مندرجات کا رخ کریں

"سورہ انعام" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 34: سطر 34:
{{قرآن کا متن|وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ‌ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌
{{قرآن کا متن|وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ‌ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ‌ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌
<br />
<br />
|ترجمہ=گر خدا تمہیں کوئی ضرر و زیاں پہنچانا چاہے تو اس کے پاس اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔=100%}}
|ترجمہ=گر خدا تمہیں کوئی ضرر و زیاں پہنچانا چاہے تو اس کے پاس اس کا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے۔ اور اگر کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے۔}}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}<!--
{{خاتمہ}}
ہدف سورہ انعام را ریشہ‌کن کردن عوامل [[شرک]] دانستہ‌اند؛ بہ ہمین دلیل در این آیہ ضمن تقبیح توجہ بہ غیرخدا، بیان می‌دارد کہ برای حل مشکلات و رفع زیان و جلب منفعت بہ معبودہای ساختگی پناہ مبرید؛ چراکہ اگر کمترین زیانی بہ تو برسد برطرف کنندہ آن کسی جز خدا نخواہد بود و اگر خیر و برکتی نصیب تو شود، فقط در پرتو قدرت خداوند است۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۷۴۔</ref> این آیہ را بیان‌گر حکومت ارادہ خدا بر تمام ارادہ‌ہای دیگر دانستہ‌اند و بہ صراحت عقیدہ نثویین (دوگانہ پرستان) را کہ قائل بہ دو منشأ برای خیر و شر ہستند رد می‌کند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۷۵۔</ref>
سورہ انعام کا بنیادی مقصد [[شرک]] کے عوامل کا خاتمہ قرار دیا گیا ہے؛ اسی وجہ سے اس آیت میں غیرخدا کی طرف رجوع کرنے کی مذمت کرتے ہوئے  مشکلات کے حل، نقصان سے بچنے اور منفعت کے حصول کے لئے خودساختہ خداؤوں کی طرف رجوع کرنے سے منع کی گئی ہے؛ کیونکہ اگر انسان پہنچنے والے چھوٹے سے چھوٹے نقصان کا بھی ازالہ کرنے والے خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہے اسی طرح انسان کو حاصل ہونے والی تمام خوبیوں اور خیر و برکات کا منبع بھی صرف اور صرف خدا کی ذات ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۷۴۔</ref> اس آیت میں تمام ارادوں پر خدا کے ارادے کی حاکمیت کو بیان کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ ثنویت (جس میں خیر اور شر کے لئے علیحدہ علیحدہ خدا کے قائل ہیں) کے عقیدے کو رد کیا گیا ہے۔۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۷۵۔</ref>


منظور از شر منتسب بہ خدا در این آیہ را سلب نعمت دانستہ‌اند کہ در جای خود خیر است؛ زیرا گاہ برای تنبہ، تعلیم و تربیت و برطرف ساختن [[غرور]] نیاز است۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۷۵۔</ref>
اس آیت میں خدا کی طرف نسبت دی جانے والے شرور کو سلب نعمت سے تعبیر کی گئی ہے جو در حقیقت خیر کے مصادیق میں سے ہے؛ کیونکہ کبھی کبھار تنبہ، تعلیم و تربیت اور [[غرور]] و تکبر کے ازالے کے لئے یہ چیز لازمی ہوا کرتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۷۵۔</ref>


===آیہ ۲۰===
===آیت نمبر 20===
<div style="text-align: center;"><noinclude>
<div style="text-align: center;"><noinclude>
{{قرآن کا متن|الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ...''' ﴿۲۰﴾»
{{قرآن کا متن|الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ...
<br />
<br />
|ترجمه=كسانى كه كتاب [آسمانى] به آنان داده‏‌ايم همان‌گونه كه پسران خود را مى‌شناسد، او (پيامبر) را مى‌شناسد.|اندازه=100%}}
|ترجمہ=جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ان (پیغمبر(ص)) کو اس طرح پہنچاتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو پہنچاتے ہیں۔}}
</noinclude>
</noinclude>
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}<!--
این [[آیہ]] یک بار دیگر در [[سورہ بقرہ]] آیہ ۱۴۶ تکرار شدہ است<ref>البتہ محتوای این آیہ در آیاتی دیگر با الفاظی متفاوت بیان شدہ است، مثل اعراف ۱۵۷، فتح ۲۹، شعراء ۱۹۷ (طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۷، ص۴۱)۔</ref> و در پاسخ بہ [[شرک|مشرکانی]] است کہ مدعی بودند [[اہل کتاب]] ہیچ‌گونہ گواہی دربارہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] نمی‌دہند۔ [[قرآن]] با این سخن، این پیام را می‌رساند کہ اہل کتاب نہ تنہا از اصل ظہور و دعوت پیامبر(ص) آگاہ بودند، بلکہ جزئیات و خصوصیات و نشانہ‌ہای دقیق او را می‌دانستند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۸۲۔</ref> چنان‌کہ از عبداللہ بن سلام کہ از علمای [[یہودیت|یہود]] بود و [[اسلام]] را پذیرفت نقل شدہ است کہ گفت: من او را بہتر از فرزندم می‌شناسم۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۴۹۹۔</ref>
این [[آیہ]] یک بار دیگر در [[سورہ بقرہ]] آیہ ۱۴۶ تکرار شدہ است<ref>البتہ محتوای این آیہ در آیاتی دیگر با الفاظی متفاوت بیان شدہ است، مثل اعراف ۱۵۷، فتح ۲۹، شعراء ۱۹۷ (طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۷، ص۴۱)۔</ref> و در پاسخ بہ [[شرک|مشرکانی]] است کہ مدعی بودند [[اہل کتاب]] ہیچ‌گونہ گواہی دربارہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبر(ص)]] نمی‌دہند۔ [[قرآن]] با این سخن، این پیام را می‌رساند کہ اہل کتاب نہ تنہا از اصل ظہور و دعوت پیامبر(ص) آگاہ بودند، بلکہ جزئیات و خصوصیات و نشانہ‌ہای دقیق او را می‌دانستند۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۱۸۲۔</ref> چنان‌کہ از عبداللہ بن سلام کہ از علمای [[یہودیت|یہود]] بود و [[اسلام]] را پذیرفت نقل شدہ است کہ گفت: من او را بہتر از فرزندم می‌شناسم۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۴۹۹۔</ref>


confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم