مندرجات کا رخ کریں

"تقابلی تفسیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{تفسیر-عمودی}}
{{تفسیر-عمودی}}
'''تَقَابُلِی تفسیر''' یا '''تفسیر تَطبیقی'''، قرآن کی تفسیر کے طریقوں میں سے ایک ہے جس میں تفسیری نظریات کو آپس میں مقایسہ اور موازنہ کر کے آیت کے معنی کو واضح کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کے ذریعے مختلف تفسیری نظریات خوبیاں اور کمزوریاں سامنے آتی ہیں اور انسان بہترین تفسیر کو انتخاب کرسکتا ہے۔
'''تَقَابُلِی تفسیر''' یا '''تفسیر تَطبیقی'''، [[قرآن]] کی تفسیر کے طریقوں میں سے ایک ہے جس میں تفسیری نظریات کو آپس میں مقایسہ اور موازنہ کر کے آیت کے معنی کو واضح کیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کے ذریعے مختلف تفسیری نظریات کی خوبیاں اور کمزوریاں سامنے آتی ہیں اور انسان ان میں سے بہترین تفسیر کو انتخاب کرسکتا ہے۔


بعض محققین کے نزدیک تقابلی تفسیر کا تعلق صرف قرآنی مفاہیم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت نظریات کے موازنہ سے ہے۔ لیکن بعض دوسرے لوگوں نے اسے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: 1. [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[عہد نامے|عہدین]] کے درمیان تقابلی تفسیر، 2. [[اسلام|اسلامی]] مذاہب کے درمیان تقابلی تفسیر، 3. قرآن اور دیگر علوم کے درمیان تقابلی تفسیر۔
بعض محققین کے نزدیک تقابلی تفسیر کا تعلق صرف قرآنی مفاہیم کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] نظریات کے موازنہ سے ہے۔ لیکن بعض دوسرے لوگوں نے اسے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے: 1. [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[عہد نامے|عہدین]] کے درمیان تقابلی تفسیر، 2. [[اسلام|اسلامی]] مذاہب کے درمیان تقابلی تفسیر، 3. قرآن اور دیگر علوم کے درمیان تقابلی تفسیر۔


==تعریف و اہمیت==
==تعریف و اہمیت==
تقابلی تفسیر یا تفسیر مُقَارَن، قرآنی تفسیر کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے<ref>عسگری، و شاکر، «تفسیر تطبیقی، معنایابی و گونہ شناسی»، ص11۔</ref> جس میں آیات کے ظاہری معنی یا کسی تفسیری نظریہ کو بعض دوسرے نظریات کے ساتھ موازنہ اور ان کے مابین مماثلت اور فرق کو جانچ کر واضح کیا جاتا ہے۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص116۔</ref> تقابلی تفسیر میں کبھی دو مفسرین کبھی دو تفسیری مذاہب کا موازنہ کیا جاتا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص70۔</ref> بعض مصنفین نے تقابلی تفسیر (تفسیر تطبیقی) کو [[تفسیر موضوعی]] کی ایک قسم قرار دیا ہے؛<ref>رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387شمسی، ج1، ص45۔</ref> لیکن بعض مفسرین نے تفسیرِ تطبیقی کو تفسیر موضوعی اور تفسیر ترتیبی کے مقابلے میں ایک قسم قرار دیا ہے۔<ref>عسگری، و شاکر، «تفسیر تطبیقی، معنایابی و گونہ شناسی»، ص19۔</ref> اس قسم کی تفسیر کا سرچشمہ [[سورہ انعام آیت نمبر 50]] جیسی [[آیت|آیات]] کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref>
تقابلی تفسیر یا تفسیر مُقَارَن، قرآنی تفسیر کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے<ref>عسگری، و شاکر، «تفسیر تطبیقی، معنایابی و گونہ شناسی»، ص11۔</ref> جس میں [[قرآنی آیات]] کے ظاہری معنی یا کسی تفسیری نظریہ کو بعض دوسرے نظریات کے ساتھ موازنہ اور ان کے مابین مماثلت اور فرق کو جانچ کر واضح کیا جاتا ہے۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص116۔</ref> تقابلی تفسیر میں کبھی دو مفسرین کبھی دو تفسیری مذاہب کا موازنہ کیا جاتا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص70۔</ref> بعض مصنفین نے تقابلی تفسیر (تفسیر تطبیقی) کو [[تفسیر موضوعی]] کی ایک قسم قرار دیا ہے؛<ref>رضایی اصفہانی، تفسیر قرآن مہر، 1387شمسی، ج1، ص45۔</ref> لیکن بعض مفسرین نے تفسیرِ تطبیقی کو تفسیر موضوعی اور تفسیر ترتیبی کے مقابلے میں ایک قسم قرار دیا ہے۔<ref>عسگری، و شاکر، «تفسیر تطبیقی، معنایابی و گونہ شناسی»، ص19۔</ref> اس قسم کی تفسیر کا سرچشمہ [[سورہ انعام آیت نمبر 50]] جیسی [[آیت|آیات]] کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref>


