مندرجات کا رخ کریں

"امام حسن مجتبی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 231: سطر 231:
بعض تاریخی منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسنؑ کو اس وقت کے سماج میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ابن سعد (متوفی 230ھ) کہتے ہیں کہ جب لوگ حج کے موقع پر حسن بن علیؑ کو دیکھتے تو ان سے متبرک ہونے کے لئے ان کی طرف ہجوم لے جاتے تھے یہاں تک کہ [[حسین بن علیؑ]] بعض دوسرے افراد کی مدد سے لوگوں کو آپ سے دور کرتے تھے۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ۴۰۶.</ref> اسی طرح کہا جاتا ہے کہ [[ابن عباس]] بزرگان [[صحابہ]]<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۹۳۵.</ref> اور عمر کے لحاظ سے آپ سے بڑے ہونے کے باوجود حسن ابن علیؑ کے گھوڑے پر سوار ہوتے وقت ان کے لئے گھوڑے کے رکاب پکڑتے تھے۔<ref>عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۳۹.</ref>
بعض تاریخی منابع سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسنؑ کو اس وقت کے سماج میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ ابن سعد (متوفی 230ھ) کہتے ہیں کہ جب لوگ حج کے موقع پر حسن بن علیؑ کو دیکھتے تو ان سے متبرک ہونے کے لئے ان کی طرف ہجوم لے جاتے تھے یہاں تک کہ [[حسین بن علیؑ]] بعض دوسرے افراد کی مدد سے لوگوں کو آپ سے دور کرتے تھے۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ۱۴۱۸ق، ج۱۰، ۴۰۶.</ref> اسی طرح کہا جاتا ہے کہ [[ابن عباس]] بزرگان [[صحابہ]]<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الاصحاب، ۱۴۱۲ق، ج‏۹۳۵.</ref> اور عمر کے لحاظ سے آپ سے بڑے ہونے کے باوجود حسن ابن علیؑ کے گھوڑے پر سوار ہوتے وقت ان کے لئے گھوڑے کے رکاب پکڑتے تھے۔<ref>عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۳، ص۲۳۹.</ref>
===سیاست سے دوری اور معاویہ کا ساتھ نہ دینا===
===سیاست سے دوری اور معاویہ کا ساتھ نہ دینا===
امام حسنؑ کے کوفہ سے خارج ہونے کے بعد [[خوارج]] میں سے ایک گروہ معاویہ سے جنگ کے لئے [[نخیلہ]] نامی مقام پر جمع ہوئے۔ معاویہ نے امام حسنؑ کے نام ایک خط میں آپ سے واپس آکر خوارج سے جنگ کرنے کی درخواست کی۔ امامؑ نے معاویہ کی اس درخواست کو رد کرتے ہوئے ان کے خط کے جواب میں فرمایا: اگر  [[اہل قبلہ]] میں سے کسی سے جنگ کرنا تھا تو سب سے پہلے تمہارے ساتھ جنگ کرتا۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ش، ج‏۳، ص۴۰۹.</ref> اسی طرح حوثرہ اسدی کی قیادت میں خوارج کے ایک اور گروہ نے معاویہ کے خلاف قیام کیا تو معاویہ نے پھر وہی درخواست دہرائی اس کے جواب میں امامؑ نے بھی وہی جواب دہراتے ہوئے معاویہ سے لڑنے کو زیادہ سزاوار قرار دئے۔<ref>اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۳۶.</ref>
امام حسنؑ کے کوفہ سے خارج ہونے کے بعد [[خوارج]] میں سے ایک گروہ معاویہ سے جنگ کے لئے [[نخیلہ]] نامی مقام پر جمع ہوئے۔ معاویہ نے امام حسنؑ کے نام ایک خط میں آپ سے واپس آکر خوارج سے جنگ کرنے کی درخواست کی۔ امامؑ نے معاویہ کی اس درخواست کو رد کرتے ہوئے ان کے خط کے جواب میں فرمایا: اگر  [[اہل قبلہ]] میں سے کسی سے جنگ کرنا تھا تو سب سے پہلے تمہارے ساتھ جنگ کرتا۔<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ش، ج‏۳، ص۴۰۹.</ref> اسی طرح حوثرہ اسدی کی قیادت میں خوارج کے ایک اور گروہ نے معاویہ کے خلاف قیام کیا تو معاویہ نے پھر وہی درخواست دہرائی اس کے جواب میں امامؑ نے بھی وہی جواب دہراتے ہوئے معاویہ سے لڑنے کو زیادہ سزاوار قرار دئے۔<ref> اربلی، کشف الغمۃ، ۱۴۲۱ق، ج۱، ص۵۳۶.</ref>


بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ نے نہ فقط معاویہ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس کے بہت سارے اقدامات پر اعتراض بھی فرمایا کرتے تھے لیکن ان سب کے باوجود آپ معاویہ کی جانب سے بھیجے گئے تحفے تحائف کو قبول فرماتے تھے۔<ref>مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۴۱.</ref> ان تحائف کے ساتھ معاویہ سالانہ ایک میلین درہم<ref>قاضی عبد الجبار، تثبیت دلائل النبوۃ، دار المصطفی، ج۲، ص۵۶۷.</ref> یا ایک لاکھ دینار<ref>موصلی، مناقب آل محمد، ۱۴۲۴ق، ص۹۳.</ref> تک امام حسنؑ کی خدمت میں ارسال کرتے تھے۔ اس رقم سے کبھی اپنے قرضہ جات کو ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم کو اپنے ماتحت افراد اور رشتہ داروں میں تقسیم فرماتے تھے۔<ref>قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.</ref>
بعض احادیث میں آیا ہے کہ امام حسن مجتبیؑ نے نہ فقط معاویہ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اس کے بہت سارے اقدامات پر اعتراض بھی فرمایا کرتے تھے لیکن ان سب کے باوجود آپ معاویہ کی جانب سے بھیجے گئے تحفے تحائف کو قبول فرماتے تھے۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۴۱.</ref> ان تحائف کے ساتھ معاویہ سالانہ ایک میلین درہم<ref>قاضی عبد الجبار، تثبیت دلائل النبوۃ، دار المصطفی، ج۲، ص۵۶۷.</ref> یا ایک لاکھ دینار<ref> موصلی، مناقب آل محمد، ۱۴۲۴ق، ص۹۳.</ref> تک امام حسنؑ کی خدمت میں ارسال کرتے تھے۔ اس رقم سے کبھی اپنے قرضہ جات کو ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم کو اپنے ماتحت افراد اور رشتہ داروں میں تقسیم فرماتے تھے۔<ref> قطب راوندی، الخرائج و الجرائح، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.</ref>
اور کبھی ان تمام تحائف کو دوسرں میں تقسیم کرتے تھے۔<ref>ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۸.</ref>
اور کبھی ان تمام تحائف کو دوسرں میں تقسیم کرتے تھے۔<ref> ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۸.</ref>
بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی بنا پر حسن بن علیؑ معاویہ کی طرف سے بھیجے گئے تحائف کو بھی قبول نہیں کرتے تھے۔<ref>ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۸.</ref>
بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جن کی بنا پر حسن بن علیؑ معاویہ کی طرف سے بھیجے گئے تحائف کو بھی قبول نہیں کرتے تھے۔<ref> ابن شہر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۸.</ref>
یوں اس قسم کے احادیث کی وجہ سے بعض لوگوں میں شک و تردید<ref> ری شہری، دانشنامہ امام حسین، ۱۳۸۸، ج۳، ص۳۸-۳۹.</ref> ایجاد ہوتے اور چہ بسا ان سے متعلق [[علم کلام|کلامی]] اعتبار سے بعض بحث و مباحثے بھی وجود میں آتے تھے۔ مثلا [[سید مرتضی]] معاویہ سے مال دریافت کرنے اور ان سے صلہ رحمی کو امام حسنؑ کے لئے جایز بلکہ لوگوں پر زبردستی مسلط ہونے والے حکمرانوں سے لوگوں کی اموال کو واپس لینا ضروری ہونے کے عنوا سے اسے واجب بھی سمجھتے تھے۔<ref>سید مرتضی، تنزیہ الأنبیاء، الشریف الرضی، ج۱، ص۱۷۳-۱۷۴.</ref>
یوں اس قسم کے احادیث کی وجہ سے بعض لوگوں میں شک و تردید<ref> ری شہری، دانشنامہ امام حسین، ۱۳۸۸، ج۳، ص۳۸-۳۹.</ref> ایجاد ہوتے اور چہ بسا ان سے متعلق [[علم کلام|کلامی]] اعتبار سے بعض بحث و مباحثے بھی وجود میں آتے تھے۔ مثلا [[سید مرتضی]] معاویہ سے مال دریافت کرنے اور ان سے صلہ رحمی کو امام حسنؑ کے لئے جایز بلکہ لوگوں پر زبردستی مسلط ہونے والے حکمرانوں سے لوگوں کے اموال کو واپس لینا ضروری ہونے کے عنوان سے اسے واجب بھی سمجھتے تھے۔<ref> سید مرتضی، تنزیہ الأنبیاء، الشریف الرضی، ج۱، ص۱۷۳-۱۷۴.</ref>
::'''بنی امیہ کا برتاؤ'''
::'''بنی امیہ کا برتاؤ'''
منابع میں [[بنی امیہ]] کی طرف سے امام حسنؑ کے ساتھ روا رکھنے والے برے سلوک کا تذکرہ ملتا ہے۔<ref>ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۸.</ref> اسی طرح کتاب [[الاحتجاج علی اہل اللجاج (کتاب)|احتجاج]] میں امام حسنؑ اور معاویہ اور اس کے کارندں کے ساتھ ہونے والے بعض مناظرات بھی نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں آپؑ [[اہل بیت]] کے مقام و منزلت کا دفاع اور اپنے دشمنوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے تھے۔<ref>طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۷۰-۲۸۴.</ref>
منابع میں [[بنی امیہ]] کی طرف سے امام حسنؑ کے ساتھ روا رکھنے والے برے سلوک کا تذکرہ ملتا ہے۔<ref> ابن شہرآشوب‏، المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۸.</ref> اسی طرح کتاب [[الاحتجاج علی اہل اللجاج (کتاب)|احتجاج]] میں امام حسنؑ اور معاویہ اور اس کے کارندں کے ساتھ ہونے والے بعض مناظرات بھی نقل ہوئی ہیں۔ ان مناظرات میں آپؑ [[اہل بیت]] کے مقام و منزلت کا دفاع اور اپنے دشمنوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے تھے۔<ref> طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۱، ص۲۷۰-۲۸۴.</ref>


== شہادت اور تشییع کا واقعہ==
== شہادت اور تشییع کا واقعہ==
گمنام صارف