گمنام صارف
"امام حسن مجتبی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 178: | سطر 178: | ||
===معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح=== | ===معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح=== | ||
امام حسنؑ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ معاویہ کے ساتھ جنگ تھا جو صلح پر اختتام پذیر ہوا۔<ref> ہاشمى نژاد، درسى كہ حسین بہ انسانہا آموخت، ۱۳۸۲ش، ص۴۰۔</ref> | امام حسنؑ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ معاویہ کے ساتھ جنگ تھا جو صلح پر اختتام پذیر ہوا۔<ref> ہاشمى نژاد، درسى كہ حسین بہ انسانہا آموخت، ۱۳۸۲ش، ص۴۰۔</ref> | ||
جب [[عراق]] کے مسلمانوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی تو دوسرے اسلامی مناطق من جملہ [[حجاز]]، [[یمن]] اور فارس<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔</ref> والوں نے اس بیعت کی تائید اور حمایت کی لیکن [[شام]] والوں نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے [[معاویہ]] کی بیعت کی۔<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔</ref> معاویہ شام والوں کی اس بیعت کو قانونی اور شرعی شکل دینے کا ارادہ | جب [[عراق]] کے مسلمانوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی تو دوسرے اسلامی مناطق من جملہ [[حجاز]]، [[یمن]] اور فارس<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔</ref> والوں نے اس بیعت کی تائید اور حمایت کی لیکن [[شام]] والوں نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے [[معاویہ]] کی بیعت کی۔<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔</ref> معاویہ شام والوں کی اس بیعت کو قانونی اور شرعی شکل دینے کا ارادہ رکھتا تھا جسے وہ اپنی تقاریر اور امام حسنؑ کے ساتھ ہونے والے خط و کتابت میں برملا اظہار کرتا تھا۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۷ بہ بعد؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۲۵ بہ بعد۔</ref> معاویہ جو عثمان کے قتل کے بعد خلافت کیلئے پر طول رہا تھا،<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔</ref> لشکر لے کر شام سے عراق کی طرف روانہ ہو گیا۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۸۶۔</ref> | ||
تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق امام حسنؑ نے اپنے والد کی شہادت اور عراق والوں کی آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے 50 دن تک جنگ یا صلح کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۲۹</ref> لیکن جب آپ کو معاویہ کے شام سے حرکت کرنے کی خبر دی گئی تو آپ بھی لشکر لے کر کوفہ سے راونہ ہو | تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق امام حسنؑ نے اپنے والد کی شہادت اور عراق والوں کی آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے 50 دن تک جنگ یا صلح کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۲۹</ref> لیکن جب آپ کو معاویہ کے شام سے حرکت کرنے کی خبر دی گئی تو آپ بھی لشکر لے کر کوفہ سے راونہ ہو گئے اور [[عبیداللہ بن عباس]] کی سربراہی میں ہراول دستہ معاویہ کی طرف روانہ کیا۔<ref> ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۷۱۔</ref> | ||
::'''دونوں فوجوں کے درمیان جنگ''' | ::'''دونوں فوجوں کے درمیان جنگ''' | ||
دونوں فوجوں کے درمیان | دونوں فوجوں کے درمیان پہلے تصادم کے بعد جس میں معاویہ کے سپاہیوں کو شکست ہوئی، معاویہ نے رات کی تاریکی میں عبیداللہ کو یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن علیؑ نے مجھے صلح کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے نتیجے میں وہ [[خلافت]] میرے حوالے کریں گے۔ ساتھ ساتھ معاویہ نے عبیدالله کو ایک میلین درہم دینے کا بھی وعدہ دیا یوں عبیدالله معاویہ کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بعد [[قیس بن سعد]] نے لشکر کی کمانڈ سنبھالی۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۷۳-۷۴۔</ref> بلاذری (متوفی 279 ھ) کے مطابق عبیداللہ کے معاویہ کی طرف جانے کے بعد معاویہ اس خیال سے کہ اب امام حسنؑ کا لشکر کمزور ہو گیا ہے، ان پر بھر پور حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن امام کے سپاہیوں نے قیس کی قیادت میں شامیوں کو شکست دی۔ معاویہ نے قیس کو بھی عبیداللہ کی طرح لالچ دے کر اسے بھی راستے سے ہٹانا چاہا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۸۔</ref> | ||
