مندرجات کا رخ کریں

"امام محمد باقر علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 94: سطر 94:
== علمی تحریک ==
== علمی تحریک ==


سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور [[تفسیر قرآن]] کے سلسلہ میں نقل [[حدیث]] کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہوچکی تھی۔ اس زمانے میں اموی بزرگوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ اہل سنت کے علماء میں سے [[شہاب زہری]]، [[مکحول]]، [[ہشام بن عروہ]] وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں [[خوارج]]، [[مرجئہ]]، [[کیسانیہ]] اور [[غالی]] خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ <br />
سنہ 94 ہجری سے 114 ہجری تک کا زمانہ فقہی مسالک کی ظہور پذیری اور [[تفسیر قرآن]] کے سلسلہ میں نقل [[حدیث]] کے عروج کا زمانہ ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ اس دور میں بنی امیہ کی سلطنت زوال کی طرف سرکنے لگی تھی اور کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی۔ اس زمانے میں اموی بزرگوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی زوروں پر تھی۔ [[اہل سنت]] کے علماء میں سے [[شہاب زہری]]، مکحول، [[ہشام بن عروہ]] وغیرہ جیسے افراد نقل حدیث کا اہتمام کرتے تھے اور فتویٰ دیتے تھے۔ اور بعض دوسرے افراد اپنے عقائد کی ترویج میں مصروف تھے؛ جن میں [[خوارج]]، [[مرجئہ]]، [[کیسانیہ]] اور [[غالی]] خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ <br />
امام باقرؑ نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند [[امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق]]ؑ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی بزرگوں میں سر فہرست تھے اور [[علم دین]]، [[سنت]]، [[علوم قرآن]] [[سیرت]] اور [[فنون اخلاق و آداب]] جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ [[امام حسن]] اور [[امام حسین]] کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔<ref>شیخ مفید، وہی ماخذ۔ 507۔</ref> <br />
امام باقرؑ نے اس دور میں وسیع علمی تحریک کی بنیاد رکھی جو آپ کے فرزند ارجمند [[امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد صادق]]ؑ کے دور میں عروج کو پہنچی۔ آپ علم، زہد اور فضیلت میں اپنے دور کے ہاشمی بزرگوں میں سر فہرست تھے اور علم دین، [[سنت]]، [[علوم قرآن]] [[سیرت]] اور فنون اخلاق و آداب جیسے موضوعات میں جس قدر حدیثیں اور روایات آپ سے منقول ہیں وہ [[امام حسن]] اور [[امام حسین]] کے کسی بھی دوسرے فرزند سے نقل نہيں ہوئی ہیں۔<ref>شیخ مفید، وہی ماخذ۔ 507۔</ref> <br />
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف [[اذان]]، [[تقیہ]]، [[نماز میت]] وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقرؑ کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک [[شیعیان آل رسولؐ]] کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ [[فقہ]]، تفسیر اور [[اخلاق]] پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔<ref>ضحی الاسلام، ج1، ص386؛ دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ج1، صص57_56 بحوالہ از جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ص295۔</ref> <br />
شیعہ فقہی احکام ـ اگر چہ ـ اس وقت تک صرف [[اذان]]، [[تقیہ]]، [[نماز میت]] وغیرہ جیسے مسائل کی حد تک واضح ہوچکے تھے لیکن امام باقرؑ کے ظہور کے ساتھ اس سلسلے میں نہایت اہم قدم اٹھائے گئے اور ایک قابل تحسین علمی و ثقافتی تحریک [[شیعیان آل رسولؐ]] کے درمیان شروع ہوئی۔ اسی زمانے میں اہل تَشَیُّع نے ـ [[فقہ]]، تفسیر اور [[اخلاق]] پر مشتمل ـ فرہنگ کی تدوین کا کام شروع کیا۔<ref>ضحی الاسلام، ج1، ص386؛ دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام، ج1، صص57_56 بحوالہ از جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ص295۔</ref> <br />
امام باقرؑ نے [[اصحاب قیاس]] کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔<ref>شیخ حر عاملی، وسائل الشیعه، ج18، ص39۔</ref> اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیتؑ کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا:  "[[خوارج]] نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، التهذیب، ج1، ص241؛ به نقل از جعفریان، وہی ماخذ، ص299۔</ref> <br />
امام باقرؑ نے [[اصحاب قیاس]] کی دلیلوں کو شدت سے ردّ کردیا۔<ref>شیخ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج18، ص39۔</ref> اور دیگر منحرف اسلامی فرقوں کے خلاف بھی سخت موقف اپنایا اور یوں مختلف موضوعات میں اہل بیتؑ کے صحیح اعتقادی دائرے کو واضح اور الگ کرنے کی (کامیاب) کوشش کی۔ آپ نے خوارج کے بارے میں فرمایا:  "[[خوارج]] نے اپنی جہالت کے بموجب عرصہ حیات اپنے لئے تنک کردیا ہے، دین اس سے کہیں زیادہ نرم و ملائم اور لچکدار ہے جو وہ سمجھتے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، التهذیب، ج1، ص241؛ به نقل از جعفریان، وہی ماخذ، ص299۔</ref> <br />
امام باقرؑ کی علمی شہرت ـ نہ صرف [[حجاز]] میں بلکہ ـ حتی کہ [[عراق]] اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔<ref> کلینی، وہی، ج6، ص266 و مجلسی، بحارالانوار، ج46، ص357۔</ref> <br />
امام باقرؑ کی علمی شہرت ـ نہ صرف [[حجاز]] میں بلکہ ـ حتی کہ [[عراق]] اور خراسان تک بھی پہنچ چکی تھی؛ چنانچہ راوی کہتا ہے: میں نے دیکھا کہ خراسان کے باشندوں نے آپ کے گرد حلقہ بنا رکھا ہے اور اپنے علمی سوالات آپ سے پوچھ رہے ہیں۔<ref> کلینی، وہی، ج6، ص266 و مجلسی، بحار الانوار، ج46، ص357۔</ref> <br />
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امامؑ کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
اگلی سطور میں اختصار کے ساتھ مختلف موضوعات (علم و سائنس کے شعبوں) میں امامؑ کی علمی میراث کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:


