مندرجات کا رخ کریں

"پندرہ شعبان" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 55: سطر 55:
پندرہ شعبان صرف [[شیعہ|شیعوں]] کے یہاں قابل احترام اور اہمیت کی حامل نہیں بلکہ [[اہل سنت والجماعت|اہل سنت]] بطور خاص اہل سنت کے وہ حضرات جو [[تصوف]] کے قائل ہیں، کے یہاں بھے اس دن اور رات کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اہل سنت کی متعدد روایات میں پیغمبر اکرمؐ اور صحابہ کرام سے اس رات میں عبادت کی اہمیت اور اس میں انسان کی رزق و روزی اور مقدرات کے معین ہونے کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔ <ref>منذری، الترغیب والترہیب، عبدالعظيم بن عبدالقوی تحقیق: ابراہیم شمس الدین، دارالكتب العلميۃ، چاپ اول، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۷۳و۷۴؛ ج۳، ص۶۷، ۲۳۳ و۳۰۷-۳۰۹.</ref><ref>البانی، السلسلۃ الصحیحۃ، رياض، مكتبۃ المعارف للنشر والتوزيع، ج۳، ص۱۳۵؛ ج۴، ص۸۶.</ref><ref>ابن حجر عسقلانی، الأمالی المطلقۃ، تحقیق: حمدی عبدالمجید السلفی، بیروت، ص۵۲.</ref><ref>بیہقی، شعب الایمان، بیروت، دارالکتب العلمیۃ/منشورات محمد علی بیضون، چاپ اول، ج۳، ص۳۷۸-۳۸۶.</ref><ref>احمد نگری، جامع العلوم، بیروت، ۱۳۹۵ق، ج۳، ص۱۷۹.</ref> اہل سنت کے بعض علماء ان احادیث کے صحیح ہونے اور پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت سے انکار کرتے ہیں جبکہ ابن تیمیہ جن کا شمار سلفیوں کے نظریہ پردازوں میں ہوتا ہے، بھی اس رات کی فضیلت سے چشم پوشی نہیں کر سکے ہیں لیکن وہ اس رات کو مسجدوں میں جمع ہوکر 100 رکعت [[نماز]] پڑھنے کو بدعت سمجھتے ہیں۔<ref>ابن تیمیہ، فتاوای، بیروت، دارالكتب العلميۃ، چاپ اول، ج۵، ص۳۴۴.</ref> اس بنا پر [[چودہویں]] اور [[پندرہویں]] صدی کے سلفی علماء جیسے تھانوی، یوسف قرضاوی اور محمد صالح منجد اس رات میں شب بیداری اور شب برات کے اعمال کی انجام دہی کو بدعت سمجھتے ہیں۔<ref>تھانوی، تسہیل بہشتی زیور، بہ اہتمام اساتید جامع الرشید، کتاب گھر، کراچی، ۱۳۲۷ق، ص۷۵.</ref><ref>[http://www.qaradawi.net/new/Articles-1461 پندرہ شعبان کی رات کو شب بیداری اور شب برات کے اعمال کی انجام دہی کا حکم، یوسف قرضاوی کی ویب سائٹ]</ref><ref>[http://islamonline.net/7052 عطيہ صقر، شب نیمہ شعبان؛ فضیلت و حکم شرعی شب زنده‎داری در آن، اسلام آن لاین.]</ref>
پندرہ شعبان صرف [[شیعہ|شیعوں]] کے یہاں قابل احترام اور اہمیت کی حامل نہیں بلکہ [[اہل سنت والجماعت|اہل سنت]] بطور خاص اہل سنت کے وہ حضرات جو [[تصوف]] کے قائل ہیں، کے یہاں بھے اس دن اور رات کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اہل سنت کی متعدد روایات میں پیغمبر اکرمؐ اور صحابہ کرام سے اس رات میں عبادت کی اہمیت اور اس میں انسان کی رزق و روزی اور مقدرات کے معین ہونے کے بارے میں احادیث نقل ہوئی ہیں۔ <ref>منذری، الترغیب والترہیب، عبدالعظيم بن عبدالقوی تحقیق: ابراہیم شمس الدین، دارالكتب العلميۃ، چاپ اول، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۷۳و۷۴؛ ج۳، ص۶۷، ۲۳۳ و۳۰۷-۳۰۹.</ref><ref>البانی، السلسلۃ الصحیحۃ، رياض، مكتبۃ المعارف للنشر والتوزيع، ج۳، ص۱۳۵؛ ج۴، ص۸۶.</ref><ref>ابن حجر عسقلانی، الأمالی المطلقۃ، تحقیق: حمدی عبدالمجید السلفی، بیروت، ص۵۲.</ref><ref>بیہقی، شعب الایمان، بیروت، دارالکتب العلمیۃ/منشورات محمد علی بیضون، چاپ اول، ج۳، ص۳۷۸-۳۸۶.</ref><ref>احمد نگری، جامع العلوم، بیروت، ۱۳۹۵ق، ج۳، ص۱۷۹.</ref> اہل سنت کے بعض علماء ان احادیث کے صحیح ہونے اور پندرہ شعبان کی رات کی فضیلت سے انکار کرتے ہیں جبکہ ابن تیمیہ جن کا شمار سلفیوں کے نظریہ پردازوں میں ہوتا ہے، بھی اس رات کی فضیلت سے چشم پوشی نہیں کر سکے ہیں لیکن وہ اس رات کو مسجدوں میں جمع ہوکر 100 رکعت [[نماز]] پڑھنے کو بدعت سمجھتے ہیں۔<ref>ابن تیمیہ، فتاوای، بیروت، دارالكتب العلميۃ، چاپ اول، ج۵، ص۳۴۴.</ref> اس بنا پر [[چودہویں]] اور [[پندرہویں]] صدی کے سلفی علماء جیسے تھانوی، یوسف قرضاوی اور محمد صالح منجد اس رات میں شب بیداری اور شب برات کے اعمال کی انجام دہی کو بدعت سمجھتے ہیں۔<ref>تھانوی، تسہیل بہشتی زیور، بہ اہتمام اساتید جامع الرشید، کتاب گھر، کراچی، ۱۳۲۷ق، ص۷۵.</ref><ref>[http://www.qaradawi.net/new/Articles-1461 پندرہ شعبان کی رات کو شب بیداری اور شب برات کے اعمال کی انجام دہی کا حکم، یوسف قرضاوی کی ویب سائٹ]</ref><ref>[http://islamonline.net/7052 عطيہ صقر، شب نیمہ شعبان؛ فضیلت و حکم شرعی شب زنده‎داری در آن، اسلام آن لاین.]</ref>


