مندرجات کا رخ کریں

"حوزہ علمیہ قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 182: سطر 182:
===میرزا قمی===
===میرزا قمی===


تیرہویں صدی ہجری میں بھی قم میں متعدد علماء علمی فعالیت میں مصروف نظر آتے ہیں جن میں اہم ترین اور مشہور ترین [[میرزا قمی|شیخ ابو القاسم قمى]] (متوفى سنہ 1231ہجری قمی)، وہ [[وحید بہبہانی]] کے مشہور شاگرد تھے اور [[جا پَلَق]] نامی علاقے سے ـ جہاں ان کے والد سکونت پذیر ہوئے تھے ـ قم ہجرت کرکے آئے تھے اور یہاں تدریس و تالیف میں مصروف ہوئے تھے۔  [[میرزا محمد حسن زنوزی]] نے میرزا قمی کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی اور میرزا قمی کا تذکرہ "عالم، فاضل کامل، [[مجتہد]]، [[اصول فقہ]] کے ماہر" کے عنوان سے کیا ہے اور ان کی کتاب ''[[القوانین المحکمہ]]'' کی تعریف و تمجید کی ہے؛ جس کی تالیف [[ربیع الثانی]] سنہ 1205 ہجری قمری میں مکمل ہوئی تھی۔<ref>زنوزى، ریاض الجنة، 4، قسم 1، ص523۔</ref> زنوزی کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ میرزا قمی کی کتاب ''القوانین المحکمہ'' مؤلف کی حیات میں ہی مشہور ہوئی تھی اور بےسبب نہیں ہے کہ یہ کتاب بعد میں حوزات علمیہ کی معتبر درسی کتب میں تبدیل ہوئی ہے۔ میرزا قمى نے [[فقہ]] میں بھی متعدد کتب اور رسائل کی تالیف کا اہتمام کیا ہے؛ منجملہ: ''غنائم الایام'' اور ''جامع الشتات''۔ وہ جب [[عراق]] کے [[عتبات عالیہ]] میں قیام پذیر تھے تو انھوں نے متعدد مشہور علماء کی تربیت کی؛ منجملہ: [[ملااحمد نراقى]]، [[سیدعبداللہ شبر|سید عبداللہ شُبَّر]] اور صاحب کتاب ''[[مفتاح الکرامہ]]'' [[سید محمد جواد عاملى]]۔<ref>میرزاى قمى، غنائم الایام فى مسائل الحلال و الحرام، ج1، مقدمه تبریزیان، ص48ـ49۔</ref> میرزا قمی کے بہت سے شاگردوں نے اس شہر سے ہجرت کی اور ان ایام کے زیادہ فعال حوزات علمیہ منجملہ [[نجف]] کا رخ کیا۔ اس کے باوجود وہ اپنے قیام کے دوران اس حوزہ کی علمی رونق کا سبب رہے اور ان کی موجودگی اس شہر میں دینی تعلیم و تعلم کے تسلسل کا باعث ہوئی۔
تیرہویں صدی ہجری میں بھی قم میں متعدد علماء علمی فعالیت میں مصروف نظر آتے ہیں جن میں اہم ترین اور مشہور ترین [[میرزا قمی|شیخ ابو القاسم قمى]] (متوفى سنہ 1231 ہجری)، وہ [[وحید بہبہانی]] کے مشہور شاگرد تھے اور جاپَلَق نامی علاقے سے جہاں ان کے والد سکونت پذیر ہوئے تھے، قم ہجرت کرکے آئے تھے اور یہاں تدریس و تالیف میں مصروف ہوئے تھے۔  [[میرزا محمد حسن زنوزی]] نے میرزا قمی کے زمانے میں اپنی کتاب لکھی اور میرزا قمی کا تذکرہ "عالم، فاضل کامل، [[مجتہد]]، [[اصول فقہ]] کے ماہر" کے عنوان سے کیا ہے اور ان کی کتاب [[القوانین المحکمہ]] کی تعریف و تمجید کی ہے؛ جس کی تالیف [[ربیع الثانی]] سنہ 1205 ہجری میں مکمل ہوئی تھی۔<ref> زنوزى، ریاض الجنة، 4، قسم 1، ص523۔</ref> زنوزی کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ میرزا قمی کی کتاب القوانین المحکمہ مؤلف کی حیات میں ہی مشہور ہوئی تھی اور بےسبب نہیں ہے کہ یہ کتاب بعد میں حوزات علمیہ کی معتبر درسی کتب میں تبدیل ہوئی ہے۔ میرزا قمى نے [[فقہ]] میں بھی متعدد کتب اور رسائل کی تالیف کا اہتمام کیا ہے؛ منجملہ: غنائم الایام اور جامع الشتات۔ وہ جب [[عراق]] کے [[عتبات عالیہ]] میں قیام پذیر تھے تو انھوں نے متعدد مشہور علماء کی تربیت کی؛ منجملہ: [[ملا احمد نراقى]]، [[سید عبد اللہ شبر|سید عبداللہ شُبَّر]] اور صاحب کتاب [[مفتاح الکرامہ]] [[سید محمد جواد عاملى]]۔<ref> میرزاى قمى، غنائم الایام فى مسائل الحلال و الحرام، ج1، مقدمہ تبریزیان، ص48ـ49۔</ref> میرزا قمی کے بہت سے شاگردوں نے اس شہر سے ہجرت کی اور ان ایام کے زیادہ فعال حوزات علمیہ منجملہ [[نجف]] کا رخ کیا۔ اس کے باوجود وہ اپنے قیام کے دوران اس حوزہ کی علمی رونق کا سبب رہے اور ان کی موجودگی اس شہر میں دینی تعلیم و تعلم کے تسلسل کا باعث ہوئی۔


===میرزا قمی کے بعد کے علماء===
===میرزا قمی کے بعد کے علماء===
گمنام صارف