مندرجات کا رخ کریں

"ائمہ معصومین علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 18: سطر 18:
{{جعبہ نقل قول
{{جعبہ نقل قول
| عنوان = '''ائمہؑ، [[امیرالمؤمنینؑ]] کی زبانی'''
| عنوان = '''ائمہؑ، [[امیرالمؤمنینؑ]] کی زبانی'''
| نویسنده = امام علیؑ
| نویسندہ = امام علیؑ
| نقل قول = {{حدیث|'''بِنا يُسْتَعْطَى الْهُدَى، وَيُسْتَجْلَى الْعَمَى، إِنَّ الْأَئِمَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِى هَذا الْبَطْنِ مِنْ هاشِمٍ، لا تَصْلُحُ عَلَى سِواهُمْ، وَلا تَصْلُحُ الْوُلاةُ مِنْ غَيْرِهِمْ'''}} <br/> ترجمہ: لوگ ہماری راہنمائی سے راہ ہدایت پر گامزن ہوتے ہیں، اور اندھے دلوں کی بصارت کو ہمارے ہاں تلاش کرتے ہیں؛ بے شک ائمہ قریش سے ہیں وہی جن کا درخت خاندان [[بنی ہاشم|ہاشم]] میں لگایا گیا ہے، دوسرے اس کے اہل نہیں ہیں اور ولایت و امامت کا عہدہ ہاشمیوں کے سوا کسی اور کے نام نہیں لکھا گیا۔
| نقل قول = {{حدیث|'''بِنا يُسْتَعْطَى الْہُدَى، وَيُسْتَجْلَى الْعَمَى، إِنَّ الْأَئِمَّۃَ مِنْ قُرَيْشٍ غُرِسُوا فِى ہَذا الْبَطْنِ مِنْ ہاشِمٍ، لا تَصْلُحُ عَلَى سِواہُمْ، وَلا تَصْلُحُ الْوُلاۃُ مِنْ غَيْرِہِمْ'''}} <br/> ترجمہ: لوگ ہماری راہنمائی سے راہ ہدایت پر گامزن ہوتے ہیں، اور اندھے دلوں کی بصارت کو ہمارے ہاں تلاش کرتے ہیں؛ بے شک ائمہ قریش سے ہیں وہی جن کا درخت خاندان [[بنی ہاشم|ہاشم]] میں لگایا گیا ہے، دوسرے اس کے اہل نہیں ہیں اور ولایت و امامت کا عہدہ ہاشمیوں کے سوا کسی اور کے نام نہیں لکھا گیا۔
| منبع = <small>[[نہج البلاغہ]]، خطبہ 144۔</small>
| منبع = <small>[[نہج البلاغہ]]، خطبہ 144۔</small>
| تراز = چپ
| تراز = چپ
| پس‌زمینه = #eefffb
| پس‌زمینہ = #eefffb
| عرض = 280px
| عرض = 280px
| حاشیه =  
| حاشیہ =  
| اندازه قلم =  
| اندازہ قلم =  
| تراز منبع = چپ
| تراز منبع = چپ
}}
}}
[[ائمہ معصومین|بارہ اماموں]] کی [[امامت]] کا عقیدہ [[امامیہ|شیعہ اثنا عشریہ]] کے بنیادی اعتقادات یعنی اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ <ref>محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۰۳؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۷۸.</ref> [[شیعہ|اہل تشیع]] کے مطابق امام، اللہ تعالی کی طرف سے [[رسول اکرمؐ]] کے ذریعے معین ہوتا ہے۔<ref>محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۵؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۱و۱۸۲.</ref>
[[ائمہ معصومین|بارہ اماموں]] کی [[امامت]] کا عقیدہ [[امامیہ|شیعہ اثنا عشریہ]] کے بنیادی اعتقادات یعنی اصول دین میں شمار ہوتا ہے۔ <ref>محمدی، شرح کشف المراد، 1378ش، ص403؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج3، ص178.</ref> [[شیعہ|اہل تشیع]] کے مطابق امام، اللہ تعالی کی طرف سے [[رسول اکرمؐ]] کے ذریعے معین ہوتا ہے۔<ref>محمدی، شرح کشف المراد، 1378ش، ص425؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج3، ص181و182.</ref>


[[شیعہ]] مفسرین اور متکلمین کے مطابق اگرچہ [[قرآن کریم|قرآن]] میں ائمہ کا نام نہیں آیا لیکن [[آیہ اولی الامر]]، [[آیہ تطہیر]]، [[آیہ ولایت]]، [[آیہ اکمال]]، [[آیہ تبلیغ]] اور [[آیہ صادقین]] میں [[ائمہ]] کی [[امامت]] کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں:‌ مکارم شیرازی، پیام قرآن، ۱۳۸۶ش، ج۹، ص۱۷۰و۱۷۱ و ۳۶۹و۳۷۰.</ref> البتہ روایات میں ائمہ کی تعداد اور نام ذکر ہوئے ہیں۔<ref>:ملاحظہ کریں: حکیم، الامامۃ و اہل البیت، ۱۴۲۴ق، ص۳۰۵-۳۳۸.</ref>
[[شیعہ]] مفسرین اور متکلمین کے مطابق اگرچہ [[قرآن کریم|قرآن]] میں ائمہ کا نام نہیں آیا لیکن [[آیہ اولی الامر]]، [[آیہ تطہیر]]، [[آیہ ولایت]]، [[آیہ اکمال]]، [[آیہ تبلیغ]] اور [[آیہ صادقین]] میں [[ائمہ]] کی [[امامت]] کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں:‌ مکارم شیرازی، پیام قرآن، 1386ش، ج9، ص170و171 و 369و370.</ref> البتہ روایات میں ائمہ کی تعداد اور نام ذکر ہوئے ہیں۔<ref>:ملاحظہ کریں: حکیم، الامامۃ و اہل البیت، 1424ق، ص305-338.</ref>


شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہؑ، رسول اکرمؑ کی تمام خصوصیات اور ذمہ داریوں کا حامل ہوتے ہیں منجملہ ان میں [[آیت|قرآنی آیات]] کی وضاحت، شرعی احکام کا بیان، لوگوں کی تربیت، دینی سوالات کے جوابات، عدل انصاف کا قیام اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ ائمہ پر وحی نہیں آتی اور صاحب شریعت نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور عقاید امامیه، ۱۳۷۶ش، ص۱۶۵و۱۶۶.</ref>
شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہؑ، رسول اکرمؑ کی تمام خصوصیات اور ذمہ داریوں کا حامل ہوتے ہیں منجملہ ان میں [[آیت|قرآنی آیات]] کی وضاحت، شرعی احکام کا بیان، لوگوں کی تربیت، دینی سوالات کے جوابات، عدل انصاف کا قیام اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت جیسی ذمہ داریوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ صرف فرق اتنا ہے کہ ائمہ پر وحی نہیں آتی اور صاحب شریعت نہیں ہیں۔<ref>سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376ش، ص165و166.</ref>
===خصوصیات===
===خصوصیات===
شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ معصومینؑ کی خصوصیات میں سے بعض درج ذیل ہیں:
شیعہ عقیدے کے مطابق ائمہ معصومینؑ کی خصوصیات میں سے بعض درج ذیل ہیں:
*[[ائمہ کی عصمت|عصمت]]:‌ رسول اللہؐ کی طرح ائمہ معصومین بھی ہر قسم کے [[گناہ]] اور خطا سے پاک اور [[عصمت|معصوم]] ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو:‌ علامہ حلی، كشف المراد، ۱۳۸۲ش، ص۱۸۴؛ فیاض لاہیجی، سرمايہ ايمان در اصول اعتقادات، ۱۳۷۲ش، ص۱۱۴و۱۱۵.</ref>
*[[ائمہ کی عصمت|عصمت]]:‌ رسول اللہؐ کی طرح ائمہ معصومین بھی ہر قسم کے [[گناہ]] اور خطا سے پاک اور [[عصمت|معصوم]] ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو:‌ علامہ حلی، كشف المراد، 1382ش، ص184؛ فیاض لاہیجی، سرمايہ ايمان در اصول اعتقادات، 1372ش، ص114و115.</ref>
*[[افضلیت اہل بیت|افضلیت]]:‌ شیعہ علما کے مطابق رسول اللہؐ کے بعد ائمہ معصومین دوسرے تمام [[انبیا|انبیاء]]، [[فرشتہ|ملائکہ]] اور عام لوگوں سے افضل ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو: صدوق، الاعتقادات، ۱۴۱۴ق، ص۹۳؛ مفید، اوائل المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۷۰ و ۷۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹.</ref> تمام مخلوقات پر ائمہ معصومینؑ کی فوقیت پر دلالت کرنے والی [[احادیث]] کو [[مستفیض]] بلکہ [[متواتر]] جانی گئی ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۶، ص۲۹۷؛ شبر، حق الیقین، ۱۴۲۴ق، ص۱۴۹.</ref>
*[[افضلیت اہل بیت|افضلیت]]:‌ شیعہ علما کے مطابق رسول اللہؐ کے بعد ائمہ معصومین دوسرے تمام [[انبیا|انبیاء]]، [[فرشتہ|ملائکہ]] اور عام لوگوں سے افضل ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو: صدوق، الاعتقادات، 1414ق، ص93؛ مفید، اوائل المقالات، 1413ق، ص70 و 71؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج26، ص297؛ شبر، حق الیقین، 1424ق، ص149.</ref> تمام مخلوقات پر ائمہ معصومینؑ کی فوقیت پر دلالت کرنے والی [[احادیث]] کو [[مستفیض]] بلکہ [[متواتر]] جانی گئی ہیں۔<ref>مجلسی، بحارالأنوار، 1403ق، ج26، ص297؛ شبر، حق الیقین، 1424ق، ص149.</ref>
*[[علم غیب]]: ائمہ معصومینؑ کو خدا کی طرف سے علم غیب عطا کی گئی ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو:‌ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵۵و۲۵۶ و ۲۶۰و۲۶۱؛ سبحانی، علم غیب، ۱۳۸۶ش، ص۶۳-۷۹.</ref>
*[[علم غیب]]: ائمہ معصومینؑ کو خدا کی طرف سے علم غیب عطا کی گئی ہیں۔<ref>ملاحظہ ہو:‌ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص255و256 و 260و261؛ سبحانی، علم غیب، 1386ش، ص63-79.</ref>
*[[ولایت تکوینی]] اور [[ولایت تشریعی|تشریعی]]: اکثر شیعہ علما، ائمہ معصومینؑ کے لئے [[ولایت تکوینی]] کے قائل ہیں۔<ref>حمود، الفوائدالبہیۃ، ۱۴۲۱ق، ج۲، ص۱۱۷و۱۱۹.</ref> اسی طرح لوگوں کی جان و مال پر اولی بالتصرف ہونے کے معنی میں [[ولایت تشریعی]] رکھنے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>خویی، مصباح الفقاہۃ، ۱۴۱۷ق، ج‌۵، ص۳۸؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، ۱۳۹۲ش، ص۱۳۳، ۱۳۵ و۱۴۱.</ref>عقیدہ [[تفویض]] پر دلالت کرنے والی احادیث کے مطابق<ref>ملاحظہ کریں:‌ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۶۵-۲۶۸؛ صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۳۸۳-۳۸۷.</ref> ائمہ معصومینؑ کو تشریع اور قانون سازی کے اختیارات بھی عطا کئے گئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: عاملی، الولایۃ التکوینیۃ والتشریعیۃ، ۱۴۲۸ق، ص۶۰-۶۳؛ مؤمن، «ولایة ولی المعصوم(ع)»، ص۱۰۰-۱۱۸؛ حسینی، میلانی، اثبات الولایة العامة، ۱۴۳۸ق، ص۲۷۲ و ۲۷۳، ۳۱۱و۳۱۲.</ref>
*[[ولایت تکوینی]] اور [[ولایت تشریعی|تشریعی]]: اکثر شیعہ علما، ائمہ معصومینؑ کے لئے [[ولایت تکوینی]] کے قائل ہیں۔<ref>حمود، الفوائدالبہیۃ، 1421ق، ج2، ص117و119.</ref> اسی طرح لوگوں کی جان و مال پر اولی بالتصرف ہونے کے معنی میں [[ولایت تشریعی]] رکھنے میں بھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔<ref>خویی، مصباح الفقاہۃ، 1417ق، ج‌5، ص38؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1392ش، ص133، 135 و141.</ref>عقیدہ [[تفویض]] پر دلالت کرنے والی احادیث کے مطابق<ref>ملاحظہ کریں:‌ کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص265-268؛ صفار، بصائر الدرجات، 1404ق، ص383-387.</ref> ائمہ معصومینؑ کو تشریع اور قانون سازی کے اختیارات بھی عطا کئے گئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: عاملی، الولایۃ التکوینیۃ والتشریعیۃ، 1428ق، ص60-63؛ مؤمن، «ولایۃ ولی المعصوم(ع)»، ص100-118؛ حسینی، میلانی، اثبات الولایۃ العامۃ، 1438ق، ص272 و 273، 311و312.</ref>
{{مزید|تفویض}}
{{مزید|تفویض}}
*[[شفاعت|مقام شفاعت]]: رسول اللہؐ کی طرح تمام ائمہ معصومین بھی خدا کے اذن سے [[قیامت]] کے دن شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔<ref>طوسی، التبیان، داراحیاء‌التراث العربی، ج۱، ص۲۱۴.</ref>
*[[شفاعت|مقام شفاعت]]: رسول اللہؐ کی طرح تمام ائمہ معصومین بھی خدا کے اذن سے [[قیامت]] کے دن شفاعت کا حق رکھتے ہیں۔<ref>طوسی، التبیان، داراحیاء‌التراث العربی، ج1، ص214.</ref>
*دینی اور علمی مرجعیت: [[حدیث ثقلین]]<ref>صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۴۱۲-۴۱۴.</ref> اور [[حدیث سفینہ]]<ref>صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۲۹۷، ح۴.</ref> جیسی روایات کے مطابق ائمہ معصومین دینی اور علمی مرجعیت پر فائز ہیں اور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔<ref>ملاحظہ ہو: سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۱-۲۳۵؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۵۷و۱۵۸؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۸۰و۱۸۱.</ref>
*دینی اور علمی مرجعیت: [[حدیث ثقلین]]<ref>صفار، بصائر الدرجات، 1404ق، ص412-414.</ref> اور [[حدیث سفینہ]]<ref>صفار، بصائر الدرجات، 1404ق، ص297، ح4.</ref> جیسی روایات کے مطابق ائمہ معصومین دینی اور علمی مرجعیت پر فائز ہیں اور لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کریں۔<ref>ملاحظہ ہو: سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386ش، ص231-235؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376ش، ص157و158؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج3، ص180و181.</ref>
*معاشرے کی قیادت: رسول اللہؐ کے بعد مسلم معاشرے کی قیادت اماموں کے ذمے ہے۔<ref>سبحانی، منشور عقاید امامیه، ۱۳۷۶ش، ص۱۴۹و۱۵۰.</ref>
*معاشرے کی قیادت: رسول اللہؐ کے بعد مسلم معاشرے کی قیادت اماموں کے ذمے ہے۔<ref>سبحانی، منشور عقاید امامیہ، 1376ش، ص149و150.</ref>
*وجوب اطاعت: [[آیہ اولی الامر]] کی بنا پر جس طرح سے اللہ اور رسول کی اطاعت [[واجب]] ہے اسی طرح ائمہ معصومین کی اطاعت بھی واجب ہے<ref>طوسی، التبیان، داراحیاء‌التراث العربی، ج۳، ص۲۳۶؛ محمدی شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۱۵.</ref>
*وجوب اطاعت: [[آیہ اولی الامر]] کی بنا پر جس طرح سے اللہ اور رسول کی اطاعت [[واجب]] ہے اسی طرح ائمہ معصومین کی اطاعت بھی واجب ہے<ref>طوسی، التبیان، داراحیاء‌التراث العربی، ج3، ص236؛ محمدی شرح کشف المراد، 1378ش، ص415.</ref>


اکثر شیعہ علماء کے مطابق تمام ائمہ معصومینؑ [[شہادت]] کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے جائیں گے۔<ref>مراجعہ کریں: صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۵۲۸؛‌ طبرسی، إعلام الوری،۱۳۹۰ق، ص۳۶۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۷، ص۲۰۹و۲۱۶۔</ref> اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے وہ مختلف [[حدیث|احادیث]]<ref>مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۷، ص۲۰۷-۲۱۷.</ref> سے استدلال کرتے ہیں من جملہ ان میں سے ایک حدیث ہے: {{حدیث|وَ اللَّهِ مَا مِنَّا إِلَّا مَقْتُولٌ شَهِيد}}<ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵۸۵؛ طبرسی، إعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷۔</ref> ان احادیث کے مطابق تمام ائمہ معصومین شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے رخصت ہونگے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ ق، ج۲، ص۲۰۹۔</ref>
اکثر شیعہ علماء کے مطابق تمام ائمہ معصومینؑ [[شہادت]] کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے جائیں گے۔<ref>مراجعہ کریں: صدوق، الخصال، 1362ش، ج2، ص528؛‌ طبرسی، إعلام الوری،1390ق، ص367؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1379 ق، ج2، ص209؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج27، ص209و216۔</ref> اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے وہ مختلف [[حدیث|احادیث]]<ref>مراجعہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج27، ص207-217.</ref> سے استدلال کرتے ہیں من جملہ ان میں سے ایک حدیث ہے: {{حدیث|وَ اللَّہِ مَا مِنَّا إِلَّا مَقْتُولٌ شَہِيد}}<ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج2، ص585؛ طبرسی، إعلام الوری، 1390ق، ص367۔</ref> ان احادیث کے مطابق تمام ائمہ معصومین شہادت کے درجے پر فائز ہو کر اس دنیا سے رخصت ہونگے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص367؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1379 ق، ج2، ص209۔</ref>


==ائمہؑ کی امامت==
==ائمہؑ کی امامت==
{{اصلی|ائمہ معصومین کی امامت}}
{{اصلی|ائمہ معصومین کی امامت}}
شیعہ علما بارہ اماموں کی [[امامت]] کو ثابت کرنے کے لئے [[عصمت]] اور [[افضلیت]] جیسی عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ [[حدیث جابر]]، [[حدیث لوح]] اور [[حدیث اثنا عشرہ خلیفہ|حدیث 12 خلیفہ]] سے استدلال کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: حکیم، الامامة‌ و اهل البیت، ۱۴۲۴ق، ص۳۰۵-۳۵۱؛ محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ۴۹۵ و ۴۹۶.</ref>
شیعہ علما بارہ اماموں کی [[امامت]] کو ثابت کرنے کے لئے [[عصمت]] اور [[افضلیت]] جیسی عقلی دلائل کے ساتھ ساتھ [[حدیث جابر]]، [[حدیث لوح]] اور [[حدیث اثنا عشرہ خلیفہ|حدیث 12 خلیفہ]] سے استدلال کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: حکیم، الامامۃ‌ و اہل البیت، 1424ق، ص305-351؛ محمدی، شرح کشف المراد، 1378ش، 495 و 496.</ref>


===حدیث جابر===
===حدیث جابر===
{{اصلی|حدیث جابر}}
{{اصلی|حدیث جابر}}
[[جابر بن عبداللہ انصاری]] نے آیہ؛ {{قرآن کا متن|يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا الله وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ|ترجمہ=اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)|سورہ=نساء|آیت=59}}<ref> سورہ نساء،‌ آیہ ۵۹۔</ref> کے نازل ہونے کے بعد [[اولو الامر]] کے بارے میں رسول خداؐ سے پوچھا تو آنحضرتؐ نے فرمایا: «وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جن میں سب سے پہلا [[علی بن ابی‌طالب]] ہیں اور ان کے بعد بالترتیب [[حسنؑ|حسنؑ]]، [[حسین(ع)|حسینؑ]]، [[علی بن حسینؑ]]، [[امام باقر(ع)|محمد بن علی]]، [[جعفر بن محمد]]، [[موسی بن جعفر]]، [[امام رضا علیہ السلام|علی بن موسی]]، [[امام جواد علیہ السلام|محمد بن علی]]، [[امام ہادی علیہ السلام|علی بن محمد]]، [[امام حسن عسکری علیہ السلام|حسن بن علی]] اور ان کے بعد ان کے فرزند جو میرا ہم نام اور ہم کنیت ہیں۔۔۔»۔<ref>خزاز رازی، کفایه الاثر، ۱۴۰۱ق، ص۵۳-۵۵؛ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ج۱‌، ص۲۵۴-۲۵۳۔</ref>
[[جابر بن عبداللہ انصاری]] نے آیہ؛ {{قرآن کا متن|يا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللہ وَ أَطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ|ترجمہ=اے ایمان والو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں (فرمان روائی کے حقدار ہیں)|سورہ=نساء|آیت=59}}<ref> سورہ نساء،‌ آیہ 59۔</ref> کے نازل ہونے کے بعد [[اولو الامر]] کے بارے میں رسول خداؐ سے پوچھا تو آنحضرتؐ نے فرمایا: «وہ میرے جانشین اور میرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں جن میں سب سے پہلا [[علی بن ابی‌طالب]] ہیں اور ان کے بعد بالترتیب [[حسنؑ|حسنؑ]]، [[حسین(ع)|حسینؑ]]، [[علی بن حسینؑ]]، [[امام باقر(ع)|محمد بن علی]]، [[جعفر بن محمد]]، [[موسی بن جعفر]]، [[امام رضا علیہ السلام|علی بن موسی]]، [[امام جواد علیہ السلام|محمد بن علی]]، [[امام ہادی علیہ السلام|علی بن محمد]]، [[امام حسن عسکری علیہ السلام|حسن بن علی]] اور ان کے بعد ان کے فرزند جو میرا ہم نام اور ہم کنیت ہیں۔۔۔»۔<ref>خزاز رازی، کفایہ الاثر، 1401ق، ص53-55؛ صدوق، کمال الدین، 1395ق، ج1‌، ص254-253۔</ref>


===حدیث 12 خلیفے===
===حدیث 12 خلیفے===
سطر 59: سطر 59:
[[اہل سنت]] حدیثی مآخذ میں [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپؐ کے جانشینوں اور خلفاء کی تعداد، نیز ان کی بعض خصوصیات ذکر ہوئی ہیں:
[[اہل سنت]] حدیثی مآخذ میں [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس میں آپؐ کے جانشینوں اور خلفاء کی تعداد، نیز ان کی بعض خصوصیات ذکر ہوئی ہیں:


[[جابر بن سمرہ]] رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں: «یہ دین قیامت تک قائم و دائم رہے گا جب تک تمہارے سر پر بارہ خلیفے ہونگے جو سب کے سب [[قریش]] میں سے ہونگے»۔<ref>ملاحظہ کریں:بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۱ق، ج۸، ص۱۲۷؛ مسلم نيشابوری، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۶، ص۳و۴؛ أحمد بن حنبل، مسند احمد، دارصادر، ج۵، ص۹۰، ۹۳، ۹۸، ۹۹، ۱۰۰ و۱۰۶؛ ترمذی، سنن ترمذی، ۱۴۰۳ق، ج۳، ص۳۴۰؛ سجستانی، سنن ابی داود، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۳۰۹.</ref>
[[جابر بن سمرہ]] رسول خداؐ سے نقل کرتے ہیں: «یہ دین قیامت تک قائم و دائم رہے گا جب تک تمہارے سر پر بارہ خلیفے ہونگے جو سب کے سب [[قریش]] میں سے ہونگے»۔<ref>ملاحظہ کریں:بخاری، صحیح بخاری، 1401ق، ج8، ص127؛ مسلم نيشابوری، صحیح مسلم، دارالفکر، ج6، ص3و4؛ أحمد بن حنبل، مسند احمد، دارصادر، ج5، ص90، 93، 98، 99، 100 و106؛ ترمذی، سنن ترمذی، 1403ق، ج3، ص340؛ سجستانی، سنن ابی داود، 1410ق، ج2، ص309.</ref>


اسی طرح [[ابن مسعود]] سے منقول ہے کہ رسول خداؐ کے بعد نقباء کی تعداد [[نقبائے بنی اسرائیل|بنی اسرائیل کے نقبا]] کی طرح بارہ ہوگی۔<ref>ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۳۳۴ق، ج۴، ص۵۰۱؛ نعمانی، کتاب الغیبه، ۱۴۰۳ق، ۷۴- ۷۵.</ref> اہل سنت عالم دین سلیمان بن ابراہیم قُندوزی کے مطابق احادیث نبوی میں مذکور 12 خلیفے وہی شیعہ ائمہ ہیں؛ کیونکہ یہ [[حدیث|احادیث]] ان کے علاوہ کسی اور ہستیوں پر تطبیق نہیں کر سکتے ہیں۔<ref>قندوزی، ینابیع المودة لذوی القربى، دارالاسوة، ج۳، ص۲۹۲و۲۹۳.</ref>
اسی طرح [[ابن مسعود]] سے منقول ہے کہ رسول خداؐ کے بعد نقباء کی تعداد [[نقبائے بنی اسرائیل|بنی اسرائیل کے نقبا]] کی طرح بارہ ہوگی۔<ref>ملاحظہ کریں: حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1334ق، ج4، ص501؛ نعمانی، کتاب الغیبہ، 1403ق، 74- 75.</ref> اہل سنت عالم دین سلیمان بن ابراہیم قُندوزی کے مطابق احادیث نبوی میں مذکور 12 خلیفے وہی شیعہ ائمہ ہیں؛ کیونکہ یہ [[حدیث|احادیث]] ان کے علاوہ کسی اور ہستیوں پر تطبیق نہیں کر سکتے ہیں۔<ref>قندوزی، ینابیع المودۃ لذوی القربى، دارالاسوۃ، ج3، ص292و293.</ref>


==ائمہ کا تعارف==
==ائمہ کا تعارف==
شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ مختلف عقلی<ref>ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۴۱؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۷و۸.</ref> اور نقلی دلائل جیسے [[حدیث غدیر|حدیث غدیر]] اور [[حدیث منزلت]] سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد برحق اور بلافصل خلیفہ حضرت علیؑ ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۴۱؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۷-۱۵.</ref> اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ امام علیؑ کے بعد بالترتیب امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام موسی کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام هادیؑ، امام حسن عسکریؑ و امام مهدی(عج) اسلامی معاشرے کی [[امامت]] اور رہبری کے عہدے پر فائز ہیں۔<ref>محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۹۵؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۱۷۹و۱۸۰.</ref>
شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ مختلف عقلی<ref>ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، 1378ش، ص427-441؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج3، ص7و8.</ref> اور نقلی دلائل جیسے [[حدیث غدیر|حدیث غدیر]] اور [[حدیث منزلت]] سے ثابت ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کے بعد برحق اور بلافصل خلیفہ حضرت علیؑ ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: محمدی، شرح کشف المراد، 1378ش، ص427-441؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج3، ص7-15.</ref> اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ امام علیؑ کے بعد بالترتیب امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ، امام موسی کاظمؑ، امام رضاؑ، امام جوادؑ، امام ہادیؑ، امام حسن عسکریؑ و امام مہدی(عج) اسلامی معاشرے کی [[امامت]] اور رہبری کے عہدے پر فائز ہیں۔<ref>محمدی، شرح کشف المراد، 1378ش، ص495؛ موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج3، ص179و180.</ref>


{{ائمہ معصومین کا مختصر تعارف}}
{{ائمہ معصومین کا مختصر تعارف}}
===امام علیؑ===
===امام علیؑ===
{{اصلی|امام علی علیہ السلام}}
{{اصلی|امام علی علیہ السلام}}
علی بن ابی‌طالب امام علیؑ اور [[امیرالمؤمنین (لقب)|امیرالمؤمنینؑ]] کے نام سے مشہور شیعوں کے پہلے امام ہیں۔ آپ [[ابوطالب]] اور [[فاطمہ بنت اسد]] کے فرزند ہیں۔ [[13 رجب]] [[سنہ 30 عام الفیل]] کو [[کعبہ]] میں آپ کی ولادت ہوئی۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵؛‌ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۳۔</ref> آپ نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر [[ایمان]] لایا<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۶۔</ref> اور پوری زندگی ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہے اور پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہؑ]] سے آپ نے [[شادی]] کی۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۰۔</ref>
علی بن ابی‌طالب امام علیؑ اور [[امیرالمؤمنین (لقب)|امیرالمؤمنینؑ]] کے نام سے مشہور شیعوں کے پہلے امام ہیں۔ آپ [[ابوطالب]] اور [[فاطمہ بنت اسد]] کے فرزند ہیں۔ [[13 رجب]] [[سنہ 30 عام الفیل]] کو [[کعبہ]] میں آپ کی ولادت ہوئی۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص5؛‌ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص153۔</ref> آپ نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر [[ایمان]] لایا<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص6۔</ref> اور پوری زندگی ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہے اور پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہؑ]] سے آپ نے [[شادی]] کی۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص200۔</ref>


