گمنام صارف
"امام حسن مجتبی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←خلافت کا مختصر دور
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 157: | سطر 157: | ||
==خلافت کا مختصر دور== | ==خلافت کا مختصر دور== | ||
امام حسن مجتبیؑ [[21 رمضان]] سنہ [[سنہ 40 ہجری قمری|40ھ]]<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۔</ref> کو اپنے والد | امام حسن مجتبیؑ [[21 رمضان]] سنہ [[سنہ 40 ہجری قمری|40ھ]]<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۔</ref> کو اپنے والد کی شہادت کے بعد 6 سے 8 مہینے تک خلافت کے عہدے پر فائز رہے۔<ref> منابع میں معاویہ کو خلافت تفویض کرنے کی تاریخ 25 [[ربیعالاول]] (مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۶۔) یا [[ربیع الاخر]] یا [[جمادی الاولی]](ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۵۔) سنہ [[سنہ 41 ہجری قمری|41ھ]] ثبت ہے۔</ref> [[اہل سنت]] پیغمبر اکرمؐ سے منسوب ایک حدیث کی رو سے آپ کو [[خلفائے راشدین]] میں سے آخری خلیفہ جانتے ہیں۔<ref> مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۹؛ مقدسى، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۲۳۸؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۶، ص۲۵۰۔</ref> | ||
آپ کی خلافت [[عراق]] کے لوگوں کی [[بیعت]] اور دوسرے مناطق کی حمایت سے شروع ہوئی۔<ref>جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸-۱۶۱۔</ref> لیکن [[شام]] والوں نے [[معاویہ]] کی قیادت میں اس بیعت کی مخالفت کی۔<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔</ref> معاویہ لشکر لے کر شام سے اہل عراق کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے روانہ ہوا۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۸۶۔</ref> آخر کار یہ جنگ امام حسنؑ اور معاویہ کے درمیان صلح نیز خلافت کو معاویہ کے سپرد کرنے کے ساتھ اختتام ہوا یوں معاویہ [[خلافت بنی امیہ]] کا پہلا خلیفہ بن گیا۔<ref>جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۷-۱۴۸۔</ref> | آپ کی خلافت [[عراق]] کے لوگوں کی [[بیعت]] اور دوسرے مناطق کی حمایت سے شروع ہوئی۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸-۱۶۱۔</ref> لیکن [[شام]] والوں نے [[معاویہ]] کی قیادت میں اس بیعت کی مخالفت کی۔<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔</ref> معاویہ لشکر لے کر شام سے اہل عراق کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے روانہ ہوا۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۸۶۔</ref> آخر کار یہ جنگ امام حسنؑ اور معاویہ کے درمیان صلح نیز خلافت کو معاویہ کے سپرد کرنے کے ساتھ اختتام ہوا یوں معاویہ [[خلافت بنی امیہ]] کا پہلا خلیفہ بن گیا۔<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۷-۱۴۸۔</ref> | ||
=== مسلمانوں کی بیعت اور اہل شام کی مخالفت=== | === مسلمانوں کی بیعت اور اہل شام کی مخالفت=== | ||
شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق [[امیر المؤمنین]] حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد سنہ [[سنہ 40 ہجری قمری|40ھ]] کو مسلمانوں نے حسن بن علیؑ کی بعنوان [[خلیفہ]] [[بیعت]] | شیعہ اور اہل سنت منابع کے مطابق [[امیر المؤمنین]] حضرت علیؑ کی شہادت کے بعد سنہ [[سنہ 40 ہجری قمری|40ھ]] کو مسلمانوں نے حسن بن علیؑ کی بعنوان [[خلیفہ]] [[بیعت]] کی۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۱۴؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۱۵۸؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۴۲۶۔</ref> بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق [[عبید اللہ بن عباس]] پیکر امام علیؑ کو دفن کرنے بعد لوگوں کے درمیان آئے اور آپ کی شہادت سے لوگوں کو باخبر کرتے ہوئے کہا: آپ ایک شایستہ اور بردبار جانشین ہماری درمیان چھوڑ کر گئے ہیں۔ اگر چاہیں تو ان کی بیعت کریں۔<ref> بلاذری، انساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۲۸۔</ref> | ||