تقابلی تفسیر کا مقصد نظریات کو واضح کرنا اور ان کے مثبت نکات اور کمزوریوں کو مبانی اور استدلال کے لحاظ سے واضح کرنا تاکہ کوئی شخص ایک مضبوط تفسیر کا نظریہ انتخاب کر سکے۔<ref>عسگری، و شاکر، «آسیب شناسی مبانی و پیش فرض ہای کلامی و مذہبی تفاسیر تطبیقی»، ص81۔</ref> بعض محققین کے مطابق تقابلی تفسیر حقیقت میں قرآن کی تقابلی تفسیر کرنا نہیں ہے بلکہ کسی ایک موضوع کے بارے میں یا دو مفسرین کے مکتب اور تفسیری طریقے کے بارے میں تفاسیر کا تقابلی مطالعہ کرنا ہے۔<ref>طیب حسینی، «تفسیر تطبیقی»، ص223۔</ref> عربی زبان میں اس طرح کی تفسیروں کو «التفسیر المُقارَن» یا «التفسیر الموازَن» کا نام دیا جاتا ہے۔<ref>طیب حسینی، «تفسیر تطبیقی»، ص222۔</ref>
تقابلی تفسیر کا مقصد نظریات کو واضح کرنا اور ان کے مثبت نکات اور کمزوریوں کو مبانی اور استدلال کے لحاظ سے واضح کرنا ہے تاکہ کوئی شخص ایک مضبوط تفسیر کا نظریہ انتخاب کر سکے۔<ref>عسگری، و شاکر، «آسیب شناسی مبانی و پیش فرض ہای کلامی و مذہبی تفاسیر تطبیقی»، ص81۔</ref> بعض محققین کے مطابق تقابلی تفسیر حقیقت میں قرآن کی تقابلی تفسیر کرنا نہیں ہے بلکہ کسی ایک موضوع کے بارے میں یا دو مفسرین کے مکتب اور تفسیری طریقے کے بارے میں تفاسیر کا تقابلی مطالعہ کرنا ہے۔<ref>طیب حسینی، «تفسیر تطبیقی»، ص223۔</ref> عربی زبان میں اس طرح کی تفسیروں کو «التفسیر المُقارَن» یا «التفسیر الموازَن» کا نام دیا جاتا ہے۔<ref>طیب حسینی، «تفسیر تطبیقی»، ص222۔</ref>


