مندرجات کا رخ کریں

"پر امن بقائے باہمی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 15: سطر 15:


==معاشرے میں پرامن بقائے باہمی اسلامی نقطہ نگاہ سے==
==معاشرے میں پرامن بقائے باہمی اسلامی نقطہ نگاہ سے==
اسلامی نقطہ نگاہ سے مختلف عقائد اور مذاہب کے درمیان صلح اور پرامن بقائے باہمی مسلمہ انسانی اقدار اور اسلامی اہداف میں سے ہے۔<ref>کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص93؛ مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص8۔</ref> اور کہا جاتا ہے کہ اسلام مذہب، نسل اور سماجی حیثیت سے قطع نظر تمام انسانوں کے حقوق کی رعایت پر زور دیتا ہے اور صرف [[محاربہ|محاربین]] اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکبین کو اس حکم سے مستثنی قرار دیتا ہے۔<ref>عبدالمحمدی، تساہل و تسامح از دیدگاہ قرآن و اہل‌بیت، 1391ہجری شمسی، ص214؛ موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص131 و 154۔</ref> اس بنا پر کہا گیا ہے کہ اسلام نے باہمی ارتباط کی بنیاد مفاہمت اور امن و سلامتی پر رکھا ہے<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص36۔</ref> [16] اور ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پامالی کو حرام قرار دیا ہے تاکہ لوگ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص40۔</ref> اسلامی تعلیمات میں [[تساہل]] اور چشم پوشی کو پرامن بقائے باہمی کے مستندات میں شمار کئے جاتے ہیں۔<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی،  ص34 و 35۔</ref>  
اسلامی نقطہ نگاہ سے مختلف عقائد اور مذاہب کے درمیان صلح اور پرامن بقائے باہمی مسلمہ انسانی اقدار اور اسلامی اہداف میں سے ہے۔<ref>کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص93؛ مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص8۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اسلام نے مذہب، نسل اور سماجی حیثیت سے قطع نظر تمام انسانوں کے حقوق کی رعایت پر زور دیا ہے، تاہم [[محاربہ|محاربین]] اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اس حکم سے مستثنی قرار دیا گیا ہے۔<ref>عبدالمحمدی، تساہل و تسامح از دیدگاہ قرآن و اہل‌بیت، 1391ہجری شمسی، ص214؛ موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص131 و 154۔</ref> اس بنا پر کہا گیا ہے کہ اسلام نے باہمی ارتباط کی بنیاد مفاہمت اور امن و سلامتی پر رکھا ہے<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص36۔</ref> [16] اور ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت و آبرو کی پامالی کو حرام قرار دیا ہے تاکہ لوگ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص40۔</ref> اسلامی تعلیمات میں [[تساہل]] اور چشم پوشی کو پرامن بقائے باہمی کے مستندات میں شمار کئے جاتے ہیں۔<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی،  ص34 و 35۔</ref>  


کہا جاتا ہے کہ اسلام میں پرامن بقائے باہمی کے مصادیق میں مساوات،<ref>مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، ص14۔</ref> تمام انبیاء پر ایمان لانا، مذہبی بالادستی کی توہمات سے مقابلہ،<ref>مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص20 و 23۔</ref> مخالفین کے ساتھ گفتگو، مشترکات کی طرف دعوت، مذہب اور عقیدے کی آزادی، انسانی اقدار کا احترام، صلح پر تأکید اور مخالفین کے ساتھ عدالت اور احسان سے پیش آنا شامل ہیں۔<ref>موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص133 تا 143؛ مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص7۔</ref>   
کہا جاتا ہے کہ اسلام میں پرامن بقائے باہمی کے مصادیق میں مساوات،<ref>مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، ص14۔</ref> تمام انبیاء پر ایمان لانا، مذہبی بالادستی کی توہمات سے مقابلہ،<ref>مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص20 و 23۔</ref> مخالفین کے ساتھ گفتگو، مشترکات کی طرف دعوت، مذہب اور عقیدے کی آزادی، انسانی اقدار کا احترام، صلح پر تأکید اور مخالفین کے ساتھ عدالت اور احسان سے پیش آنا شامل ہیں۔<ref>موحدی ساوجی، «پرامن بقائے باہمی انسان‌ہا از دیدگاہ قرآن و نظام بین‌المللی حقوق بشر»، ص133 تا 143؛ مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی پرامن بقائے باہمی ادیان»، ص7۔</ref>   


