مندرجات کا رخ کریں

"تاسوعا" کے نسخوں کے درمیان فرق

44 بائٹ کا ازالہ ،  11 اکتوبر 2016ء
م
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
سطر 10: سطر 10:
== واقعات==
== واقعات==
تاسوعا کا دن وہ آخری دن ہے جس دن [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب نے رات کو بھی دیکھا اور یہ دن [[واقعۂ عاشورا]] کی شب سے منسلک ہے.
تاسوعا کا دن وہ آخری دن ہے جس دن [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب نے رات کو بھی دیکھا اور یہ دن [[واقعۂ عاشورا]] کی شب سے منسلک ہے.
===کربلا میں شمر کی آمد===
===کربلا میں شمر کی آمد===
9 محرم ـ تاسوعا ـ کے دن ظہر سے پہلے [[شمر بن ذی الجوشن]] چار ہزار سپاہی لے کر سرزمین [[کربلا]] میں داخل ہوا.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص94.</ref>.<ref>ابن شهرآشوب، مناقب ج4، ص98.</ref> وہ [[عمر بن سعد]] کے لئے [[عبیداللہ بن زیاد]] کا خط لے کر آیا تھا چنانچہ کربلا پہنچتے ہی اس نے خط ابن سعد کے سپرد کیا. اس خط میں ابن زياد نے ابن سعد کو حکم دیا تھا کہ یا تو [[امام حسین]](ع) کو بیعت پر مجبور کرے یا پھر آپ(ع) کے خلاف لڑائی چھیڑ دے.
9 محرم ـ تاسوعا ـ کے دن ظہر سے پہلے [[شمر بن ذی الجوشن]] چار ہزار سپاہی لے کر سرزمین [[کربلا]] میں داخل ہوا.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص94.</ref>.<ref>ابن شهرآشوب، مناقب ج4، ص98.</ref> وہ [[عمر بن سعد]] کے لئے [[عبیداللہ بن زیاد]] کا خط لے کر آیا تھا چنانچہ کربلا پہنچتے ہی اس نے خط ابن سعد کے سپرد کیا. اس خط میں ابن زياد نے ابن سعد کو حکم دیا تھا کہ یا تو [[امام حسین]](ع) کو بیعت پر مجبور کرے یا پھر آپ(ع) کے خلاف لڑائی چھیڑ دے.
عبید اللہ نے اس خط کے ضمن میں عمر بن سعد کو دھمکی آمیز انداز سے لکھا تھا کہ اگر وہ اس کے احکامات کی مکمل تعمیل نہ کرے تو اس کو لشکر سے کنارہ کشی کرکے اس کی سربراہی کا عہدہ شمر کے سپرد کرنا پڑے گا.<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ1، ص466.</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص94.</ref>.<ref>ابن شہرآشوب، مناقب ج4، ص98.</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، صص414-415.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص88.</ref>.<ref>مسکویہ، ابوعلی، تجارب الامم، ج2، صص72-73.</ref>.<ref>ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج4، ص55.</ref>


عبید اللہ نے اس خط کے ضمن میں عمر بن سعد کو دھمکی آمیز انداز سے لکھا تھا کہ اگر وہ اس کے احکامات کی مکمل تعمیل نہ کرے تو اس کو لشکر سے کنارہ کشی کرکے اس کی سربراہی کا عہدہ شمر کے سپرد کرنا پڑے گا.<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسه1، ص466.</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص94.</ref>.<ref>ابن شهرآشوب، مناقب ج4، ص98.</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، صص414-415.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص88.</ref>.<ref>مسکویه، ابوعلی، تجارب الامم، ج2، صص72-73.</ref>.<ref>ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج4، ص55.</ref>
ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس کام کی اہلیت نہیں دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں اس کام کو خود ہی انجام تک پہنچا دوں گا؛ تم صرف پیدل دستوں کے سالار رہو".<ref>بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص183.</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89.</ref>.<ref>مسکویه، تجارب الامم، ص73.</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56.</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>
 
ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس کام کی اہلیت نہیں دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں اس کام کو خود ہی سرانجام تک پہنچا دوں گا؛ تم صرف پیدل دستوں کے سالار رہو".<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص183.</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89.</ref>.<ref>مسکویه، تجارب الامم، ص73.</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56.</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>
 
===ام البنین(س) کے فرزندوں کے لئے امان نامہ===
===ام البنین(س) کے فرزندوں کے لئے امان نامہ===
([[کوفہ]] میں) شمر نے عمر سعد کے لئے عبیداللہ کا خط لینا چاہا تو اس [[ام البنین]](س) کے بھتیجے [[عبداللہ بن ابی المحل]] کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی. عبیداللہ نے اس تجویز کو پسند کیا.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56.</ref>
([[کوفہ]] میں) شمر نے عمر سعد کے لئے عبیداللہ کا خط لینا چاہا تو اس [[ام البنین]](س) کے بھتیجے [[عبداللہ بن ابی المحل]] کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی. عبیداللہ نے اس تجویز کو پسند کیا.<ref>طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56.</ref>


