"سورہ زلزال" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←مضمون
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←متن سورہ) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←مضمون) |
||
سطر 13: | سطر 13: | ||
[[سورہ]] زلزال میں 8 [[آیات]]، 36 کلمے اور 158 حروف ہیں۔ یہ سورہ مفصلات سورتوں (جن کی آیات چھوٹی ہیں) اور قرآن کی چھوٹی سورتوں میں سے ہے۔<ref>دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۷.</ref> | [[سورہ]] زلزال میں 8 [[آیات]]، 36 کلمے اور 158 حروف ہیں۔ یہ سورہ مفصلات سورتوں (جن کی آیات چھوٹی ہیں) اور قرآن کی چھوٹی سورتوں میں سے ہے۔<ref>دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۷.</ref> | ||
==مضمون== | ==مضمون== | ||
سورہ زلزال تین مضامین پر مشتمل ہے: 1۔ قیامت واقع ہونے کی نشانیاں ([[اشراط | سورہ زلزال تین مضامین پر مشتمل ہے: 1۔ قیامت واقع ہونے کی نشانیاں ([[اشراط الساعۃ]])؛ 2۔ قیامت کے دن انسانی اعمال پر زمین کی گواہی؛ 3۔ لوگوں کو اچھے اور بروں میں تقسیم کرنا اور ہر کسی کو اس کے اعمال کا جزا ملنا<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۲۱۸.</ref>اللہ تعالی اس سورت میں قیامت کے دن محاکمہ سخت اور صحیح ہنے کی تاکید کرتا ہے۔<ref>دانشنامہ قرآن و قرآنپژوہی، ۱۳۷۷ش، ج۲، ص۱۲۶۷.</ref> | ||
{{سورہ زلزال}} | {{سورہ زلزال}} | ||
دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن زمین اپنے بوجہ (اَثقال) کو ظاہر کرے گی۔ [[علامہ طباطبایی]] لکھتے ہیں کہ صحیح نظرئے کے مطابق «اثقال» سے مراد مردے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۴۲.</ref>کہا گیا ہے کہ آخری تین آیتوں سے قیامت میں [[تجسم اعمال|اعمال کا مجسم ہونا]] اخذ کیا گیا ہے۔ یعنی انسان کے اعمال مناسب شکل میں اس کے سامنے ظاہر ہونگے اور ان کی ہمراہی رنجش یا خوشی کا باعث بنے گا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۲۲۷؛ مراجعہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۴۲.</ref> | دوسری آیت میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن زمین اپنے بوجہ (اَثقال) کو ظاہر کرے گی۔ [[علامہ طباطبایی]] لکھتے ہیں کہ صحیح نظرئے کے مطابق «اثقال» سے مراد مردے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۴۲.</ref>کہا گیا ہے کہ آخری تین آیتوں سے قیامت میں [[تجسم اعمال|اعمال کا مجسم ہونا]] اخذ کیا گیا ہے۔ یعنی انسان کے اعمال مناسب شکل میں اس کے سامنے ظاہر ہونگے اور ان کی ہمراہی رنجش یا خوشی کا باعث بنے گا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲۷، ص۲۲۷؛ مراجعہ کریں: طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۴۲.</ref> |