مندرجات کا رخ کریں

"شیخ مفید" کے نسخوں کے درمیان فرق

3,198 بائٹ کا ازالہ ،  8 ستمبر 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 83: سطر 83:
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


== شاگردوں کی تربیت==
== روش فقہی جدید==
آپ کے اندر علم کو دوسروں تک پھیلانے کا جذبہ بہت زیادہ تھا۔اس کا اندازہ ذہبی کے درج ذیل بیان سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:


"شیخ مفید جب بھی گھر سے باہر جاتے اور کسی بھی ذہین بچے کو دیکھتے تو اس کے والدین سے اسے پڑھانے کی اجازت طلب کرتے اور اس کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہو جاتے۔اپنے شاگردوں کی حاجت روائی میں کسی قسم کی کم و کسر نہ آنے دیتے۔ ہمیشہ اپنے شاگردوں سے کہتے " علم کے حصول سے مت گھبرائیں محنت اور مشقت سے اس کا حصول آسان ہو جاتا ہے "<ref>تاریخ اسلام ج9 ص381 ش5297</ref>ذیل میں ان اسماء کا ذکر کیا جاتا ہے جو اس مدرسے سے فیضیاب ہوئے:
==مناظرات علمی ==
{{ستون آ|3}}
# ابو عباس، احمد بن علی بن أحمد بن عباس نجاشی۔
# احمد بن علی بن قدامہ۔
#ثقۃ العین، جعفر بن محمد بن احمد بن عباس دوريستی۔
#حسين بن علی نيشاپوری۔
#فقیہ ابو يعلى، سلار بن عبد العزيز ديلمی۔
#ابو حسن، علی بن محمد بن عبد الرحمن فارسی۔
#شريف سيد مرتضى "علم الہدى" علی بن حسين بن موسى موسوی۔
#ابو فوارس بن علی بن محمد بن عبد الرحمن فارسی۔
#شريف سيد رضی محمد بن حسين بن موسى موسوی۔
#شيخ الطائفہ، محمد بن حسن طوسی۔
#ابو يعلى، محمد بن حسن بن حمزة جعفری (داماد شیخ مفید )۔
#ابو فتح، قاضی محمد بن علی كراجكی ۔
#ابو محمد، (علی بن محمد فارسی کے بھائی جن کا نام پہلے گزر چکا ہے)۔
#شيخ الفقیہ، ابو فرج، مظفر بن علی بن حسين حمدانی (امام زمانہ عجل الله فرجہ کے سفیروں میں سے ہیں) ۔
#شريف ابو الوفا محمدی موصلی۔
#ابو شجاع تاج الملت عضد الدولہ علی بن حسن بن بویہ دیلمی<ref>مقدمہ تہذيب الأحكام - الشيخ الطوسي - ج 1  ص 15 - 16</ref>
#اسحاق بن حسن بن محمد بغدادی: ابن ابی طی نے "رجال شیعہ میں انہیں شیخ مفید کے شاگردوں میں شمار کیا ہے۔انھوں نے "نونیہ" کے نام سے ایک طویل قصیدہ اور "مثالب النصواب" کے نام سے ایک کتاب لکھی <ref>لسان المیزان ج1 ص 360 ش1112</ref>
#حسن بن عنبس بن مسعود بن سالم بن محمد بن شریک ابو محمد مرافقی <ref>لسان المیزان ج2 ص242 ش1018</ref>
#حسین بن احمد  بن محمد قطان بغدادی۔ حلب اور طرابلس میں رہے۔انہوں نے  4 جلدوں میں فقہ پر کتاب لکھی جو 420 ھ میں موجود تھی۔<ref>لسان المیزان ج2 ص267 ش1115</ref>
ٗ{{ستون خ }}
 
==تالیفات کی فہرست ==
شیخ مفید کی کتابوں کی عناوین کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے 60 فیصد کتابیں علم کلام کے موضوع سے متعلق ہیں۔ان میں سے 35 کتابیں امامت،10 کتابیں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ،41 کتابیں فقہ،12 کتابیں علوم قرآن،5 کتابیں اصول فقہ،4 کتابیں تاریخ اور 3 کتابیں حدیث کے موضوع پر لکھی ہوئیں ہیں جبکہ 40 کتابوں کے عنوان کا علم نہیں ہے۔<ref>مقدمہ مصنفات شیخ مفید ج1 ص</ref>
شیخ مفید کی کتابوں کی عناوین کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے 60 فیصد کتابیں علم کلام کے موضوع سے متعلق ہیں۔ان میں سے 35 کتابیں امامت،10 کتابیں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ،41 کتابیں فقہ،12 کتابیں علوم قرآن،5 کتابیں اصول فقہ،4 کتابیں تاریخ اور 3 کتابیں حدیث کے موضوع پر لکھی ہوئیں ہیں جبکہ 40 کتابوں کے عنوان کا علم نہیں ہے۔<ref>مقدمہ مصنفات شیخ مفید ج1 ص</ref>
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
گمنام صارف