عبداللہ بن ابی المحل نے مذکورہ امان نامہ اپنے غلام "کزمان یا عرفان" کے ہاتھوں [[کربلا]] ارسال کیا اور کربلا پہنچنے کے بعد امان نامے کا متن [[ام البنین]](س) کے فرزندوں کے لئے پڑھا. لیکن انھوں نے امان نامہ مسترد کیا.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...،ج5، ص415</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص93-94</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر، الکامل...، ص56.</ref>
عبداللہ بن ابی المحل نے مذکورہ امان نامہ اپنے غلام "کزمان یا عرفان" کے ہاتھوں [[کربلا]] ارسال کیا اور کربلا پہنچنے کے بعد امان نامے کا متن [[ام البنین]](س) کے فرزندوں کے لئے پڑھا. لیکن انھوں نے امان نامہ مسترد کیا.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...،ج5، ص415</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص93-94</ref>.<ref>خوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر، الکامل...، ص56.</ref>


دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر [[کربلا]] میں [[عباس بن علی]](ع) اور ان کے بھائیوں [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] کو پہنچایا.<ref>حسنی، ابن عنبه، عمدة الطالب فی ...، ص327</ref>.<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص246.</ref>
دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر [[کربلا]] میں [[عباس بن علی]](ع) اور ان کے بھائیوں [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] کو پہنچایا.<ref>حسنی، ابن عنبہ، عمدة الطالب فی ...، ص327</ref>.<ref>خوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص246.</ref>


[[عباس بن علی|عباس(ع)]] اور ان کے بھائی [[امام حسین|ابا عبداللہ الحسین(ع)]] کے پاس بیٹھے تھے اور شمر کا جواب دے رہے تھے. [[امام حسین|امام(ع)]] نے بھائی [[عباس بن علی|عباس(ع)]] سے فرمایا: "گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو، بےشک وہ تمہارے مامؤوں میں سے ہے". [[عباس بن علی|عباس]]، [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا: "کیا چاہتے ہو؟" شمر نے ان سے کہا: "اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو؛ میں نے تمہارے لئے [[عبید اللہ بن زیاد]] سے امان نامہ حاصل کیا ہے". لیکن عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا: "خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرو؛ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور [[حضرت فاطمہ|بنت پیمبر]](ص) امان میں نہ ہوں".<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف ج3، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر، الکامل...، ج4، ص56.</ref>
[[عباس بن علی|عباس(ع)]] اور ان کے بھائی [[امام حسین|ابا عبداللہ الحسین(ع)]] کے پاس بیٹھے تھے اور شمر کا جواب دے رہے تھے. [[امام حسین|امام(ع)]] نے بھائی [[عباس بن علی|عباس(ع)]] سے فرمایا: "گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو، بےشک وہ تمہارے مامؤوں میں سے ہے". [[عباس بن علی|عباس]]، [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا: "کیا چاہتے ہو؟" شمر نے ان سے کہا: "اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو؛ میں نے تمہارے لئے [[عبید اللہ بن زیاد]] سے امان نامہ حاصل کیا ہے". لیکن عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا: "خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرو؛ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور [[حضرت فاطمہ|بنت پیمبر]](ص) امان میں نہ ہوں".<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف ج3، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر، الکامل...، ج4، ص56.</ref>


[[ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین]](س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر بن سعد کے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور پنجشنبہ (= جمعرات) 9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب و خاندان کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوئے.<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>
[[ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین]](س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر بن سعد نے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور جمعرات 9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب و خاندان کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوئے.<ref>بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>.<ref>طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>خوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>


===جنگ کی تیاری===
===جنگ کی تیاری===
9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر صحرای [[کربلا]] میں [[عمر سعد]] کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین]](ع) کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ "يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري"،‌ اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!". [[کوفہ|کوفی]] سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار.<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>
9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر صحرای [[کربلا]] میں [[عمر سعد]] کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین]](ع) کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ {{حدیث|يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري}}،‌ اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!". [[کوفہ|کوفی]] سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار.<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>


لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، [[امام حسین|امام(ع)]] اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے تھے اور اپنی تلوار پر ٹیک لگائے ہوئے تھے. بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب]](س) لشکر [[کوفہ]] میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟". [[امام حسین]](ع) نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا [[رسول اللہ]](ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے". [[امام حسین]](ع) نے [[عباس بن علی]](ع) کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟".
لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، [[امام حسین|امام(ع)]] اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے تھے اور اپنی تلوار پر ٹیک لگائے ہوئے تھے. بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب]](س) لشکر [[کوفہ]] میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟". [[امام حسین]](ع) نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا [[رسول اللہ]](ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے". [[امام حسین]](ع) نے [[عباس بن علی]](ع) کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟".
گمنام صارف