مندرجات کا رخ کریں

"کتاب الغیبۃ (شیخ طوسی)" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
(عدد انگلیسی)
سطر 1: سطر 1:
{{کے بارے میں|شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ|دوسرے استعمالات کے لئے|کتاب الغیبہ (ضد ابہام)}}
{{کے بارے میں|شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ|دوسرے استعمالات کے لئے|کتاب الغیبہ (ضد ابہام)}}
{{زیر تعمیر}}
{{خانہ معلومات کتاب
{{خانہ معلومات کتاب
| عنوان            = کتاب الغیبۃ (شیخ طوسی)
| عنوان            = کتاب الغیبۃ (شیخ طوسی)
سطر 16: سطر 15:
'''کتابُ الغیبۃ'''، [[شیعہ|شیعوں]] کے بارہویں امام حضرت [[امام مہدیؑ]] کی [[غیبت]] کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب [[شیخ طوسی]] نے تصنیف کی ہے۔ یہ کتاب امام مہدیؑ کی شناخت اور ان کی غیبت سے متعلق اہم منابع میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے 8 ابواب میں امام مہدیؑ سے متعلق [[شیعوں]] کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے آپؑ کی غیبت پر وارد ہونے والے اعتراضات اور شبہات کا [[قرآن|قرآنی]]، روائی اور [[عقل|عقلی]] دلائل پر مشتمل جوابات دئے گئے ہیں۔  
'''کتابُ الغیبۃ'''، [[شیعہ|شیعوں]] کے بارہویں امام حضرت [[امام مہدیؑ]] کی [[غیبت]] کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب [[شیخ طوسی]] نے تصنیف کی ہے۔ یہ کتاب امام مہدیؑ کی شناخت اور ان کی غیبت سے متعلق اہم منابع میں سے ایک ہے۔ اس کتاب کے 8 ابواب میں امام مہدیؑ سے متعلق [[شیعوں]] کے عقائد کو بیان کرتے ہوئے آپؑ کی غیبت پر وارد ہونے والے اعتراضات اور شبہات کا [[قرآن|قرآنی]]، روائی اور [[عقل|عقلی]] دلائل پر مشتمل جوابات دئے گئے ہیں۔  


اس کتاب کے متعدد خطی نسخے موجود ہیں اور پہلی بار سنہ 1323ہجری میں ایران کے شہر تبریز سے شائع ہوئی ہے۔ عباد اللہ سرشار تہرانی اور علی احمد ناصح نے اس کتاب کی مزید تحقیق انجام دے کر اسے سنہ 1411 ہجری میں دار المعارف الاسلامیه پبلشرز [[قم]] سے شائع کیا ہے۔
اس کتاب کے متعدد خطی نسخے موجود ہیں اور پہلی بار سنہ 1323ہجری میں ایران کے شہر تبریز سے شائع ہوئی ہے۔ عباد اللہ سرشار تہرانی اور علی احمد ناصح نے اس کتاب کی مزید تحقیق انجام دے کر اسے سنہ 1411 ہجری میں دار المعارف الاسلامیہ پبلشرز [[قم]] سے شائع کیا ہے۔
کتاب الغیبۃ کا فارسی ترجمہ مجتبیٰ عزیزی نے انجام دیا ہے اور [[مسجد مقدس جمکران|مسجد مقدس جمکران قم]] پبلشرز نے اسے شائع کیا ہے۔  
کتاب الغیبۃ کا فارسی ترجمہ مجتبیٰ عزیزی نے انجام دیا ہے اور [[مسجد مقدس جمکران|مسجد مقدس جمکران قم]] پبلشرز نے اسے شائع کیا ہے۔  
   
   
== مصنف ==
== مصنف ==
{{اصلی|شیخ طوسی}}
{{اصلی|شیخ طوسی}}
[[شیخ طوسی|محمد بن حسن بن علی بن حسن]] شیخ الطائفہ (بزرگ قوم/بزرگ شیعہ) و شیخ طوسی کے نام سے معروف، [[شیعوں]] کی [[کتب اربعہ]] میں سے دو کتابوں کے مولف ہیں۔ آپ سنہ 385 ہجری کو خراسان کے [[طوس]] نامی شہر میں پیدا ہوئے<ref>آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref> اور 23 سال کی عمر میں [[عراق]] گئے اور بغداد میں قیام کیا۔ یہاں آپ نے [[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی]] جیسے شیعہ علمی شخصیات سے علم حاصل کیا۔<ref>آقابزرگ تهرانی، طبقات اعلام الشیعة، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۱۶۱.</ref>  
[[شیخ طوسی|محمد بن حسن بن علی بن حسن]] شیخ الطائفہ (بزرگ قوم/بزرگ شیعہ) و شیخ طوسی کے نام سے معروف، [[شیعوں]] کی [[کتب اربعہ]] میں سے دو کتابوں کے مولف ہیں۔ آپ سنہ 385 ہجری کو خراسان کے [[طوس]] نامی شہر میں پیدا ہوئے<ref>آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج2، ص161.</ref> اور 23 سال کی عمر میں [[عراق]] گئے اور بغداد میں قیام کیا۔ یہاں آپ نے [[شیخ مفید]] اور [[سید مرتضی]] جیسے شیعہ علمی شخصیات سے علم حاصل کیا۔<ref>آقابزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، 1430ھ، ج2، ص161.</ref>  