[[مذہبی اقلیتوں کے حقوق]] کی رعایت<ref>مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، ص18۔</ref> اور غیر مسلموں کے ساتھ رواداری<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص61۔</ref> اسلام میں پرامن بقائے باہمی کے اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے<ref>مکارم شیرازی، اعتقاد ما، 1376ہجری شمسی، ص31؛ منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ہجری شمسی، ص667۔</ref> اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ عدالت اور [[انصاف]] سے پیش آنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا نیز انہیں بلاوجہ ہراساں کرنے سے گریز کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔<ref>کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص95۔</ref> معاشرے میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ امن و سکون، عدالت و انصاف اور پرامن بقائے باہمی کو برقرار رکھنا اسلامی حاکم کا وظیفہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ہجری شمسی، ص666۔</ref>  
[[مذہبی اقلیتوں کے حقوق]] کی رعایت<ref>مسترحمی، و تقدسی، «راہکارہای قرآنی ہمزیستی مسالمت آمیز ادیان»، ص18۔</ref> اور غیر مسلموں کے ساتھ رواداری<ref>کعبی، پرامن بقائے باہمی میان ادیان آسمانی، 1396ہجری شمسی، ص61۔</ref> اسلام میں پرامن بقائے باہمی کے اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے<ref>مکارم شیرازی، اعتقاد ما، 1376ہجری شمسی، ص31؛ منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ہجری شمسی، ص667۔</ref> اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ عدالت اور [[انصاف]] سے پیش آنا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا نیز انہیں بلاوجہ ہراساں کرنے سے گریز کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔<ref>کریمی‌نیا، «ادیان الہی و پرامن بقائے باہمی»، ص95۔</ref> معاشرے میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ امن و سکون، عدالت و انصاف اور پرامن بقائے باہمی کی فضا کو برقرار رکھنا اسلامی حاکم کا وظیفہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>منتظری، اسلام دین فطرت، 1385ہجری شمسی، ص666۔</ref>  


[[فقہ|اسلامی فقہ]] میں مذہبی اقلیتوں سے مربوط مباحث [[کافر ذمی]] کے احکام کے ضمن میں بیان ہوئی ہے<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج21، ص410۔</ref> اور کہا جاتا ہے کہ ان حکام کا مقصد مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لئے زمینہ ہموار کرنا ہے۔<ref>سلیمی، «اقلیت‌ہا و حقوق آن‌ہا در اسلام»، ص36 و 38۔</ref> فقہ میں [[قاعدہ الزام]] مختلف ادیان و مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے مستندات میں شمار ہوتا ہے۔<ref>رحمانی، «قاعدہ الزام و ہمزیستی مذاہب»، ص197۔</ref> بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام میں [[شرک|مشرکوں]] کے ساتھ رواداری اور اسلامی ممالک کے اندر ان کی حمایت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لیکن الہی ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ رواداری کا حکم موجود ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، 1389ہجری شمسی، ج28، ص802۔</ref>
[[فقہ|اسلامی فقہ]] میں مذہبی اقلیتوں سے مربوط مباحث [[کافر ذمی]] کے احکام کے ضمن میں بیان ہوئی ہے<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ہجری شمسی، ج21، ص410۔</ref> اور کہا جاتا ہے کہ ان احکام کا مقصد مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے لئے زمینہ ہموار کرنا ہے۔<ref>سلیمی، «اقلیت‌ہا و حقوق آن‌ہا در اسلام»، ص36 و 38۔</ref> فقہ میں [[قاعدہ الزام]] مختلف ادیان و مذاہب کے درمیان پرامن بقائے باہمی کے مستندات میں شمار ہوتا ہے۔<ref>رحمانی، «قاعدہ الزام و ہمزیستی مذاہب»، ص197۔</ref> بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ اسلام میں [[شرک|مشرکوں]] کے ساتھ رواداری اور اسلامی ممالک کے اندر ان کی حمایت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لیکن الہی ادیان کے پیروکاروں کے ساتھ رواداری کا حکم موجود ہے۔<ref>مطہری، مجموعہ آثار، 1389ہجری شمسی، ج28، ص802۔</ref>


==غیر مسلموں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی سیرت==
==غیر مسلموں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کی سیرت==
confirmed، templateeditor
7,739

ترامیم