مندرجات کا رخ کریں

"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 68: سطر 68:
| منبع =  
| منبع =  
| تراز = راست
| تراز = راست
| پس‌زمینه = #d3fdfd  
| پس زمینہ = #d3fdfd  
| عرض =  230px
| عرض =  230px
| حاشیه =  
| حاشیه =  
سطر 123: سطر 123:


==اسرائیل کے قیام کی صہیونی وجوہات==
==اسرائیل کے قیام کی صہیونی وجوہات==
{{جعبه نقل قول|عنوان=[[مرتضی مطہری]]|نویسنده=|نقل قول="وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تین ہزار سال پہلے، ہم میں سے دو افراد [داؤد اور سلیمان] نے وہاں ایک عارضی مدت کے لیے حکومت کی۔۔۔ ان تمام دو تین ہزار سالوں میں، فلسطین کی سرزمین یہودیوں سے متعلق کب ہوئی؟۔۔۔ نہ اسلام سے پہلے ان کا تھا اور نہ اسلام کے بعد۔ جس دن مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اس دوران فلسطین یہودیوں کے ہاتھ میں نہیں عیسائیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اتفاق کی بات یہ کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کی، جو چیز انہوں نے امن معاہدے میں شامل کی تھی وہ یہ تھی کہ تم یہودیوں کو یہاں نہ آنے دو۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچانک سے اس جگہے کا نام یہودیوں کے وطن کا نام کیسے پڑ گیا؟"<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1390شمسی، ج17،‌ ص288۔</ref>|منبع=|تراز=چپ|پس‌زمینه=#fef1fb|عرض=250px|حاشیه=|اندازه قلم=14px}}
{{جعبه نقل قول|عنوان=[[مرتضی مطہری]]|نویسنده=|نقل قول="وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تین ہزار سال پہلے، ہم میں سے دو افراد [داؤد اور سلیمان] نے وہاں ایک عارضی مدت کے لیے حکومت کی۔۔۔ ان تمام دو تین ہزار سالوں میں، فلسطین کی سرزمین یہودیوں سے متعلق کب ہوئی؟۔۔۔ نہ اسلام سے پہلے ان کا تھا اور نہ اسلام کے بعد۔ جس دن مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اس دوران فلسطین یہودیوں کے ہاتھ میں نہیں عیسائیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اتفاق کی بات یہ کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کی، جو چیز انہوں نے امن معاہدے میں شامل کی تھی وہ یہ تھی کہ تم یہودیوں کو یہاں نہ آنے دو۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچانک سے اس جگہے کا نام یہودیوں کے وطن کا نام کیسے پڑ گیا؟"<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1390شمسی، ج17،‌ ص288۔</ref>|منبع=|تراز=چپ|پس زمینہ=#fef1fb|عرض=250px|حاشیه=|اندازه قلم=14px}}
صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے اور وہاں اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے چند قسم کے اسباب اور جواز پیش کیے ہیں، جنہیں اسرائیلی دیومالائی کہانی یا اسرائیل کا افسانہ بھی کہا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص 13-17، 33، 35 و 47-50؛ پاپه، ایده اسرائیل، 1398شمسی، ص152۔</ref> ان اسباب و وجوہات میں سے کچھ مذہبی پہلو کے حامل ہیں جبکہ دیگر کچھ  غیر مذہبی پہلو رکھتے ہیں: ان کا ایک مذہبی پہلو یہ ہے کہ صیہونیوں کے مطابق فلسطین "ارض موعود" ہے<ref>فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم، ‌1393شمسی، ص25؛ سجادی، پیدایش و تداوم صهیونیسم، 1386شمسی، ص45۔</ref> جس کا سِفْر پیدائش{{نوٹ|«اس دن یَهُوَه نے اِبْرام کے ساتھ عہد باندھا اور کہا: میں نے یہ ملک مصر کے دریا سے لے کر دریائے فرات تک تیری اولاد کو بخش دیا ہے»۔(عهد عتیق، سفر پیدایش، باب 15، آیه 18.)}} میں اس زمین کو اولاد ابراہیمؑ کو بخشے جانے کے بارے میں ذکر آیا ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص37و38 و 187۔</ref> صیہونیوں کے مطابق، اس سرزمین سے دوسروں کو بے دخل کرنا جس کا صرف بعض لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا، نہ صرف ایک حق ہے بلکہ ایک فرض بھی ہے۔<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41۔</ref>
صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے اور وہاں اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے چند قسم کے اسباب اور جواز پیش کیے ہیں، جنہیں اسرائیلی دیومالائی کہانی یا اسرائیل کا افسانہ بھی کہا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص 13-17، 33، 35 و 47-50؛ پاپه، ایده اسرائیل، 1398شمسی، ص152۔</ref> ان اسباب و وجوہات میں سے کچھ مذہبی پہلو کے حامل ہیں جبکہ دیگر کچھ  غیر مذہبی پہلو رکھتے ہیں: ان کا ایک مذہبی پہلو یہ ہے کہ صیہونیوں کے مطابق فلسطین "ارض موعود" ہے<ref>فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم، ‌1393شمسی، ص25؛ سجادی، پیدایش و تداوم صهیونیسم، 1386شمسی، ص45۔</ref> جس کا سِفْر پیدائش{{نوٹ|«اس دن یَهُوَه نے اِبْرام کے ساتھ عہد باندھا اور کہا: میں نے یہ ملک مصر کے دریا سے لے کر دریائے فرات تک تیری اولاد کو بخش دیا ہے»۔(عهد عتیق، سفر پیدایش، باب 15، آیه 18.)}} میں اس زمین کو اولاد ابراہیمؑ کو بخشے جانے کے بارے میں ذکر آیا ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص37و38 و 187۔</ref> صیہونیوں کے مطابق، اس سرزمین سے دوسروں کو بے دخل کرنا جس کا صرف بعض لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا، نہ صرف ایک حق ہے بلکہ ایک فرض بھی ہے۔<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41۔</ref>


سطر 134: سطر 134:
نیز، اسرائیل نے [[غزہ کی پٹی]] کے لوگوں پر بارہا حملہ کیا ہے۔ منجملہ سنہ 2008ء کی 22 روزہ جنگ، سنہ 2012ء کی 8 روزہ جنگ اور سنہ 2014ء کی 51 روزہ جنگ ان جنگوں کی مثالیں ہیں۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر؛ «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق۔</ref> اکتوبر 2023ء میں اسرائیل [[طوفان الاقصیٰ]] کے جواب میں غزہ کی پٹی پر حملہ کیا جس میں 20,000 سے زائد فلسطینی شہید اور 54 ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔<ref>«[https://www.aljazeera.net/news/2023/12/25/الاحتلال-يواصل-تصعيده-بالضفة-ويعتقل الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين]»، خبرگزاری الجزیره۔</ref>
نیز، اسرائیل نے [[غزہ کی پٹی]] کے لوگوں پر بارہا حملہ کیا ہے۔ منجملہ سنہ 2008ء کی 22 روزہ جنگ، سنہ 2012ء کی 8 روزہ جنگ اور سنہ 2014ء کی 51 روزہ جنگ ان جنگوں کی مثالیں ہیں۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر؛ «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق۔</ref> اکتوبر 2023ء میں اسرائیل [[طوفان الاقصیٰ]] کے جواب میں غزہ کی پٹی پر حملہ کیا جس میں 20,000 سے زائد فلسطینی شہید اور 54 ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔<ref>«[https://www.aljazeera.net/news/2023/12/25/الاحتلال-يواصل-تصعيده-بالضفة-ويعتقل الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين]»، خبرگزاری الجزیره۔</ref>


{{جعبه نقل قول| عنوان =| نقل‌قول = جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر [[سید علی حسینی خامنہ ای|آیت‌ اللہ خامنه‌ ای]] کا عالمی [[یوم قدس]] کے اجتماع سے خطاب:{{-}}"موجودہ زمانے میں انسانی جرائم میں اس حجم اور اس شدت کے ساتھ کوئی جرم نہیں ہے۔ کسی ملک پر قبضہ کرنا اور لوگوں کو ان کے گھروں اور آبائی زمینوں سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کرنا، انہیں قتل و غارت کرنا، انتہائی گھناؤنے انداز میں ان کی نسل کشی کرنا اور تاریخ میں کئی دہائیوں پر مشتمل ظلم و جبر درندگی اور شیطان صفتی کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ "۔<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=45665 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref>|تاریخ بایگانی| منبع =| تراز = چپ| عرض = 250px| اندازه خط = 14px|رنگ پس‌زمینه =#FFF9E7| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
