مندرجات کا رخ کریں

"امام حسن عسکری علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 30: سطر 30:


*'''القاب''':
*'''القاب''':
آپ کے القاب '''صامت، ہادی، رفیق، زکی'''، نقی لکھے گئے۔ کچھ مورخین ںے آپکا لقب '''"خالص"''' بھی کہا۔ "[[ابن الرضا]]" کے لقب سے  [[امام جواد(ع)]]، [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادی(ع)]] اور امام حسن عسکری(ع) مشہور ہوئے<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ج۴، ص۴۲۱۔</ref>۔ امام حسن عسکری(ع) کے والد محترم [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادی(ع)]] نے تقریباً 20 سال اور 9 مہینے [[سامراء]] میں زندگی بسر کی۔ اسی وجہ سے یہ دو امام "عسکری" کے نام سے مشہور ہوئے، "[[عسکر]]" سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا۔<ref>ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۲، ص۹۴۔</ref>جیسے امام حسن اور امام حسن عسکری کے مشترک نام ہونے کی وجہ سے امام حسن عسکری کو "اخیر" کہا جاتا ہے ۔<ref>ابن شہرآشوب، ج۳، ص۵۲۶، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۱۸۔</ref>
آپ کے القاب '''صامت، ہادی، رفیق، زکی'''، نقی لکھے گئے۔ کچھ مورخین ںے آپکا لقب '''"خالص"''' بھی کہا۔ "[[ابن الرضا]]" کے لقب سے  [[امام جوادؑ]]، [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادیؑ]] اور امام حسن عسکریؑ مشہور ہوئے<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ج۴، ص۴۲۱۔</ref>۔ امام حسن عسکریؑ کے والد محترم [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادیؑ]] نے تقریباً 20 سال اور 9 مہینے [[سامراء]] میں زندگی بسر کی۔ اسی وجہ سے یہ دو امام "عسکری" کے نام سے مشہور ہوئے، "[[عسکر]]" سامراء کا ایک غیر مشہور عنوان تھا۔<ref>ابن خلکان، وفیات الاعیان، ج۲، ص۹۴۔</ref>جیسے امام حسن اور امام حسن عسکری کے مشترک نام ہونے کی وجہ سے امام حسن عسکری کو "اخیر" کہا جاتا ہے ۔<ref>ابن شہرآشوب، ج۳، ص۵۲۶، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۸۔</ref>


احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکری(ع) کی ظاہری صورت یوں بیان کی ہے: آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھے۔
احمد بن عبیداللہ بن خاقان نے امام عسکریؑ کی ظاہری صورت یوں بیان کی ہے: آپ کالی آنکھیں، بہترین قامت، خوبصورت چہرہ اور مناسب بدن کے مالک تھے۔


*'''کنیت''':
*'''کنیت''':
آپؑ کی [[کنیت]] '''ابو محمد''' تھی۔ بعض کتابوں میں  ابوالحسن<ref> دلائل الإمامہ، طبری،ص:۴۲۴</ref>، ابوالحجہ<ref>موسوعہ الإمام العسکری(ع)، خزعلی،ج۱،ص:۳۲</ref>، ابوالقائم<ref>موسوعہ الإمام العسکری(ع)، خزعلی،ج۱،ص:۳۲</ref> مذکور ہیں۔
آپؑ کی [[کنیت]] '''ابو محمد''' تھی۔ بعض کتابوں میں  ابوالحسن<ref> دلائل الإمامہ، طبری،ص:۴۲۴</ref>، ابوالحجہ<ref>موسوعہ الإمام العسکریؑ، خزعلی،ج۱،ص:۳۲</ref>، ابوالقائم<ref>موسوعہ الإمام العسکریؑ، خزعلی،ج۱،ص:۳۲</ref> مذکور ہیں۔


*'''تولد''':
*'''تولد''':
سطر 42: سطر 42:
*'''شہادت''':
*'''شہادت''':
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ [[ربیع الاول]] سنہ۲۶۰ھ کے شروع میں [[معتمد عباسی]] کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں [[سرّ من رأی]] ([[سامرا]]) میں جام شہادت نوش کرگئے۔<ref>کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۵۰۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۴.</ref> البتہ [[ربیع الثانی]] اور [[جمادی الاولی]] میں شہید ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان، ۱۳۹۱، ص۵۳۰-۵۳۳</ref>  
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ [[ربیع الاول]] سنہ۲۶۰ھ کے شروع میں [[معتمد عباسی]] کے ہاتھوں 28 سال کی عمر میں مسموم ہوئے اور اسی مہینے کی 8 تاریخ کو 28 سال کی عمر میں [[سرّ من رأی]] ([[سامرا]]) میں جام شہادت نوش کرگئے۔<ref>کلینی، کافی، ج۱، ۱۳۹۱ق، ص۵۰۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۴.</ref> البتہ [[ربیع الثانی]] اور [[جمادی الاولی]] میں شہید ہونے کے بارے میں بھی بعض روایات ملتی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: مقدسی، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان، ۱۳۹۱، ص۵۳۰-۵۳۳</ref>  
[[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] نے [[اعلام الوری]] میں لکھا ہے کہ اکثر امامیہ علما نے کہا ہے کہ امام عسکری زہر سے مسموم ہوئے اور اس کی دلیل امام صادقؑ کی ایک روایت ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں «و الله ما منّا الا مقتول شہيد».<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۳۱.</ref> بعض تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معتمد سے پہلے کے دو خلیفے بھی امام عسکریؑ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ معتز عباسی نے حاجب کو حکم دیا کہ وہ امامؑ کو کوفہ کے راستے میں قتل کرے لیکن لوگوں کو جب پتہ چلا تو یہ سازش ناکام ہوئی۔<ref>شیخ طوسی، الغیبہ، ۱۳۹۸ق، ص۲۰۸؛ عطاردی، مسند الإمام العسكری(ع)، ۱۴۱۳ق، ص۹۲.</ref> ایک اور گزارش کے مطابق مہتدی عباسی نے بھی امام کو زندان میں شہید کرنے کا سوچا لیکن انجام دینے سے پہلے اس کی حکومت ختم ہوئی۔<ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۰۹ق، ص۲۶۸؛ کلینی، کافی، ۱۳۹۱ق، ج۱، ص۳۲۹.</ref> امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں اپنے والد ماجد [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادی علیہ السلام]] دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے۔<ref>شیخ مفید، ''الارشاد''، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳.</ref>
[[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] نے [[اعلام الوری]] میں لکھا ہے کہ اکثر امامیہ علما نے کہا ہے کہ امام عسکری زہر سے مسموم ہوئے اور اس کی دلیل امام صادقؑ کی ایک روایت ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں «و الله ما منّا الا مقتول شہيد».<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۳۱.</ref> بعض تاریخی گزارشات کے مطابق یہ سمجھ میں آتا ہے کہ معتمد سے پہلے کے دو خلیفے بھی امام عسکریؑ کو قتل کرنے کے درپے تھے۔ ایک روایت میں مذکور ہے کہ معتز عباسی نے حاجب کو حکم دیا کہ وہ امامؑ کو کوفہ کے راستے میں قتل کرے لیکن لوگوں کو جب پتہ چلا تو یہ سازش ناکام ہوئی۔<ref>شیخ طوسی، الغیبہ، ۱۳۹۸ق، ص۲۰۸؛ عطاردی، مسند الإمام العسكریؑ، ۱۴۱۳ق، ص۹۲.</ref> ایک اور گزارش کے مطابق مہتدی عباسی نے بھی امام کو زندان میں شہید کرنے کا سوچا لیکن انجام دینے سے پہلے اس کی حکومت ختم ہوئی۔<ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ۱۴۰۹ق، ص۲۶۸؛ کلینی، کافی، ۱۳۹۱ق، ج۱، ص۳۲۹.</ref> امام عسکریؑ سامرا میں جس گھر میں اپنے والد ماجد [[امام علی نقی علیہ السلام|امام ہادی علیہ السلام]] دفن ہوئے تھے ان کے پہلو میں دفن ہوئے۔<ref>شیخ مفید، ''الارشاد''، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳.</ref>