کتاب [[الارشاد]] میں آیا ہے کہ [[21 رمضان]] جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علیؑ نے مسجد میں ایک خطبہ دیا جس میں اپنے والد | کتاب [[الارشاد]] میں آیا ہے کہ [[21 رمضان]] جمعہ کے دن صبح کو حسن بن علیؑ نے مسجد میں ایک خطبہ دیا جس میں اپنے والد کی شایستگی اور فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابتداری، اپنی ذاتی کمالات نیز [[اہل بیت]] کے مقام و منزلت کو قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۷-۹؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۶۲۔</ref> آپ کی تقریر کے بعد [[عبداللہ بن عباس]] اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں سے یوں مخاطب ہوا: اپنے نبی کے بیٹے اور اپنے امام کی جانشین کی بیعت کریں۔ اس کے بعد لوگوں نے آپ کی بعنوان خلیفہ [[بیعت]] کی۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۸-۹۔</ref> | ||
منابع میں آپ کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔<ref> مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۵۸، ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۵،دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۲۸۹، نویری، نہایۃ الأرب، ۱۴۲۳ق، ج۲۰، ص۲۲۹۔</ref> بعض منابع کے مطابق [[قیس بن سعد بن عبادہ]] جو لشکر امام علیؑ کے سپہ سالار تھے نے سب سے پہلے امام حسنؑ کی بیعت کی۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۱۵۸۔ </ref> | منابع میں آپ کی بیعت کرنے والوں کی تعداد 40 ہزار سے بھی زیادہ بتائی گئی ہے۔<ref> مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۳۵۸، ابن عبد البر، الاستیعاب فى معرفۃ الأصحاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۵،دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۲۸۹، نویری، نہایۃ الأرب، ۱۴۲۳ق، ج۲۰، ص۲۲۹۔</ref> بعض منابع کے مطابق [[قیس بن سعد بن عبادہ]] جو لشکر امام علیؑ کے سپہ سالار تھے نے سب سے پہلے امام حسنؑ کی بیعت کی۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۸ق، ج۵، ص۱۵۸۔ </ref> | ||
[[حسین محمد جعفری]] اپنی کتاب [[تشیع در مسیر تاریخ (کتاب)|تشیع در مسیر تاریخ]] میں کہتے ہیں کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے بہت سارے [[اصحاب]] جو اس وقت [[کوفہ]] میں مقیم تھے، نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور انہیں بطور خلیفہ قبول کیا۔<ref>جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸</ref> جعفری بعض قرائن و شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ [[مکہ]] | [[حسین محمد جعفری]] اپنی کتاب [[تشیع در مسیر تاریخ (کتاب)|تشیع در مسیر تاریخ]] میں کہتے ہیں کہ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے بہت سارے [[اصحاب]] جو اس وقت [[کوفہ]] میں مقیم تھے، نے امام حسنؑ کی بیعت کی اور انہیں بطور خلیفہ قبول کیا۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸</ref> جعفری بعض قرائن و شواہد کی بنا پر کہتے ہیں کہ [[مکہ]] و [[مدینہ]] کے مسلمان بھی حسن بن علیؑ کی بیعت میں عراق والوں کے ساتھ موافق تھے اور صرف آپ کو اس مقام کیلئے سزاوار جانتے تھے۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۸-۱۶۰</ref> وہ کہتے ہیں کہ [[یمن]] اور فارس کے لوگوں نے بھی اس بیعت کی تائید کی تھی یا کم از کم اس کے مخالف نہیں تھے۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱</ref> | ||
