confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) («'''حَبْلُ اللہ''' کا مطلب الٰہی رسی، جو ایک قرآنی اصطلاح ہے جسے آیہ اِعتصام میں اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو مضبوطی سے اسے پکڑے رہنے اور منتشر نہ ہونے اور گروہ نہ بننے کا حکم دیتا ہے۔<ref>سورہ آل عمران، آیہ 103۔</ref> تفسیر عیاشی (کتاب)|تفس...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
'''حَبْلُ اللہ''' کا مطلب الٰہی رسی، جو ایک قرآنی اصطلاح ہے جسے [[آیت اعتصام|آیہ اِعتصام]] میں اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو مضبوطی سے اسے پکڑے رہنے اور منتشر نہ ہونے اور گروہ نہ بننے کا حکم دیتا ہے۔<ref>سورہ آل عمران، آیہ 103۔</ref> | '''حَبْلُ اللہ''' کا مطلب الٰہی رسی، جو ایک قرآنی اصطلاح ہے جسے [[آیت اعتصام|آیہ اِعتصام]] میں [[اللہ|اللہ تعالی]] تمام [[مسلمان|مسلمانوں]] کو مضبوطی سے اسے پکڑے رہنے اور منتشر نہ ہونے اور گروہ نہ بننے کا حکم دیتا ہے۔<ref>سورہ آل عمران، آیہ 103۔</ref> | ||
[[تفسیر عیاشی (کتاب)|تفسیر عیاشی]] (متوفی: 320ھ) نے ایسی روایات نقل کی ہیں جن میں [[اہل بیتؑ|آل محمدؑ]] یا [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کو حبل اللہ کا مصداق بیان کیا ہے۔ <ref> عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص194۔</ref> [[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] کا بھی یہی کہنا ہے کہ [[آیہ اعتصام|وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا]] میں حبل اللہ سے مراد [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے [[سورہ آل عمران کی آیت نمبر 101]] میں "و مَنْ یعْتَصم باللہ" سے مراد آیات الٰہی اور پیغمبر اکرمؐ ([[قرآن|کتاب]] و [[سنت]]) لیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج3، ص369۔</ref> [[الدر المنثور (کتاب)|تفسیر الدُرُّ المَنْثور]] میں بھی سیوطی (متوفی: 911ھ) نے [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] علما سے کچھ [[حدیث|روایات]] نقل کی ہیں جن میں جماعت، قرآن و عترت نبی، عہد و طاعت الہی کو حبل اللہ کے مصداق بیان ہوئے ہیں۔<ref>سیوطی، الدر المنثور، دارالفکر، ج2، ص284-288۔</ref> اہل سنت کی تفاسیر میں سے [[تفسیر المنار (کتاب)|تفسیر المنار]] نے حبل اللہ سے مراد [[امر بالمعروف اور نہی از منکر]] لیا ہے۔<ref>رشیدرضا، تفسیر القرآن الحکیم، 1990ء، ج4، ص39۔</ref> | [[تفسیر عیاشی (کتاب)|تفسیر عیاشی]] (متوفی: 320ھ) نے ایسی [[حدیث|روایات]] نقل کی ہیں جن میں [[اہل بیتؑ|آل محمدؑ]] یا [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کو حبل اللہ کا مصداق بیان کیا ہے۔ <ref> عیاشی، تفسیر العیاشی، 1380ھ، ج1، ص194۔</ref> [[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] کا بھی یہی کہنا ہے کہ [[آیہ اعتصام|وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا]] میں حبل اللہ سے مراد [[قرآن کریم|قرآن]] اور [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے [[سورہ آل عمران کی آیت نمبر 101]] میں "و مَنْ یعْتَصم باللہ" سے مراد آیات الٰہی اور پیغمبر اکرمؐ ([[قرآن|کتاب]] و [[سنت]]) لیا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج3، ص369۔</ref> [[الدر المنثور (کتاب)|تفسیر الدُرُّ المَنْثور]] میں بھی سیوطی (متوفی: 911ھ) نے [[اہل سنت و الجماعت|اہل سنت]] علما سے کچھ [[حدیث|روایات]] نقل کی ہیں جن میں جماعت، قرآن و عترت نبی، عہد و طاعت الہی کو حبل اللہ کے مصداق بیان ہوئے ہیں۔<ref>سیوطی، الدر المنثور، دارالفکر، ج2، ص284-288۔</ref> اہل سنت کی تفاسیر میں سے [[تفسیر المنار (کتاب)|تفسیر المنار]] نے حبل اللہ سے مراد [[امر بالمعروف اور نہی از منکر]] لیا ہے۔<ref>رشیدرضا، تفسیر القرآن الحکیم، 1990ء، ج4، ص39۔</ref> | ||
[[فضل بن حسن طبرسی]] (متوفی: 548ھ) کے مطابق حبل اللہ کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ اسے [[قرآن]] سمجھتے ہیں، کچھ لوگ [[اسلام|دین اسلام]] اور کچھ پیغمبر کے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] کی روایات سمجھتے ہیں۔ [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] نے اسے تمام موارد پر حمل کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ اور اس بات کی تائید کے لئے وہ [[حدیث ثقلین]] کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قرآن اور اہل بیتؑ کو دو رسیوں (حبل) کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کی روایت میں [[ثقلین]] کے بجائے حبلین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔{{یادداشت|«إنی قد ترکت فیکم حبلین إن أخذتم بہما لن تضلوا بعدی أحدہما أکبر من الآخر کتاب اللہ حبل ممدود من السماء إلی الأرض و عترتی أہل بیتی ألا و إنہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض» میں نے تمہارے درمیان دو رسیاں (ہدایت کی دو راہیں) رکھ دی ہیں کہ جب تک تم ان کو پکڑے رہو گے میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اور ان میں سے ایک دوسری سے بڑی (اور اس کا مقام بلند ہے)۔ خدا کی کتاب، جو آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی ہے اور میری عترت۔ جان لو کہ یہ دونوں میرے پاس [[حوض کوثر|حوض]] پر آنے تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے۔(طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفہ، ج2، ص805.)}}<ref> طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفہ، ج2، ص805۔</ref> | [[فضل بن حسن طبرسی]] (متوفی: 548ھ) کے مطابق حبل اللہ کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ اسے [[قرآن]] سمجھتے ہیں، کچھ لوگ [[اسلام|دین اسلام]] اور کچھ پیغمبر کے [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] کی روایات سمجھتے ہیں۔ [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] نے اسے تمام موارد پر حمل کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ اور اس بات کی تائید کے لئے وہ [[حدیث ثقلین]] کا حوالہ دیتے ہیں جس میں قرآن اور اہل بیتؑ کو دو رسیوں (حبل) کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کی روایت میں [[ثقلین]] کے بجائے حبلین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔{{یادداشت|«إنی قد ترکت فیکم حبلین إن أخذتم بہما لن تضلوا بعدی أحدہما أکبر من الآخر کتاب اللہ حبل ممدود من السماء إلی الأرض و عترتی أہل بیتی ألا و إنہما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض» میں نے تمہارے درمیان دو رسیاں (ہدایت کی دو راہیں) رکھ دی ہیں کہ جب تک تم ان کو پکڑے رہو گے میرے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے، اور ان میں سے ایک دوسری سے بڑی (اور اس کا مقام بلند ہے)۔ خدا کی کتاب، جو آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی ہے اور میری عترت۔ جان لو کہ یہ دونوں میرے پاس [[حوض کوثر|حوض]] پر آنے تک ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونگے۔(طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفہ، ج2، ص805.)}}<ref> طبرسی، مجمع البیان، دارالمعرفہ، ج2، ص805۔</ref> |