[[سید مرتضی]] کی وفات کے بعد [[مذہب جعفری]] کی زعامت [[شیخ طوسی]] کے سپرد ہوئی۔ آپ نے اپنے زیر سایہ ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی نیز [[کلام]]، [[تفسیر]]، [[حدیث]]، [[فقہ]] اور [[اصول فقہ]] کے موضوعات پر دسیوں آثار تصنیف کیے۔<ref>گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۹۸ش، ص۱۸۳.</ref>
[[سید مرتضی]] کی وفات کے بعد [[مذہب جعفری]] کی زعامت [[شیخ طوسی]] کے سپرد ہوئی۔ آپ نے اپنے زیر سایہ ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی نیز [[کلام]]، [[تفسیر]]، [[حدیث]]، [[فقہ]] اور [[اصول فقہ]] کے موضوعات پر دسیوں آثار تصنیف کیے۔<ref>گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، 1398ہجری شمسی، ص183.</ref>


== کتاب کی اہمیت==
== کتاب کی اہمیت==
کہتے ہیں کہ کتاب الغیبۃ امام زمانہ(عج) اور آنحضرتؑ کی غیبت کے بارے میں کیے اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ایک بہترین کتاب ہے۔<ref>سرشار تهرانی، ناصح، «مقدمه»، در کتاب الغیبة، تألیف شیخ طوسی، ۱۴۱۱ق، ص۹.</ref> [[آقا بزرگ تہرانی]] کے مطابق شیخ طوسی کی  کتاب غیبت وجود امام زمانہ(عج) کے متعلق مضبوط اور محکم ترین عقلی و نقلی دلائل اور [[علائم ظہور]] پر مشتمل ہے۔<ref> آقابزرگ تهرانی، «مقدمه»، در کتاب الغیبة، تألیف شیخ طوسی، ۱۴۱۱ق، ص۲۴.</ref>
کہتے ہیں کہ کتاب الغیبۃ امام زمانہ(عج) اور آنحضرتؑ کی غیبت کے بارے میں کیے اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ایک بہترین کتاب ہے۔<ref>سرشار تہرانی، ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص9.</ref> [[آقا بزرگ تہرانی]] کے مطابق شیخ طوسی کی  کتاب غیبت وجود امام زمانہ(عج) کے متعلق مضبوط اور محکم ترین عقلی و نقلی دلائل اور [[علائم ظہور]] پر مشتمل ہے۔<ref> آقابزرگ تہرانی، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص24.</ref>
کتاب الغیبۃ کی تحریر کے بعد سے اب تک شیعہ علماء اور محققین کی توجہ اس کی طرف مبذول رہی ہے اور بہت سی تصنیفات میں اس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔<ref>سلیمیان، فرهنگ‌نامه مهدویت، ۱۳۸۸ش، ص۳۵۷.</ref>
کتاب الغیبۃ کی تحریر کے بعد سے اب تک شیعہ علماء اور محققین کی توجہ اس کی طرف مبذول رہی ہے اور بہت سی تصنیفات میں اس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے۔<ref>سلیمیان، فرہنگ‌نامہ مہدویت، 1388ہجری شمسی، ص357.</ref>


== تصنیف کتاب کی تاریخ اور محرک==
== تصنیف کتاب کی تاریخ اور محرک==
آقا بزرگ تہرانی کے مطابق کتاب الغیبۃ کی تصنیف سنہ 447 ہجری میں انجام پائی ہے۔<ref>آقابزرگ تهرانی، الذریعة الی التصانیف الشیعة، ۱۴۰۳ق، ج۱۶، ص۷۹.</ref> [[شیخ طوسی]] نے اپنی اس کتاب کی تمہید میں لکھا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کا محرک میرے استاد کی غیبت [[امام زمانہ(عج)]] غیبت سے متعلق ایک کتاب لکھنے کی درخواست تھا۔ شیخ طوسی کے استاد نے درخواست کی تھی اس کتاب میں امام کے سبب غیبت، امام(عج) کی موجودگی کی سخت ضرورت کے باوجود آپؑ کی طویل غیبت کا سبب، امام کے [[ظہور امام زمانہ|ظہور]] کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر تحقیق اور اس سلسلے میں مخالفین کے شکوک و شبہات اور ان کی طعنہ بازیوں کو جواب دیا جائے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۱.</ref>