=== تفسیر ===
=== تفسیر ===


امامؑ نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقرؑ نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب "الفہرست" میں بھی اشارہ کیا ہے۔ <ref> ابن ندیم، الفهرست، ص59 و شریف القرشی، باقر، حیاة الامام المحمد الباقر، ج1، ص174۔</ref> <br />
امامؑ نے اپنے اوقات کا ایک حصہ تفسیری موضوعات و مباحث کے لئے مختص کر رکھا تھا اور تفسیری حلقہ تشکیل دے کر علماء اور عام لوگوں کے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ امام باقرؑ نے تفسیر قرآن میں ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی جس کی طرف محمد بن اسحق ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں بھی اشارہ کیا ہے۔ <ref> ابن ندیم، الفهرست، ص59 و شریف القرشی، باقر، حیاة الامام المحمد الباقر، ج1، ص174۔</ref> <br />
امامؑ قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ [[محکمات]] کو [[متشابہات]] اور [[ناسخ]] و [[منسوخ]] سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیتؑ کے سوا کے پاس بھی نہيں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہيں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے"۔<ref>گروه مولفان، پیشوایان هدایت، ص320۔</ref>
امامؑ قرآن کی شناخت و معرفت کو اہل بیت تک محدود سمجھتے تھے کیونکہ وہ [[محکمات]] کو [[متشابہات]] اور [[ناسخ]] و [[منسوخ]] سے تمیز دینے کی قوت رکھتے ہیں؛ اور ایسی خصوصیت اہل بیتؑ کے سوا کے پاس بھی نہيں پائی جاسکتی۔ اسی بنا پر آپ نے فرمایا ہے: کوئی بھی چیز تفسیر قرآن کی مانند لوگوں کی عقل سے دور نہيں ہے؛ کیونکہ ایک آیت کا آغاز متصل ہے ایک مسئلے کے بارے میں، اور یہ کلامِ متصل کئی وجوہ کی طرف لوٹایا جاتا ہے"۔<ref>گروه مولفان، پیشوایان هدایت، ص320۔</ref>


گمنام صارف