باوجود اینکہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی بار من جملہ [[عید غدیر|غدیر کے دن]] آپ کو اپنا جانشین اور [[مسلمان|مسلمانوں]] کا بلا فصل خلیفہ مقرر کیا تھا،<ref>محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۳۶۔</ref> لیکن پبغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد [[سقیفہ بنی ساعدہ|سقیفہ بنی‌ ساعدہ]] کے واقعے میں [[ابوبکر بن ابی‌ قحافہ]] کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی گئی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۳۸و۱۳۹۔</ref> [[خلفائے ثلاثہ]] کے دور میں آپ نے [[اسلام]] کی مصلحت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کو فروغ دینے کی خاطر 25 سال سکوت اختیار کی اور آخر کار [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں لوگوں نے آپ کی [[بیعت]] کر کے مسلمانوں کا چھوتھا خلیفہ منتخب کیا۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱۔</ref> آپ کی [[خلافت امام علی|خلافت]] جو تقریبا 4 سال 9 مہینے قائم رہی 3 جنگیں؛ [[جنگ جمل]]، [[جنگ صفین]] اور [[جنگ نہروان]] رونما ہوئیں۔ جس کی بنا پر آپ کی [[خلافت]] کا اکثر حصہ مسلمانوں کے داخلی اختلافات میں گذر گئے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱-۲۰۲۔</ref>
باوجود اینکہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی بار من جملہ [[عید غدیر|غدیر کے دن]] آپ کو اپنا جانشین اور [[مسلمان|مسلمانوں]] کا بلا فصل خلیفہ مقرر کیا تھا،<ref>محمدی، شرح کشف المراد، 1378ش، ص427-436۔</ref> لیکن پبغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد [[سقیفہ بنی ساعدہ|سقیفہ بنی‌ ساعدہ]] کے واقعے میں [[ابوبکر بن ابی‌ قحافہ]] کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی گئی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص138و139۔</ref> [[خلفائے ثلاثہ]] کے دور میں آپ نے [[اسلام]] کی مصلحت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کو فروغ دینے کی خاطر 25 سال سکوت اختیار کی اور آخر کار [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں لوگوں نے آپ کی [[بیعت]] کر کے مسلمانوں کا چھوتھا خلیفہ منتخب کیا۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص201۔</ref> آپ کی [[خلافت امام علی|خلافت]] جو تقریبا 4 سال 9 مہینے قائم رہی 3 جنگیں؛ [[جنگ جمل]]، [[جنگ صفین]] اور [[جنگ نہروان]] رونما ہوئیں۔ جس کی بنا پر آپ کی [[خلافت]] کا اکثر حصہ مسلمانوں کے داخلی اختلافات میں گذر گئے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص201-202۔</ref>


امام علیؑ [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری|40ھ]] کو [[مسجد کوفہ]] کے محراب میں [[نماز]] کی حالت میں [[ابن ملجم مرادی]] کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور [[21 رمضان]] کو آپ جام [[شہادت]] نوش کر گئے اور [[نجف]] میں مدفون ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۴۔</ref>  
امام علیؑ [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری|40ھ]] کو [[مسجد کوفہ]] کے محراب میں [[نماز]] کی حالت میں [[ابن ملجم مرادی]] کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور [[21 رمضان]] کو آپ جام [[شہادت]] نوش کر گئے اور [[نجف]] میں مدفون ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص9؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص154۔</ref>  
آپ بیشمار [[فضائل امام علی|فضیلتوں]] کے حامل تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹-۶۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۸۲؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۱-۳۱۔</ref> [[عبد اللہ بن عباس|ابن‌ عباس]] سے منقول ہے کہ آپ کی شان میں تقریبا 300 [[آیت|آیتیں]] نازل ہوئی ہیں۔<ref>قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوۃ، ج۱، ص۳۳۷۔</ref> اسی طرح ان سے منقول ہے کہ [[خدا]] نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جس میں {{قرآن کا متن|«یا أیہا الذین آمنوا»}} ہو مگر یہ کہ آپؑ مومنین میں سر فہرست اور ان کے امیر ہیں۔<ref>حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۶۳-۷۱۔</ref>
آپ بیشمار [[فضائل امام علی|فضیلتوں]] کے حامل تھے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص29-66؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص182؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج1، ص21-31۔</ref> [[عبد اللہ بن عباس|ابن‌ عباس]] سے منقول ہے کہ آپ کی شان میں تقریبا 300 [[آیت|آیتیں]] نازل ہوئی ہیں۔<ref>قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوۃ، ج1، ص337۔</ref> اسی طرح ان سے منقول ہے کہ [[خدا]] نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جس میں {{قرآن کا متن|«یا أیہا الذین آمنوا»}} ہو مگر یہ کہ آپؑ مومنین میں سر فہرست اور ان کے امیر ہیں۔<ref>حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج1، ص63-71۔</ref>


===امام حسنؑ===
===امام حسنؑ===
{{ائمۂ معصومین اور خلفاء}}
{{ائمۂ معصومین اور خلفاء}}
{{اصلی|امام حسن مجتبی علیہ السلام}}
{{اصلی|امام حسن مجتبی علیہ السلام}}
حسن بن علیؑ، [[امام حسن مجتبی]]ؑ سے مشہور، امام علیؑ اور [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|فاطمہ زہراؐ]] کے بیٹے [[15 رمضان]] [[سنہ 3 ہجری|3ھ]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref> مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص‌۲۰۵.</ref>
حسن بن علیؑ، [[امام حسن مجتبی]]ؑ سے مشہور، امام علیؑ اور [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|فاطمہ زہراؐ]] کے بیٹے [[15 رمضان]] [[سنہ 3 ہجری|3ھ]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref> مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص5؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص‌205.</ref>
[[امام حسن مجتبی|امام حسن مجتبیؑ]] والد گرامی کی شہادت کے بعد خدا کے فرمان اور والد کی وصیت کے مطابق [[امامت]] کے منصب پر فائز ہوئے اور تقریبا 6 مہینے ظاہری [[خلافت]] کا عہدہ بھی سنبھالے رکھا۔ تقریبا 6 مہینوں تک مسلمانوں کے امور کا انتظام و انصرام کیا۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص‌۲۰۵؛ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۵.</ref> اس عرصے کے دوران [[معاویہ بن ابی سفیان]]  نے آپؑ کی حکومت کے مرکز [[عراق]] پر لشکر کشی کی اور [[امام حسن|امامؑ]] کے لشکر کے امراء کو فریب دے کر انھیں امام کے خلاف ابھارا اور آخر کار [[امام حسن مجتبی|حضرت امام حسن مجتبی]]ؑ صلح پر مجبور ہوئے اور بعض شرائط پر ظاہری حکومت [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کو بعض شرائط (من جملہ یہ کہ خلافت معاویہ کی موت کے بعد امامؑ کو ملے گی، معاویہ ولیعہد کا اعلان نہیں کرے گا اور شیعیان اہل بیتؑ کی جان و مال محفوظ ہوگی) کے ساتھ واگذار کردی۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، صص205-206۔</ref> [[امام حسن مجتبی|امام حسنؑ]] نے 10 سال [[امامت]] کی<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۶.</ref> اور [[28 صفر]] [[سنہ 50 ہجری|50ھ]] میں معاویہ کی تشویق پر اپنی زوجہ ([[جعدہ بنت اشعث]]) کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور جام شہادت نوش کرگئے اور [[جنۃ البقیع|جنت البقیع]] میں دفن ہوئے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص‌۲۰۶.</ref>
[[امام حسن مجتبی|امام حسن مجتبیؑ]] والد گرامی کی شہادت کے بعد خدا کے فرمان اور والد کی وصیت کے مطابق [[امامت]] کے منصب پر فائز ہوئے اور تقریبا 6 مہینے ظاہری [[خلافت]] کا عہدہ بھی سنبھالے رکھا۔ تقریبا 6 مہینوں تک مسلمانوں کے امور کا انتظام و انصرام کیا۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص‌205؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص205.</ref> اس عرصے کے دوران [[معاویہ بن ابی سفیان]]  نے آپؑ کی حکومت کے مرکز [[عراق]] پر لشکر کشی کی اور [[امام حسن|امامؑ]] کے لشکر کے امراء کو فریب دے کر انھیں امام کے خلاف ابھارا اور آخر کار [[امام حسن مجتبی|حضرت امام حسن مجتبی]]ؑ صلح پر مجبور ہوئے اور بعض شرائط پر ظاہری حکومت [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کو بعض شرائط (من جملہ یہ کہ خلافت معاویہ کی موت کے بعد امامؑ کو ملے گی، معاویہ ولیعہد کا اعلان نہیں کرے گا اور شیعیان اہل بیتؑ کی جان و مال محفوظ ہوگی) کے ساتھ واگذار کردی۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، صص205-206۔</ref> [[امام حسن مجتبی|امام حسنؑ]] نے 10 سال [[امامت]] کی<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص206.</ref> اور [[28 صفر]] [[سنہ 50 ہجری|50ھ]] میں معاویہ کی تشویق پر اپنی زوجہ ([[جعدہ بنت اشعث]]) کے ہاتھوں مسموم ہوئے اور جام شہادت نوش کرگئے اور [[جنۃ البقیع|جنت البقیع]] میں دفن ہوئے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص‌206.</ref>


امام حسنؑ [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]] میں شامل تھے<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸ و۵۲-۵۵.</ref> اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے [[مباہلہ|مباہلے]] میں بھی شریک تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۱، ص۱۶۸.</ref> آپؑ پیغمبر اکرمؑ کے اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں [[آیہ تطہیر]] نازل ہوئی۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹-۱۳۹.</ref>
امام حسنؑ [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]] میں شامل تھے<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج2، ص38 و52-55.</ref> اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے [[مباہلہ|مباہلے]] میں بھی شریک تھے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413، ج1، ص168.</ref> آپؑ پیغمبر اکرمؑ کے اہل بیتؑ میں سے ایک ہیں جن کی شان میں [[آیہ تطہیر]] نازل ہوئی۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج2، ص29-139.</ref>


===امام حسینؑ===
===امام حسینؑ===
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام}}
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام}}
حسین بن علیؑ جو [[ابا عبد اللہ (کنیت)|ابا عبداللہ]] اور شیعوں کے تیسرے امام سے مشہور ہیں۔ آپ [[امیر المؤمنین|امام علیؑ]] اور حضرت فاطمہؑ کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپؑ [[سنہ 4 ہجری]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی]]ؑ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرم اور امام علیؑ کی تصریح اور [[امام حسن مجتبی|امام حسنؑ]] کی [[وصیت]] کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷.</ref>
حسین بن علیؑ جو [[ابا عبد اللہ (کنیت)|ابا عبداللہ]] اور شیعوں کے تیسرے امام سے مشہور ہیں۔ آپ [[امیر المؤمنین|امام علیؑ]] اور حضرت فاطمہؑ کے دوسرے بیٹے ہیں۔ آپؑ [[سنہ 4 ہجری]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔ آپؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی]]ؑ کی شہادت کے بعد پیغمبر اکرم اور امام علیؑ کی تصریح اور [[امام حسن مجتبی|امام حسنؑ]] کی [[وصیت]] کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص27.</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے دس سال امامت کی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۱۵.</ref> آپ کی امامت کے آخری چھ مہینوں کے علاوہ باقی عرصہ [[معاویہ]] کے دور خلافت میں گزرا۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۸.</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے دس سال امامت کی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص215.</ref> آپ کی امامت کے آخری چھ مہینوں کے علاوہ باقی عرصہ [[معاویہ]] کے دور خلافت میں گزرا۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص208.</ref>
معاویہ [[سنہ 60 ہجری]] میں مرگیا اور اس کا بیٹا [[یزید بن معاویہ|یزید]] اس کی جگہ تخت نشین ہوا۔ <ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۲۲.</ref> یزید نے مدینہ کے گورنر کو امام حسینؑ سے بیعت لینے اور انکار کی صورت میں سر قلم کر کے [[شام]] بھیجنے کا حکم دیا۔ جب مدینہ کے حاکم نے یزید کا حکم آپ تک پہنچایا تو آپ اپنے خاندان کے ہمراہ رات کی تاریکی میں [[مدینہ منورہ|مدینہ]] سے [[مکہ مکرمہ|مکہ]] کی جانب حرکت کر گئے۔<ref>موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۴۸و۱۴۹.</ref> کچھ عرصہ بعد کوفہ کے لوگوں کی دعوت پر آپ خاندان اور اپنے اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ [[کوفہ]] کی جانب نکلے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۹و۲۱۰.</ref> امام اور ان کے ساتھیوں کو [[کربلا]] میں یزید کی لشکر نے محاصرہ کیا اور [[روز عاشورا]] امام اور [[عمر بن سعد کا لشکر|عمر بن سعد کی فوج]] کے مابین جنگ ہوئی اور امام اور ان کے خاندان اور اصحاب شہید ہوئے نیز خواتین، بچے اور [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجادؑ]] جو بیمار تھے، اسیر ہوئے۔<ref>موسوی زنجانی، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۵۰.</ref>
معاویہ [[سنہ 60 ہجری]] میں مرگیا اور اس کا بیٹا [[یزید بن معاویہ|یزید]] اس کی جگہ تخت نشین ہوا۔ <ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص32؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص222.</ref> یزید نے مدینہ کے گورنر کو امام حسینؑ سے بیعت لینے اور انکار کی صورت میں سر قلم کر کے [[شام]] بھیجنے کا حکم دیا۔ جب مدینہ کے حاکم نے یزید کا حکم آپ تک پہنچایا تو آپ اپنے خاندان کے ہمراہ رات کی تاریکی میں [[مدینہ منورہ|مدینہ]] سے [[مکہ مکرمہ|مکہ]] کی جانب حرکت کر گئے۔<ref>موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج1، ص148و149.</ref> کچھ عرصہ بعد کوفہ کے لوگوں کی دعوت پر آپ خاندان اور اپنے اصحاب کے ایک گروہ کے ساتھ [[کوفہ]] کی جانب نکلے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص209و210.</ref> امام اور ان کے ساتھیوں کو [[کربلا]] میں یزید کی لشکر نے محاصرہ کیا اور [[روز عاشورا]] امام اور [[عمر بن سعد کا لشکر|عمر بن سعد کی فوج]] کے مابین جنگ ہوئی اور امام اور ان کے خاندان اور اصحاب شہید ہوئے نیز خواتین، بچے اور [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجادؑ]] جو بیمار تھے، اسیر ہوئے۔<ref>موسوی زنجانی، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، 1413ق، ج1، ص150.</ref>


امام حسینؑ [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]] میں شامل تھے<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۳۸ و۵۲-۵۵.</ref> اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے [[مباہلہ|مباہلے]] میں بھی شریک تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳، ج۱، ص۱۶۸.</ref> آپؑ پیغمبر اکرمؑ کی [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] میں سے ایک ہیں جن کی شان میں [[آیہ تطہیر]] نازل ہوئی۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۸۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۲۹-۱۳۹.</ref>
امام حسینؑ [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]] میں شامل تھے<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج2، ص38 و52-55.</ref> اور آپ نجران کے نصرانیوں سے ہونے والے [[مباہلہ|مباہلے]] میں بھی شریک تھے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413، ج1، ص168.</ref> آپؑ پیغمبر اکرمؑ کی [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیتؑ]] میں سے ایک ہیں جن کی شان میں [[آیہ تطہیر]] نازل ہوئی۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص287؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج2، ص29-139.</ref>


===امام سجادؑ===
===امام سجادؑ===
{{اصلی|امام زین العابدین علیہ السلام}}
{{اصلی|امام زین العابدین علیہ السلام}}
علی بن حسین جن کا لقب زین العابدین اور [[سجاد (لقب)|سجاد]] ہے، شیعوں کے چوتھے امام اور [[امام حسین|تیسرے امام]] اور [[ایران]] کے بادشاہ [[یزدگرد سوئم]] کی بیٹی شاہ زنان [[شہربانو]] کے بیٹے ہیں۔ آپ [[سنہ 38 ہجری]] کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵و۱۷۶.</ref>
علی بن حسین جن کا لقب زین العابدین اور [[سجاد (لقب)|سجاد]] ہے، شیعوں کے چوتھے امام اور [[امام حسین|تیسرے امام]] اور [[ایران]] کے بادشاہ [[یزدگرد سوئم]] کی بیٹی شاہ زنان [[شہربانو]] کے بیٹے ہیں۔ آپ [[سنہ 38 ہجری]] کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص137؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص256؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص175و176.</ref>


امام سجاد [[واقعہ کربلا]] میں [[اسیران کربلا|اسیر]] ہوئے اور باقی اسراء کے ساتھ آپ کو کوفہ<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۴.</ref> اور شام<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۱۹.</ref> لے جایا گیا۔ آپ نے شام میں اپنا اور اپنے اجداد کا تعارف کراتے ہوئے ایک [[شام میں امام سجاد کا خطبہ|خطبہ]] دیا جسے لوگ بہت متاثر ہوئے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۱۳۸و۱۳۹.</ref>  
امام سجاد [[واقعہ کربلا]] میں [[اسیران کربلا|اسیر]] ہوئے اور باقی اسراء کے ساتھ آپ کو کوفہ<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص114.</ref> اور شام<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص119.</ref> لے جایا گیا۔ آپ نے شام میں اپنا اور اپنے اجداد کا تعارف کراتے ہوئے ایک [[شام میں امام سجاد کا خطبہ|خطبہ]] دیا جسے لوگ بہت متاثر ہوئے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج45، ص138و139.</ref>  
اسیری کے ایام گذارنے کے بعد آپ کو مدینہ بھیجا گیا اور مدینہ میں [[عبادت|عبادت الہی]] میں مصروف ہوئے اور [[ابو حمزہ ثمالی]] اور [[ابو خالد کابلی]] سمیت خواصِ [[شیعہ]] کے سوا کسی کے ساتھ رابطہ نہیں کرتے تھے۔ البتہ خواص آپ سے اسلامی معارف اخذ کرکے [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] کے درمیان پھیلا دیتے تھے<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۶.</ref>
اسیری کے ایام گذارنے کے بعد آپ کو مدینہ بھیجا گیا اور مدینہ میں [[عبادت|عبادت الہی]] میں مصروف ہوئے اور [[ابو حمزہ ثمالی]] اور [[ابو خالد کابلی]] سمیت خواصِ [[شیعہ]] کے سوا کسی کے ساتھ رابطہ نہیں کرتے تھے۔ البتہ خواص آپ سے اسلامی معارف اخذ کرکے [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] کے درمیان پھیلا دیتے تھے<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص216.</ref>


چوتھے امام نے 34 سال امامت کی<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۵.</ref> اور 57 سال کی عمر میں [[سنہ 95 ہجری]]<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۷و۱۳۸.</ref> کو [[ولید بن عبد الملک]] کے ہاتھوں مسموم و شہید ہوئے<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۶.</ref> اور [[بقیع|جنت البقیع]] میں اپنے چچا امام حسنؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۵۶؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۷۶.</ref>
چوتھے امام نے 34 سال امامت کی<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص138؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص256؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص175.</ref> اور 57 سال کی عمر میں [[سنہ 95 ہجری]]<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص256؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص137و138.</ref> کو [[ولید بن عبد الملک]] کے ہاتھوں مسموم و شہید ہوئے<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص176.</ref> اور [[بقیع|جنت البقیع]] میں اپنے چچا امام حسنؑ کے جوار میں دفن ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص138؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص256؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص176.</ref>


چوتھے امام کے باقیماندہ آثار میں آپؑ کی [[دعا|دعائیں]] ہیں جو [[صحیفۂ سجادیہ]] کی شکل میں موجود ہیں۔<ref>آقابزرگ تهرانی، الذریعه، ۱۴۰۳ق، ج۱۵، ص۱۸-۱۹.</ref> صحیفہ سجادیہ کی دعائیں اکثر [[توحید|توحیدی]] مضامین پر مشتمل ہیں اور اللہ کے حضور تضرع ہیں۔<ref>عمادی حائری، «صحیفه سجادیه»، ص۳۹۲.</ref>
چوتھے امام کے باقیماندہ آثار میں آپؑ کی [[دعا|دعائیں]] ہیں جو [[صحیفۂ سجادیہ]] کی شکل میں موجود ہیں۔<ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، 1403ق، ج15، ص18-19.</ref> صحیفہ سجادیہ کی دعائیں اکثر [[توحید|توحیدی]] مضامین پر مشتمل ہیں اور اللہ کے حضور تضرع ہیں۔<ref>عمادی حائری، «صحیفہ سجادیہ»، ص392.</ref>
امام سجاد نے صحیفہ میں اخلاقی اصول، سیاسی اور اجتماعی طرز زندگی کو [[دعا]] اور [[مناجات]] کے قالب میں بیان کیا ہے۔<ref>سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.</ref> صحیفہ سجادیہ کو [[نہج البلاغہ]] کے بعد شیعوں کی اہم ترین کتاب<ref>پیشوایی، سیره پیشوایان، ۱۳۹۷ش، ص۲۸۱.</ref> جو جہان بینی پر ایک عمیق اور کامل دورہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۴۰۶.</ref>
امام سجاد نے صحیفہ میں اخلاقی اصول، سیاسی اور اجتماعی طرز زندگی کو [[دعا]] اور [[مناجات]] کے قالب میں بیان کیا ہے۔<ref>سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، 1395ش، ج6، ص406.</ref> صحیفہ سجادیہ کو [[نہج البلاغہ]] کے بعد شیعوں کی اہم ترین کتاب<ref>پیشوایی، سیرہ پیشوایان، 1397ش، ص281.</ref> جو جہان بینی پر ایک عمیق اور کامل دورہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>سبحانی، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، 1395ش، ج6، ص406.</ref>


===امام باقرؑ===
===امام باقرؑ===
{{اصلی|امام محمد باقر علیہ السلام}}
{{اصلی|امام محمد باقر علیہ السلام}}
محمد بن علی المعروف [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام محمد باقرؑ]]، جو شیعوں کا پانچواں امام اور امام سجادؑ اور فاطمہ بنت امام حسنؑ کے بیٹے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۵.</ref> ہیں جو [[سنہ 57 ہجری]] کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.</ref> آپ اپنے والد امام سجادؑ کے بعد اللہ کے حکم، پیغمبر اکرم اور اپنے سے پہلے والے ائمہ کی معرفی سے آپ منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۸و۱۵۹.</ref> اور [[سنہ 114 ہجری]]<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۴.</ref> کو [[ہشام بن عبد الملک|اموی خلیفہ ہشام]] کے بھتیجے ابراہیم بن ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.</ref> اور جنت البقیع میں اپنے والد گرامی کے جواب میں سپرد خاک ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷ و ۱۵۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۴.</ref> امام باقرؑ سنہ 61 ہجری کو [[واقعہ کربلا]] میں موجود تھے اور اس وقت آپ کی عمر 4 سال تھی۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۳۲۰.</ref>
محمد بن علی المعروف [[امام محمد باقر علیہ السلام|امام محمد باقرؑ]]، جو شیعوں کا پانچواں امام اور امام سجادؑ اور فاطمہ بنت امام حسنؑ کے بیٹے<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص155.</ref> ہیں جو [[سنہ 57 ہجری]] کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص157 و 158؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص210.</ref> آپ اپنے والد امام سجادؑ کے بعد اللہ کے حکم، پیغمبر اکرم اور اپنے سے پہلے والے ائمہ کی معرفی سے آپ منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص158و159.</ref> اور [[سنہ 114 ہجری]]<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص157 و 158؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص264.</ref> کو [[ہشام بن عبد الملک|اموی خلیفہ ہشام]] کے بھتیجے ابراہیم بن ولید بن عبد الملک کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص210.</ref> اور جنت البقیع میں اپنے والد گرامی کے جواب میں سپرد خاک ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص157 و 158؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص264.</ref> امام باقرؑ سنہ 61 ہجری کو [[واقعہ کربلا]] میں موجود تھے اور اس وقت آپ کی عمر 4 سال تھی۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص320.</ref>


امام باقر کی امات 18 یا 19 سال پر محیط تھی،<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۶۵؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۱۰.</ref> دوسری طرف [[بنو امیہ]] کے مظالم کی وجہ سے اسلامی ممالک کے کسی علاقے میں انقلاب بپا ہوتا تھا اور جنگیں چھڑ جاتی تھیں اور ان مسائل نے اموی خلافت کو مصروف کر رکھا تھا جس کی وجہ سے [[اہل بیت]]ؑ کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہے۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص217۔</ref> اور دوسری طرف سے [[واقعۂ عاشورا]] اور [[اہل بیت]]ؑ کی مظلومیت نے مسلمانوں کو [[اہل بیت]]ؑ کی طرف مائل کر رکھا تھا جس کی وجہ سے امامؑ کو تعلیمات اہل بیت کی ترویج کا موقع مل گیا اور ایسا موقعہ کسی بھی امام کو نہیں ملا تھا۔ اسی وجہ سے آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۷-۲۱۸.</ref>
امام باقر کی امات 18 یا 19 سال پر محیط تھی،<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص265؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص210.</ref> دوسری طرف [[بنو امیہ]] کے مظالم کی وجہ سے اسلامی ممالک کے کسی علاقے میں انقلاب بپا ہوتا تھا اور جنگیں چھڑ جاتی تھیں اور ان مسائل نے اموی خلافت کو مصروف کر رکھا تھا جس کی وجہ سے [[اہل بیت]]ؑ کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے قاصر رہے۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص217۔</ref> اور دوسری طرف سے [[واقعۂ عاشورا]] اور [[اہل بیت]]ؑ کی مظلومیت نے مسلمانوں کو [[اہل بیت]]ؑ کی طرف مائل کر رکھا تھا جس کی وجہ سے امامؑ کو تعلیمات اہل بیت کی ترویج کا موقع مل گیا اور ایسا موقعہ کسی بھی امام کو نہیں ملا تھا۔ اسی وجہ سے آپ سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص217-218.</ref>
[[شیخ مفید]] کا کہنا ہے کہ آپؑ سے اتنی احادیث نقل ہوئی ہیں جتنی امام حسن اور امام حسینؑ کی نسل میں سے کسی سے بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۵۷.</ref>
[[شیخ مفید]] کا کہنا ہے کہ آپؑ سے اتنی احادیث نقل ہوئی ہیں جتنی امام حسن اور امام حسینؑ کی نسل میں سے کسی سے بھی نقل نہیں ہوئی ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص157.</ref>


===امام صادقؑ===
===امام صادقؑ===
{{اصلی|امام جعفر صادق علیہ السلام}}
{{اصلی|امام جعفر صادق علیہ السلام}}
جعفر بن محمد جو [[امام جعفر صادق علیہ السلام|مام جعفر صادقؑ]] اور چھٹے امام سے مشہور ہیں۔ آپ [[امام باقرؑ]] اور [[ام فروہ|ام فروہ]] بنت [[قاسم بن محمد بن ابوبکر]] کے بیٹے ہیں۔ آپ [[17 ربیع الاول|17 ربیع‌ الاول]] [[سنہ ۸۳ هجری|۸۳ھ]] کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹و۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۱.</ref> آپ [[سنہ ۱۴۸ هجری|۱۴۸ھ]]<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۱.</ref> کو خلیفہ عباسی [[منصور عباسی|منصور]] کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۸۰؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۲۶.</ref> اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۷۲.</ref>
جعفر بن محمد جو [[امام جعفر صادق علیہ السلام|مام جعفر صادقؑ]] اور چھٹے امام سے مشہور ہیں۔ آپ [[امام باقرؑ]] اور [[ام فروہ|ام فروہ]] بنت [[قاسم بن محمد بن ابوبکر]] کے بیٹے ہیں۔ آپ [[17 ربیع الاول|17 ربیع‌ الاول]] [[سنہ 83 ہجری|83ھ]] کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص179و180؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص271.</ref> آپ [[سنہ 148 ہجری|148ھ]]<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص180؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص271.</ref> کو خلیفہ عباسی [[منصور عباسی|منصور]] کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج2، ص280؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص326.</ref> اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص180؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص272.</ref>


[[امام صادقؑ|چھٹے امام]] کی 34 سالہ امامت<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۰؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۸۰.</ref> کے دوران اموی حکومت کمزور ہوگئی تھی جس کی وجہ سے [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ کو دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور مختلف علوم میں افراد کی علمی تربیت کے لئے زیادہ مناسب ماحول اور بیشتر امکانات ملے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۸و۲۱۹.</ref> آپ کے شاگردوں کی تعداد 4000 افراد تک بیان ہوئی ہے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۴۷.</ref>جن میں [[زرارہ بن اعین|زرارہ]]، [[محمد بن مسلم]]، [[مؤمن طاق]]، [[ہشام بن حکم]]، [[ابان بن تغلب]]، [[ہشام بن سالم]]، [[جابر بن حیان]]<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۱۹.</ref> اور اہل سنت میں  
[[امام صادقؑ|چھٹے امام]] کی 34 سالہ امامت<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص180؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج2، ص280.</ref> کے دوران اموی حکومت کمزور ہوگئی تھی جس کی وجہ سے [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادق]]ؑ کو دینی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور مختلف علوم میں افراد کی علمی تربیت کے لئے زیادہ مناسب ماحول اور بیشتر امکانات ملے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص218و219.</ref> آپ کے شاگردوں کی تعداد 4000 افراد تک بیان ہوئی ہے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص179؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج2، ص247.</ref>جن میں [[زرارہ بن اعین|زرارہ]]، [[محمد بن مسلم]]، [[مؤمن طاق]]، [[ہشام بن حکم]]، [[ابان بن تغلب]]، [[ہشام بن سالم]]، [[جابر بن حیان]]<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص219.</ref> اور اہل سنت میں  
[[سفیان ثوری]]، [[ابوحنیفه]] (مذہبِ حنفیہ کے امام)، [[مالک بن انس]]، مالکی مذهب کے پیشوا شامل ہیں۔<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۲۴۷و۲۴۸؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۲۷-۳۲۹.</ref>
[[سفیان ثوری]]، [[ابوحنیفہ]] (مذہبِ حنفیہ کے امام)، [[مالک بن انس]]، مالکی مذہب کے پیشوا شامل ہیں۔<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج2، ص247و248؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص327-329.</ref>


شیخ مفید کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ میں سب سے زیادہ روایات [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۷۹.</ref> کہا جاتا ہے کہ اسی سبب شیعہ مذہب کو مذہب جعفری نام دیا گیا ہے۔<ref>شهیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۷ش، ص۶۱.</ref>
شیخ مفید کا کہنا ہے کہ اہل بیتؑ میں سب سے زیادہ روایات [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص179.</ref> کہا جاتا ہے کہ اسی سبب شیعہ مذہب کو مذہب جعفری نام دیا گیا ہے۔<ref>شہیدی، زندگانی امام صادق، 1377ش، ص61.</ref>


===امام کاظمؑ===
===امام کاظمؑ===
{{اصلی|امام موسی کاظم علیہ السلام}}
{{اصلی|امام موسی کاظم علیہ السلام}}
موسی بن جعفر جو امام موسی کاظم اور شیعوں کے ساتویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ کے مشہور القاب میں کاظم اور باب الحوائج ہیں۔ آپ امام صادق و [[حمیدہ خاتون]] کے بیٹے ہیں۔ آپ [[سنہ ۱۲۸ هجری|۱۲۸ھ]] کو مکہ اور مدینہ کے درمیان [[ابواء]] نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۱۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۹۴؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۲۳و۳۲۴.</ref>
موسی بن جعفر جو امام موسی کاظم اور شیعوں کے ساتویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ کے مشہور القاب میں کاظم اور باب الحوائج ہیں۔ آپ امام صادق و [[حمیدہ خاتون]] کے بیٹے ہیں۔ آپ [[سنہ 128 ہجری|128ھ]] کو مکہ اور مدینہ کے درمیان [[ابواء]] نامی علاقے میں پیدا ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص215؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص294؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص323و324.</ref>


امام کاظمؑ اپنے والد امام صادقؑ کے بعد امامت پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۱۵.</ref> آپ کی 35 سالہ مدتِ امامت<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۱۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۹۴؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۲۴.</ref> [[امام موسی کاظم علیہم السلام|ساتویں امام]] عباسی خلفاء میں سے [[منصور عباسی|منصور]]، [[ہادی عباسی|ہادی]]، [[مہدی عباسی|مہدی]] اور [[ہارون عباسی|ہارون]] کے ہم عصر تھے۔<ref>ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۲۳؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۹۴.</ref> یہ دور بنی عباس کی حکومت کے عروج کا دور تھا جس میں امام کاظمؑ اور ان کے شیعوں کے لئے گھٹن دور تاریک دور تھا جس میں تقیہ کرنے پر مجبور ہوئے اور شیعوں کو بھی تقیہ کرنے کی تاکید کرتے تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۸۴و۳۸۵و۳۹۸.</ref>
امام کاظمؑ اپنے والد امام صادقؑ کے بعد امامت پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص215.</ref> آپ کی 35 سالہ مدتِ امامت<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص215؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص294؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص324.</ref> [[امام موسی کاظم علیہم السلام|ساتویں امام]] عباسی خلفاء میں سے [[منصور عباسی|منصور]]، [[ہادی عباسی|ہادی]]، [[مہدی عباسی|مہدی]] اور [[ہارون عباسی|ہارون]] کے ہم عصر تھے۔<ref>ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص323؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص294.</ref> یہ دور بنی عباس کی حکومت کے عروج کا دور تھا جس میں امام کاظمؑ اور ان کے شیعوں کے لئے گھٹن دور تاریک دور تھا جس میں تقیہ کرنے پر مجبور ہوئے اور شیعوں کو بھی تقیہ کرنے کی تاکید کرتے تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص384و385و398.</ref>


جب ہارون حج کی نیت سے مدینہ گئے تو وہاں پر 20 شوال سنہ 179 ہجری کو ہارون کے حکم سے امام کو گرفتار کیا گیا اور آپ مدینہ سے بصرہ اور بصرہ سے بغداد منتقل ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۷۶؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۴۰۲-۴۰۴.</ref>
جب ہارون حج کی نیت سے مدینہ گئے تو وہاں پر 20 شوال سنہ 179 ہجری کو ہارون کے حکم سے امام کو گرفتار کیا گیا اور آپ مدینہ سے بصرہ اور بصرہ سے بغداد منتقل ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص476؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص402-404.</ref>
آپ 183ھ کو سندی بن شاہک کے ہاتھوں بغداد کے زندان میں مسموم اور شہید ہوئے اور مقابر قریش نامی محلے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۱۵؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۲۳و۳۲۴؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۲۹۴.</ref> میں دفن ہوئے جو اس وقت [[کاظمین]] سے مشہور ہے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۱.</ref>
آپ 183ھ کو سندی بن شاہک کے ہاتھوں بغداد کے زندان میں مسموم اور شہید ہوئے اور مقابر قریش نامی محلے<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص215؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج4، ص323و324؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص294.</ref> میں دفن ہوئے جو اس وقت [[کاظمین]] سے مشہور ہے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص221.</ref>


===امام رضاؑ===
===امام رضاؑ===
{{اصلی|امام علی رضا علیہ السلام}}
{{اصلی|امام علی رضا علیہ السلام}}
علی بن موسی بن جعفر، جو [[امام علی رضا علیہ السلام|امام رضاؑ]] اور آٹھویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ [[امام کاظمؑ]] اور [[نجمہ خاتون]]  کے فرزند ہیں اور 148ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور203ھ کو مامون کے ہاتھوں مسموم ہو کر طوس (مشہد) میں شہید ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۴۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۱۳و۳۱۴.</ref>
علی بن موسی بن جعفر، جو [[امام علی رضا علیہ السلام|امام رضاؑ]] اور آٹھویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ [[امام کاظمؑ]] اور [[نجمہ خاتون]]  کے فرزند ہیں اور 148ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے اور203ھ کو مامون کے ہاتھوں مسموم ہو کر طوس (مشہد) میں شہید ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص247؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص313و314.</ref>


[[امام رضاؑ|آٹھویں امام]] اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اللہ کے امر اور اسلاف کی جانب سے متعارف کئے جانے کی بنا پر، عہدۂ [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۴۷.</ref> آپ کی امامت کی مدت 20 سال (203-183ھ) تھی<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۴۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۱۴.</ref> جو [[ہارون عباسی]]، [[امین عباسی]] اور [[مامون عباسی]] کے خلافت کے معاصر تھی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۱۴؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۳۶۷.</ref>
[[امام رضاؑ|آٹھویں امام]] اپنے والد بزرگوار کی شہادت کے بعد اللہ کے امر اور اسلاف کی جانب سے متعارف کئے جانے کی بنا پر، عہدۂ [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص247.</ref> آپ کی امامت کی مدت 20 سال (203-183ھ) تھی<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص247؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص314.</ref> جو [[ہارون عباسی]]، [[امین عباسی]] اور [[مامون عباسی]] کے خلافت کے معاصر تھی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص314؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج2، ص367.</ref>


ہارون کے مرنے کے بعد خلافت مأمون کو ملی<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۲.</ref> مامون نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اسے مشروعیت دینے کے لئے امام رضاؑ کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور امامت کے مقام و منزلت کو کم کرنے کے لئے [[امام رضا|آٹھویں امامؑ]] کو ولایت عہدی کا منصب سونپنے کا ارادہ کیا۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۴۳۳-۴۳۵.</ref> اسی لئے اس نے امامؑ کو 201ھ میں<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۳۲۶.</ref> [[مدینه]] سے [[مرو]] بلایا۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۳و۲۲۴.</ref> مأمون نے شروع میں خلافت اور پھر ولایت عہدی آپ کو پیش کی لیکن امام نے انکار کردیا؛ لیکن مأمون نے امام کو ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کردیا۔ امام نے بھی حکومت میں عزل و نصب میں مداخلت نہ کرنے کی شرط پر اسے قبول کیا۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۵۹و۲۶۰؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۳۶۳.</ref> کچھ عرصہ بعد جب مأمون کو پتہ چلا کہ شیعہ مضوبط ہورہے ہیں تو آپنی خلافت بچانے کے لئے امام رضاؑ کو مسموم اور شہید کیا۔<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۴۴۵؛ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۴.</ref>
ہارون کے مرنے کے بعد خلافت مأمون کو ملی<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص222.</ref> مامون نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اسے مشروعیت دینے کے لئے امام رضاؑ کی سرگرمیوں کو محدود کرنے اور امامت کے مقام و منزلت کو کم کرنے کے لئے [[امام رضا|آٹھویں امامؑ]] کو ولایت عہدی کا منصب سونپنے کا ارادہ کیا۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص433-435.</ref> اسی لئے اس نے امامؑ کو 201ھ میں<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص326.</ref> [[مدینہ]] سے [[مرو]] بلایا۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص223و224.</ref> مأمون نے شروع میں خلافت اور پھر ولایت عہدی آپ کو پیش کی لیکن امام نے انکار کردیا؛ لیکن مأمون نے امام کو ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کردیا۔ امام نے بھی حکومت میں عزل و نصب میں مداخلت نہ کرنے کی شرط پر اسے قبول کیا۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص259و260؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب(ع)، 1379ق، ج2، ص363.</ref> کچھ عرصہ بعد جب مأمون کو پتہ چلا کہ شیعہ مضوبط ہورہے ہیں تو آپنی خلافت بچانے کے لئے امام رضاؑ کو مسموم اور شہید کیا۔<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص445؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص224.</ref>


مشہور حدیث [[حدیث سلسلۃ الذهب|سلسلۃ الذهب]] آپؑ کے نیشاپور سے مرو جاتے ہوئے آپ سے نقل ہوئی ہے۔<ref>صدوق، عیون أخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۲، ص۱۳۵.</ref> آپ کے مرو میں حضور کے دوران مأمون نے آپ اور دیگر ادیان اور مذاہب کے بزرگوں سے مناظرے کروایا جن میں امام کی علمی برتری آشکار ہوگئی<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۴۴۲و۴۴۳.</ref>
مشہور حدیث [[حدیث سلسلۃ الذہب|سلسلۃ الذہب]] آپؑ کے نیشاپور سے مرو جاتے ہوئے آپ سے نقل ہوئی ہے۔<ref>صدوق، عیون أخبار الرضا، 1378ق، ج2، ص135.</ref> آپ کے مرو میں حضور کے دوران مأمون نے آپ اور دیگر ادیان اور مذاہب کے بزرگوں سے مناظرے کروایا جن میں امام کی علمی برتری آشکار ہوگئی<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص442و443.</ref>


===امام محمد تقی===
===امام محمد تقی===
{{اصلی|امام محمد تقی علیہ السلام}}
{{اصلی|امام محمد تقی علیہ السلام}}
محمد بن علی جو [[امام محمد تقی علیہ السلام|امام محمد تقیؑ]] اور شیعوں کے نویں امام  سے مشہور ہیں۔ آپ آٹھویں امام اور [[سبیکہ|سَبیکہ نوبیہ]] کے بیٹے ہیں جو [[رمضان|رمضان المبارک]] [[سنہ ۱۹۵ هجری|۱۹۵ھ]] کو [[مدینه]] میں پیدا ہوئے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۴۴.</ref> اور [[سنہ ۲۲۰ هجری|۲۲۰ھ]] کو [[بغداد]] میں شہید<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۴۴و۳۴۵؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۳۷۹.</ref> اور کاظمیہ میں قریش کے قبرستان میں اپنے جد امجد [[امام موسی کاظم علیه‌السلام|امام کاظمؑ]] کے جوار میں مدفون ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۴۴و۳۴۵.</ref>
محمد بن علی جو [[امام محمد تقی علیہ السلام|امام محمد تقیؑ]] اور شیعوں کے نویں امام  سے مشہور ہیں۔ آپ آٹھویں امام اور [[سبیکہ|سَبیکہ نوبیہ]] کے بیٹے ہیں جو [[رمضان|رمضان المبارک]] [[سنہ 195 ہجری|195ھ]] کو [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص344.</ref> اور [[سنہ 220 ہجری|220ھ]] کو [[بغداد]] میں شہید<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص344و345؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1379ق، ج4، ص379.</ref> اور کاظمیہ میں قریش کے قبرستان میں اپنے جد امجد [[امام موسی کاظم علیہ‌السلام|امام کاظمؑ]] کے جوار میں مدفون ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص295؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص344و345.</ref>


آپؑ 8 سال کی عمر میں [[امام رضا|اپنے والد بزرگوار]] کی شہادت کے بعد امر خدا اور اسلاف طاہرین کی وصیت کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۴۵.</ref> آپ کی کم عمری کی وجہ سے بعض شیعوں نے آپ کی امامت میں شک و تردید کی؛ بعض نے آپ کے بھائی [[عبدالله بن موسی بن جعفر|عبدالله بن موسی]] کو امام مانا اور بعض [[واقفیه]] سے ملحق ہوئے لیکن اکثریت نے امام کی امامت پر موجود نص اور علمی آزمایش کے سبب امام جواد کی امامت کو مان لیا۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۴۷۲-۴۷۴.</ref> آپ کی 17 سالہ امامت<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۷۳؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۴۴.</ref> مأمون اور معتصم کی خلافت کے معاصر تھی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۴۴.</ref>
آپؑ 8 سال کی عمر میں [[امام رضا|اپنے والد بزرگوار]] کی شہادت کے بعد امر خدا اور اسلاف طاہرین کی وصیت کے مطابق، منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص345.</ref> آپ کی کم عمری کی وجہ سے بعض شیعوں نے آپ کی امامت میں شک و تردید کی؛ بعض نے آپ کے بھائی [[عبداللہ بن موسی بن جعفر|عبداللہ بن موسی]] کو امام مانا اور بعض [[واقفیہ]] سے ملحق ہوئے لیکن اکثریت نے امام کی امامت پر موجود نص اور علمی آزمایش کے سبب امام جواد کی امامت کو مان لیا۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص472-474.</ref> آپ کی 17 سالہ امامت<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص273؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص344.</ref> مأمون اور معتصم کی خلافت کے معاصر تھی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص344.</ref>


[[مأمون عباسی|مأمون]] نے امام اور آپ کے شیعوں پر کڑی نظر رکھنے کے لئے آپ کو 204ھ میں بغداد بلایا جو ان دنوں دارالخلافہ تھا۔ مامون نے اپنی بیٹی [[ام فضل دختر مأمون|ام الفضل]] سے امام کی شادی کرائی۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۴۷۸.</ref> کچھ عرصہ بعد آپ مدینہ واپس لوٹے اور مأمون کے آخری دنوں تک مدینہ ہی میں رہے۔ مامون کی وفات کے بعد [[معتصم عباسی|معتصم]] نے زمام خلافت سنبھالی اور 220ھ میں [[امام جواد|امامؑ]] کو دوبارہ بغداد طلب کرکے زیر نگرانی رکھا اور آخرکار معتصم کی تشویق پر اپنی زوجہ [[ام فضل بنت مامون]] کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۵؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۴۸۰-۴۸۲.</ref>
[[مأمون عباسی|مأمون]] نے امام اور آپ کے شیعوں پر کڑی نظر رکھنے کے لئے آپ کو 204ھ میں بغداد بلایا جو ان دنوں دارالخلافہ تھا۔ مامون نے اپنی بیٹی [[ام فضل دختر مأمون|ام الفضل]] سے امام کی شادی کرائی۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص478.</ref> کچھ عرصہ بعد آپ مدینہ واپس لوٹے اور مأمون کے آخری دنوں تک مدینہ ہی میں رہے۔ مامون کی وفات کے بعد [[معتصم عباسی|معتصم]] نے زمام خلافت سنبھالی اور 220ھ میں [[امام جواد|امامؑ]] کو دوبارہ بغداد طلب کرکے زیر نگرانی رکھا اور آخرکار معتصم کی تشویق پر اپنی زوجہ [[ام فضل بنت مامون]] کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص225؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص480-482.</ref>


===امام علی نقی===
===امام علی نقی===
{{اصلی|امام علی نقی علیہ السلام}}
{{اصلی|امام علی نقی علیہ السلام}}
علی بن محمد جو [[امام علی نقی علیہ السلام|امام علی بن نقیؑ]] اور شیعوں کے دسویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ نویں [[امام جواد|نویں امامؑ]] اور جناب سمانہ مغربیہ کے بیٹے ہیں۔ آپ مدینہ کے نزدیک صریا نامی علاقے میں 212ھ پیدا ہوئے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور 254ھ کو سامرا<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۹۷؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷ و۳۱۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> میں عباسی خلیفہ المعتز باللہ کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵؛ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۵-۲۲۶.</ref>
علی بن محمد جو [[امام علی نقی علیہ السلام|امام علی بن نقیؑ]] اور شیعوں کے دسویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ نویں [[امام جواد|نویں امامؑ]] اور جناب سمانہ مغربیہ کے بیٹے ہیں۔ آپ مدینہ کے نزدیک صریا نامی علاقے میں 212ھ پیدا ہوئے<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص355.</ref> اور 254ھ کو سامرا<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص497؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297 و312؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص355.</ref> میں عباسی خلیفہ المعتز باللہ کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص355؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص225-226.</ref>


امام ہادی نے 33 سال (254-220ھ) شیعوں کی امامت کی<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور دوران امامت 6 عباسی خلفاء، [[مامون عباسی|مامون]]، [[معتصم عباسی|معتصم]]، [[واثق عباسی|واثق]]، [[متوکل عباسی|متوکل]]، [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتز]] حاکم رہے۔<ref> طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۲.</ref>
امام ہادی نے 33 سال (254-220ھ) شیعوں کی امامت کی<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص297؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص355.</ref> اور دوران امامت 6 عباسی خلفاء، [[مامون عباسی|مامون]]، [[معتصم عباسی|معتصم]]، [[واثق عباسی|واثق]]، [[متوکل عباسی|متوکل]]، [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتز]] حاکم رہے۔<ref> طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص355؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص502.</ref>


متوکل نے آپؑ کو اپنے زیر نظر رکھنے<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۳.</ref> کے لئے 233ھ میں آپ کو [[مدینہ]] سے [[سامرا]]، جو ان دنوں درالخلافہ تھا،<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸.</ref> بلایا<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۹۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور آپ کی باقی زندگی اسی شہر میں گزر گئی۔<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۶.</ref> متوکل کی موت کے بعد [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتر]] یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آئے اور آپؑ معتز کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۷؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۰و۵۰۲.</ref>
متوکل نے آپؑ کو اپنے زیر نظر رکھنے<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص503.</ref> کے لئے 233ھ میں آپ کو [[مدینہ]] سے [[سامرا]]، جو ان دنوں درالخلافہ تھا،<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص538.</ref> بلایا<ref> کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص498؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص355.</ref> اور آپ کی باقی زندگی اسی شہر میں گزر گئی۔<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص506.</ref> متوکل کی موت کے بعد [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتر]] یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آئے اور آپؑ معتز کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص227؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص500و502.</ref>


امام ہادی نے دعا اور زیارت کے ذریعے شیعوں کی تربیت کی اور انہیں تعلیمات اسلامی سے روشناس کرایا۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۲۲.</ref> شیعوں کی اہم زیارتوں میں سے [[زیارت جامعه کبیره]] امام ہادی سے نقل ہوئی ہے۔<ref>صدوق، من لایحضره الفقیه، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۶۰۹.</ref>
امام ہادی نے دعا اور زیارت کے ذریعے شیعوں کی تربیت کی اور انہیں تعلیمات اسلامی سے روشناس کرایا۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص522.</ref> شیعوں کی اہم زیارتوں میں سے [[زیارت جامعہ کبیرہ]] امام ہادی سے نقل ہوئی ہے۔<ref>صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ق، ج2، ص609.</ref>


===امام حسن عسکریؑ===
===امام حسن عسکریؑ===
[[فائل:درهم نقره اولجایتو با نام دوازده امام شیعه(ع).jpg|تصغیر|چاندی کا درہم جس پر شیعہ ائمہ کا نام درج ہے۔]]
[[فائل:درہم نقرہ اولجایتو با نام دوازدہ امام شیعہ(ع).jpg|تصغیر|چاندی کا درہم جس پر شیعہ ائمہ کا نام درج ہے۔]]
{{اصلی|امام حسن عسکری علیہ السلام}}
{{اصلی|امام حسن عسکری علیہ السلام}}
حسن بن علیؑ جو [[امام حسن عسکری علیہ السلام|امام حسن عسکریؑ]] اور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ [[امام ہادی|دسویں امام]] اور حدیثہ خاتون کے فرزند ہیں جو 232ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۰۳؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۳.</ref> اور 260ھ<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۰۳؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۳ و۳۳۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref> کو عباسی خلیفہ [[معتمد عباسی|معتمد]] کی سازش سے مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۷-۲۲۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref> سامرا میں اپنے گھر والد گرامی کے جوار میں مدفون ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۰۳؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۳و۳۳۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref>
حسن بن علیؑ جو [[امام حسن عسکری علیہ السلام|امام حسن عسکریؑ]] اور شیعوں کے گیارہویں امام ہیں۔ آپ [[امام ہادی|دسویں امام]] اور حدیثہ خاتون کے فرزند ہیں جو 232ھ کو مدینہ میں پیدا ہوئے<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص313.</ref> اور 260ھ<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص313 و336؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص367.</ref> کو عباسی خلیفہ [[معتمد عباسی|معتمد]] کی سازش سے مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص227-228؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص367.</ref> سامرا میں اپنے گھر والد گرامی کے جوار میں مدفون ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص503؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص313و336؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص367.</ref>


[[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] اپنے [[امام ہادی|والد ماجد]] کی شہادت کے بعد بامر خدا اور گذشتہ معصوم پیشواؤں کے تعین کے نتیجے میں منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے اور 6 سال کے عرصے تک امام رہے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۳و۳۱۴؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref> اس دوران معتز، مهتدی اور معتمد عباسی حاکم رہے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref>  
[[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] اپنے [[امام ہادی|والد ماجد]] کی شہادت کے بعد بامر خدا اور گذشتہ معصوم پیشواؤں کے تعین کے نتیجے میں منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے اور 6 سال کے عرصے تک امام رہے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص313و314؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص367.</ref> اس دوران معتز، مہتدی اور معتمد عباسی حاکم رہے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص367.</ref>  
امام سامرا میں حکومت کے سخت نگرانی میں تھے اور کئی بار زندان چلے گئے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸، ۵۳۹و۵۴۲.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ سامرا میں طویل عرصہ رہنا ہی ایک قسم کا زندان اور خلیفہ کے قیدی تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸و۵۴۲.</ref> اسی لئے امام تقیہ کی زندگی گزارتے تھے<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۸.</ref> اور اپنے سے پہلے کے بعض امام کی طرح [[نظام وکالت]] کے ذریعے شیعوں سے رابطہ کرتے تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۷-۵۵۰.</ref>
امام سامرا میں حکومت کے سخت نگرانی میں تھے اور کئی بار زندان چلے گئے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص538، 539و542.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ سامرا میں طویل عرصہ رہنا ہی ایک قسم کا زندان اور خلیفہ کے قیدی تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص538و542.</ref> اسی لئے امام تقیہ کی زندگی گزارتے تھے<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص228.</ref> اور اپنے سے پہلے کے بعض امام کی طرح [[نظام وکالت]] کے ذریعے شیعوں سے رابطہ کرتے تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص547-550.</ref>


عباسی خلافت کی طرف سے ناقابل برداشت دباؤ اور نگرانی کے اسباب میں شیعہ آبادی اور طاقت کا اضافہ ہونا اور خلفا کو شیعوں سے خائف ہونا کہا گیا ہے اور دوسری طرف کچھ شواہد ایسے بھی تھے جو  [[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] کے لئے ایک فرزند ہونے کی خبر دیتے تھے جسے مہدی موعود سمجھتے تھے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۸و۲۲۹.</ref>
عباسی خلافت کی طرف سے ناقابل برداشت دباؤ اور نگرانی کے اسباب میں شیعہ آبادی اور طاقت کا اضافہ ہونا اور خلفا کو شیعوں سے خائف ہونا کہا گیا ہے اور دوسری طرف کچھ شواہد ایسے بھی تھے جو  [[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] کے لئے ایک فرزند ہونے کی خبر دیتے تھے جسے مہدی موعود سمجھتے تھے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص228و229.</ref>


امام عسکری اور ان کے والد گرامی امام ہادیؑ سامرا (عسکر) میں رہنے کی وجہ سے [[عسکریین (لقب)|عسکریین]] سے مشہور ہیں۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۰و۵۳۶.</ref>
امام عسکری اور ان کے والد گرامی امام ہادیؑ سامرا (عسکر) میں رہنے کی وجہ سے [[عسکریین (لقب)|عسکریین]] سے مشہور ہیں۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، 1387ش، ص500و536.</ref>
===امام مہدی===
===امام مہدی===
{{اصلی|امام مہدی علیہ السلام}}
{{اصلی|امام مہدی علیہ السلام}}
محمد بن حسن جو [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدی]] اور امام زمانہ سے مشہور ہیں۔ آپ شیعوں کے آخری اور بارہویں امام اور امام عسکری اور نرجس خاتون کے بیٹے ہیں جو 15 شعبان 255ھ کو سامرا میں پیدا ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۱۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۳۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۴۱۸.</ref>
محمد بن حسن جو [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدی]] اور امام زمانہ سے مشہور ہیں۔ آپ شیعوں کے آخری اور بارہویں امام اور امام عسکری اور نرجس خاتون کے بیٹے ہیں جو 15 شعبان 255ھ کو سامرا میں پیدا ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص514؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص339؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص418.</ref>


امام مہدی 5 سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۳۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۴۱۸.</ref> [[حضرت محمد صلی الله علیه و آله|پیغمبر اکرمؐ]] اور تمام شیعہ ائمہ نے آپ کی امامت کی تصریح کی ہے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۳۹و۳۴۰.</ref> آپ اپنے [[امام ہادی|والد ماجد]] کی شہادت تک [[امام ہادی|آپؑ]] لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے تھے اور خواص [[شیعہ]] میں سے گنے چنے چند افراد کے سوا کسی کو آپ(عج) کی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوتا تھا۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۳۶.</ref> والد کی شہادت کے بعد آپ بامر خدا غائب ہوئے اور 70 سال تک [[غیبت صغرا|غیبت صغری]] میں رہے اور اس دوران اپنے [[نواب اربعہ|نُوّابِ خاص]] کے ذریعے شیعوں سے رابطے میں تھے؛ لیکن 329ھ میں [[غیبت کبرا|غیبت کبری]] کے ساتھ ہی آپ کا لوگوں سے رابطہ ختم  ہوگیا۔<ref> طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۰و۲۳۱.</ref>
امام مہدی 5 سال کی عمر میں امامت پر فائز ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص339؛ طبرسی، اعلام الوری، 1390ق، ص418.</ref> [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] اور تمام شیعہ ائمہ نے آپ کی امامت کی تصریح کی ہے۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص339و340.</ref> آپ اپنے [[امام ہادی|والد ماجد]] کی شہادت تک [[امام ہادی|آپؑ]] لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے تھے اور خواص [[شیعہ]] میں سے گنے چنے چند افراد کے سوا کسی کو آپ(عج) کی ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوتا تھا۔<ref>مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص336.</ref> والد کی شہادت کے بعد آپ بامر خدا غائب ہوئے اور 70 سال تک [[غیبت صغرا|غیبت صغری]] میں رہے اور اس دوران اپنے [[نواب اربعہ|نُوّابِ خاص]] کے ذریعے شیعوں سے رابطے میں تھے؛ لیکن 329ھ میں [[غیبت کبرا|غیبت کبری]] کے ساتھ ہی آپ کا لوگوں سے رابطہ ختم  ہوگیا۔<ref> طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص230و231.</ref>


شیعہ روایات کے مطابق امام مہدی کے غیبت کے دوران آپ کے ظہور کا انتظار کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور انتظارِ فرج کو سب سے بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۲۲-.</ref> احادیث کی رو سے شیعوں کا عقیدہ ہے<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۵، ح۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۳۳۶.</ref> کہ امام کے ظہور کے بعد معاشرہ عدل و انصاف سے پر ہوگا۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۱و۲۳۲.</ref> بہت ساری روایات میں ظہور کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۲، ص۱۸۱-۲۷۸.</ref>
شیعہ روایات کے مطابق امام مہدی کے غیبت کے دوران آپ کے ظہور کا انتظار کرنے کی تاکید ہوئی ہے اور انتظارِ فرج کو سب سے بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج52، ص122-.</ref> احادیث کی رو سے شیعوں کا عقیدہ ہے<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص25، ح21؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج52، ص336.</ref> کہ امام کے ظہور کے بعد معاشرہ عدل و انصاف سے پر ہوگا۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ش، ص231و232.</ref> بہت ساری روایات میں ظہور کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج52، ص181-278.</ref>


==اہل سنت کے ہاں شیعہ ائمہ کا مقام==
==اہل سنت کے ہاں شیعہ ائمہ کا مقام==
شیعہ ائمہ کو اہل سنت امام اور پیغمبر اکرمؐ کے بلافصل خلیفے نہیں مانتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں:‌ قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسة، ۱۴۲۲ق، ص۵۱۴؛ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۶۳و۲۹۰.</ref> لیکن ان سے محبت کرتے ہیں<ref>ملاحظہ کریں: بغدادی، الفرق بین الفرق، ۱۹۷۷م، ص۳۵۳و۳۵۴.</ref> [[حضرت محمد صلی الله علیه و آله|پیغمبر اکرمؐ]] کی ایک روایت جو اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابق[[آیہ مودت]]،<ref>«قُلْ لاأَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی؛ آپ(ص) کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے»‏ سوره شوری، آیه ۲۳.</ref> جن رشتہ داروں کی مودت کو واجب قرار دیا ہے ان میں [[امام علی علیه‌السلام|علی(ع)]] و [[حضرت فاطمه زهرا سلام الله علیها|فاطمه(س)]] اور ان کی اولاد شامل ہیں۔<ref>حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۱۸۹-۱۹۶؛ زمخشری، الکشاف،‌ ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۱۹و۲۲۰.</ref> چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت مفسر اور متکلم [[فخرالدین رازی]] آیہ مودت سے استناد کرتے ہوئے نماز کے تشہد میں صلوات، سیرت نبوی، علی و فاطمہ اور ان کی آل سے دوستی کو واجب سمجھتے ہیں۔<ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۲۷، ص۵۹۵.</ref>
شیعہ ائمہ کو اہل سنت امام اور پیغمبر اکرمؐ کے بلافصل خلیفے نہیں مانتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں:‌ قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، 1422ق، ص514؛ تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ق، ج5، ص263و290.</ref> لیکن ان سے محبت کرتے ہیں<ref>ملاحظہ کریں: بغدادی، الفرق بین الفرق، 1977م، ص353و354.</ref> [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] کی ایک روایت جو اہل سنت مآخذ میں نقل ہوئی ہے اس کے مطابق[[آیہ مودت]]،<ref>«قُلْ لاأَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبی؛ آپ(ص) کہیے کہ میں تم سے اس(تبلیغ و رسالت) پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا سوائے اپنے قرابتداروں کی محبت کے»‏ سورہ شوری، آیہ 23.</ref> جن رشتہ داروں کی مودت کو واجب قرار دیا ہے ان میں [[امام علی علیہ‌السلام|علی(ع)]] و [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|فاطمہ(س)]] اور ان کی اولاد شامل ہیں۔<ref>حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ق، ج2، ص189-196؛ زمخشری، الکشاف،‌ 1407ق، ج4، ص219و220.</ref> چھٹی صدی ہجری کے اہل سنت مفسر اور متکلم [[فخرالدین رازی]] آیہ مودت سے استناد کرتے ہوئے نماز کے تشہد میں صلوات، سیرت نبوی، علی و فاطمہ اور ان کی آل سے دوستی کو واجب سمجھتے ہیں۔<ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج27، ص595.</ref>


بعض اہل سنت علما، شیعہ ائمہ کے مزار پر زیارت کرنے جاتے تھے اور ان سے توسل کرتے تھے۔ ان میں سے تیسری صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابو علی خَلّال کہتے ہیں کہ جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تھی تو میں [[امام موسی کاظم علیه‌السلام|موسی بن جعفر]] کی قبر کی زیارت کرنے جاتا تھا اور ان سے متوسل ہوتا تھا تو میری مشکل ٹل جاتی تھی۔<ref> بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۳۳.</ref> تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت فقیہ، مفسر اور محدث [[ابوبکر محمد بن خزیمه|ابوبکر محمد بن خُزَیْمه]] سے نقل ہوا ہے کہ وہ کئی بار [[حرم امام رضا(ع)|قبر امام رضاؑ]] کی زیارت کرنے جاتے تھے اور ان کی تعظیم اور تضرع دیکھ کر لوگ حیران ہوجاتے تھے۔<ref>ابن حجر عسقلانی، تهذیب التهذیب، ۱۳۲۶ق، ج۷، ص۳۸۸.</ref> تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت محدث [[ابن حبان|ابن‌حِبّان]] کا کہنا ہے کہ جب میں طوس میں تھا تو جب کبھی مشکل پیش آتی تھی تو علی بن موسی الرضاؑ کی زیارت کرنے جاتا تھا، وہاں دعا کرتا تھا اور دعا مستجاب ہوتی تھی نیز مشکل دور ہوتی تھی۔<ref>ابن حبان، الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۸، ص۴۵۷.</ref>
بعض اہل سنت علما، شیعہ ائمہ کے مزار پر زیارت کرنے جاتے تھے اور ان سے توسل کرتے تھے۔ ان میں سے تیسری صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابو علی خَلّال کہتے ہیں کہ جب بھی مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تھی تو میں [[امام موسی کاظم علیہ‌السلام|موسی بن جعفر]] کی قبر کی زیارت کرنے جاتا تھا اور ان سے متوسل ہوتا تھا تو میری مشکل ٹل جاتی تھی۔<ref> بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ق، ج1، ص133.</ref> تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت فقیہ، مفسر اور محدث [[ابوبکر محمد بن خزیمہ|ابوبکر محمد بن خُزَیْمہ]] سے نقل ہوا ہے کہ وہ کئی بار [[حرم امام رضا(ع)|قبر امام رضاؑ]] کی زیارت کرنے جاتے تھے اور ان کی تعظیم اور تضرع دیکھ کر لوگ حیران ہوجاتے تھے۔<ref>ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1326ق، ج7، ص388.</ref> تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے اہل سنت محدث [[ابن حبان|ابن‌حِبّان]] کا کہنا ہے کہ جب میں طوس میں تھا تو جب کبھی مشکل پیش آتی تھی تو علی بن موسی الرضاؑ کی زیارت کرنے جاتا تھا، وہاں دعا کرتا تھا اور دعا مستجاب ہوتی تھی نیز مشکل دور ہوتی تھی۔<ref>ابن حبان، الثقات، 1393ق، ج8، ص457.</ref>


شیعہ عالم دین [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اہل سنت، شیعہ ائمہ کی علمی اور دینی مرجعیت کو مانتے ہیں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعه، ۱۳۸۶ش، ص۲۳۴.</ref> مثال کے طور پر حنفی مذہب کے پیشوا [[ابو حنیفه]] سے منقول ہے کہ [[امام صادق علیه‌السلام|جعفر بن محمدؑ]] سے بڑھ کر کسی فقیہ کو نہیں دیکھا۔<ref>ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۶، ص۲۵۷.</ref> یہی جملہ پہلی اور دوسری صدی ہجری کے
شیعہ عالم دین [[جعفر سبحانی]] کا کہنا ہے کہ اہل سنت، شیعہ ائمہ کی علمی اور دینی مرجعیت کو مانتے ہیں۔<ref>سبحانی، سیمای عقاید شیعہ، 1386ش، ص234.</ref> مثال کے طور پر حنفی مذہب کے پیشوا [[ابو حنیفہ]] سے منقول ہے کہ [[امام صادق علیہ‌السلام|جعفر بن محمدؑ]] سے بڑھ کر کسی فقیہ کو نہیں دیکھا۔<ref>ذہبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ق، ج6، ص257.</ref> یہی جملہ پہلی اور دوسری صدی ہجری کے
اہل سنت فقیہ و محدث محمد بن مسلم بن شهاب زُهْری، [[امام سجاد علیه‌السلام|امام سجاد(ع)]] کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے۔<ref>ابوزرعه دمشقی،‌ تاریخ ابی‌زرعة الدمشقی، مجمع اللغة العربیة، ص۵۳۶.</ref> اہل سنت محدث اور امام باقر کے صحابی عبدالله بن عطاء مکی کہتے ہیں: «میں نے علما کو جتنا [[امام محمد باقر علیه‌السلام|محمد بن علی(ع)]] سامنے علمی لحاظ سے چھوٹے اور نیچے دیکھا کسی اور کے سامنے نہیں دیکھا۔ کوفہ کے بزرگ فقیہ حَکَم بن عُتَیبه کو ان کی شاگردی اختیار کرتے دیکھا۔».<ref>ابن عساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۵۴، ص۲۷۸.</ref>
اہل سنت فقیہ و محدث محمد بن مسلم بن شہاب زُہْری، [[امام سجاد علیہ‌السلام|امام سجاد(ع)]] کے بارے میں بھی نقل ہوا ہے۔<ref>ابوزرعہ دمشقی،‌ تاریخ ابی‌زرعۃ الدمشقی، مجمع اللغۃ العربیۃ، ص536.</ref> اہل سنت محدث اور امام باقر کے صحابی عبداللہ بن عطاء مکی کہتے ہیں: «میں نے علما کو جتنا [[امام محمد باقر علیہ‌السلام|محمد بن علی(ع)]] سامنے علمی لحاظ سے چھوٹے اور نیچے دیکھا کسی اور کے سامنے نہیں دیکھا۔ کوفہ کے بزرگ فقیہ حَکَم بن عُتَیبہ کو ان کی شاگردی اختیار کرتے دیکھا۔».<ref>ابن عساکر، تاریخ دمشق، 1415ق، ج54، ص278.</ref>


