۔
'''اعتراض''' :عقلاء کی یہ سیرت اور عمل اس وقت حجت ہے جب اس پر شارع کی رضایت موجود ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ سیرت نسل عن نسل آئمہ کے زمانے تک منتہی ہوتی ہو  جبکہ یہ سیرت آئمہ کے زمانے تک منتہی نہیں ہوتی ہے کیونکہ علم فقہ ہمارے زمانے کے علوم نظری میں سے ہے کہ جس میں فقیہ اپنے اجتہاد کے ذریعے ایک ظنی حکم کو حاصل کرتا ہے لہذا جاہل اس عالم کی طرف رجوع کرتا ہے کہ جس کا علم ظنی اجتہاد پر موقوف ہوتا ہے  جبکہ اصحاب آئمہ کا علم وجدانی ہوتا تھا چونکہ وہ [[آئمہ]] سے  خود ملاقات کے ذریعے علم حاصل کرتے تھے لہذا اصحاب [[آئمہ]] کا آج کے زمانے کی مانند [[اجتہاد]] ظنی نہیں تھا اس وجہ سے ان کے زمانے کے جاہل کا عالم کی طرف رجوع بھی آج کے زمانے کے جاہل کے عالم کی طرف رجوع کی مانند نہیں ہے ۔ پس جس سیرت کے آپ مدعی ہیں وہ آئمہ کے زمانے میں موجود نہیں ہے اور جو سیرت [[آئمہ]] کے زمانے میں موجود تھی اور اس پہ [[آئمہ]] کی رضایت موجود تھی وہ آپ کے پاس نہیں ہے اس وجہ سے اس سیرت پہ شارع کی رضایت موجود نہیں ہے ۔ پس یہ سیرت عقلاء [[آئمہ]] کی رضایت کے نہ ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے ۔


'''جواب ''':
'''جواب ''':
سطر 258: سطر 258:


کچھ ایسی احادیث ہیں جن میں متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے مثلا :
کچھ ایسی احادیث ہیں جن میں متشابہات کو محکمات کی طرف لوٹانے کا حکم دیا گیا ہے مثلا :
<font color=blue>{{حدیث|'''من رد متشابہ [[القرآن]] الي محكمه فقد ھدی الی صراط مستقیم ثم قال : ان فی اخبارنا محکما کمحکم [[القرآن]] ، متشابھا کمتشابہ [[القرآن]] ، فردوا متشابھھا الی محکمھا ، و لا تتبعوا متشابھھا دون محکمھا فتضلوا'''}}</font><ref>عیون اخبار الرضا ،شیخ صدوق،ج1 ص 290 ش39۔</ref>جس نے متشابہ کو محکمہ کی طرف پلٹایا تو اس نے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی ہے۔ پھر فرمایا :ہماری احادیث بھی [[قرآن]] کی  مانند متشابہ اور محکمات  ہیں پس تم متشابہ کو محکمات کی طرف لوٹاؤ اور محکمات (کی طرف لوٹائے) بغیر  متشابہ کی پیروی نہ کرو اگر ایسا کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔
<font color=blue>{{حدیث|'''من رد متشابہ القرآن الي محكمه فقد ھدی الی صراط مستقیم ثم قال : ان فی اخبارنا محکما کمحکم [[القرآن]] ، متشابھا کمتشابہ القرآن ، فردوا متشابھھا الی محکمھا ، و لا تتبعوا متشابھھا دون محکمھا فتضلوا'''}}</font><ref>عیون اخبار الرضا ،شیخ صدوق،ج1 ص 290 ش39۔</ref>جس نے متشابہ کو محکمہ کی طرف پلٹایا تو اس نے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کی ہے۔ پھر فرمایا :ہماری احادیث بھی [[قرآن]] کی  مانند [[متشابہ]] اور [[محکمات]] ہیں پس تم [[متشابہ]] کو [[محکمات]] کی طرف لوٹاؤ اور [[محکمات]] (کی طرف لوٹائے) بغیر  [[متشابہ]] کی پیروی نہ کرو اگر ایسا کرو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔
واضح سی بات ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پلٹانا دو کلاموں میں سے ایک کو دوسرے پر قرینہ قرار دینا صرف [[اجتہاد]] کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔
واضح سی بات ہے کہ متشابہ کو محکم کی طرف پلٹانا دو کلاموں میں سے ایک کو دوسرے پر قرینہ قرار دینا صرف [[اجتہاد]] کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔


سطر 283: سطر 283:
*'''دوسرا امر''':
*'''دوسرا امر''':


[[آئمہ طاہرین]] کی طرف اس سیرت کی مخالفت کے ثابت نہ ہونے سے ہم کشف کرتے ہیں کہ [[آئمہ]] اس سیرت پر راضی تھے ۔کیونکہ کسی بھی چیز سے جاہل کا اس چیز کے عالم کی طرف رجوع کرنا ہر ایک کیلئے ایک واضح اور بدیہی امر ہے ۔ آئمہ جانتے تھے کہ زمانۂ غیبت میں علمائے شیعہ کیلئے امام سے اتصال ممکن نہیں لہذا ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ  اصول، جوامع اور احادیث کی کتب کی طرف رجوع کریں جیسا کہ روایات میں مذکور ہے اور شیعہ عوام  اس سیرت عقلائی کی بنا پر خواہ نخواہ ان علماء کی طرف رجوع کریں گے کہ جو ان کے ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے اور ہر کوئی اس سے آگاہ ہے ۔پس اگر وہ اس سیرت سے راضی نہیں تھے تو ان پر اس عدم رضایت کا اظہار کرنا ضروری تھا ۔
[[آئمہ طاہرین]] کی طرف اس سیرت کی مخالفت کے ثابت نہ ہونے سے ہم کشف کرتے ہیں کہ [[آئمہ]] اس سیرت پر راضی تھے ۔کیونکہ کسی بھی چیز سے جاہل کا اس چیز کے عالم کی طرف رجوع کرنا ہر ایک کیلئے ایک واضح اور بدیہی امر ہے ۔ آئمہ جانتے تھے کہ زمانۂ غیبت میں علمائے شیعہ کیلئے امام سے اتصال ممکن نہیں لہذا ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں کہ وہ  اصول، جوامع اور احادیث کی کتب کی طرف رجوع کریں جیسا کہ روایات میں مذکور ہے اور شیعہ عوام  اس سیرت عقلائی کی بنا پر خواہ نخواہ ان علماء کی طرف رجوع کریں گے کہ جو ان کے ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے اور ہر کوئی اس سے آگاہ ہے ۔پس اگر وہ اس سیرت سے راضی نہیں تھے تو ان پر اس عدم رضایت کا اظہار کرنا ضروری تھا ۔<ref>امام خمینی کی کتاب الاجتہاد و التقلید سے سیرت عقلاء کی دلیل کو اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔</ref>


=== اثبات اجتہاد کے راہ ===
=== اثبات اجتہاد کے راہ ===
گمنام صارف