آقا بزرگ تہرانی کے مطابق کتاب الغیبۃ کی تصنیف سنہ 447 ہجری میں انجام پائی ہے۔<ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ الی التصانیف الشیعۃ، 1403ھ، ج16، ص79.</ref> [[شیخ طوسی]] نے اپنی اس کتاب کی تمہید میں لکھا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کا محرک میرے استاد کی غیبت [[امام زمانہ(عج)]] غیبت سے متعلق ایک کتاب لکھنے کی درخواست تھا۔ شیخ طوسی کے استاد نے درخواست کی تھی اس کتاب میں امام کے سبب غیبت، امام(عج) کی موجودگی کی سخت ضرورت کے باوجود آپؑ کی طویل غیبت کا سبب، امام کے [[ظہور امام زمانہ|ظہور]] کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر تحقیق اور اس سلسلے میں مخالفین کے شکوک و شبہات اور ان کی طعنہ بازیوں کو جواب دیا جائے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص1.</ref>


== کتاب کے مندرجات ==
== کتاب کے مندرجات ==
کتاب الغیبۃ درج ذیل آٹھ فصول پر مشتمل ہے:
کتاب الغیبۃ درج ذیل آٹھ فصول پر مشتمل ہے:
# الکلام فی الغیبۃ: اس فصل  
# الکلام فی الغیبۃ: اس فصل  
*'''فصل اول:''' اس فصل میں امام کی غیبت سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۳.</ref> مصنف نے اس فصل میں دو مدعا کو دلیل کے ساتھ بیان کیا ہے، پہلا مدعا یہ کہ ہر زمانے میں لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک [[امام معصوم]] کا وجود ضروری ہے۔ دوسرا مدعا یہ کہ [[بارہویں امام|بارہواں امام]] ہی امام عصر ہیں۔ نیز مصنف نے ان فِرَق کے جنہوں نے بارہواں امام کی امامت اور عصمت کے علاوہ دوسروں کی امامت اور عصمت کو قبول کیا ہے، ان کے مدعا کو رد کیا ہے جیسے [[کیسانیہ]]، [[ناووسیہ]]، [[واقفیہ]]، [[فطحیہ]] اور دیگر شیعہ مذاہب۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۳-۴.</ref>مصنف نے اس فصل میں غیبت کا فلسفہ و حکمت، زمان غیبت میں [[حد شرعی|شرعی حدود]] جاری کرنے کی کیفیت، زمان غیبت میں حق کی تشخیص کا طریقہ، امام زمان کا اپنی شیعوں اور دوست داروں سے غائب رہنے کی علتیں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عقیدہ غیبت سے متعلق پیش آنے والے شبہات کا جواب پیش کیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۷۶ و ص۸۶ و ص۹۴-۹۵ و ص۹۸.</ref>
*'''فصل اول:''' اس فصل میں امام کی غیبت سے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص3.</ref> مصنف نے اس فصل میں دو مدعا کو دلیل کے ساتھ بیان کیا ہے، پہلا مدعا یہ کہ ہر زمانے میں لوگوں کی ہدایت کے لیے ایک [[امام معصوم]] کا وجود ضروری ہے۔ دوسرا مدعا یہ کہ [[بارہویں امام|بارہواں امام]] ہی امام عصر ہیں۔ نیز مصنف نے ان فِرَق کے جنہوں نے بارہواں امام کی امامت اور عصمت کے علاوہ دوسروں کی امامت اور عصمت کو قبول کیا ہے، ان کے مدعا کو رد کیا ہے جیسے [[کیسانیہ]]، [[ناووسیہ]]، [[واقفیہ]]، [[فطحیہ]] اور دیگر شیعہ مذاہب۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص3-4.</ref>مصنف نے اس فصل میں غیبت کا فلسفہ و حکمت، زمان غیبت میں [[حد شرعی|شرعی حدود]] جاری کرنے کی کیفیت، زمان غیبت میں حق کی تشخیص کا طریقہ، امام زمان کا اپنی شیعوں اور دوست داروں سے غائب رہنے کی علتیں بیان کرنے کے ساتھ ساتھ عقیدہ غیبت سے متعلق پیش آنے والے شبہات کا جواب پیش کیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص76 و ص86 و ص94-95 و ص98.</ref>
*'''فصل دوم:''' اس فصل میں بارہویں امام کی ولادت کو عقلی دلائل اور تاریخی روایات کے ذریعے ثابت کیا ہے۔<ref> شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۲۲۹.</ref> مصنف نے اس فصل میں ان لوگوں کی گواہی بیان کی ہے جنہوں نے امام عصر(عج) کی ولادت کا مشاہدہ کیا ہے یا کسی اور طریقے سے اس سلسلے میں آگاہی رکھنے والوں کی گواہی بیان کی ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۲۲۹-۲۵۳.</ref>