تفسیر کی تاریخ میں تقابلی تفسیر ہمیشہ سے تھی؛ لیکن 14ویں صدی میں اسے باقاعدہ اور منظم طریقے سے متعارف کرایا گیا۔<ref>طیب حسینی، «تفسیر تطبیقی»، ص224۔</ref> تقابلی شکل میں لکھی جانے والی کتابوں میں فتح اللہ نجارزادگان کی «تفسیر تطبیقی»<ref>نجارزادگان، تفسیر تطبیقی، 1383شمسی، کل کتاب۔</ref> اور فدا حسین عابدی کی «تفسیر تطبیقی آیہ مودت» <ref>عابدی، تفسیر تطبیقی آیہ مودت، 1384شمسی، کل کتاب۔</ref> شامل ہیں۔
تفسیر کی تاریخ میں تقابلی تفسیر ہمیشہ سے تھی؛ لیکن 14ویں صدی میں اسے باقاعدہ اور منظم طریقے سے متعارف کرایا گیا۔<ref>طیب حسینی، «تفسیر تطبیقی»، ص224۔</ref> تقابلی شکل میں لکھی جانے والی کتابوں میں فتح اللہ نجارزادگان کی «تفسیر تطبیقی»<ref>نجارزادگان، تفسیر تطبیقی، 1383شمسی، کل کتاب۔</ref> اور فدا حسین عابدی کی «تفسیر تطبیقی آیہ مودت» <ref>عابدی، تفسیر تطبیقی آیہ مودت، 1384شمسی، کل کتاب۔</ref> شامل ہیں۔
سطر 15: سطر 15:


===اسلامی مذاہب کے درمیان تقابلی تفسیر===
===اسلامی مذاہب کے درمیان تقابلی تفسیر===
اسلامی مذاہب کے مابین تقابلی تفسیر قدیم الایام سے شیعہ اور سنی مفسرین کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص73۔</ref> شیعہ مفسروں میں [[شیخ طوسی]] (متوفی: 460ھ) نے [[التبیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر تبیان]] میں اور [[طبرسی]] (متوفی: 548ھ) نے [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|کتاب مجمع البیان]] میں [[ولایت]]، [[جبر و اختیار|جَبْر]] اور [[تفویض|تَفویض]] سے مربوط آیات کی تفسیر میں [[معتزلہ|مُعتَزلہ]] اور [[اشاعرہ|اَشاعِرہ]] کے نظریات کو بیان کر کے ان کو شیعہ نظرئے سے موازنہ کیا ہے؛ اسی طرح اہل سنت مفسر [[فخر رازی]] (متوفی: 606ھ) نے اپنی تفسیر [[مفاتیح الغیب (کتاب)|مَفاتیح الغَیْب]] میں شیعہ اور [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] تفسیری اور کلامی نظریات کا موزنہ کیا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص73۔</ref> کہا گیا ہے کہ اس طریقے سے لکھی جانے والے سب سے اہم تفسیر [[محمد ہادی معرفت]] کی [[التفسیر الاثری الجامع (کتاب)|التفسیر الأثری الجامع]] ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص73۔</ref>
اسلامی مذاہب کے مابین تقابلی تفسیر قدیم الایام سے شیعہ اور سنی مفسرین کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص73۔</ref> شیعہ مفسرین میں [[شیخ طوسی]] (متوفی: 460ھ) نے [[التبیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر تبیان]] میں اور [[طبرسی]] (متوفی: 548ھ) نے [[مجمع البیان فی تفسیر القرآن (کتاب)|کتاب مجمع البیان]] میں [[ولایت]]، [[جبر و اختیار|جَبْر]] اور [[تفویض|تَفویض]] سے مربوط آیات کی تفسیر میں [[معتزلہ|مُعتَزلہ]] اور [[اشاعرہ|اَشاعِرہ]] کے نظریات کو بیان کر کے ان کو شیعہ نظریات سے موازنہ کیا ہے؛ اسی طرح اہل سنت مفسر [[فخر رازی]] (متوفی: 606ھ) نے اپنی تفسیر [[مفاتیح الغیب (کتاب)|مَفاتیح الغَیْب]] میں شیعہ اور [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] تفسیری اور کلامی نظریات کا موازنہ کیا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص73۔</ref> کہا گیا ہے کہ اس طریقے سے لکھی جانے والی سب سے اہم تفسیر [[محمد ہادی معرفت]] کی [[التفسیر الاثری الجامع (کتاب)|التفسیر الأثری الجامع]] ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص73۔</ref>