*'''ازواج''':‌
*'''ازواج''':‌
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ [[امام مہدی علیہ السلام|حضرت مہدی(عج)]] کی مادر گرامی ہیں۔ لیکن [[شیخ صدوق]] اور [[شہید ثانی]] نے یوں نقل کیا ہے کہ [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمان(عج)]] کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکری(ع) کی زوجہ تھیں۔<ref>شیخ صدوق؛ ''کمال الدین''، ج۲، ص۴۱۸؛ مجلسی، ''بحار الانوار''، ج۵۱، ص۲۸۔</ref>
مشہور قول کے مطابق امام عسکریؑ نے بالکل زوجہ اختیار نہیں کی اور آپکی نسل ایک کنیز کے ذریعے آگے بڑھی جو کہ [[امام مہدی علیہ السلام|حضرت مہدی(عج)]] کی مادر گرامی ہیں۔ لیکن [[شیخ صدوق]] اور [[شہید ثانی]] نے یوں نقل کیا ہے کہ [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمان(عج)]] کی والدہ کنیز نہ تھیں بلکہ امام عسکریؑ کی زوجہ تھیں۔<ref>شیخ صدوق؛ ''کمال الدین''، ج۲، ص۴۱۸؛ مجلسی، ''بحار الانوار''، ج۵۱، ص۲۸۔</ref>


منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکری(ع) کے زیادہ تر خادم [[رومی]]، [[صقلائی]] اور [[ترک]] تھے<ref>مسعودی، إثبات الوصیہ، ص۲۶۶، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص ۶۱۸۔</ref> اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدی(عج)]] کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے۔
منابع میں امام مہدی(عج) کی والدہ کے مختلف اور متعدد نام ذکر ہوئے ہیں اور منابع میں آیا ہے کہ امام حسن عسکریؑ کے زیادہ تر خادم [[رومی]]، [[صقلائی]] اور [[ترک]] تھے<ref>مسعودی، إثبات الوصیہ، ص۲۶۶، بحوالۂ : پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۸۔</ref> اور شاید امام زمانہ(عج) کی والدہ کے نام مختلف اور متعدد ہونے کی وجہ امام حسن عسکری کی کنیزوں کی تعداد کا زیادہ ہونا ہی ہو یا پھر [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدی(عج)]] کی ولادت کو خفیہ رکھنے کی وجہ سے آپ کی والدہ کے نام متعدد بتائے جاتے تھے۔


لیکن جو بھی حکمت تھی۔ آخری صدیوں میں [[امام زمانہ (عج)]] کی والدہ کے نام کے ساتھ [[نرجس]] کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ [[صیقل]] ہے۔<ref>رک: شیخ صدوق، ''کمال الدین''، ص۳۰۷ و۔۔۔؛ خصیبی، ''الہدایۃ الکبری''، ص۲۴۸؛ شیخ طوسی، ''الغیبۃ''، ۲۱۳، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»،ص ۶۱۸۔</ref>
لیکن جو بھی حکمت تھی۔ آخری صدیوں میں [[امام زمانہ (عج)]] کی والدہ کے نام کے ساتھ [[نرجس]] کا عنوان شیعوں کے لئے باعث پہچان تھا۔ دوسری طرف جو سب سے مشہور نام منابع میں ملتا ہے وہ [[صیقل]] ہے۔<ref>رک: شیخ صدوق، ''کمال الدین''، ص۳۰۷ و۔۔۔؛ خصیبی، ''الہدایۃ الکبری''، ص۲۴۸؛ شیخ طوسی، ''الغیبۃ''، ۲۱۳، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»،ص ۶۱۸۔</ref>


دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں [[سوسن]]<ref> مثلاً ابن ابی الثلج، ''مجموعہ نفیسہ''، ص۲۶؛ ابن خشاب، ''تاریخ موالید''، ص۲۰۱؛ ذہبی، ''سیر اعلام النبلاء''، ج۱۳، ص۱۲۱، به نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۱۸۔</ref>، [[ریحانہ]] اور [[مریم]]<ref> رک: طریحی، ''جامع المقال''، ص۱۶۰،  نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص ۶۱۸۔</ref> بھی ہیں۔
دوسرے جو نام ذکر ہوئے ہیں ان میں [[سوسن]]<ref> مثلاً ابن ابی الثلج، ''مجموعہ نفیسہ''، ص۲۶؛ ابن خشاب، ''تاریخ موالید''، ص۲۰۱؛ ذہبی، ''سیر اعلام النبلاء''، ج۱۳، ص۱۲۱، به نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۸۔</ref>، [[ریحانہ]] اور [[مریم]]<ref> رک: طریحی، ''جامع المقال''، ص۱۶۰،  نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۸۔</ref> بھی ہیں۔


*'''اولاد''':‌
*'''اولاد''':‌
اکثر [[شیعہ]] اور [[سنی]] منابع کے مطابق، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ(عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں۔<ref>ابن شہرآشوب، مناقب، ج۳، ص۵۲۳؛ ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، ص۱۱۳؛ طبرسی، تاج الموالید، ص۵۹؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۷، ص۲۷۴؛ ابن صباغ، الفصول المہمہ، ص۲۷۸؛ شبلنجی، نور الابصار، ص۱۸۳،نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۱۸۔</ref>
اکثر [[شیعہ]] اور [[سنی]] منابع کے مطابق، آپ کے اکلوتے فرزند امام زمانہ(عج) ہیں جو کہ محمد کے نام سے مشہور ہیں۔<ref>ابن شہرآشوب، مناقب، ج۳، ص۵۲۳؛ ابن طولون، الائمہ الاثنا عشر، ص۱۱۳؛ طبرسی، تاج الموالید، ص۵۹؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۷، ص۲۷۴؛ ابن صباغ، الفصول المہمہ، ص۲۷۸؛ شبلنجی، نور الابصار، ص۱۸۳،نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۸۔</ref>


امام حسن عسکریؑ، حضرت [[امام زمانہ(عج)]] کے والد ہونے کے ناطے<ref>ابن طلحہ، ''مطالب السؤول''، ج۲، ص۷۸۔</ref>، امام حسن عسکری(ع) کی شخصیت کا یہ پہلو اہل تشیع کے نزدیک جانا پہچانا ہوا ہے۔ اور [[شیعہ|امامیہ]] [[شیعہ|(اہل تشیع)]] کے نزدیک مشہور ہے ہے کہ [[امام مہدی(عج)]] کی ولادت [[15 شعبان]] سنہ 255ق کو ہوئی، لیکن تاریخ میں اور مختلف قول بھی موجود ہیں جن کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 254ق یا سنہ 256ق میں ہوئی ہے۔<ref>رک: طریحی، ''جامع المقال''، ص۱۹۰؛ ابوالمعالی، ''بیان الادیان''، ص۷۵، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص ۶۱۸۔</ref>
امام حسن عسکریؑ، حضرت [[امام زمانہ(عج)]] کے والد ہونے کے ناطے<ref>ابن طلحہ، ''مطالب السؤول''، ج۲، ص۷۸۔</ref>، امام حسن عسکریؑ کی شخصیت کا یہ پہلو اہل تشیع کے نزدیک جانا پہچانا ہوا ہے۔ اور [[شیعہ|امامیہ]] [[شیعہ|(اہل تشیع)]] کے نزدیک مشہور ہے ہے کہ [[امام مہدی(عج)]] کی ولادت [[15 شعبان]] سنہ 255ق کو ہوئی، لیکن تاریخ میں اور مختلف قول بھی موجود ہیں جن کے مطابق آپ کی ولادت سنہ 254ق یا سنہ 256ق میں ہوئی ہے۔<ref>رک: طریحی، ''جامع المقال''، ص۱۹۰؛ ابوالمعالی، ''بیان الادیان''، ص۷۵، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۸۔</ref>