*'''فصل دوم:''' اس فصل میں بارہویں امام کی ولادت کو عقلی دلائل اور تاریخی روایات کے ذریعے ثابت کیا ہے۔<ref> شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص229.</ref> مصنف نے اس فصل میں ان لوگوں کی گواہی بیان کی ہے جنہوں نے امام عصر(عج) کی ولادت کا مشاہدہ کیا ہے یا کسی اور طریقے سے اس سلسلے میں آگاہی رکھنے والوں کی گواہی بیان کی ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص229-253.</ref>
*'''فصل سوم:''' اس فصل میں ان لوگوں کو تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے بارہویں امام کو دیکھا ہے؛ لیکن اسی وقت کو امام کو نہیں پہچانا ہے اور بعد میں امام کو کو پہچانا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۲۵۳.</ref>
*'''فصل سوم:''' اس فصل میں ان لوگوں کو تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے بارہویں امام کو دیکھا ہے؛ لیکن اسی وقت کو امام کو نہیں پہچانا ہے اور بعد میں امام کو کو پہچانا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص253.</ref>
*'''فصل چہارم:''' اس فصل میں امام مہدی(عج)  کے کچھ معجزات کو بیان کیا گیا ہے جو عصر غیبت میں امام کی امامت کی صحت پر دلات کرتے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۱.</ref>
*'''فصل چہارم:''' اس فصل میں امام مہدی(عج)  کے کچھ معجزات کو بیان کیا گیا ہے جو عصر غیبت میں امام کی امامت کی صحت پر دلات کرتے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص281.</ref>
*'''فصل پنجم:''' مصنف نے امام کے ظہو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اس فصل میں بیان کیا ہے<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۳۲۹.</ref> اور اس سلسلے میں 20 روایتیں نقل کی ہیں۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۷۳.</ref> شیخ طوسی نے امام کے عدم ظہور کو جانی خوف قرار دیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۳۲۹.</ref>
*'''فصل پنجم:''' مصنف نے امام کے ظہو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اس فصل میں بیان کیا ہے<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص329.</ref> اور اس سلسلے میں 20 روایتیں نقل کی ہیں۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص73.</ref> شیخ طوسی نے امام کے عدم ظہور کو جانی خوف قرار دیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص329.</ref>
*'''فصل ششم:''' اس فصل میں عصر غیبت میں امام کے سفراء کا ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۵.</ref> مصنف نے یہاں امام کے [[نواب اربعہ|نُوّاب خاص]]، نواب اربعہ کی جانب سے منصوب کیے گئے اشخاص اور ان بعض سفراء کو جن کی امام نے سرزنش کی ہے، ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظ کیجیے: شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۳۵۱ و ص۳۵۳ و ص۳۹۷.</ref>
*'''فصل ششم:''' اس فصل میں عصر غیبت میں امام کے سفراء کا ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص345.</ref> مصنف نے یہاں امام کے [[نواب اربعہ|نُوّاب خاص]]، نواب اربعہ کی جانب سے منصوب کیے گئے اشخاص اور ان بعض سفراء کو جن کی امام نے سرزنش کی ہے، ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظ کیجیے: شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص351 و ص353 و ص397.</ref>
*'''فصل ہفتم:''' اس فصل میں امام زمان (عج) کی عمر سے متعلق مطالب بیان کیے گئے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۴۱۹.</ref> شیخ طوسی نے اس فصل میں 7 روایات کو نقل کیا ہے اور اس عقیدے کا اظہار کیا ہے جب امام زمانؑ ظہور کریں گے تو ایک خوبصورت جوان کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہونگے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۴۱۹-۴۲۲.</ref> اس فصل کے آخر میں امام کے ظہور اور قیام کی کئی نشانیاں بیان کی ہیں اور اس سلسلے میں ۵۹ روایتیں نقل کی ہیں۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۴۳۳.</ref>
*'''فصل ہفتم:''' اس فصل میں امام زمان (عج) کی عمر سے متعلق مطالب بیان کیے گئے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص419.</ref> شیخ طوسی نے اس فصل میں 7 روایات کو نقل کیا ہے اور اس عقیدے کا اظہار کیا ہے جب امام زمانؑ ظہور کریں گے تو ایک خوبصورت جوان کی شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر ہونگے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص419-422.</ref> اس فصل کے آخر میں امام کے ظہور اور قیام کی کئی نشانیاں بیان کی ہیں اور اس سلسلے میں 59 روایتیں نقل کی ہیں۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص433.</ref>
*'''فصل ہشتم:''' اس فصل میں ۲۳ روایتوں کے ذیل میں امام زمانؑ کے بعض اوصاف اور آپؑ کے مقامات کو بیان کیا ہے۔ نیز امام کی سیرت بھی اسی فصل میں بیان کی گئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبة، ۱۴۱۱ق، ص۴۶۷.</ref>
*'''فصل ہشتم:''' اس فصل میں 23 روایتوں کے ذیل میں امام زمانؑ کے بعض اوصاف اور آپؑ کے مقامات کو بیان کیا ہے۔ نیز امام کی سیرت بھی اسی فصل میں بیان کی گئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، 1411ھ، ص467.</ref>


== مصادر و مآخذ ==
== مصادر و مآخذ ==
سطر 48: سطر 47:


*وہ مآخذ جو ابھی بھی دسترسی میں ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
*وہ مآخذ جو ابھی بھی دسترسی میں ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں:
#[[کتاب سلیم بن قیس ہلالی]]: یہ کتاب نہایت قدیمی روائی کتابوں میں سے ایک ہے جس سے شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ کی تالیف میں روایتیں نقل کی ہیں؛<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹.</ref>
#[[کتاب سلیم بن قیس ہلالی]]: یہ کتاب نہایت قدیمی روائی کتابوں میں سے ایک ہے جس سے شیخ طوسی نے کتاب الغیبۃ کی تالیف میں روایتیں نقل کی ہیں؛<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69.</ref>
#[[الکافی (کتاب)|کافی]]: مصنف نے امام(عج) کی ولادت کے اثبات اور شیعوں کی امام سے ملاقات کے موضوع کو ثابت کرنے کے لیے [[[[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]] کی اصول کافی کی "کتابُ‌ الحجہ" سے استفادہ کیا ہے؛<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹.</ref>
#[[الکافی (کتاب)|کافی]]: مصنف نے امام(عج) کی ولادت کے اثبات اور شیعوں کی امام سے ملاقات کے موضوع کو ثابت کرنے کے لیے [[[[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]] کی اصول کافی کی "کتابُ‌ الحجہ" سے استفادہ کیا ہے؛<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69.</ref>
#[[کتاب الغیبۃ (نعمانی)|کتاب‌الغیبہ]]، مولفہ [[محمد بن ابراہیم نعمانی|محمد بن ابراہیم نُعمانی]]؛
#[[کتاب الغیبۃ (نعمانی)|کتاب‌الغیبہ]]، مولفہ [[محمد بن ابراہیم نعمانی|محمد بن ابراہیم نُعمانی]]؛
#[[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[شیخ صدوق]] کی تصنیف۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹-۷۰</ref>
#[[کمال الدین و تمام النعمۃ (کتاب)|کمال‌الدین]]، [[شیخ صدوق]] کی تصنیف۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69-70</ref>
#[[الشافی فی الامامۃ (کتاب)|الشّافی فی الامامہ]]، [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] کی تصنیف: کہا جاتا ہے کہ کتاب الغیبۃ کی کلامی مباحث کو اس کتاب سے لی گئی ہے۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۷۰.</ref>
#[[الشافی فی الامامۃ (کتاب)|الشّافی فی الامامہ]]، [[سید مرتضی|سیدِ مرتضی]] کی تصنیف: کہا جاتا ہے کہ کتاب الغیبۃ کی کلامی مباحث کو اس کتاب سے لی گئی ہے۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص70.</ref>


*کچھ مصادر ابھی دسترس میں نہیں ہیں۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۶۹.</ref> یہ منابع درج ذیل ہیں: "الضِّیاءُ فی الرَّدِّ عَلَی المُحمدیّۃ و الجعفریۃ" یہ [[سعد بن عبد الله اشعری قمی|سعد بن عبدالله اَشعری قمی]] کی کتاب ہے، "کتابُ‌الرَّجعہ" و "کتابُ‌القائم" جو کہ [[فضل بن شاذان نیشابوری|فضل بن شاذان]] کے قلمی آثار ہیں، کتاب "اخبار الوُکَلاءِ الاَربَعہ" [[ابن نوح سیرافی|ابن‌ نوح سیرافی]] اور کتاب اَلغیبہ جو کہ [[محمد بن علی شلمغانی|محمد بن علی شَلمَغانی]] کی کتاب ہے۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»، ص۷۰.</ref>
*کچھ مصادر ابھی دسترس میں نہیں ہیں۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص69.</ref> یہ منابع درج ذیل ہیں: "الضِّیاءُ فی الرَّدِّ عَلَی المُحمدیّۃ و الجعفریۃ" یہ [[سعد بن عبد اللہ اشعری قمی|سعد بن عبداللہ اَشعری قمی]] کی کتاب ہے، "کتابُ‌الرَّجعہ" و "کتابُ‌القائم" جو کہ [[فضل بن شاذان نیشابوری|فضل بن شاذان]] کے قلمی آثار ہیں، کتاب "اخبار الوُکَلاءِ الاَربَعہ" [[ابن نوح سیرافی|ابن‌ نوح سیرافی]] اور کتاب اَلغیبہ جو کہ [[محمد بن علی شلمغانی|محمد بن علی شَلمَغانی]] کی کتاب ہے۔<ref>احمدی کچایی، «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»، ص70.</ref>
[[ملف:ترجمه کتاب الغیبه طوسی.jpg|150px|تصغیر|ترجمہ کتاب الغیبہ طوسی]]
[[ملف:ترجمه کتاب الغیبه طوسی.jpg|150px|تصغیر|ترجمہ کتاب الغیبہ طوسی]]


سطر 62: سطر 61:
===نسخہ جات===
===نسخہ جات===
کتاب الغیبۃ کے بعض خطی نسخے یہ ہیں:
کتاب الغیبۃ کے بعض خطی نسخے یہ ہیں:
*اس کتاب کے دو خطی نسخے کتب خانہ آستان قدس رضوی میں موجود ہیں جن کی کتابت کی تاریخ 1074 ھ  اور 1089 ھ ہے؛<ref>احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعه در سده‌های چهارم تا هفتم هجری، ۱۳۸۹ش، ص۲۸۵.</ref>
*اس کتاب کے دو خطی نسخے کتب خانہ آستان قدس رضوی میں موجود ہیں جن کی کتابت کی تاریخ 1074 ھ  اور 1089 ھ ہے؛<ref>احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہ‌ہای چہارم تا ہفتم ہجری، 1389ہجری شمسی، ص285.</ref>
*اس کا ایک نسخہ کتب خانہ [[مدرسہ فیضیہ]] میں ہے۔ اسے خلف بن یوسف بن نجم نجفی نے سنہ 1085ھ میں تحریر کیا ہے؛<ref>احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعه در سده‌های چهارم تا هفتم هجری، ۱۳۸۹ش، ص۲۸۵.</ref>
*اس کا ایک نسخہ کتب خانہ [[مدرسہ فیضیہ]] میں ہے۔ اسے خلف بن یوسف بن نجم نجفی نے سنہ 1085ھ میں تحریر کیا ہے؛<ref>احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہ‌ہای چہارم تا ہفتم ہجری، 1389ہجری شمسی، ص285.</ref>
*اس کا ایک نسخہ کتب خانہ [[آیت ‌الله مرعشی]] میں ملا عباس قلی شمس‌ العلماء کے خط کے ساتھ موجود ہے۔<ref>احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعه در سده‌های چهارم تا هفتم هجری، ۱۳۸۹ش، ص۲۸۵.</ref>
*اس کا ایک نسخہ کتب خانہ [[آیت ‌اللہ مرعشی]] میں ملا عباس قلی شمس‌ العلماء کے خط کے ساتھ موجود ہے۔<ref>احمدی نورآبادی، رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہ‌ہای چہارم تا ہفتم ہجری، 1389ہجری شمسی، ص285.</ref>