بعض منابع میں آیا ہے کہ بیعت کے وقت بعض شرائط کا بھی ذکر کیا گیا تھا، کتاب "الامامۃ و السیاسۃ" کے مطابق انہی شرائط کے ضمن میں جسن بن علیؑ نے لوگوں سے کہا: آیا میری اطاعت کرنے کی بیعت کرتے ہو؟۔ آیا جس سے میں جنگ کروں اس سے جنگ اور جس سے میں صلح کروں اس سے صلح کروگے؟ لوگ ان باتوں کو سننے کے بعد شک و تردید میں پڑ گئے اور [[حسین بن علیؑ]] کے پاس گئے تاکہ ان کی بیعت کی جائے، لیکن آپ نے فرمایا: میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں جب تک میرے بھائی حسنؑ زندہ ہیں تم لوگوں سے بیعت نہ کروں۔ اس کے بعد لوگ دوبارہ حسن بن علیؑ کے پاس لوت آئے اور ان کی بیعت | بعض منابع میں آیا ہے کہ بیعت کے وقت بعض شرائط کا بھی ذکر کیا گیا تھا، کتاب "الامامۃ و السیاسۃ" کے مطابق انہی شرائط کے ضمن میں جسن بن علیؑ نے لوگوں سے کہا: آیا میری اطاعت کرنے کی بیعت کرتے ہو؟۔ آیا جس سے میں جنگ کروں اس سے جنگ اور جس سے میں صلح کروں اس سے صلح کروگے؟ لوگ ان باتوں کو سننے کے بعد شک و تردید میں پڑ گئے اور [[حسین بن علیؑ]] کے پاس گئے تاکہ ان کی بیعت کی جائے، لیکن آپ نے فرمایا: میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں جب تک میرے بھائی حسنؑ زندہ ہیں تم لوگوں سے بیعت نہ کروں۔ اس کے بعد لوگ دوبارہ حسن بن علیؑ کے پاس لوت آئے اور ان کی بیعت کی۔<ref> ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۱۸۴۔</ref> طبری (متوفی 310ھ) کہتے ہیں: [[قیس بن سعد]] نے بیعت کرتے وقت یہ شرط رکھی کہ آپ [[قرآن|کتاب خدا]] اور [[سنت]] پیغمبر پر عمل کریں گے اور ان لوگوں سے جنگ کریں گے جو مسلمانوں کا خون حلال سمجھتے ہیں۔ لیکن امام حسنؑ نے صرف کتاب خدا اور سنت رسول پر عمل پیرا ہونے کی شرط کو قبول کیا اور دوسری شرط کو پہلے شرط سے ماخوذ قرار دیا۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۵، ص۱۵۸۔</ref> | ||
اس طرح کے مختلف واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ امام حسنؑ ایک صلح پسند اور جنگ گریز | اس طرح کے مختلف واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ امام حسنؑ ایک صلح پسند اور جنگ گریز شخصیت کے مالک تھے اور آپ کی سیرت [[امام علیؑ|اپنے والد گرامی]] اور [[امام حسینؑ|بھائی]] امام حسینؑ سے مختلف تھی۔<ref>http://www۔iranicaonline۔org/articles/hasan-b-ali، جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۲ش، ص ۱۶۱۔</ref> | ||
[[رسول جعفریان]] معتقد ہیں کہ ان شرائط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حسن بن علیؑ ابتداء سے ہی جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ان شرائظ کو ذکر کرنے کا اصلی مقصد اسلامی معاشرے کے رہبر اور پیشوا کے حق حاکمیت کو زندہ کرنا تھا تاکہ آئندہ پیش آنے والے مسائل میں آزادی کے ساتھ تصمیم گیری کر سکیں۔ اسے کے علاوہ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آپ معاویہ کے ساتھ جتگ کرنے پر زیادہ مصر تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۳۲۔</ref> بعد احادیث میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلا اقدام سپاہیوں کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ تھا۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۶۴</ref> | [[رسول جعفریان]] معتقد ہیں کہ ان شرائط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حسن بن علیؑ ابتداء سے ہی جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ان شرائظ کو ذکر کرنے کا اصلی مقصد اسلامی معاشرے کے رہبر اور پیشوا کے حق حاکمیت کو زندہ کرنا تھا تاکہ آئندہ پیش آنے والے مسائل میں آزادی کے ساتھ تصمیم گیری کر سکیں۔ اسے کے علاوہ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آپ معاویہ کے ساتھ جتگ کرنے پر زیادہ مصر تھے۔<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۳۲۔</ref> بعد احادیث میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلا اقدام سپاہیوں کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ تھا۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۶۴</ref> | ||
{{نقل قول | عنوان =معاویہ کے نام امام حسنؑ کے خط کا ایک حصہ| نقل قول =جب پیغمبر اکرمؐ رحلت فرما گئے تو عربوں نے ان کی جانشینی پر اختلاف کھڑا کیا، قریشیوں نے کہا: ہم پیغمبرؐ کے ہم قوم اور رشتہ دار ہیں لہذا ان کی جانشینی پر ہم سے اختلاف سزاوار نہیں۔ عربوں نے قریش والوں کی اس دلیل کو قبول کیا لیکن جب ہم نے قریش والوں سے وہی کہا جو انہوں نے دوسرے عربوں سے کہا تھا تو انہوں نے عربوں کے بر خلاف ہمارے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا۔ اے معاویہ آج اس منصب کی طرف تمہاری نظریں اٹھنے سے سب کو حیرت میں ڈھوبنا چاہئے کیونکہ تم اس کا اہل ہی نہیں ہو، تم اسلام مخالف ایک گروہ سے تعلق رکھتے ہو، قریش میں رسول خداؐ کے سب سے بدترین دشمن تم ہو۔ جب حضرت علیؑ شہید ہوئے تو مسلمانوں نے خلافت میرے حوالے کئے ہیں۔ پس باطل سے ہاتھ اٹھا کر میری بیعت کرو اور تم خود اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ اس منصب کیلئے خدا کے نزدیک میں سب سے زیادہ سزاوار ہوں۔|تاریخ بایگانی | | {{نقل قول|عنوان =معاویہ کے نام امام حسنؑ کے خط کا ایک حصہ| نقل قول =جب پیغمبر اکرمؐ رحلت فرما گئے تو عربوں نے ان کی جانشینی پر اختلاف کھڑا کیا، قریشیوں نے کہا: ہم پیغمبرؐ کے ہم قوم اور رشتہ دار ہیں لہذا ان کی جانشینی پر ہم سے اختلاف سزاوار نہیں۔ عربوں نے قریش والوں کی اس دلیل کو قبول کیا لیکن جب ہم نے قریش والوں سے وہی کہا جو انہوں نے دوسرے عربوں سے کہا تھا تو انہوں نے عربوں کے بر خلاف ہمارے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا۔ اے معاویہ آج اس منصب کی طرف تمہاری نظریں اٹھنے سے سب کو حیرت میں ڈھوبنا چاہئے کیونکہ تم اس کا اہل ہی نہیں ہو، تم اسلام مخالف ایک گروہ سے تعلق رکھتے ہو، قریش میں رسول خداؐ کے سب سے بدترین دشمن تم ہو۔ جب حضرت علیؑ شہید ہوئے تو مسلمانوں نے خلافت میرے حوالے کئے ہیں۔ پس باطل سے ہاتھ اٹھا کر میری بیعت کرو اور تم خود اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ اس منصب کیلئے خدا کے نزدیک میں سب سے زیادہ سزاوار ہوں۔|تاریخ بایگانی | | ||
| مآخذ = <small>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۴۔</small> | تراز = چپ| چوڑائی = 230px | اندازہ خط = 14px| گیومہ نقلقول = | مآخذ کی سمت = بائیں}} | | مآخذ = <small>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۴۔</small> | تراز = چپ| چوڑائی = 230px | اندازہ خط = 14px| گیومہ نقلقول = | مآخذ کی سمت = بائیں}} | ||
{{نقل قول | عنوان =امام حسنؑ کے نام معاویہ کے خط کا ایک حصہ| نقل قول = اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ تہذیب، امت اسلام کی مصلحت اندیشی، سیاست، اور مال و دولت جمع کرنے نیز دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مجھ سے بہتر اور طاقتور ہوتے تو میں آپ کی بیعت کرتا لیکن چونکہ میں ایک طولانی مدت تک بر سر اقتدار رہنے کی وجہ سے زیادہ باتجریہ اور سیاستمدار ہوں نیز عمر کے لحاظ سے بھی میں آپ سے بڑا ہوں پس سزاوار ہے کہ آپ میری حاکمیت کو قبول کریں۔ | {{نقل قول | عنوان =امام حسنؑ کے نام معاویہ کے خط کا ایک حصہ| نقل قول = اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ تہذیب، امت اسلام کی مصلحت اندیشی، سیاست، اور مال و دولت جمع کرنے نیز دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مجھ سے بہتر اور طاقتور ہوتے تو میں آپ کی بیعت کرتا لیکن چونکہ میں ایک طولانی مدت تک بر سر اقتدار رہنے کی وجہ سے زیادہ باتجریہ اور سیاستمدار ہوں نیز عمر کے لحاظ سے بھی میں آپ سے بڑا ہوں پس سزاوار ہے کہ آپ میری حاکمیت کو قبول کریں۔ | ||
سطر 178: | سطر 178: | ||
===معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح=== | ===معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح=== | ||
امام حسنؑ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ معاویہ کے ساتھ جنگ تھا جو صلح پر اختتام پذیر ہوا۔<ref>ہاشمى نژاد، درسى كہ حسین بہ انسانہا آموخت، ۱۳۸۲ش، ص۴۰۔</ref> | امام حسنؑ کی زندگی کا سب سے اہم واقعہ معاویہ کے ساتھ جنگ تھا جو صلح پر اختتام پذیر ہوا۔<ref> ہاشمى نژاد، درسى كہ حسین بہ انسانہا آموخت، ۱۳۸۲ش، ص۴۰۔</ref> | ||