===قرآن اور عہدین کے درمیان تقابلی تفسیر===
===قرآن اور عہدین کے درمیان تقابلی تفسیر===
قرآن اور دونوں عہدناموں کے درمیان تقابلی تفسیر کے طریقہ کار میں، قرآن اور دونوں عہد ناموں کے متن کا موازنہ مشترک موضوعات (جیسے[[قصص الانبیاء|انبیا سے مربوط قصے]]) میں کیا جاتا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref> اس روش میں قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کا سرچشمہ (یعنی وحی]] کا ایک ہونا بیان ہوتا ہے اور آسمانی کتابوں میں تحریف ہونا اور قرآن میں تحریف کا ممکن نہ ہونے کو بیان کیا جاتا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref> [[محمد حسین طباطبایی]] نے اپنی کتاب [[المیزان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر المیزان]] میں آدم و حوا کے قصے کے ذیل میں اور [[محمد جواد بلاغی]] نے اپنی کتاب [[آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر آلاءُ الرَّحمن]] میں اس طریقے کو استعمال کیا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref>
قرآن اور دونوں عہدناموں کے درمیان تقابلی تفسیر کے طریقہ کار میں، قرآن اور دونوں عہد ناموں کے متن کا موازنہ مشترک موضوعات (جیسے[[قصص الانبیاء|انبیا سے مربوط قصے]]) میں کیا جاتا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref> اس روش میں قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں کا سرچشمہ (یعنی وحی]] کا ایک ہونا بیان ہوتا ہے اور آسمانی کتابوں میں تحریف ہونا اور [[قرآن میں عدم تحریف|قرآن میں تحریف]] کا ممکن نہ ہونے کو بیان کیا جاتا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref> [[محمد حسین طباطبایی]] نے اپنی کتاب [[المیزان فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر المیزان]] میں [[آدم]] و [[حوا]] کے قصے کے ذیل میں اور [[محمد جواد بلاغی]] نے اپنی کتاب [[آلاء الرحمن فی تفسیر القرآن (کتاب)|تفسیر آلاءُ الرَّحمن]] میں اس طریقے کو استعمال کیا ہے۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص72۔</ref>


===قرآن اور دیگر علوم کے مابین تقابلی تفسیر===
===قرآن اور دیگر علوم کے مابین تقابلی تفسیر===
قرآن اور دیگر علوم کے درمیان تقابلی تفسیر کی روش اور طریقے میں مختلف علوم کے ایک مشترکہ مسئلے یا مسائل کو زیر بحث لایا جاتا ہے جو قرآن سے مربوط ہو۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص122-123۔</ref> اس طریقے کو [[آیات علمی قرآن]] میں دین اور علم کے باہمی تضاد اور تعارض کو برطرف کرنے اور قرآنی نکتہ نظر کو حاصل کرنے میں مفید قرار دیا گیا ہے۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص123۔</ref> علمی تفسیر کا جائز اور حجت ہونے، علوم کی کلیات میں قرآن کا شامل ہونے اور قرآن اور علم کے درمیان رابطے کو اس تفسیری طریقے کا اصل اور مبنا قرار دیا جاتا ہے۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص124-127۔</ref> اس کے علاوہ قرآن کی آیات کو سمجھنے کے لیے سائنس کا استعمال، قرآن کی زبان اور اس کے تاریخی سیاق و سباق پر توجہ دینے اور آیات کی تفسیر میں حتمی طور پر [[جری و تطبیق]] کو لحاظ رکھنا اس تفسیری طریقے کے قواعد میں سے ہیں۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص128-130۔</ref> اس تفسیری طریقے کے لیے کچھ مشکلات بھی بیان کئے ہیں؛ جن میں قرآنی آیات پر سائنسی نظریات کو مسلط کرنا، کسی ایک علم کے تمام تر جزئیات کو قرآن سے استخراج اور حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور آیات کے نزول کے سیاق و سباق اور اس ماحول کو نظر انداز کرنا اور اس کے نتیجے میں قرآنی آیات کی ایک ناقص اور نامکمل تفسیر پیش کرنا شامل ہیں۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص130۔</ref>
قرآن اور دیگر علوم کے درمیان تقابلی تفسیر کی روش اور طریقے میں مختلف علوم کے ایک مشترکہ مسئلے یا مسائل کو زیر بحث لایا جاتا ہے جو قرآن سے مربوط ہو۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص122-123۔</ref> اس طریقے کو [[آیات علمی قرآن]] میں دین اور علم(سائنس) کے باہمی تضاد اور تعارض کو برطرف کرنے اور قرآنی نقطہ نظر کو حاصل کرنے میں مفید قرار دیا گیا ہے۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص123۔</ref> علمی تفسیر کا جائز اور حجت ہونے، علوم کی کلیات میں قرآن کا شامل ہونے اور قرآن اور علم کے درمیان رابطے کو اس تفسیری طریقے کا اصل اور مبنا قرار دیا جاتا ہے۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص124-127۔</ref> اس کے علاوہ قرآن کی آیات کو سمجھنے کے لیے سائنس کا استعمال، قرآن کی زبان اور اس کے تاریخی سیاق و سباق پر توجہ دینے اور آیات کی تفسیر میں حتمی طور پر [[جری و تطبیق]] کو لحاظ رکھنا اس تفسیری طریقے کے قواعد میں سے ہیں۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص128-130۔</ref> اس تفسیری طریقے کے لیے کچھ مشکلات بھی بیان کئے ہیں؛ جن میں قرآنی آیات پر سائنسی نظریات کو مسلط کرنا، کسی ایک علم کے تمام تر جزئیات کو قرآن سے استخراج اور حاصل کرنے کی کوشش کرنا اور آیات کے [[نزول قرآن|نزول]] کے سیاق و سباق اور اس ماحول کو نظر انداز کرنا اور اس کے نتیجے میں قرآنی آیات کی ایک ناقص اور نامکمل تفسیر پیش کرنا شامل ہیں۔<ref>تمیمی، اصول و قواعد التفسیر الموضوعی للقرآن، 1436ھ، ص130۔</ref>


==تقابلی تفسیر کے مرحلے==
==تقابلی تفسیر کے مرحلے==
سطر 36: سطر 36:
تقابلی تفسیر کے لیے درج ذیل فوائد ذکر ہوئے ہیں:
تقابلی تفسیر کے لیے درج ذیل فوائد ذکر ہوئے ہیں:
*مفسر کو حصر اور محدودیت سے باہر نکالنا؛
*مفسر کو حصر اور محدودیت سے باہر نکالنا؛
*موضوع کے غیر واضح جہتوں کا واضح ہونا؛
*موضوع کی غیر واضح جہتوں کا واضح ہونا؛
*آیات کی تفسیر میں عیوب و نقائص سے آگاہی۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص70۔</ref>
*آیات کی تفسیر میں موجود عیوب و نقائص سے آگاہی۔<ref>رضایی اصفہانی، منطق تفسیر قرآن (3)، 1392شمسی، ص70۔</ref>


محمد علی رضائی اصفہانی کے مطابق، تفسیر تطبیقی کے بعض موارد میں ممکن ہے کہ بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑے:
محمد علی رضائی اصفہانی کے مطابق، تفسیر تطبیقی کے بعض موارد میں ممکن ہے کہ بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑے:
confirmed، movedable
5,154

ترامیم