===اشاعت اور ترجمے===
===اشاعت اور ترجمے===
یہ کتاب پہلی مرتبہ سنہ 1323 ه‍ میں ایران کے شہر تبریز سے کتاب [[البیان فی اخبار صاحب الزمان]] کے ساتھ سنگی صورت (لیتھو گرافی)میں چھپی۔.<ref>سرشار تهرانی، ناصح، «مقدمه»، در کتاب الغیبة، تألیف شیخ طوسی، ۱۴۱۱ق، ص۱۰.</ref> اس کے دیگر مختلف اشاعتیں ہوئیں، منجملہ کچھ اشاعتیں یہ ہیں:
یہ کتاب پہلی مرتبہ سنہ 1323 ہ‍ میں ایران کے شہر تبریز سے کتاب [[البیان فی اخبار صاحب الزمان]] کے ساتھ سنگی صورت (لیتھو گرافی)میں چھپی۔.<ref>سرشار تہرانی، ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص10.</ref> اس کے دیگر مختلف اشاعتیں ہوئیں، منجملہ کچھ اشاعتیں یہ ہیں:
* 1385 ه‍ میں [[نجف اشرف]] عراق سے مطبعۃ النعمان نے [[آقا بزرگ تہرانی]] کے مقدمے کے ساتھ 292 صفحات پر مشتمل طبع کی اور اسی سال مکتبہ نینوی الحدیثہ [[تہران]] نے اسے آفسٹ صورت میں چھاپا۔
* 1385 ہ‍ میں [[نجف اشرف]] عراق سے مطبعۃ النعمان نے [[آقا بزرگ تہرانی]] کے مقدمے کے ساتھ 292 صفحات پر مشتمل طبع کی اور اسی سال مکتبہ نینوی الحدیثہ [[تہران]] نے اسے آفسٹ صورت میں چھاپا۔
*  1411 ه‍ میں  عباد الله سرشار طہرانی اور علی احمد ناصح کے مقدمے کے ہمراہ 570 صفحات پر مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ [[قم]] کے ذریعے طبع ہوئی۔<ref>سرشار تهرانی، ناصح، «مقدمه»، در کتاب الغیبة، تألیف شیخ طوسی، ۱۴۱۱ق، ص۱۱.</ref>  
*  1411 ہ‍ میں  عباد اللہ سرشار طہرانی اور علی احمد ناصح کے مقدمے کے ہمراہ 570 صفحات پر مؤسسۃ المعارف الاسلامیہ [[قم]] کے ذریعے طبع ہوئی۔<ref>سرشار تہرانی، ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، 1411ھ، ص11.</ref>  
* سنہ ۱۳۸۶ہجری شمسی میں کتاب الغیبہ کا مجتبی عزیزی نے "کتاب غیبت" کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا اور مسجد مقدس جمکران پبلشرز قم نے اسے شائع کیا۔
* سنہ 1386ہجری شمسی میں کتاب الغیبہ کا مجتبی عزیزی نے "کتاب غیبت" کے عنوان سے فارسی میں ترجمہ کیا اور مسجد مقدس جمکران پبلشرز قم نے اسے شائع کیا۔


==مونو گرافی==
==مونو گرافی==
فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب "بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبهٔ شیخ طوسی" جس کا مصنف سیدعلی رستمی ہیں ان آثار میں سے ہے جسے  کتاب الغیبہ کے بارے میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ تحقیق "پژوہشگاه علوم و فرهنگ اسلامی" کے زیر نظر انجام دی گئی اور بوستان کتاب پبلشرز نے سنہ ۱۳۹۲ ہجری شمسی میں شائع کیا۔<ref>[http://hadith.net/post/45879/بررسی-توصیفی-و-تحلیلی-کتاب-الغیبه-شیخ-طوسی/ «بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبه شیخ طوسی»]، سایت پایگاه اطلاع‌رسانی حدیث شیعه.</ref>
فارسی زبان میں لکھی گئی کتاب "بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبۂ شیخ طوسی" جس کا مصنف سیدعلی رستمی ہیں ان آثار میں سے ہے جسے  کتاب الغیبہ کے بارے میں تحریر کی گئی ہے۔ یہ تحقیق "پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی" کے زیر نظر انجام دی گئی اور بوستان کتاب پبلشرز نے سنہ 1392 ہجری شمسی میں شائع کیا۔<ref>[http://hadith.net/post/45879/بررسی-توصیفی-و-تحلیلی-کتاب-الغیبہ-شیخ-طوسی/ «بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبہ شیخ طوسی»]، سایت پایگاہ اطلاع‌رسانی حدیث شیعہ.</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
سطر 80: سطر 79:
== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعه، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۳۰ق.
*آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، طبقات اعلام الشیعہ، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1430ھ۔
*آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی التصانیف الشیعه، بیروت، دارالاَضواء، ۱۴۰۳ق.
*آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی التصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاَضواء، 1403ھ۔
*آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، «مقدمه»، در کتاب الغیبة، تألیف شیخ طوسی، قم، دار المعارف الاسلامیه، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
*آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، قم، دار المعارف الاسلامیہ، چاپ اول، 1411ھ۔
*احمدی کچایی، مجید، [http://kms.bou.ac.ir/wp-content/uploads/2020/02/تحلیلی-بسترشناسانه-درباره-کتاب-%C2%AB%D8%A7%D9%84%D8%BA%DB%8C%D8%A8%D9%8 «تحلیلی بسترشناسانه درباره کتاب «الغیبة» شیخ طوسی»]، پژوهش‌های مهدوی، شماره ۱۰، پاییز ۱۳۹۳ش.
*احمدی کچایی، مجید، [http://kms.bou.ac.ir/wp-content/uploads/2020/02/تحلیلی-بسترشناسانہ-دربارہ-کتاب-%C2%AB%D8%A7%D9%84%D8%BA%DB%8C%D8%A8%D9%8 «تحلیلی بسترشناسانہ دربارہ کتاب «الغیبۃ» شیخ طوسی»]، پژوہش‌ہای مہدوی، شمارہ 10، پاییز 1393ہجری شمسی۔
*احمدی نورآبادی، مهدی و محمدکاظم رحمتی، تاریخ حدیث شیعه در سده‌های چهارم تا هفتم هجری، قم، انتشارات دار الحدیث، ۱۳۸۹ش.
*احمدی نورآبادی، مہدی و محمدکاظم رحمتی، تاریخ حدیث شیعہ در سدہ‌ہای چہارم تا ہفتم ہجری، قم، انتشارات دار الحدیث، 1389ہجری شمسی۔
*[http://hadith.net/post/45879/بررسی-توصیفی-و-تحلیلی-کتاب-الغیبه-شیخ-طوسی/ «بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبه شیخ طوسی»]، سایت پایگاه اطلاع‌رسانی حدیث شیعه، تاریخ بازدید: ۱۳ مرداد ۱۴۰۲ش.
*[http://hadith.net/post/45879/بررسی-توصیفی-و-تحلیلی-کتاب-الغیبہ-شیخ-طوسی/ «بررسی توصیفی و تحلیلی کتاب الغیبہ شیخ طوسی»]، سایت پایگاہ اطلاع‌رسانی حدیث شیعہ، تاریخ بازدید: 13 مرداد 1402ہجری شمسی۔
*سرشار تهرانی، عبادالله و علی‌احمد ناصح، «مقدمه»، در کتاب الغیبة، تألیف شیخ طوسی، قم، دار المعارف الاسلامیه، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
*سرشار تہرانی، عباداللہ و علی‌احمد ناصح، «مقدمہ»، در کتاب الغیبۃ، تألیف شیخ طوسی، قم، دار المعارف الاسلامیہ، چاپ اول، 1411ھ۔
*سلیمیان، خدامراد، فرهنگ‌نامه مهدویت، تهران، بنیاد فرهنگی حضرت مهدی موعود(عج)، ۱۳۸۸ش.
*سلیمیان، خدامراد، فرہنگ‌نامہ مہدویت، تہران، بنیاد فرہنگی حضرت مہدی موعود(عج)، 1388ہجری شمسی۔
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبة، قم، دار المعارف الاسلامیة، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبۃ، قم، دار المعارف الاسلامیۃ، چاپ اول، 1411ھ۔
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب غیبت، ترجمه مجتبی عزیزی، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، ۱۳۸۷ش.
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب غیبت، ترجمہ مجتبی عزیزی، قم، انتشارات مسجد مقدس جمکران، 1387ہجری شمسی۔
*گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقه و فقها، تهران، انتشارات سمت، چاپ هفدهم، ۱۳۹۸ش.
*گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران، انتشارات سمت، چاپ ہفدہم، 1398ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، movedable
5,031

ترامیم