اہل سنت میں سے وہ حضرات جو اس دن اور رات کی فضیلت اور اہمیت کے معتقد ہیں وہ [[احیا|شب زنده‎داری]] اور دیگر عبادتوں جیسے قرآن کی تلاوت، مستحب نمازوں اور دعاوں کا پڑھنا اور روزہ رکھنا وغیرہ، کے انجام دینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اہل سنت کے یہاں بھی یہ رات [[شب برات]] کے نام سے معروف ہے۔ <ref>ملتانی، بہاء الدین زکریا، الاوراد، اسلام آباد، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۱۷۴ـ۱۷۶.</ref><ref>علوی کرمانی، محمد، سیر الاولیاء، اسلام آباد، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۴۰۵.</ref><ref>نوربخش، محمد بن محمد،  الفقہ الاحوط،  کراچی، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۱۱۲ـ۱۱۳.</ref>  100[[رکعت]] نماز جسے [[صلوۃ الخیر]] کہا جاتا ہے جس میں ہزار دفعہ [[سورہ اخلاص| سورہ توحید]] پڑھی جاتی ہے، کو بھی اس رات کے اعمال میں شمار کیا جاتا ہے جو اہل تشیع اور اہل سنت ۔<ref>علوی کرمانی، سیرالاولیاء، اسلام آباد، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۴۰۵.</ref>  برصغیر پاک و ہند وغیرہ میں [[زیارت اہل قبور]]، نذر و نیاز اور [[صدقہ]] وغیرہ شب برات کے مراسم میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>احمد دہلوی، فرہنگ آصفیہ، ذیل «شب برات»، لاہور، ۱۹۸۶ق.</ref>
اہل سنت میں سے وہ حضرات جو اس دن اور رات کی فضیلت اور اہمیت کے معتقد ہیں وہ [[احیا|شب زنده‎داری]] اور دیگر عبادتوں جیسے قرآن کی تلاوت، مستحب نمازوں اور دعاوں کا پڑھنا اور روزہ رکھنا وغیرہ، کے انجام دینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اہل سنت کے یہاں بھی یہ رات [[شب برات]] کے نام سے معروف ہے۔ <ref>ملتانی، بہاء الدین زکریا، الاوراد، اسلام آباد، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۱۷۴ـ۱۷۶.</ref><ref>علوی کرمانی، محمد، سیر الاولیاء، اسلام آباد، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۴۰۵.</ref><ref>نوربخش، محمد بن محمد،  الفقہ الاحوط،  کراچی، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۱۱۲ـ۱۱۳.</ref>  100[[رکعت]] نماز جسے [[صلوۃ الخیر]] کہا جاتا ہے جس میں ہزار دفعہ [[سورہ اخلاص| سورہ توحید]] پڑھی جاتی ہے، کو بھی اس رات کے اعمال میں شمار کیا جاتا ہے۔ اہل تشیع اور اہل سنت ۔<ref>علوی کرمانی، سیرالاولیاء، اسلام آباد، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۴۰۵.</ref>  برصغیر پاک و ہند وغیرہ میں [[زیارت اہل قبور]]، نذر و نیاز اور [[صدقہ]] وغیرہ شب برات کے مراسم میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>احمد دہلوی، فرہنگ آصفیہ، ذیل «شب برات»، لاہور، ۱۹۸۶ق.</ref>


==جشن==
==جشن==
گمنام صارف