{{جعبه نقل قول| عنوان =| نقل‌قول = جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر [[سید علی حسینی خامنہ ای|آیت‌ اللہ خامنه‌ ای]] کا عالمی [[یوم قدس]] کے اجتماع سے خطاب:{{-}}"موجودہ زمانے میں انسانی جرائم میں اس حجم اور اس شدت کے ساتھ کوئی جرم نہیں ہے۔ کسی ملک پر قبضہ کرنا اور لوگوں کو ان کے گھروں اور آبائی زمینوں سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کرنا، انہیں قتل و غارت کرنا، انتہائی گھناؤنے انداز میں ان کی نسل کشی کرنا اور تاریخ میں کئی دہائیوں پر مشتمل ظلم و جبر درندگی اور شیطان صفتی کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ "۔<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=45665 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref>|تاریخ بایگانی| منبع =| تراز = چپ| عرض = 250px| اندازه خط = 14px|رنگ پس زمینہ =#FFF9E7| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
===اجتماعی قتل و غارت===
===اجتماعی قتل و غارت===
فلسطین پر قبضے کے دوران اسرائیل نے فلسطین اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بے شمار قتل عام کیے ہیں۔ کچھ خبر رساں ایجنسیوں نے 120 مرتبہ اسرائیلی مظالم کا ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق۔</ref> مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے سنہ 2023ء تک صیہونیوں کے ہاتھوں 100 ہزار سے زائد فلسطینی [[شہید]] ہوئے ہیں۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔</ref> فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہریوں اور بچوں کے قتل کو عالمی برادری نے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.aa.com.tr/fa/جهان/نمایندگان-پارلمان-اروپا-حملات-اسرائيل-علیه-غزه-را-نسل-کشی-دانستند/3054343 نمایندگان پارلمان اروپا حملات اسرائیل علیه غزه را نسل‌کشی دانستند]»، خبرگزاری آناتولی؛ Ayyash, «[https://www.aljazeera.com/opinions/2023/11/2/a-genocide-is-under-way-in-palestine A genocide is under way in Palestine]», Al Jazeera Media Network۔</ref>  
فلسطین پر قبضے کے دوران اسرائیل نے فلسطین اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بے شمار قتل عام کیے ہیں۔ کچھ خبر رساں ایجنسیوں نے 120 مرتبہ اسرائیلی مظالم کا ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق۔</ref> مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے سنہ 2023ء تک صیہونیوں کے ہاتھوں 100 ہزار سے زائد فلسطینی [[شہید]] ہوئے ہیں۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔</ref> فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہریوں اور بچوں کے قتل کو عالمی برادری نے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.aa.com.tr/fa/جهان/نمایندگان-پارلمان-اروپا-حملات-اسرائيل-علیه-غزه-را-نسل-کشی-دانستند/3054343 نمایندگان پارلمان اروپا حملات اسرائیل علیه غزه را نسل‌کشی دانستند]»، خبرگزاری آناتولی؛ Ayyash, «[https://www.aljazeera.com/opinions/2023/11/2/a-genocide-is-under-way-in-palestine A genocide is under way in Palestine]», Al Jazeera Media Network۔</ref>  
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم