مندرجات کا رخ کریں

"علم غیب" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
(عدد انگلیسی)
 
سطر 9: سطر 9:
ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں:  ایک حد اقلی و محدود جبکہ دوسرا حد اکثری اور نامحدود۔ ائمہ معصومینؑ کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ ان کا علم غیب چند چیزوں تک محدود ہے جبکہ بعض علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومین کا علم غیب تمام چیزوں کو شامل کرتا ہے یعنی جو اب تک دنیا میں آئی ہیں اور جو آئندہ دنیا میں آئیں گے سب کو شامل کرتا ہے۔
ائمہ معصومین کے علم غیب کے بارے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں:  ایک حد اقلی و محدود جبکہ دوسرا حد اکثری اور نامحدود۔ ائمہ معصومینؑ کے بارے میں بعض کہتے ہیں کہ ان کا علم غیب چند چیزوں تک محدود ہے جبکہ بعض علماء بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومین کا علم غیب تمام چیزوں کو شامل کرتا ہے یعنی جو اب تک دنیا میں آئی ہیں اور جو آئندہ دنیا میں آئیں گے سب کو شامل کرتا ہے۔
==تعریف اور اہمیت==
==تعریف اور اہمیت==
علم غیب پوشیدہ اور [[حواس خمسہ]] کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں ہونے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔<ref>امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۲۔</ref> لغت میں "غیب" اس چیز کو کہا جاتا ہے جو حواس خمسہ سے مخفی اور پوشیدہ ہو؛ اس کے مقابلے میں شہود ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک چیزوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ج۲، ص۱۳۴-۱۳۵؛ راغب، المفردات، ۱۴۱۲ھ، ص۶۱۶۔</ref> اصطلاح میں غیب اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام وسائل اور اوزار سے ممکن نہ ہو۔<ref>مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ھ، ج۱، ص۴۴؛ سبحانی، مفاہیم القرآن، ۱۴۲۰ھ، ج۳، ص۴۰۲-۴۰۷۔</ref>
علم غیب پوشیدہ اور [[حواس خمسہ]] کے ذریعے غیر قابل درک چیزوں کے بارے میں ہونے والی آگاہی کو کہا جاتا ہے۔<ref>امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص52۔</ref> لغت میں "غیب" اس چیز کو کہا جاتا ہے جو حواس خمسہ سے مخفی اور پوشیدہ ہو؛ اس کے مقابلے میں شہود ہے جو حواس خمسہ کے ذریعے قابل درک چیزوں کو کہا جاتا ہے۔<ref> طریحی، مجمع البحرین، 1375ہجری شمسی، ج2، ص134-135؛ راغب، المفردات، 1412ھ، ص616۔</ref> اصطلاح میں غیب اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی شناخت عام وسائل اور اوزار سے ممکن نہ ہو۔<ref>مغنیہ، التفسیر الکاشف، 1424ھ، ج1، ص44؛ سبحانی، مفاہیم القرآن، 1420ھ، ج3، ص402-407۔</ref>


مذہب امامیہ بعض آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف انبیاء اور ائمہ معصومینؑ خدا کے اذن سے علم غیب رکھتے ہیں۔<ref>علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۱۱۵؛ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۳۔</ref> شیعوں کے اسی عقیدے کی بنا پر بعض وہابی ان کی طرف غلو کی نسبت دیتے ہیں۔<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: الہی ظہیر، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸-۷۰؛ غنیمان، علم الغیب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، ۱۴۲۵ھ، ص۱۰۔</ref> علم غیب، اس کے اقسام، محدودہ اور نوعیت وغیرہ من جملہ ان امور میں سے ہیں جن کے بارے میں قدیم ایام سے متکلمین بحث کرتے چلے آرہے ہیں<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۳۱۳۔</ref> اور موجودہ دور (پندرہویں صدی ہجری) میں بھی وہابیوں کی طرف سے لگائے جانے والی تہمتوں نیز اس مسئلے کی حقیقت کو درک کرنے میں ان کی ناکامی کی وجہ سے آج بھی امامیہ متکلمین اس مسئلے کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔<ref>امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، ۱۳۸۵ہجری شمسی، ص۳۱۷۔</ref>
مذہب امامیہ بعض آیات اور احادیث سے استناد کرتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ صرف انبیاء اور ائمہ معصومینؑ خدا کے اذن سے علم غیب رکھتے ہیں۔<ref>علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، 1404ھ، ج3، ص115؛ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص53۔</ref> شیعوں کے اسی عقیدے کی بنا پر بعض وہابی ان کی طرف غلو کی نسبت دیتے ہیں۔<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: الہی ظہیر، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68-70؛ غنیمان، علم الغیب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، 1425ھ، ص10۔</ref> علم غیب، اس کے اقسام، محدودہ اور نوعیت وغیرہ من جملہ ان امور میں سے ہیں جن کے بارے میں قدیم ایام سے متکلمین بحث کرتے چلے آرہے ہیں<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص313۔</ref> اور موجودہ دور (پندرہویں صدی ہجری) میں بھی وہابیوں کی طرف سے لگائے جانے والی تہمتوں نیز اس مسئلے کی حقیقت کو درک کرنے میں ان کی ناکامی کی وجہ سے آج بھی امامیہ متکلمین اس مسئلے کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔<ref>امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص52؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، 1385ہجری شمسی، ص317۔</ref>


== اقسام==
== اقسام==
علم غیب رکھنے والے شخص کی بنسبت علم غیب کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے:
علم غیب رکھنے والے شخص کی بنسبت علم غیب کو دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے:
*ذاتی و مستقل علم غیب:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۶۷ و ص۳۱۳۔</ref> علم غیب کی یہ قسم ذاتی ہے اسے متعلقہ شخص نے کسی اور سے کسب نہیں کیا ہے۔<ref>سبحانی، جدال احسن، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۹۸-۹۹۔</ref> علمِ غیب کی یہ قسم نامحدود اور لامتناہی ہے جو صرف اور صرف خدا کے ساتھ مختص ہے اور خدا کے ساتھ اس علم میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۶۷؛ سبحانی، جدال احسن، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۹۸-۹۹۔</ref> [[شیخ مفید]] اپنی کتاب [[اوائل المقالات|اوائل‌المقالات]] میں کہتے ہیں کہ بعض [[غالی]] اور [[تفویض|مفوضہ]] علم غیب کی اس قسم کو ائمہ معصومینؑ کی طرف بھی نسبت دیتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۶۷۔</ref> شیخ مفید اس نظریے کو باطل قرار دیتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۶۷۔</ref>
*ذاتی و مستقل علم غیب:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67 و ص313۔</ref> علم غیب کی یہ قسم ذاتی ہے اسے متعلقہ شخص نے کسی اور سے کسب نہیں کیا ہے۔<ref>سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص98-99۔</ref> علمِ غیب کی یہ قسم نامحدود اور لامتناہی ہے جو صرف اور صرف خدا کے ساتھ مختص ہے اور خدا کے ساتھ اس علم میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ص67؛ سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص98-99۔</ref> [[شیخ مفید]] اپنی کتاب [[اوائل المقالات|اوائل‌المقالات]] میں کہتے ہیں کہ بعض [[غالی]] اور [[تفویض|مفوضہ]] علم غیب کی اس قسم کو ائمہ معصومینؑ کی طرف بھی نسبت دیتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67۔</ref> شیخ مفید اس نظریے کو باطل قرار دیتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67۔</ref>
*مستفاد یا وابستہ علم غیب:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۶۷ و ص۳۱۳۔</ref> علم غیب کی یہ قسم خدا اپنے بعض خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔<ref>سبحانی، جدال احسن، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۰۰۔</ref>تمام امامیہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء الہی اور ائمہ معصومینؑ علم غیب کی اسی قسم سے بہرہ مند ہیں جسے خدا نے خود ان ہستیوں کو تعلیم دی ہے اور ان ہستیوں نے اسے خدا سے کسب کیا ہے۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۶۷؛ سبحانی، علم غیب (آگاہی سوم)، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ص۶۳-۶۴۔</ref>
*مستفاد یا وابستہ علم غیب:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67 و ص313۔</ref> علم غیب کی یہ قسم خدا اپنے بعض خاص بندوں کو عطا کرتا ہے۔<ref>سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص100۔</ref>تمام امامیہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ انبیاء الہی اور ائمہ معصومینؑ علم غیب کی اسی قسم سے بہرہ مند ہیں جسے خدا نے خود ان ہستیوں کو تعلیم دی ہے اور ان ہستیوں نے اسے خدا سے کسب کیا ہے۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67؛ سبحانی، علم غیب (آگاہی سوم)، 1375ہجری شمسی، ص63-64۔</ref>


==انبیاء کے علم غیب پر وہابیوں کے اعتراضات اور شیعوں کا جواب==
==انبیاء کے علم غیب پر وہابیوں کے اعتراضات اور شیعوں کا جواب==
بعض [[وہابیت|وہابی]] علم غیب کو صرف خدا تک منحصر اور محدود سمجھتے ہوئے انبیاء الہی یہاں تک کہ پیغمبر اکرمؐ کے علم غیب رکھنے سے انکار کرتے ہیں۔<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref> سعودی عرب کے وہابی مفتی عبد العزیز بن‌باز علم غیب کو غیر خدا کی طرف نسبت دینے کو گمراہی اور کفر کا سبب قرار دیتا ہے۔<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷۔</ref> اپنے اس نظریے پر قرآن کی دو قسم کی آیات سے استدلال کرتے ہیں:
بعض [[وہابیت|وہابی]] علم غیب کو صرف خدا تک منحصر اور محدود سمجھتے ہوئے انبیاء الہی یہاں تک کہ پیغمبر اکرمؐ کے علم غیب رکھنے سے انکار کرتے ہیں۔<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔</ref> سعودی عرب کے وہابی مفتی عبد العزیز بن‌باز علم غیب کو غیر خدا کی طرف نسبت دینے کو گمراہی اور کفر کا سبب قرار دیتا ہے۔<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97۔</ref> اپنے اس نظریے پر قرآن کی دو قسم کی آیات سے استدلال کرتے ہیں:
#وہ آیات جن میں خود پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بارے میں علم غیب کی نفی کی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 50|{{عربی|قُلْ لَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَ لَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ}}]]؛ کہو: میں نہیں کہتا کہ خدا کے خزینے میرے پاس ہے اور میں غیب سے آگاہ اور مطلع نہیں ہوں»۔<ref>سورہ انعام، آیہ ۵۰؛ بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref>
#وہ آیات جن میں خود پیغمبر اکرمؐ نے اپنے بارے میں علم غیب کی نفی کی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 50|{{عربی|قُلْ لَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللَّہِ وَ لَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ}}]]؛ کہو: میں نہیں کہتا کہ خدا کے خزینے میرے پاس ہے اور میں غیب سے آگاہ اور مطلع نہیں ہوں»۔<ref>سورہ انعام، آیہ 50؛ بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔</ref>
#وہ آیات جن میں غیب سے آگاہی کو صرف خدا کے ساتھ مختص کی گئی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 59|{{عربی|وَ عِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ}}]]»۔<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، ۲۰۰۸م، ج۳، ص۹۷؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، ۱۳۹۶ھ، ص۶۸۔</ref>
#وہ آیات جن میں غیب سے آگاہی کو صرف خدا کے ساتھ مختص کی گئی ہے؛<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔</ref> مانند آیت «[[سورہ انعام کی آیت نمبر 59|{{عربی|وَ عِنْدَہُ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ}}]]»۔<ref>بن‌باز، مجموع فتاوی ابن باز، 2008م، ج3، ص97؛ ظہیر الہی، الشیعۃ و السنۃ، 1396ھ، ص68۔</ref>


اس نظریے کی رد میں قرآن کی مختلف آیات جیسے [[سورہ آل عمران]] کی آیت نمبر [[سورہ آل عمران آیت نمبر ۴۴|44]] اور [[سورہ آل عمران آیت نمبر 179|۱۷۹]] اور [[سورہ جن]] کی آیت نمبر [[سورہ جن آیت نمبر26|۲۶]] اور [[سورہ جن آیت نمبر 27|۲۷]] سے استدلال کیا گیا ہے، ان آیات کے مطابق خدا نے اپنے بعض انبیاء اور منتخب بندوں کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔<ref>نمازی شاہرودی، علم غیب، ۱۳۹۳ہجری شمسی، ص۳۱-۳۴؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ج۲۷، ص۸۲۸۔</ref>
اس نظریے کی رد میں قرآن کی مختلف آیات جیسے [[سورہ آل عمران]] کی آیت نمبر [[سورہ آل عمران آیت نمبر 44|44]] اور [[سورہ آل عمران آیت نمبر 179|179]] اور [[سورہ جن]] کی آیت نمبر [[سورہ جن آیت نمبر26|26]] اور [[سورہ جن آیت نمبر 27|27]] سے استدلال کیا گیا ہے، ان آیات کے مطابق خدا نے اپنے بعض انبیاء اور منتخب بندوں کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔<ref>نمازی شاہرودی، علم غیب، 1393ہجری شمسی، ص31-34؛ مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج27، ص828۔</ref>


اسی طرح کہا گیا ہے کہ قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں علم غیب کی دو اقسام؛ علم غیب ذاتی و مستقل اور علم غیب مستفاد و وابستہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ آیات جن میں علم غیب کو صرف خدا کے ساتھ مختص کیا گیا ہے ان میں علم غیب سے مراد ذاتی و مستقل علم غیب ہے جو صرف خدا کے ساتھ متخص ہے۔ جبکہ وہ آیات جن میں غیر خدا کے یہاں پر علم غیب کی بات کی گئی هے ان سے مراد وابستہ و مستفاد علم غیب ہے؛ یعنی وہ علم غیب جسے خدا نے انبیاء اور بعض منتخب بندوں کے لئے عطا کیا ہے۔<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: علامہ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۵، ص۵۷-۵۸؛ سبحانی، جدال احسن، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۹۸-۱۰۰؛ سبحانی، علم غیب (آگاہی سوم)، ۱۳۷۵ہجری شمسی، ص۶۳-۶۴۔</ref>
اسی طرح کہا گیا ہے کہ قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں علم غیب کی دو اقسام؛ علم غیب ذاتی و مستقل اور علم غیب مستفاد و وابستہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ آیات جن میں علم غیب کو صرف خدا کے ساتھ مختص کیا گیا ہے ان میں علم غیب سے مراد ذاتی و مستقل علم غیب ہے جو صرف خدا کے ساتھ متخص ہے۔ جبکہ وہ آیات جن میں غیر خدا کے یہاں پر علم غیب کی بات کی گئی هے ان سے مراد وابستہ و مستفاد علم غیب ہے؛ یعنی وہ علم غیب جسے خدا نے انبیاء اور بعض منتخب بندوں کے لئے عطا کیا ہے۔<ref>برای نمونہ ملاحظہ کریں: علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج5، ص57-58؛ سبحانی، جدال احسن، 1390ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، علم غیب (آگاہی سوم)، 1375ہجری شمسی، ص63-64۔</ref>


ایران کے شیعہ عالم دین اور فلسفی [[شہید مطہری]] نے قرآن کی مذکورہ دو قسم کی آیات کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم غیب کے باب میں قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ جو ہستی بغیر تعلیم اور کسب کے غیب پر علم پیدا کرے اسے عالم بالغیب کہا جاتا ہے جو صرف خدا ہے جبکہ انبیاء اور خدا کے بعض منتخب بندے جو غیب سے آگاہ ہوتے ہیں وہ متعلم‌ الغیب ہیں یعنی ان کا علم غیب خدا کی طرف سے عظا شده ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ج۲۷، ص۸۲۸۔</ref>
ایران کے شیعہ عالم دین اور فلسفی [[شہید مطہری]] نے قرآن کی مذکورہ دو قسم کی آیات کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم غیب کے باب میں قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ جو ہستی بغیر تعلیم اور کسب کے غیب پر علم پیدا کرے اسے عالم بالغیب کہا جاتا ہے جو صرف خدا ہے جبکہ انبیاء اور خدا کے بعض منتخب بندے جو غیب سے آگاہ ہوتے ہیں وہ متعلم‌ الغیب ہیں یعنی ان کا علم غیب خدا کی طرف سے عظا شده ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، 1390ہجری شمسی، ج27، ص828۔</ref>


==ائمہ معصومینؑ کا علم غیب==
==ائمہ معصومینؑ کا علم غیب==
{{اصلی|علم امام}}
{{اصلی|علم امام}}
مذہب امامیہ کے مطابق ائمہ معصومینؑ کا علم غیب بھی پیغمبر اکرمؐ کی طرح خدا کی طرف سے عطا شدہ ہے۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، ۱۴۲۹ھ، ج۲‌، ص۴۶۔</ref> ان کے مطابق علم الہی چہ بسا پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے ائمہ معصومینؑ تک پہنچتا ہے؛ اس طرح کہ پیغمبر اکرمؐ علم غیب کو خدا سے حاصل کیا ہے پھر آپؐ نے اسے امام علیؑ کو امام علیؑ نے امام حسنؑ کو اسی طرح ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام کو تعلیم دی یہاں تک کہ آخری امام یعنی امام مہدیؑ تک یہ علم منتقل ہوا ہے۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، ۱۴۲۹ھ، ج۲‌، ص۴۶۔</ref> چہ بسا علم الہی کسی اور طریقے سے امامؑ تک پہنچتا ہے۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، ۱۴۲۹ھ، ج۲‌، ص۴۷۔</ref> مثلا شعہ حدیثی منابع میں موجود بعض احادیث کے مطابق جبرئیل نے آئندہ پیش آنے والے واقعات اور حوادث کے بارے میں [[حضرت فاطمہ(س)]] کو خبر دی جنہیں حضرت علیؑ کے توسط سے [[مصحف فاطمہ(س)|مُصحف فاطمہ]] میں تحریر کیا گیا۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۳۹-۲۴۰۔</ref> اسی طرح بعض احادیث کے مطابق امامؑ فرشتوں کے ساتھ [[تحدیث|ہم کلام]] ہونے<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۳۹-۲۷۰۔</ref> یا [[الہام]] کے ذریعے غیب سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۶۴۔</ref>  
مذہب امامیہ کے مطابق ائمہ معصومینؑ کا علم غیب بھی پیغمبر اکرمؐ کی طرح خدا کی طرف سے عطا شدہ ہے۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، 1429ھ، ج2‌، ص46۔</ref> ان کے مطابق علم الہی چہ بسا پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے ائمہ معصومینؑ تک پہنچتا ہے؛ اس طرح کہ پیغمبر اکرمؐ علم غیب کو خدا سے حاصل کیا ہے پھر آپؐ نے اسے امام علیؑ کو امام علیؑ نے امام حسنؑ کو اسی طرح ہر امام نے اپنے بعد آنے والے امام کو تعلیم دی یہاں تک کہ آخری امام یعنی امام مہدیؑ تک یہ علم منتقل ہوا ہے۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، 1429ھ، ج2‌، ص46۔</ref> چہ بسا علم الہی کسی اور طریقے سے امامؑ تک پہنچتا ہے۔<ref> خرازی، بدایۃ المعارف، 1429ھ، ج2‌، ص47۔</ref> مثلا شعہ حدیثی منابع میں موجود بعض احادیث کے مطابق جبرئیل نے آئندہ پیش آنے والے واقعات اور حوادث کے بارے میں [[حضرت فاطمہ(س)]] کو خبر دی جنہیں حضرت علیؑ کے توسط سے [[مصحف فاطمہ(س)|مُصحف فاطمہ]] میں تحریر کیا گیا۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص239-240۔</ref> اسی طرح بعض احادیث کے مطابق امامؑ فرشتوں کے ساتھ [[تحدیث|ہم کلام]] ہونے<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص239-270۔</ref> یا [[الہام]] کے ذریعے غیب سے آگاہ ہو سکتے ہیں۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص264۔</ref>  


بعض احادیث کے مطابق امام انبیاء کے علم کے وارث<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۴۷۰۔</ref>علم الہی کے خزانہ دار<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۱۹۲۔</ref> ہیں۔ شیعہ بعض احادیث من جملہ [[حدیث مدینۃ العلم]] سے استناد کرتے ہیں جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے خود کو علم کا شہر اور [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]] کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۶ھ، ج۲۷، ص۳۴</ref>
