confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←نام) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←مشہور آیات) |
||
سطر 16: | سطر 16: | ||
==مشہور آیات== | ==مشہور آیات== | ||
<font color=green>{{قرآن کا متن|'''وَکلَّ شَیءٍ أَحْصَینَاهُ فِی إِمَامٍ مُّبِینٍ'''|ترجمہ =اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر دیا ہے۔|سورت=یس|آیت=12}}'''</font><br/> | 1-<font color=green>{{قرآن کا متن|'''وَکلَّ شَیءٍ أَحْصَینَاهُ فِی إِمَامٍ مُّبِینٍ'''|ترجمہ =اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین میں جمع کر دیا ہے۔|سورت=یس|آیت=12}}'''</font><br/> | ||
بہت سارے مفسروں نے «امام مُبین» کو یہاں پر [[لوح محفوظ]] یا وہ کتاب جس میں تمام موجودات اور حادثات نیز تمام اعمال درج ہوتے ہیں وہ مراد لیا ہے۔ بعض نے لفظ «لفظ امام» کو یہاں استعمال کرنے کے بارے میں یہ بتایا ہے شاید یہ کتاب قیامت میں ثواب اور عقاب کے مامور افراد کے لیے رہبر اور پیشوا اور انسانی اعمال ناپنے اور انہیں ثواب و عقاب دینے کا پیمانہ قرار دیا ہے۔<ref>بیضاوی، انوار التنزیل، ۱۴۱۸ق،دار احیاء التراث العربی، بیروت، ج۴، ص۲۶۴.</ref>شیعہ حدیث کے منابع میں یہ گہا گیا ہے کہ امام مبین سے مراد [[امام علیؑ]] ہیں؛ جیسا کہ امام محمد باقرؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے اپنا رخ امام علیؑ کی طرف کیا اور کہا: یہ مرد «امام مبین ہیں! یہ وہ امام ہیں جس کے لیے اللہ تعالی نے ہر چیز دی ہے۔».<ref><font color=blue>{{حدیث|'''«هُوَ هذا اِنَّهُ الاِمامُ الَّذِی اَحْصَی اللّهُ تَبارَکَ وَ تَعالی فَیهِ عِلْمَ کُلِّ شَیء»'''}}</font><br/>(صدوق، معانی الاخبار، باب معنی الامام المبین، ۱۳۷۹ ق، ص۹۵).</ref>اسی طرح ابن عباس سے تفسیر نور الثقلین میں نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ یوں فرماتے تھے: خدا کی قسم میں امام مبین ہوں اور حق کو باطل سے جدا کرتا ہوں اور اس علم کو رسول اللہؐ سے ارث میں لیا ہے۔<ref>عروسی حویزی، نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۷۹.</ref> | بہت سارے مفسروں نے «امام مُبین» کو یہاں پر [[لوح محفوظ]] یا وہ کتاب جس میں تمام موجودات اور حادثات نیز تمام اعمال درج ہوتے ہیں وہ مراد لیا ہے۔ بعض نے لفظ «لفظ امام» کو یہاں استعمال کرنے کے بارے میں یہ بتایا ہے شاید یہ کتاب قیامت میں ثواب اور عقاب کے مامور افراد کے لیے رہبر اور پیشوا اور انسانی اعمال ناپنے اور انہیں ثواب و عقاب دینے کا پیمانہ قرار دیا ہے۔<ref>بیضاوی، انوار التنزیل، ۱۴۱۸ق،دار احیاء التراث العربی، بیروت، ج۴، ص۲۶۴.</ref>شیعہ حدیث کے منابع میں یہ گہا گیا ہے کہ امام مبین سے مراد [[امام علیؑ]] ہیں؛ جیسا کہ امام محمد باقرؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے: جب یہ آیت نازل ہوئی تو پیغمبر اکرمؐ نے اپنا رخ امام علیؑ کی طرف کیا اور کہا: یہ مرد «امام مبین ہیں! یہ وہ امام ہیں جس کے لیے اللہ تعالی نے ہر چیز دی ہے۔».<ref><font color=blue>{{حدیث|'''«هُوَ هذا اِنَّهُ الاِمامُ الَّذِی اَحْصَی اللّهُ تَبارَکَ وَ تَعالی فَیهِ عِلْمَ کُلِّ شَیء»'''}}</font><br/>(صدوق، معانی الاخبار، باب معنی الامام المبین، ۱۳۷۹ ق، ص۹۵).</ref>اسی طرح ابن عباس سے تفسیر نور الثقلین میں نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ یوں فرماتے تھے: خدا کی قسم میں امام مبین ہوں اور حق کو باطل سے جدا کرتا ہوں اور اس علم کو رسول اللہؐ سے ارث میں لیا ہے۔<ref>عروسی حویزی، نور الثقلین، ۱۴۱۵ق، ج۴، ص۳۷۹.</ref> | ||
<font color=green>{{قرآن کا متن|'''إِنَمَا أَمرهُ إِذا أَرادَ شَیئًا أَن یقولَ لَه کن فیکونُ'''|ترجمہ =اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کوئی چیز پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔|سورت=یس|آیت=82}}'''</font><br/> | 2-<font color=green>{{قرآن کا متن|'''إِنَمَا أَمرهُ إِذا أَرادَ شَیئًا أَن یقولَ لَه کن فیکونُ'''|ترجمہ =اس کا معاملہ تو بس یوں ہے کہ جب وہ کوئی چیز پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً) ہو جاتی ہے۔|سورت=یس|آیت=82}}'''</font><br/> | ||
اس آیت میں خلقت کی حالت بیان ہوتی ہے۔ علامہ طباطبایی اپنی تفسیر میں اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ دنیا خلق کرنے میں اللہ تعالی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے؛ اس کے بعد کہتا ہے کہ «صرف اسے کہتے ہیں ہوجاؤ» تو یہ حقیقت میں ایک تمثیل ہے نہ یہ کہ اللہ تعالی موجودات کی خلقت میں کلام کا محتاج ہو اور اللہ تعالی حکم دے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷ ص۱۱۴.</ref>امام علیؑ سے ایک نقل میں آیا ہے کہ اللہ تعالی کا کلام (کُن-ہوجاؤ) وہی اس کا فعل ہے جو اس چیز کو ایجاد کرتی ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص۸۲، خطبہ۲۳۲.</ref> | اس آیت میں خلقت کی حالت بیان ہوتی ہے۔ علامہ طباطبایی اپنی تفسیر میں اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ دنیا خلق کرنے میں اللہ تعالی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے؛ اس کے بعد کہتا ہے کہ «صرف اسے کہتے ہیں ہوجاؤ» تو یہ حقیقت میں ایک تمثیل ہے نہ یہ کہ اللہ تعالی موجودات کی خلقت میں کلام کا محتاج ہو اور اللہ تعالی حکم دے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷ ص۱۱۴.</ref>امام علیؑ سے ایک نقل میں آیا ہے کہ اللہ تعالی کا کلام (کُن-ہوجاؤ) وہی اس کا فعل ہے جو اس چیز کو ایجاد کرتی ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۳، ص۸۲، خطبہ۲۳۲.</ref> |