جب [[عراق]] کے مسلمانوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی تو دوسرے اسلامی مناطق من جملہ [[حجاز]]، [[یمن]] اور فارس<ref>جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔</ref> والوں نے اس بیعت کی تائید اور حمایت کی لیکن [[شام]] والوں نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے [[معاویہ]] کی بیعت کی۔<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔</ref> معاویہ شام والوں کی اس بیعت کو قانونی اور شرعی شکل دینے کا ارادہ رکھا تھا جسے وہ اپنی تقاریر اور امام حسنؑ کے ساتھ ہونے والے خط و کتابت میں برملا اظہار کرتا تھا۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۷ بہ بعد؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۲۵ بہ بعد۔</ref> معاویہ جو عثمان کے قتل کے بعد خلافت کیلئے پر طول رہا تھا،<ref>جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔</ref> لشکر لے کر شام سے عراق کی طرف روانہ ہو گیا۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۸۶۔</ref> | جب [[عراق]] کے مسلمانوں نے امام حسنؑ کی بیعت کی تو دوسرے اسلامی مناطق من جملہ [[حجاز]]، [[یمن]] اور فارس<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔</ref> والوں نے اس بیعت کی تائید اور حمایت کی لیکن [[شام]] والوں نے اسے قبول نہ کرتے ہوئے [[معاویہ]] کی بیعت کی۔<ref> ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، دارالفکر، ج۸، ص۲۱۔</ref> معاویہ شام والوں کی اس بیعت کو قانونی اور شرعی شکل دینے کا ارادہ رکھا تھا جسے وہ اپنی تقاریر اور امام حسنؑ کے ساتھ ہونے والے خط و کتابت میں برملا اظہار کرتا تھا۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۷ بہ بعد؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۲۵ بہ بعد۔</ref> معاویہ جو عثمان کے قتل کے بعد خلافت کیلئے پر طول رہا تھا،<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۶۱۔</ref> لشکر لے کر شام سے عراق کی طرف روانہ ہو گیا۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴، ص۲۸۶۔</ref> | ||
تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق امام حسنؑ نے اپنے والد | تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق امام حسنؑ نے اپنے والد کی شہادت اور عراق والوں کی آپ کے ہاتھ پر بعنوان خلیفہ بیعت کرنے کے 50 دن تک جنگ یا صلح کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۲۹</ref> لیکن جب آپ کو معاویہ کے شام سے حرکت کرنے کی خبر دی گئی تو آپ بھی لشکر لے کر کوفہ سے راونہ ہو گیا اور [[عبیداللہ بن عباس]] کی سربراہی میں ہراول دستہ معاویہ کی طرف روانہ کیا۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۷۱۔</ref> | ||
::'''دونوں | ::'''دونوں فوجوں کے درمیان جنگ''' | ||
دونوں | دونوں فوجوں کے درمیان پہلی تصادم کے بعد جس میں معاویہ کے سپاہیوں کو شکست ہوئی، معاویہ نے رات کی تاریکی میں عبیداللہ کو یہ پیغام بھیجا کہ حسن بن علیؑ نے مجھے صلح کرنے کی پیشکش کی ہے جس کے نتیجے میں وہ [[خلافت]] میرے حوالے کرے گا۔ ساتھ ساتھ معاویہ نے عبیدالله کو ایک میلین درہم دینے کا بھی وعدہ دیا یوں عبیدالله معاویہ کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بعد [[قیس بن سعد]] نے لشکر کی کمانڈ سنبھالی۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دارالمعرفۃ، ص۷۳-۷۴۔</ref> بلاذری (متوفی 279ھ) کے مطابق عبیداللہ کے معاویہ کی طرف جانے کے بعد معاویہ اس خیال سے کہ اب امام حسنؑ کا لشکر کمزور ہ گیا ہے، ان پر بھر پور حملہ کرنے کا حکم دیا لیکن امام کے سپاہیوں نے قیس کی قیادت میں شامیوں کو شکست دیا۔ معاویہ نے قیس کو بھی عبیداللہ کی طرح لالچ دے کر اسے بھی راستے سے ہٹانا چاہا جس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۸۔</ref> | ||