:::آپ کی اولاد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے تین بیٹے اور تین بیٹیوں کا کہا ہے۔ اسی قول سے ملتا جلتا قول اہل تشیع کے نزدیک بھی موجود ہے<ref>زرندی، ''معارج الوصول الی معرفہ فضل آل الرسول(ص)''، ص ۱۷۶، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، صص ۶۱۸۶۱۹۔</ref>؛ خصیبی نے امام مہدی(عج) کے علاوہ امام حسن عسکری (ع) کی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور دلالہ ذکر کیے ہیں<ref>خصیبی، ''الہدایہ الکبری''، ص۳۲۸۔</ref>۔ ابن ابی الثلج نے امام مہدی کے علاوہ ایک بیٹے کا نام موسی ، اسی طرح دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور عائشہ (یا ام موسی) بتائے ہیں<ref>ابن ابی الثلج، ''مجموعہ نفیسہ''، ص ۲۱-۲۲؛ رک: فخرالدین رازی، ''الشجرة المبارکہ''، ص۷۹،  نقل از: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۱۹۔</ref>۔ لیکن انساب کی کتابوں میں مذکورہ نام، امام حسن عسکری(ع) کے بہن بھائیوں کے طور پر ملتے ہیں<ref>مراجعہ کریں: فخرالدین رازی، ''الشجرة المبارکہ''، ص۷۸، پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص ۶۱۹ سے منقول۔</ref> جو شاید ان مورخوں نے آپ کی اولاد کے عنوان سے ذکر کر دیے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض اہل سنت کے علماء جیسے '''ابن جریر طبری'''، '''یحیٰ بن صاعد''' اور '''ابن حزم''' کا عقیدہ ہے کہ آپ کی کوئی اولاد تھی ہی نہیں۔<ref>مراجعہ کریں: ابن حزم، ''جمہره انساب العرب''، ص۶۱؛ ذہبی، ''سیر اعلام النبلاء''، ج۱۳، ص۱۲۲، پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۱۹ سے منقول۔</ref> لیکن مذکورہ بالا روایات کو دیکھا جائے تو یہ ایک بےبنیاد دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
:::آپ کی اولاد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے تین بیٹے اور تین بیٹیوں کا کہا ہے۔ اسی قول سے ملتا جلتا قول اہل تشیع کے نزدیک بھی موجود ہے<ref>زرندی، ''معارج الوصول الی معرفہ فضل آل الرسول(ص)''، ص ۱۷۶، نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، صص ۶۱۸۶۱۹۔</ref>؛ خصیبی نے امام مہدی(عج) کے علاوہ امام حسن عسکری ؑ کی دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور دلالہ ذکر کیے ہیں<ref>خصیبی، ''الہدایہ الکبری''، ص۳۲۸۔</ref>۔ ابن ابی الثلج نے امام مہدی کے علاوہ ایک بیٹے کا نام موسی ، اسی طرح دو بیٹیوں کے نام فاطمہ اور عائشہ (یا ام موسی) بتائے ہیں<ref>ابن ابی الثلج، ''مجموعہ نفیسہ''، ص ۲۱-۲۲؛ رک: فخرالدین رازی، ''الشجرة المبارکہ''، ص۷۹،  نقل از: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۹۔</ref>۔ لیکن انساب کی کتابوں میں مذکورہ نام، امام حسن عسکریؑ کے بہن بھائیوں کے طور پر ملتے ہیں<ref>مراجعہ کریں: فخرالدین رازی، ''الشجرة المبارکہ''، ص۷۸، پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص ۶۱۹ سے منقول۔</ref> جو شاید ان مورخوں نے آپ کی اولاد کے عنوان سے ذکر کر دیے ہیں۔ اس کے برعکس، بعض اہل سنت کے علماء جیسے '''ابن جریر طبری'''، '''یحیٰ بن صاعد''' اور '''ابن حزم''' کا عقیدہ ہے کہ آپ کی کوئی اولاد تھی ہی نہیں۔<ref>مراجعہ کریں: ابن حزم، ''جمہره انساب العرب''، ص۶۱؛ ذہبی، ''سیر اعلام النبلاء''، ج۱۳، ص۱۲۲، پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۱۹ سے منقول۔</ref> لیکن مذکورہ بالا روایات کو دیکھا جائے تو یہ ایک بےبنیاد دعوے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
*'''سامرا آمد''':
*'''سامرا آمد''':
بچپنے میں ہی امام حسن عسکری، اپنے والد گرامی امام ہادی کے ساتھ جبری طور پر  [[عراق]] طلب کر لئے گئے اس زمانے میں عباسیوں کا دارالحکومت  [[سامرا]] تھا یہاں آپ کو تحت نظر رکھا گیا ۔بعض کتابوں میں 236ھ کو اور <ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۵۹</ref> اور بعض میں ۲۳۳ھ کو اس سفر کا سال قرار دیا ہے۔<ref>نوبختی، فرق الشیعہ، ص۹۲</ref> مذکور ہے۔
بچپنے میں ہی امام حسن عسکری، اپنے والد گرامی امام ہادی کے ساتھ جبری طور پر  [[عراق]] طلب کر لئے گئے اس زمانے میں عباسیوں کا دارالحکومت  [[سامرا]] تھا یہاں آپ کو تحت نظر رکھا گیا ۔بعض کتابوں میں 236ھ کو اور <ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۵۹</ref> اور بعض میں ۲۳۳ھ کو اس سفر کا سال قرار دیا ہے۔<ref>نوبختی، فرق الشیعہ، ص۹۲</ref> مذکور ہے۔
امام حسن عسکری نے اپنی اکثر عمر سامرا میں گزاری اور مشہور ہے کہ صرف آپ ہی وہ امام ہیں جو حج پہ نہیں گئے، لیکن عیون اخبار الرضا اور کشف الغمہ میں راوی نے آپ سے ایک حدیث نقل کی ہے اور وہ انہوں نے مکہ میں امام سے سنی ہے،<ref>شيخ صدوق، [[عيون أخبار الرضا]](ع)، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۳۵؛ اربلی، [[کشف الغمہ]]، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۹۸</ref> مکہ کے اس سفر کے علاوہ جرجان کی طرف ایک سفر کا بھی ذکر ہوا ہے۔<ref>قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۴۲۵ – ۴۲۶؛ اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۴۲۷ – ۴۲۸؛ ابن حمزه طوسی، الثاقب فی المناقب، ۱۴۱۹ق، ص ۲۱۵</ref>
امام حسن عسکری نے اپنی اکثر عمر سامرا میں گزاری اور مشہور ہے کہ صرف آپ ہی وہ امام ہیں جو حج پہ نہیں گئے، لیکن عیون اخبار الرضا اور کشف الغمہ میں راوی نے آپ سے ایک حدیث نقل کی ہے اور وہ انہوں نے مکہ میں امام سے سنی ہے،<ref>شيخ صدوق، [[عيون أخبار الرضا]]ؑ، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۳۵؛ اربلی، [[کشف الغمہ]]، ۱۴۰۵ق، ج۳، ص۱۹۸</ref> مکہ کے اس سفر کے علاوہ جرجان کی طرف ایک سفر کا بھی ذکر ہوا ہے۔<ref>قطب الدین راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۴۲۵ – ۴۲۶؛ اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ، ۱۳۸۱ق، ج۲، ص۴۲۷ – ۴۲۸؛ ابن حمزه طوسی، الثاقب فی المناقب، ۱۴۱۹ق، ص ۲۱۵</ref>


آپ کے دورۂ امامت  میں [[معتز عباسی]](۲۵۲-۲۵۵ھ)، مہتدی (۲۵۵-۲۵۶ھ) و معتمد (۲۵۶-۲۷۹ھ)۔<ref>طبری، ''دلائل الامامہ''، ج۱، ص۲۲۳۔</ref> عباسی خلیفہ رہے۔
آپ کے دورۂ امامت  میں [[معتز عباسی]](۲۵۲-۲۵۵ھ)، مہتدی (۲۵۵-۲۵۶ھ) و معتمد (۲۵۶-۲۷۹ھ)۔<ref>طبری، ''دلائل الامامہ''، ج۱، ص۲۲۳۔</ref> عباسی خلیفہ رہے۔