بعض احادیث کے مطابق امام انبیاء کے علم کے وارث<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص470۔</ref>علم الہی کے خزانہ دار<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص192۔</ref> ہیں۔ شیعہ بعض احادیث من جملہ [[حدیث مدینۃ العلم]] سے استناد کرتے ہیں جس میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے خود کو علم کا شہر اور [[امام علی علیہ‌السلام|امام علیؑ]] کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، 1416ھ، ج27، ص34</ref>


امامؑ کے علم غیب کی مقدار کے بارے میں بعض شیعہ متکلمین کا عقیدہ ہے کہ امام کا علم بعض خاص موارد کے ساتھ محدود ہے۔<ref>حلی، اجوبۃ المسائل، ص۱۴۸۔</ref> [[شیخ مفید]] علم غیب کو امام کی ضروری صفات اور شرائط میں سے قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومینؑ بعض انسانوں کے ضمیروں سے اور بعض ایسی چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئی سے بھی واقف ہوتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ھ، ص۶۷۔</ref> بعض دوسرے متکلمین بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۲۵۸-۲۶۲۔</ref>اس بات کے معتقد ہیں کہ ائمہؑ اس کائنات میں رونما ہونے والے ماضی اور مستقبل کے تمام واقعات پر علم رکھتے ہیں۔<ref>مظفر، علم الامام، مکتبۃ الحیدریۃ، ص۲۳</ref>
امامؑ کے علم غیب کی مقدار کے بارے میں بعض شیعہ متکلمین کا عقیدہ ہے کہ امام کا علم بعض خاص موارد کے ساتھ محدود ہے۔<ref>حلی، اجوبۃ المسائل، ص148۔</ref> [[شیخ مفید]] علم غیب کو امام کی ضروری صفات اور شرائط میں سے قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ائمہ معصومینؑ بعض انسانوں کے ضمیروں سے اور بعض ایسی چیزیں جو ابھی وجود میں نہیں آئی سے بھی واقف ہوتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص67۔</ref> بعض دوسرے متکلمین بعض احادیث سے استناد کرتے ہوئے<ref>کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص258-262۔</ref>اس بات کے معتقد ہیں کہ ائمہؑ اس کائنات میں رونما ہونے والے ماضی اور مستقبل کے تمام واقعات پر علم رکھتے ہیں۔<ref>مظفر، علم الامام، مکتبۃ الحیدریۃ، ص23</ref>
==دوسرے انبیاء کا علم غیب==
==دوسرے انبیاء کا علم غیب==
[[سورہ جن]] کی [[سورہ جن آیت نمبر 26|آیت نمبر 26]] اور [[سورہ جن آیت نمبر 27|27]] کے مطابق خدا اپنے انبیاء میں سے جس کسی کو چاہے علم غیب عطا کرتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۶۳ہجری شمسی، ج۲۰، ص۵۳۔</ref> اسی طرح بعض آیات کے مطابق بعض  انبیاء مختلف موارد میں غیب سے آگاہ تھے اور انہوں نے غیب کی خبریں دی ہیں:
[[سورہ جن]] کی [[سورہ جن آیت نمبر 26|آیت نمبر 26]] اور [[سورہ جن آیت نمبر 27|27]] کے مطابق خدا اپنے انبیاء میں سے جس کسی کو چاہے علم غیب عطا کرتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج20، ص53۔</ref> اسی طرح بعض آیات کے مطابق بعض  انبیاء مختلف موارد میں غیب سے آگاہ تھے اور انہوں نے غیب کی خبریں دی ہیں:
*[[سورہ ہود آیت نمبر 81]] کے مطابق [[حضرت لوط]] ان کی قوم پر آنے والے [[عذاب الہی|عذاب]] سے پہلے فرشتوں کے ذریعے اس سے آگاہ ہوا<ref>سورہ ہود، آیہ ۸۱۔</ref> جو علم غیب‌ کے مصادیق میں سے ایک ہے۔<ref>نادم، علم غیب از نگاہ عقل و وحی، ۱۳۹۵ہجری شمسی، ص۱۳۰۔</ref>
*[[سورہ ہود آیت نمبر 81]] کے مطابق [[حضرت لوط]] ان کی قوم پر آنے والے [[عذاب الہی|عذاب]] سے پہلے فرشتوں کے ذریعے اس سے آگاہ ہوا<ref>سورہ ہود، آیہ 81۔</ref> جو علم غیب‌ کے مصادیق میں سے ایک ہے۔<ref>نادم، علم غیب از نگاہ عقل و وحی، 1395ہجری شمسی، ص130۔</ref>
*«[[سورہ آل‌عمران آیت نمبر 49|{{عربی|وَ أُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَأْکُلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ}}]]؛ اور میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کیا کھاتے ہو اور کیا ذخیرہ کرتے ہو»،<ref>سورہ آل عمران، آیہ ۴۹۔</ref> کے مطابق حضرت عیسی کی طرف سے لوگوں کے اسرار کے بارے میں خبر دینا اور غیبی چیزوں کے بارے میں ان کی آگاہی ان کے معجزات اور ان کی حقانیت کی نشانیوں میں سے تھی۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی، ج۲، ص۵۵۶۔</ref>
*«[[سورہ آل‌عمران آیت نمبر 49|{{عربی|وَ أُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَأْکُلُونَ وَ مَا تَدَّخِرُونَ فِی بُیُوتِکُمْ}}]]؛ اور میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کیا کھاتے ہو اور کیا ذخیرہ کرتے ہو»،<ref>سورہ آل عمران، آیہ 49۔</ref> کے مطابق حضرت عیسی کی طرف سے لوگوں کے اسرار کے بارے میں خبر دینا اور غیبی چیزوں کے بارے میں ان کی آگاہی ان کے معجزات اور ان کی حقانیت کی نشانیوں میں سے تھی۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج2، ص556۔</ref>
*[[سورہ آل عمران آیت نمبر 45]] کے مطابق خدا نے کی فرشتے کے ذریعے [[حضرت مریم(س)|حضرت مریم]] کو ان کے بیٹے [[مسیح|حضرت عیسی]] کی ولادت کی بشارت دی اور انہیں اس سے آگاہ کیا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ہجری شمسی، ج۲، ص۵۴۷۔</ref>
*[[سورہ آل عمران آیت نمبر 45]] کے مطابق خدا نے کی فرشتے کے ذریعے [[حضرت مریم(س)|حضرت مریم]] کو ان کے بیٹے [[مسیح|حضرت عیسی]] کی ولادت کی بشارت دی اور انہیں اس سے آگاہ کیا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج2، ص547۔</ref>
*آیت «[[سورہ ہود آیت نمبر49|{{عربی|تِلْکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ}}]]؛ یہ غیبی خبروں میں سے ایک ہے جو آپ پر وحی کی جا رہی ہے»،<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۹۔</ref> کے مطابق جب خدا نے قرآن میں پیغمبر اسلام ؐ  کو [[حضرت نوح]] کی قوم کی داستان کے بارے میں وحی کی اور آپ اور آپ کی قوم کو ان کے واقعات سے آگاہ کیا تو فرمایا کہ یہ غیبی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۶۳ہجری شمسی، ج۳، ص۱۹۰۔</ref>
*آیت «[[سورہ ہود آیت نمبر49|{{عربی|تِلْکَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ}}]]؛ یہ غیبی خبروں میں سے ایک ہے جو آپ پر وحی کی جا رہی ہے»،<ref>سورہ ہود، آیہ 49۔</ref> کے مطابق جب خدا نے قرآن میں پیغمبر اسلام ؐ  کو [[حضرت نوح]] کی قوم کی داستان کے بارے میں وحی کی اور آپ اور آپ کی قوم کو ان کے واقعات سے آگاہ کیا تو فرمایا کہ یہ غیبی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ پر وحی کر رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج3، ص190۔</ref>


==متعلقہ مقالات==
==متعلقہ مقالات==
سطر 52: سطر 52:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*الہی ظہیر، احسان، الشیعۃ و السنۃ، لاہور، إدارۃ ترجمان السنۃ، ۱۳۹۶ھ۔
*الہی ظہیر، احسان، الشیعۃ و السنۃ، لاہور، إدارۃ ترجمان السنۃ، 1396ھ۔
*امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، ۱۴۱۶ھ۔
*امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیۃ، 1416ھ۔
*بن‌باز، عبد العزیز بن عبداللہ، مجموع فتاوی ابن باز، بی‌جا، دار القاسم للنشر، ۲۰۰۸م۔
*بن‌باز، عبد العزیز بن عبداللہ، مجموع فتاوی ابن باز، بی‌جا، دار القاسم للنشر، 2008م۔
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، تصحیح سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، انتشارات مؤسسہ آل البیتؑ، ۱۴۱۶ھ۔
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، تصحیح سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، انتشارات مؤسسہ آل البیتؑ، 1416ھ۔
*حلی، حسن بن یوسف، أجوبۃ المسائل المہنائیۃ، مقدمہ: محی الدین مامقانی، قم، خیام، ۱۴۰۱ھ۔
*حلی، حسن بن یوسف، أجوبۃ المسائل المہنائیۃ، مقدمہ: محی الدین مامقانی، قم، خیام، 1401ھ۔
*خرازی، محسن، بدایۃ المعارف الالہیہ فی شرح عقائدالامامیہ للمظفر، قم، نشر اسلامی، ۱۴۲۰ھ۔
*خرازی، محسن، بدایۃ المعارف الالہیہ فی شرح عقائدالامامیہ للمظفر، قم، نشر اسلامی، 1420ھ۔
*راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق صفوان عدنان داودی، دمشق و بیروت، الدار الشامیہ و‌دار العلم، ۱۴۱۲ھ۔
*راغب اصفہانی، حسین بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، تحقیق صفوان عدنان داودی، دمشق و بیروت، الدار الشامیہ و‌دار العلم، 1412ھ۔
*ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، ۱۳۸۵ہجری شمسی۔
*ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز جہانی علوم اسلامی، 1385ہجری شمسی۔
*سبحانی، جعفر، جدال احسن، تہران، نشر مشعر، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
*سبحانی، جعفر، جدال احسن، تہران، نشر مشعر، 1390ہجری شمسی۔
*سبحانی، جعفر، علم غیب (آگاہی سوم)، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
*سبحانی، جعفر، علم غیب (آگاہی سوم)، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، 1386ہجری شمسی۔
*سبحانی، جعفر، مفاہیم القرآن، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، ۱۴۲۰ھ۔
*سبحانی، جعفر، مفاہیم القرآن، قم، مؤسسہ امام صادقؑ، 1420ھ۔
*شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، ۱۴۱۳ھ۔
*شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، قم، المؤتمر العالمی لألفیۃ الشیخ المفید، 1413ھ۔
*طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
*طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، انتشارات اسماعیلیان، 1363ہجری شمسی۔
*طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تحقیق سید احمد حسینی، تہران، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، ۱۳۷۵ہجری شمسی۔
*طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تحقیق سید احمد حسینی، تہران، کتابفروشی مرتضوی، چاپ سوم، 1375ہجری شمسی۔
*علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول، قم، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۴ھ۔
*علامہ مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول، قم، دار الکتب الاسلامیۃ، 1404ھ۔
*غنیمان، احمد بن عبداللہ، علم الغیب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، مدینہ، الجامعۃ الاسلامیۃ، ۱۴۲۵ھ۔
*غنیمان، احمد بن عبداللہ، علم الغیب فی الشریعۃ الاسلامیۃ، مدینہ، الجامعۃ الاسلامیۃ، 1425ھ۔
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
*مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
*مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، قم، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
*مظفر، محمدحسین، علم الامام، نجف، مکتبۃ الحیدریۃ، بی‌تا۔
*مظفر، محمدحسین، علم الامام، نجف، مکتبۃ الحیدریۃ، بی‌تا۔
*مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۴ھ۔
*مغنیہ، محمدجواد، التفسیر الکاشف، قم، دار الکتاب الاسلامی، 1424ھ۔
*مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۴ہجری شمسی۔
*مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ، 1374ہجری شمسی۔
*نادم، محمدحسن، علم غیب از نگاہ عقل و وحی، قم، دانشگاہ ادیان و مذاہب، ۱۳۹۵ہجری شمسی۔
*نادم، محمدحسن، علم غیب از نگاہ عقل و وحی، قم، دانشگاہ ادیان و مذاہب، 1395ہجری شمسی۔
*نمازی شاہرودی، علی، علم غیب، مشہد، نشر ولایت، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
*نمازی شاہرودی، علی، علم غیب، مشہد، نشر ولایت، 1393ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، templateeditor
8,601

ترامیم