::'''ساباط میں امام کی صورت حال''' | ::'''ساباط میں امام کی صورت حال''' | ||
امام حسنؑ بعض سپاہیوں کے ساتھ [[ساباط]] تشریف لے گئے۔ [[شیخ مفید]] کے مطابق امام حسنؑ نے لوگوں کو آزمانے کیلئے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا: "میں تمہارے حق میں جدائی اور تفرقہ کی نسبت وحدت اور ہمدلی کو بہتر سمجھتا ہوں جسے تم لوگ پسند نہیں کرتے...؛ جو تدبیر میں نے تمہارے لئے سوچا ہے وہ اس تدبیر سے بہتر ہے جسے تم نے انتخاب کیا | امام حسنؑ بعض سپاہیوں کے ساتھ [[ساباط]] تشریف لے گئے۔ [[شیخ مفید]] کے مطابق امام حسنؑ نے لوگوں کو آزمانے کیلئے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا: "میں تمہارے حق میں جدائی اور تفرقہ کی نسبت وحدت اور ہمدلی کو بہتر سمجھتا ہوں جسے تم لوگ پسند نہیں کرتے ...؛ جو تدبیر میں نے تمہارے لئے سوچا ہے وہ اس تدبیر سے بہتر ہے جسے تم نے انتخاب کیا ہے۔ ..." | ||
امام کے ان کلمات کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا پس حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کرکے خلافت معاویہ کے حوالے کرنے کا ارادہ | امام کے ان کلمات کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا پس حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کرکے خلافت معاویہ کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی بہانے بعض لوگوں نے امام کے خیمے پر حملہ کیا اور اسے غارت کرنا شروع کیا یہاں تک کہ امامؑ کی جائے نماز تک کو بھی آپ کے پاؤں کے نیچے سے کھینچ کر لے گئے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۔</ref> لیکن [[یعقوبی]] (متوفی 292 ھ) کے مطابق اس حادثے کی علت یہ تھی کہ معاویہ نے مذاکرات کیلئے چند لوگوں کو امام حسنؑ کے پاس بھیجا تھا۔ یہ لوگ جب امام کے پاس سے واپس آئے تو بلند آواز میں لوگوں تک آواز پہنچاتے ہوئے ایک دوسرے سے کہنا شروع کیا: خدا نے فرزند [[رسول خدا]] کے توسط سے مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرمائی اور فتنہ کو خاموش کیا اور حسن بن علیؑ نے صلح کو قبول کیا۔ جب باتیں امام کے سپاہیوں نے سنی تو وہ غصے میں آگئے اور امام کے خیمے پر حملہ آور ہوئے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۱۴۔</ref> اس واقعے کے بعد امامؑ کے اصحاب نے آپ کی حفاظت اپنے ذمے لئے لیکن رات کی تاریکی میں ایک خارجی<ref> دینوری، الأخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۱۷۔</ref> آپ کے قریب آیا اور کہا: اے حسن آپ مشرک ہو گئے ہیں جس طرح آپ کے والد علی بن ابی طالب مشرک ہو گئے تھے؛ یہ کہہ کر اس نے ایک خنجر سے امام پر وار کیا جس سے امام کی ران زخمی ہوئی اور آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲۔</ref> وہاں سے آپ کو [[مدائن]] لے جایا گیا جہاں پر آپ زخم ٹھیک ہونے تک [[سعد بن مسعود ثقفی]] کے گھر مقیم رہے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵۔</ref> | ||
معاویہ اور امام حسنؑ کے درمیان جنگ آخر کار صلح کی قرارداد پر طرفین کے دستخط کے اختتام پذیر ہوئی۔ [[رسول جعفریان]] کے مطابق لوگوں کی جنگ سے خستگی، زمانے کا تقاضا اور [[شیعہ|شیعوں]] کی حفاظت امام حسنؑ کو صلح قبول کرنے پر مجبور کیا۔<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۸-۱۵۵۔</ref> اس قرارداد کے مطابق خلافت معاویہ کے سپرد کیا گیا۔<ref> آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱۔</ref> | معاویہ اور امام حسنؑ کے درمیان جنگ آخر کار صلح کی قرارداد پر طرفین کے دستخط کے اختتام پذیر ہوئی۔ [[رسول جعفریان]] کے مطابق لوگوں کی جنگ سے خستگی، زمانے کا تقاضا اور [[شیعہ|شیعوں]] کی حفاظت امام حسنؑ کو صلح قبول کرنے پر مجبور کیا۔<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۸-۱۵۵۔</ref> اس قرارداد کے مطابق خلافت کو معاویہ کے سپرد کیا گیا۔<ref> آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱۔</ref> | ||
==معاویہ سے صلح کا واقعہ== | ==معاویہ سے صلح کا واقعہ== |