==امامت کے دلائل==
==امامت کی مدت اور دلائل==
جس طرح کے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حسن بن علی (امام عسکری) اپنے والد (امام ہادی) کی شہادت کے سال ۲۵۴ قمری کے بعد، اپنے معاصرین میں سے فضیلت اور برتری رکھنے کی وجہ اور  امام ہادی(ع) کی روایات کے مطابق آپ(ع) اہل تشیع کے گیارہویں امام ہیں۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ص۴۹۵۔</ref> علی بن عمر نوفلی، امام ہادی(ع) سے ایک روایت نقل کرتا ہے: „امام ہادی(ع) کے ساتھ آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا محمد-ابو جعفر- کا گزر ہوا، میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں! آپ کے بعد ہمارا امام یہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد امام حسن ہو گا۔
جس طرح کے شیخ مفید لکھتے ہیں کہ حسن بن علی (امام عسکری) اپنے والد (امام ہادی) کی شہادت کے سال ۲۵۴ قمری کے بعد، اپنے معاصرین میں سے فضیلت اور برتری رکھنے کی وجہ اور  امام ہادیؑ کی روایات کے مطابق آپؑ اہل تشیع کے گیارہویں امام ہیں۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ص۴۹۵۔</ref> علی بن عمر نوفلی، امام ہادیؑ سے ایک روایت نقل کرتا ہے: „امام ہادیؑ کے ساتھ آپ کے گھر کے صحن میں بیٹھا تھا کہ آپ کا بیٹا محمد-ابو جعفر- کا گزر ہوا، میں نے عرض کی: میں آپ پر قربان جاؤں! آپ کے بعد ہمارا امام یہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: میرے بعد امام حسن ہو گا۔


بہت کم تعداد میں محمد بن علی کی امامت (جو کہ امام ہادی(ع) کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے) اور جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے جعفربن علی کو اپنا امام سمجھتے تھے، امام ہادی(ع) کے اکثر دوستان اور یاران نے امام حسن عسکری(ع) کی امامت کو قبول کیا مسعودی، شیعہ اثنا عشری کو امام حسن عسکری(ع) اور آپ کے فرزند کے پیروکاروں میں سے مانتا ہے کہ یہ فرقہ تاریخ میں قطیعہ کے نام سے مشہور ہوا ہے۔<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۱۲۔</ref>
بہت کم تعداد میں محمد بن علی کی امامت (جو کہ امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی دنیا سے چلے گئے) اور جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی ہے جعفربن علی کو اپنا امام سمجھتے تھے، امام ہادیؑ کے اکثر دوستان اور یاران نے امام حسن عسکریؑ کی امامت کو قبول کیا مسعودی، شیعہ اثنا عشری کو امام حسن عسکریؑ اور آپ کے فرزند کے پیروکاروں میں سے مانتا ہے کہ یہ فرقہ تاریخ میں قطیعہ کے نام سے مشہور ہوا ہے۔<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۱۲۔</ref>


امام عسکری(ع) ۲۵۴ تا ۲۶۰ تک ۶ سال کی مدت  [[امامت]] کے فرائض انجام دیتے رہے پھر انکی [[شہادت]] کے بعد ان کے بیٹے  [[امام زمان(ع)]] امامت پر فائز ہوئے ۔
امام عسکریؑ ۲۵۴ تا ۲۶۰ تک ۶ سال کی مدت  [[امامت]] کے فرائض انجام دیتے رہے پھر انکی [[شہادت]] کے بعد ان کے بیٹے  [[امام زمانؑ]] امامت پر فائز ہوئے ۔
امام حسن عسکری
امام حسن عسکری


سطر 80: سطر 80:
مستعین کے قتل کے بعد اس کا دشمن معتز تخت نشین ہوا ۔حضرت امام حسن عسکری کے مقتول خلیفہ کی نسبت احتمالی اطلاعات کی بنا پر معتز نے شروع میں آپ کی اور آپ کے والد کی نسبت ظاہری طور پر کسی قسم کے خصومت آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا ۔حضرت [[امام علی نقی]] کی [[شہادت]] کے بعد شواہد اس بات کے بیان گر ہیں کہ امام حسن عسکری کی فعالیتیں محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک آپ کو آزادی حاصل تھی ۔آپ کی [[امامت]] کے ابتدائی دور میں آپ کی اپنے [[شیعوں]] سے بعض ملاقاتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے بعد خلیفہ امام کی نسبت بد گمان ہو گیا اور اس نے 255ق میں امام کو زندان میں قید کر دیا لہذا امام آزار و اذیت میں گرفتار ہو گئے ۔نیز امام حسن عسکری اس کے بعد کے خلیفہ مہتدی ک دور میں بھی زندان میں ہی رہے ۔256ق میں معتمد کی خلافت کے آغاز میں اسے شیعوں کے مسلسل قیاموں کا سامنا کرنا پڑا اور امام زندان سے آزاد ہوئے ۔ایک دفعہ پھر امام کو موقع ملا کہ وہ اپنے شیعوں کو مرتب و منظم کرنے کیلئے معاشرتی اور مالی پروگراموں کا اہتمام کر سکیں۔امام کی یہی فعالیتیں وہ بھی عباسی دار الحکومت میں ایک دفعہ پھر ان  کیلئے پریشانی کا موجب بن گئیں۔ پس 260 ق میں معتمد کے دستور پر امام حسن عسکری کو دوبارہ زندانی کیا گیا اور خلیفہ روزانہ امام سے مربوط اخبار کی چھان بین کرتا ۔<ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۶۸</ref> ایک مہینے کے بعد امام زندان سے آزاد ہوئے لیکن مامون کے وزیر حسن بن سہل کے گھر میں نظر بند کر دئے گئے جو واسط نامی شہر کے قریب تھا ۔<ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۶۹</ref>
مستعین کے قتل کے بعد اس کا دشمن معتز تخت نشین ہوا ۔حضرت امام حسن عسکری کے مقتول خلیفہ کی نسبت احتمالی اطلاعات کی بنا پر معتز نے شروع میں آپ کی اور آپ کے والد کی نسبت ظاہری طور پر کسی قسم کے خصومت آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا ۔حضرت [[امام علی نقی]] کی [[شہادت]] کے بعد شواہد اس بات کے بیان گر ہیں کہ امام حسن عسکری کی فعالیتیں محدود ہونے کے باوجود کسی حد تک آپ کو آزادی حاصل تھی ۔آپ کی [[امامت]] کے ابتدائی دور میں آپ کی اپنے [[شیعوں]] سے بعض ملاقاتیں اس بات کی تائید کرتی ہیں لیکن ایک سال گزرنے کے بعد خلیفہ امام کی نسبت بد گمان ہو گیا اور اس نے 255ق میں امام کو زندان میں قید کر دیا لہذا امام آزار و اذیت میں گرفتار ہو گئے ۔نیز امام حسن عسکری اس کے بعد کے خلیفہ مہتدی ک دور میں بھی زندان میں ہی رہے ۔256ق میں معتمد کی خلافت کے آغاز میں اسے شیعوں کے مسلسل قیاموں کا سامنا کرنا پڑا اور امام زندان سے آزاد ہوئے ۔ایک دفعہ پھر امام کو موقع ملا کہ وہ اپنے شیعوں کو مرتب و منظم کرنے کیلئے معاشرتی اور مالی پروگراموں کا اہتمام کر سکیں۔امام کی یہی فعالیتیں وہ بھی عباسی دار الحکومت میں ایک دفعہ پھر ان  کیلئے پریشانی کا موجب بن گئیں۔ پس 260 ق میں معتمد کے دستور پر امام حسن عسکری کو دوبارہ زندانی کیا گیا اور خلیفہ روزانہ امام سے مربوط اخبار کی چھان بین کرتا ۔<ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۶۸</ref> ایک مہینے کے بعد امام زندان سے آزاد ہوئے لیکن مامون کے وزیر حسن بن سہل کے گھر میں نظر بند کر دئے گئے جو واسط نامی شہر کے قریب تھا ۔<ref>مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۶۹</ref>
==قیام اور شورشیں==
==قیام اور شورشیں==
امام حسن عسکری(ع)کے زمانے میں شیعوں کی جانب سے عباسیوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور کچھ سوئے استفادہ کی بنیاد پر علویوں کے نام سے شورشیں برپا ہوئیں۔
امام حسن عسکریؑکے زمانے میں شیعوں کی جانب سے عباسیوں کے خلاف تحریکیں اٹھیں اور کچھ سوئے استفادہ کی بنیاد پر علویوں کے نام سے شورشیں برپا ہوئیں۔
*''' علی بن زید اور عیسی بن جعفر کا قیام'''
*''' علی بن زید اور عیسی بن جعفر کا قیام'''
یہ دونوں  علوی [[امام حسن مجتبی]](ع) کے ممتاز صحابہ میں سے تھے ۔انہوں نے سال ۲۵۵ ہجری کو [[کوفہ]] میں قیام کیا۔ معتز عباسی نے  سعید بن صالح کی سرکردگی میں فوج بھیج کر اس قیام کو شکست دی ۔<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۹۴</ref>
یہ دونوں  علوی [[امام حسن مجتبی]]ؑ کے ممتاز صحابہ میں سے تھے ۔انہوں نے سال ۲۵۵ ہجری کو [[کوفہ]] میں قیام کیا۔ معتز عباسی نے  سعید بن صالح کی سرکردگی میں فوج بھیج کر اس قیام کو شکست دی ۔<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۹۴</ref>
*'''علی بن زید بن حسین'''
*'''علی بن زید بن حسین'''
یہ [[امام حسین]](ع) کی اولاد میں سے تھا ۔انہوں نے مهتدی عباسی کے زمانے میں کوفہ میں قیام کیا۔ شاه بن میکال ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کے مقابلے میں آیا لیکن شکست سے دو چار ہوا ۔ معتمد عباسی جب تخت نشین ہوا تو اس نے  کیجور ترکی کو اس کے مقابلے کیلئے بھیجا ۔ علی بن زید نے پسپائی اختیار کی اور فرار ہو گیا بالآخر [[سنہ257 ہجری]] میں قتل ہوا <ref>ابن اثیر، الکامل، ج۷، ص۲۳۹-۲۴۰</ref>
یہ [[امام حسین]]ؑ کی اولاد میں سے تھا ۔انہوں نے مهتدی عباسی کے زمانے میں کوفہ میں قیام کیا۔ شاه بن میکال ایک بڑی فوج کے ساتھ اس کے مقابلے میں آیا لیکن شکست سے دو چار ہوا ۔ معتمد عباسی جب تخت نشین ہوا تو اس نے  کیجور ترکی کو اس کے مقابلے کیلئے بھیجا ۔ علی بن زید نے پسپائی اختیار کی اور فرار ہو گیا بالآخر [[سنہ257 ہجری]] میں قتل ہوا <ref>ابن اثیر، الکامل، ج۷، ص۲۳۹-۲۴۰</ref>
*'''احمد بن محمد بن عبدالله'''
*'''احمد بن محمد بن عبدالله'''
اس نے  معتمد عباسی کے زمانے میں  [[مصر]] کے برقہ اور اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔ بہت بڑی تعداد اپنے پیروکاروں کی پیدا کر لی  اور خلافت  کا ادعا کیا ۔ترک خلیفہ نے کارگزار''' احمد بن طولون''' کو اسکے مقابلے کیلئے بھیجا تا کہ اس کے اطرافیوں کو اس سے جدا اور منتشر کرے۔احمد بن محمد بن عبد اللہ  نے مقاومت کی اور انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸</ref>
اس نے  معتمد عباسی کے زمانے میں  [[مصر]] کے برقہ اور اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔ بہت بڑی تعداد اپنے پیروکاروں کی پیدا کر لی  اور خلافت  کا ادعا کیا ۔ترک خلیفہ نے کارگزار''' احمد بن طولون''' کو اسکے مقابلے کیلئے بھیجا تا کہ اس کے اطرافیوں کو اس سے جدا اور منتشر کرے۔احمد بن محمد بن عبد اللہ  نے مقاومت کی اور انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔<ref>مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸</ref>
سطر 95: سطر 95:
===امام سے ملاقات===
===امام سے ملاقات===
جاسوسی کے پیش نظر شیعوں کیلئے ہر وقت  امام سے ملاقات کرنا نہایت مشکل تھا یہاں تک کہ خلیفۂ عباسی کئی مرتبہ بصرہ گیا تو جاتے ہوئے امام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا ۔اس دوران امام کے اصحاب آپ کی  زیارت کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے ۔<ref>شیخ مفید، ''الارشاد''، ص۳۸۷۔</ref>اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعوں کیلئے مستقیم طور پر  امام سے ملنا کس قدر دشوار تھا۔
جاسوسی کے پیش نظر شیعوں کیلئے ہر وقت  امام سے ملاقات کرنا نہایت مشکل تھا یہاں تک کہ خلیفۂ عباسی کئی مرتبہ بصرہ گیا تو جاتے ہوئے امام کو بھی اپنے ساتھ لے کر جاتا تھا ۔اس دوران امام کے اصحاب آپ کی  زیارت کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھتے تھے ۔<ref>شیخ مفید، ''الارشاد''، ص۳۸۷۔</ref>اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعوں کیلئے مستقیم طور پر  امام سے ملنا کس قدر دشوار تھا۔
اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امام(ع) کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی۔<ref>اربلی، ''کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ''، ج۲، ص ۴۱۳۔</ref>
اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امامؑ کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی۔<ref>اربلی، ''کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ''، ج۲، ص ۴۱۳۔</ref>
ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امام(ع) کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے۔<ref>راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۴۳۹۔</ref> اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعوں کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے مخفیانہ طریقے بھی تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔<ref>ابن شہر آشوب، ''مناقب''، ج۴، ص۴۲۵؛ شیخ طوسی، ''الغیبہ''، ص ۲۱۴۔</ref>
ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امامؑ کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے۔<ref>راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۴۳۹۔</ref> اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعوں کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور ملاقات کے مخفیانہ طریقے بھی تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔<ref>ابن شہر آشوب، ''مناقب''، ج۴، ص۴۲۵؛ شیخ طوسی، ''الغیبہ''، ص ۲۱۴۔</ref>


=== امام کے نمائندے===
=== امام کے نمائندے===
حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امام(ع) نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم  عقید تھا  جس کو بچپن سے ہی آپ نے پالا تھا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا<ref> شیخ طوسی، ''الغیبہ''، ص۲۷۲،بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۲۶۔</ref>۔ اسی طرح آپکے  خادم جس کی کنیت '''ابو الادیان''' تھی اس کے ذمےبعض  خطوط پہنچانا  تھا<ref>شیخ صدوق، ''کمال الدین''، ص۴۷۵، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۲۶۔</ref>۔ لیکن جو امامیہ منابع میں '''باب''' کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ [[عثمان بن سعید]] ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکری(ع) کی وفات کے بعد اور [[غیبت صغریٰ]] کے شروع کے دور میں  پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا۔<ref>پاکتچی، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۲۶۔</ref>
حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امامؑ نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم  عقید تھا  جس کو بچپن سے ہی آپ نے پالا تھا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا<ref> شیخ طوسی، ''الغیبہ''، ص۲۷۲،بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۲۶۔</ref>۔ اسی طرح آپکے  خادم جس کی کنیت '''ابو الادیان''' تھی اس کے ذمےبعض  خطوط پہنچانا  تھا<ref>شیخ صدوق، ''کمال الدین''، ص۴۷۵، بحوالۂ: پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۲۶۔</ref>۔ لیکن جو امامیہ منابع میں '''باب''' کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ [[عثمان بن سعید]] ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکریؑ کی وفات کے بعد اور [[غیبت صغریٰ]] کے شروع کے دور میں  پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا۔<ref>پاکتچی، «حسن عسکریؑ، امام»، ص۶۲۶۔</ref>