::'''ساباط میں امام کی صورت حال''' | ::'''ساباط میں امام کی صورت حال''' | ||
امام حسنؑ بعض سپاہیوں کے ساتھ [[ساباط]] تشریف لے گئے۔ [[شیخ مفید]] کے مطابق امام حسنؑ نے لوگوں کو آزمانے کیلئے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا: "میں تمہارے حق میں جدائی اور تفرقہ کی نسبت وحدت اور ہمدلی کو بہتر سمجھتا ہوں جسے تم لوگ پسند نہیں کرتے...؛ جو تدبیر میں نے تمہارے لئے سوچا ہے وہ اس تدبیر سے بہتر ہے جسے تم نے انتخاب کیا ہے..." | امام حسنؑ بعض سپاہیوں کے ساتھ [[ساباط]] تشریف لے گئے۔ [[شیخ مفید]] کے مطابق امام حسنؑ نے لوگوں کو آزمانے کیلئے ایک خطبہ دیا جس میں فرمایا: "میں تمہارے حق میں جدائی اور تفرقہ کی نسبت وحدت اور ہمدلی کو بہتر سمجھتا ہوں جسے تم لوگ پسند نہیں کرتے...؛ جو تدبیر میں نے تمہارے لئے سوچا ہے وہ اس تدبیر سے بہتر ہے جسے تم نے انتخاب کیا ہے..." | ||
امام کے ان کلمات کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا پس حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح | امام کے ان کلمات کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا پس حسن بن علیؑ معاویہ کے ساتھ صلح کرکے خلافت معاویہ کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسی بہانے بعض لوگوں نے امام کے خیمے پر حملہ کیا اور اسے غارت کرنا شروع کیا یہاں تک کہ امامؑ کی جائے نماز تک کو بھی آپ کے پاؤں کے نیچے سے کھینچ کر لے گئے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۔</ref> لیکن [[یعقوبی]] (متوفی 292ھ) کے مطابق اس حادثے کی علت یہ تھی کہ معاویہ نے مذاکرات کیلئے چند لوگوں کو امام حسنؑ کے پاس بھیجا تھا۔ ان لوگوں نے جب امام کے پاس سے واپس آئے تو بلند آواز میں لوگوں تک آواز پہنچاتے ہوئے ایک دوسرے سے کہا: خدا نے فرزند [[رسول خدا]] کے توسط سے مسلمانوں کے خون کی حفاظت فرمایا اور فتنہ کو خاموش کیا اور حسن بن علیؑ نے صلح کو قبول کیا۔ جب باتیں امام کے سپاہیوں نے سنی تو وہ غصے میں آگئے اور امام کے خیمے پر حملہ آور ہوئے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۲۱۴۔</ref> اس واقعے کے بعد امامؑ کے اصحاب نے آپ کی حفاظت اپنے ذمے لئے لیکن رات کی تاریکی میں ایک خارجی<ref> دینوری، الأخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ص۲۱۷۔</ref> آپ کے قریب آیا اور کہا: اے حسن آپ مشرک ہو گئے ہو جس طرح آپ کے والد علی بن ابی طالب مشرک ہو گئے تھے؛ یہ کہہ کر اس نے ایک خنجر سے امام پر وار کیا جس سے امام کا ران زخمی ہوا اور آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲۔</ref> وہاں سے آپ کو [[مدائن]] لے جایا گیا جہاں پر آپ زخم ٹھیک ہونے تک [[سعد بن مسعود ثقفی]] کے گھر مقیم رہے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵۔</ref> | ||
معاویہ اور امام حسنؑ کے درمیان جنگ آخر کار صلح کی قرارداد پر طرفین کے دستخط کے اختتام پذیر ہوئی۔ [[رسول جعفریان]] کے مطابق لوگوں کی جنگ سے خستگی، زمانے کا تقاضا اور [[شیعہ|شیعوں]] کی حفاظت امام حسنؑ کو صلح قبول کرنے پر مجبور کیا۔<ref>جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۸-۱۵۵۔</ref> اس قرارداد کے مطابق خلافت معاویہ کے سپرد کیا گیا۔<ref>آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱۔</ref> | معاویہ اور امام حسنؑ کے درمیان جنگ آخر کار صلح کی قرارداد پر طرفین کے دستخط کے اختتام پذیر ہوئی۔ [[رسول جعفریان]] کے مطابق لوگوں کی جنگ سے خستگی، زمانے کا تقاضا اور [[شیعہ|شیعوں]] کی حفاظت امام حسنؑ کو صلح قبول کرنے پر مجبور کیا۔<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۸-۱۵۵۔</ref> اس قرارداد کے مطابق خلافت معاویہ کے سپرد کیا گیا۔<ref> آل یاسین، صلح الحسن، ۱۴۱۲ق، ص۲۵۹-۲۶۱۔</ref> | ||
==معاویہ سے صلح کا واقعہ== | ==معاویہ سے صلح کا واقعہ== |