===مراسلہ نگاری===
===مراسلہ نگاری===
سطر 128: سطر 128:
==حرم==
==حرم==
{{اصل مضمون|حرم عسکریین}}
{{اصل مضمون|حرم عسکریین}}
امام عسکری کی شہادت کے بعد آپؑ کو اپنے والد گرامی امام علی النقیؑ کے جوار میں دفن کیا گیا۔<ref>شیخ مفید، ''الارشاد''، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳.</ref>بعد میں اس جگہ ایک بارگاہ بنی جو حرم عسکریین سے مشہور ہے۔ امامین عسکرینؑ کا حرم دو بار وہابی دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن چکا ہے۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006ء  کو<ref>خامه یار، تخریب زیارتگاه‎های اسلامی در کشورهای عربی، ص۲۹ و ۳۰ </ref>دوسرا حملہ سولہ ماہ بعد یعنی 13 جون 2007ء کو ہوا۔<ref>خامه یار، تخریب زیارتگاههای اسلامی در کشورهای عربی، ص۳۰. </ref> [[تخریب حرم عسکریین]] اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 2008ء کو حرم کی تعمیر نو شروع ہوگئی۔<ref>[http://fa.abna24.com/institute/archive/2012/12/08/370499/story.html خبرگزاری ابنا: آخرین وضعیت ساخت ضریح حرمین عسکریین(ع)]</ref>اور 2015ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔<ref>[https://www.ilna.ir/%D8%A8%D8%AE%D8%B4-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-5/300946-%D8%B9%D9%85%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D8%B3%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%DA%AF%D9%86%D8%A8%D8%AF-%D8%AD%D8%B1%D9%85-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DB%8C%D9%86-%D9%BE%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DB%8C%D8%A7%D9%81%D8%AA خبرگزاری ایلنا؛ عملیات بازسازی گنبد حرم امامین عسکریین پایان یافت]</ref>
امام عسکری کی شہادت کے بعد آپؑ کو اپنے والد گرامی امام علی النقیؑ کے جوار میں دفن کیا گیا۔<ref>شیخ مفید، ''الارشاد''، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۱۳.</ref>بعد میں اس جگہ ایک بارگاہ بنی جو حرم عسکریین سے مشہور ہے۔ امامین عسکرینؑ کا حرم دو بار وہابی دہشت گردوں کی بربریت کا نشانہ بن چکا ہے۔ پہلا حملہ 22 فروری 2006ء  کو<ref>خامه یار، تخریب زیارتگاه‎های اسلامی در کشورهای عربی، ص۲۹ و ۳۰ </ref>دوسرا حملہ سولہ ماہ بعد یعنی 13 جون 2007ء کو ہوا۔<ref>خامه یار، تخریب زیارتگاههای اسلامی در کشورهای عربی، ص۳۰. </ref> [[تخریب حرم عسکریین]] اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ 2008ء کو حرم کی تعمیر نو شروع ہوگئی۔<ref>[http://fa.abna24.com/institute/archive/2012/12/08/370499/story.html خبرگزاری ابنا: آخرین وضعیت ساخت ضریح حرمین عسکریینؑ]</ref>اور 2015ء کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔<ref>[https://www.ilna.ir/%D8%A8%D8%AE%D8%B4-%D8%A7%D8%AC%D8%AA%D9%85%D8%A7%D8%B9%DB%8C-5/300946-%D8%B9%D9%85%D9%84%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D8%B3%D8%A7%D8%B2%DB%8C-%DA%AF%D9%86%D8%A8%D8%AF-%D8%AD%D8%B1%D9%85-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85%DB%8C%D9%86-%D8%B9%D8%B3%DA%A9%D8%B1%DB%8C%DB%8C%D9%86-%D9%BE%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D9%86-%DB%8C%D8%A7%D9%81%D8%AA خبرگزاری ایلنا؛ عملیات بازسازی گنبد حرم امامین عسکریین پایان یافت]</ref>
==متعلقہ مضامین==
==متعلقہ مضامین==
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
سطر 154: سطر 154:
* اربلی، علی بن عیسی، ''کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ''، بہ تحقیق سیدہاشم رسولی، تبریز، ۱۳۸۱۔
* اربلی، علی بن عیسی، ''کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ''، بہ تحقیق سیدہاشم رسولی، تبریز، ۱۳۸۱۔
* امین، سید محسن، سیره معصومان(ترجمہ اعیان الشیعہ)، مترجم علی حجتی کرمانی، سروش، تہران، ۱۳۷۶ش، چاپ دوم۔
* امین، سید محسن، سیره معصومان(ترجمہ اعیان الشیعہ)، مترجم علی حجتی کرمانی، سروش، تہران، ۱۳۷۶ش، چاپ دوم۔
* پاکتچی، احمد، «حسن عسکری(ع)، امام»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، تہران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۹۱ش۔
* پاکتچی، احمد، «حسن عسکریؑ، امام»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، تہران: مرکز دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۹۱ش۔
* جعفریان، رسول، ''حیات فکری سیاسی امامان شیعہ''، قم، دفتر نشر معارف، ۱۳۹۱ش۔
* جعفریان، رسول، ''حیات فکری سیاسی امامان شیعہ''، قم، دفتر نشر معارف، ۱۳۹۱ش۔
* حرانی، ابن شعبہ، ''تحف العقول عن آل الرسول(ص)''، بہ تصحیح و تعلیق علی‌اکبر غفاری، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳ش۔
* حرانی، ابن شعبہ، ''تحف العقول عن آل الرسول(ص)''، بہ تصحیح و تعلیق علی‌اکبر غفاری، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۰۴ق/۱۳۶۳ش۔
سطر 171: سطر 171:
* طبری، محمد بن جریر، ''تاریخ الامم و الملوک''، بہ تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، ۱۳۸۷ ق۔ و بیروت، دارسویدان، (بی تا)۔
* طبری، محمد بن جریر، ''تاریخ الامم و الملوک''، بہ تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، ۱۳۸۷ ق۔ و بیروت، دارسویدان، (بی تا)۔
* طبری، محمد بن جریر، ''دلائل الامامہ''، قم، بعثت، ۱۴۱۳ق۔
* طبری، محمد بن جریر، ''دلائل الامامہ''، قم، بعثت، ۱۴۱۳ق۔
*طبسی،محمد جواد، حیاه الامام العسکری(ع)، سوم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
*طبسی،محمد جواد، حیاه الامام العسکریؑ، سوم، قم، مؤسسہ بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش۔
* طریحی، فخرالدین، ''جامع المقال فیما یتعلق باحوال الحدیث و الرجال''، بہ کوشش محمدکاظم طریحی، تہران، ۱۳۵۵ش۔
* طریحی، فخرالدین، ''جامع المقال فیما یتعلق باحوال الحدیث و الرجال''، بہ کوشش محمدکاظم طریحی، تہران، ۱۳۵۵ش۔
* علامہ مجلسی، ''بحار الأنوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمہ الأطہار''، تہران، اسلامیہ، ۱۳۶۳ش۔
* علامہ مجلسی، ''بحار الأنوار الجامعہ لدرر أخبار الأئمہ الأطہار''، تہران، اسلامیہ، ۱۳۶۳ش۔
سطر 197: سطر 197:
{| border="2" align="center" width="60%"
{| border="2" align="center" width="60%"
|-
|-
|width="30%" align="center"|'''[[امام ہادی(ع)|معصوم دوازدہم]]:'''<br/> '''[[امام علی نقی علیہ السلام]]'''
|width="30%" align="center"|'''[[امام ہادیؑ|معصوم دوازدہم]]:'''<br/> '''[[امام علی نقی علیہ السلام]]'''
|width="40%" align="center"|'''[[عصمت|14 معصومین]]'''<br/> '''[[امام حسن عسکری علیہ السلام]]''' <br/>
|width="40%" align="center"|'''[[عصمت|14 معصومین]]'''<br/> '''[[امام حسن عسکری علیہ السلام]]''' <br/>
|width="30%" align="center"|'''[[امام رضا(ع)|معصوم چہاردہم]]:'''<br/>'''[[امام مہدی علیہ السلام]]'''
|width="30%" align="center"|'''[[امام رضاؑ|معصوم چہاردہم]]:'''<br/>'''[[امام مہدی علیہ السلام]]'''
|}
|}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099

ترامیم