==کتاب شناسی==
==کتاب شناسی==
{{اصلی|شیعہ ائمہ کے بارے میں کتابوں کی فهرست}}
{{اصلی|شیعہ ائمہ کے بارے میں کتابوں کی فہرست}}
شیعہ ائمہ کے حالات اور فضائل پر مشتمل متعدد کتابیں شیعہ اور اہل سنت نے لکھی ہیں۔
شیعہ ائمہ کے حالات اور فضائل پر مشتمل متعدد کتابیں شیعہ اور اہل سنت نے لکھی ہیں۔
===شیعہ کتابیں===
===شیعہ کتابیں===
شیعہ علما کی طرف سے شیعہ ائمہ کے سوانح حیات اور ان کے فضائل کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:
شیعہ علما کی طرف سے شیعہ ائمہ کے سوانح حیات اور ان کے فضائل کے بارے میں لکھی جانے والی بعض کتابیں درج ذیل ہیں:
#[[دلائل الامامة (کتاب)|دلائل الامامة]]، جو [[محمد بن جریر طبری صغیر]]‌ (متوفی ۳۱۰ھ) سے منسوب ہے۔ یہ کتاب حضرت فاطمہؑ اور ائمہؑ کی حالات زندگی، [[معجزه|معجزات]] اور فضائل کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔
#[[دلائل الامامۃ (کتاب)|دلائل الامامۃ]]، جو [[محمد بن جریر طبری صغیر]]‌ (متوفی 310ھ) سے منسوب ہے۔ یہ کتاب حضرت فاطمہؑ اور ائمہؑ کی حالات زندگی، [[معجزہ|معجزات]] اور فضائل کے بارے میں عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔
#[[الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد (کتاب)|اَلْإرْشاد فی مَعْرفة حُجَجِ الله عَلَی الْعِباد]]، یہ کتاب شیعہ فقیہ اور متکلم شیخ مفید (متوفی 413ھ) کی کلامی اور تاریخی کتاب ہے جو عربی میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب روایات کی رو سے ائمہ کی حالات زندگی، اور فضائل پر مشتمل ہے۔ جسے سید صفدر حسین نجفی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
#[[الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد (کتاب)|اَلْإرْشاد فی مَعْرفۃ حُجَجِ اللہ عَلَی الْعِباد]]، یہ کتاب شیعہ فقیہ اور متکلم شیخ مفید (متوفی 413ھ) کی کلامی اور تاریخی کتاب ہے جو عربی میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب روایات کی رو سے ائمہ کی حالات زندگی، اور فضائل پر مشتمل ہے۔ جسے سید صفدر حسین نجفی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
#[[مناقب آل ابی‌طالب (کتاب)|مَناقِبُ آلِ اَبی‌طالب]]، عربی زبان میں فضائل [[چهارده معصوم|چهارده معصوم(ع)]] پر مشتمل [[ابن‌شهرآشوب|ابن‌شهر آشوب مازندرانی]] (متوفی ۵۸۸ھ) کی کتاب ہے۔
#[[مناقب آل ابی‌طالب (کتاب)|مَناقِبُ آلِ اَبی‌طالب]]، عربی زبان میں فضائل [[چہاردہ معصوم|چہاردہ معصوم(ع)]] پر مشتمل [[ابن‌شہرآشوب|ابن‌شہر آشوب مازندرانی]] (متوفی 588ھ) کی کتاب ہے۔
#[[اعلام الوری باعلام الهدی (کتاب)|إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الهدیٰ]] یہ کتاب پیغمبر اکرمؑ اور چہاردہ معصومینؑ کی سیرت اور حالات زندگی کے بارے میں [[فضل بن حسن طبرسی |فضل بن حسن طبرسی]] (متوفی ۵۴۸ھ) نے لکھی ہے۔
#[[اعلام الوری باعلام الہدی (کتاب)|إعلامُ الوَریٰ بأعلامِ الہدیٰ]] یہ کتاب پیغمبر اکرمؑ اور چہاردہ معصومینؑ کی سیرت اور حالات زندگی کے بارے میں [[فضل بن حسن طبرسی |فضل بن حسن طبرسی]] (متوفی 548ھ) نے لکھی ہے۔
#[[کشف الغمة فی معرفة الائمة (کتاب)|کَشْفُ الغُمَّة فی مَعْرِفَةِ الأئمّة(ع)]]، عربی زبان میں چہاردہ معصومین کی حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں [[علی بن عیسی اربلی]] (متوفی ۶۹۲ھ) کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
#[[کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ (کتاب)|کَشْفُ الغُمَّۃ فی مَعْرِفَۃِ الأئمّۃ(ع)]]، عربی زبان میں چہاردہ معصومین کی حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں [[علی بن عیسی اربلی]] (متوفی 692ھ) کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔
#[[روضة الواعظین و بصیرة المتعظین (کتاب)|رَوضَةُ الْواعِظین وَ بَصیرَةُ الْمُتَّعِظین]] بقلم [[محمد بن حسن فتال نیشابوری|فتال نیشابوری]] (متوفی ۵۰۸ھ)۔ یہ کتاب پیغمبر اکرمؐ  اور اہل بیتؑ کی سوانح حیات کے بارے میں لکھی گئی ہے۔
#[[روضۃ الواعظین و بصیرۃ المتعظین (کتاب)|رَوضَۃُ الْواعِظین وَ بَصیرَۃُ الْمُتَّعِظین]] بقلم [[محمد بن حسن فتال نیشابوری|فتال نیشابوری]] (متوفی 508ھ)۔ یہ کتاب پیغمبر اکرمؐ  اور اہل بیتؑ کی سوانح حیات کے بارے میں لکھی گئی ہے۔
#[[جلاء العیون (کتاب)|جَلاءُ العُیون]] [[علامہ محمدباقر مجلسی]](۱۰۳۷ھ-۱۱۱۰ھ) کی فارسی میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جس میں 14 باب ہیں جو چہاردہ معصومین کی حالات زندگی بیان کرتی ہے۔
#[[جلاء العیون (کتاب)|جَلاءُ العُیون]] [[علامہ محمدباقر مجلسی]](1037ھ-1110ھ) کی فارسی میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جس میں 14 باب ہیں جو چہاردہ معصومین کی حالات زندگی بیان کرتی ہے۔
#[[منتهی الآمال فی تواریخ النبی و الآل (کتاب)|مُنْتَهَى ألآمال فی تَواريخِ ألنَّبی وَ ألْآل]] جسے [[شیخ عباس قمی |شیخ عباس قمی]] (۱۲۹۴-۱۳۵۹ھ) نے چہاردہ معصومینؑ کی زندگی کو تفصیل سے بیان کیا ہے اس کتاب کو احسن المقال کے نام سے سید صفدر حسین نجفی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔
#[[منتہی الآمال فی تواریخ النبی و الآل (کتاب)|مُنْتَہَى ألآمال فی تَواريخِ ألنَّبی وَ ألْآل]] جسے [[شیخ عباس قمی |شیخ عباس قمی]] (1294-1359ھ) نے چہاردہ معصومینؑ کی زندگی کو تفصیل سے بیان کیا ہے اس کتاب کو احسن المقال کے نام سے سید صفدر حسین نجفی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔


===اہل سنت کتابیں===
===اہل سنت کتابیں===
علمائے [[اہل سنت]] کے توسط سے بارہ اماموں کے فضائل میں لکھی جانی والی کتابوں کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:
علمائے [[اہل سنت]] کے توسط سے بارہ اماموں کے فضائل میں لکھی جانی والی کتابوں کے بعض نمونے درج ذیل ہیں:
#[[مطالب السؤول|مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول]]، تالیف: کمال الدین ابن طلحہ شافعی (متوفٰی 562 ھ)؛ یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ہے اور اس کے بارہ باب ہیں جس میں 12 اماموں کے حالات زندگی بیان ہوئے ہیں۔<ref>طباطبائی، أهل البيت عليهم السلام في المكتبة العربية، مؤسسة آل البيت، ص۴۸۱-۴۸۳.</ref>
#[[مطالب السؤول|مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول]]، تالیف: کمال الدین ابن طلحہ شافعی (متوفٰی 562 ھ)؛ یہ کتاب عربی میں لکھی گئی ہے اور اس کے بارہ باب ہیں جس میں 12 اماموں کے حالات زندگی بیان ہوئے ہیں۔<ref>طباطبائی، أہل البيت عليہم السلام في المكتبۃ العربيۃ، مؤسسۃ آل البيت، ص481-483.</ref>
#[[تذکرۃ الخواص|تَذکِرَةُ الخَواصّ مِنَ الأمّة فی ذِکرِ خَصائص الأئمة]]، حنفی عالم اور مورخ یوسف بن قزاوغلی(متوفٰی 654 ہجری) جو سبط ابن جوزی سے مشہور ہیں نے لکھی ہے۔ اس کتاب کے 12 باب ہیں جس میں ہر ایک امام کے حالات زندگی اور ان کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔<ref>ابن جوزی، تذکره الخواص، ۱۴۲۶ق، ص۱۰۲و۱۰۳.</ref>
#[[تذکرۃ الخواص|تَذکِرَۃُ الخَواصّ مِنَ الأمّۃ فی ذِکرِ خَصائص الأئمۃ]]، حنفی عالم اور مورخ یوسف بن قزاوغلی(متوفٰی 654 ہجری) جو سبط ابن جوزی سے مشہور ہیں نے لکھی ہے۔ اس کتاب کے 12 باب ہیں جس میں ہر ایک امام کے حالات زندگی اور ان کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔<ref>ابن جوزی، تذکرہ الخواص، 1426ق، ص102و103.</ref>
#[[الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمہ]]، تالیف: ابن صباغ مالکی (متوفٰی 855 ہجری) اس کے مؤلف نویں صدی ہجری کے سنی عالم دین ہیں جنہوں نے اس کتاب کو ائمہؑ کے حالات زندگی اور فضائل پر لکھی ہے۔<ref>ابن صباغ، الفصول المهمة، دارالحدیث، ج۱، ص۶و۶۸۳و۶۸۴.</ref> اس کتاب سے شیعہ اور سنی علما نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔<ref>ابن صباغ، الفصول المهمة، دارالحدیث، ج۱، مقدمه محقق، ص۲۴.</ref>
#[[الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمہ]]، تالیف: ابن صباغ مالکی (متوفٰی 855 ہجری) اس کے مؤلف نویں صدی ہجری کے سنی عالم دین ہیں جنہوں نے اس کتاب کو ائمہؑ کے حالات زندگی اور فضائل پر لکھی ہے۔<ref>ابن صباغ، الفصول المہمۃ، دارالحدیث، ج1، ص6و683و684.</ref> اس کتاب سے شیعہ اور سنی علما نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔<ref>ابن صباغ، الفصول المہمۃ، دارالحدیث، ج1، مقدمہ محقق، ص24.</ref>
#الائمۃ الاثنا عشر یا [[الشذرات الذہبیہ|ألشّذَراتُ الذّهَبیة]]، تالیف: حنفی دمشقی عالم شمس الدین ابن طولون، (متوفٰی 953 ھ)۔<ref>طباطبائی، أهل البيت عليهم السلام في المكتبة العربية، ص ۲۳۵.</ref>
#الائمۃ الاثنا عشر یا [[الشذرات الذہبیہ|ألشّذَراتُ الذّہَبیۃ]]، تالیف: حنفی دمشقی عالم شمس الدین ابن طولون، (متوفٰی 953 ھ)۔<ref>طباطبائی، أہل البيت عليہم السلام في المكتبۃ العربيۃ، ص 235.</ref>
#[[الاتحاف بحب الاشراف (کتاب)|الاتحاف بحب الاشراف]]، تالیف: مصر کے شافعی عالم عبداللہ بن عامر شبراوی، (متوفٰی 1172 ہجری)، یہ کتاب پیغمبر اور ان کے شیعہ ائمہ کے حالات زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے۔<ref>شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، ۱۴۲۳ق، ص۵-۷.</ref>
#[[الاتحاف بحب الاشراف (کتاب)|الاتحاف بحب الاشراف]]، تالیف: مصر کے شافعی عالم عبداللہ بن عامر شبراوی، (متوفٰی 1172 ہجری)، یہ کتاب پیغمبر اور ان کے شیعہ ائمہ کے حالات زندگی کے بارے میں لکھی گئی ہے۔<ref>شبراوی، الاتحاف بحب الاشراف، 1423ق، ص5-7.</ref>
#[[نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار]]، تالیف: سید مؤمن شبلنجی جو 13ویں صدی ہجری کظ اہل سنت عالم دین ہیں۔ آپ نے اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ، شیعہ ائمہ اور اہل سنت خلفا کے بارے میں لکھا ہے۔
#[[نور الابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار]]، تالیف: سید مؤمن شبلنجی جو 13ویں صدی ہجری کظ اہل سنت عالم دین ہیں۔ آپ نے اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ، شیعہ ائمہ اور اہل سنت خلفا کے بارے میں لکھا ہے۔
#[[ینابیع المودة لذوی القربی (کتاب)|یَنابیعُ المَوَدّة لِذَوی القُرْبی]]، تالیف: حنفی عالم سلیمان بن ابراہیم قندوزی<ref>شاه محمدی، علی و شکوه غدیرخم، ۱۳۸۴ش، ص۴۳.</ref> نے پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہل بیت کے فضائل اور حالات زندگی بیان کیا ہے۔<ref>شاه محمدی، علی و شکوه غدیرخم، ۱۳۸۴ش، ص۴۵.</ref>
#[[ینابیع المودۃ لذوی القربی (کتاب)|یَنابیعُ المَوَدّۃ لِذَوی القُرْبی]]، تالیف: حنفی عالم سلیمان بن ابراہیم قندوزی<ref>شاہ محمدی، علی و شکوہ غدیرخم، 1384ش، ص43.</ref> نے پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہل بیت کے فضائل اور حالات زندگی بیان کیا ہے۔<ref>شاہ محمدی، علی و شکوہ غدیرخم، 1384ش، ص45.</ref>


==متعلقہ مضامین==
==متعلقہ مضامین==
سطر 218: سطر 218:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعه، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۳ ق.
* آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، 1403 ق.
* ابوزرعه دمشقی،‌ عبدالرحمن بن عمرو، تاریخ ابی زرعة الدمشقی، دمشق، مجمع اللغة العربیة، بی‌تا.
* ابوزرعہ دمشقی،‌ عبدالرحمن بن عمرو، تاریخ ابی زرعۃ الدمشقی، دمشق، مجمع اللغۃ العربیۃ، بی‌تا.
* ابن‌جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکره الخواص من الأمّة فی ذکر خصائص الأئمة، تحقیق حسین تقی‌زاده، قم، مجمع العالمی لاهل البیت(ع)، ۱۴۲۶ق.
* ابن‌جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرہ الخواص من الأمّۃ فی ذکر خصائص الأئمۃ، تحقیق حسین تقی‌زادہ، قم، مجمع العالمی لاہل البیت(ع)، 1426ق.
* ابن‌حبان، محمد بن حبان، الثقات، حیدرآباد، دایره المعارف العثمانیه، چاپ اول، ۱۳۹۳ق.
* ابن‌حبان، محمد بن حبان، الثقات، حیدرآباد، دایرہ المعارف العثمانیہ، چاپ اول، 1393ق.
* ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تهذیب التهذیب، هند، دائرة المعارف النظامیة، چاپ اول، ۱۳۲۶ق.
* ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، ہند، دائرۃ المعارف النظامیۃ، چاپ اول، 1326ق.
* ابن‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، قم، علامه، چاپ اول، ۱۳۷۹ق.
* ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، قم، علامہ، چاپ اول، 1379ق.
* ابن‌صباغ، علی بن محمد، الفصول المهمة فی معرفة‌الائمة، تحقیق سامی غریزی، قم، دارالحدیث، بی‌تا.
* ابن‌صباغ، علی بن محمد، الفصول المہمۃ فی معرفۃ‌الائمۃ، تحقیق سامی غریزی، قم، دارالحدیث، بی‌تا.
* ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامة العمروی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ق-۱۹۹۵م.
* ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامۃ العمروی، بیروت، دارالفکر، 1415ق-1995م.
* احمد بن حنبل، أحمد بن محمد بن حنبل، مسند أحمد، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
* احمد بن حنبل، أحمد بن محمد بن حنبل، مسند أحمد، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
* بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
* بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دارالفکر، 1401ق-1981م.
* بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیه، ۱۴۱۷ق.
* بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1417ق.
* بغدادی، عبدالقاهر، الفرق بین الفرق وبیان الفرقة الناجیة، بیروت، دارالآفاق، چاپ دوم،  ۱۹۷۷م.
* بغدادی، عبدالقاہر، الفرق بین الفرق وبیان الفرقۃ الناجیۃ، بیروت، دارالآفاق، چاپ دوم،  1977م.
* پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، ۱۳۹۷ش.
* پیشوایی، مہدی، سیرہ پیشوایان، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1397ش.
* ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق و تصحیح عبدالرحمن محمد عثمان، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق-۱۹۸۳م.
* ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق و تصحیح عبدالرحمن محمد عثمان، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1403ق-1983م.
* تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، افست قم، شریف رضی، ۱۴۰۹ق.
* تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، افست قم، شریف رضی، 1409ق.
* جرجانی، میرسید شریف، شرح المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۳۲۵ق.
* جرجانی، میرسید شریف، شرح المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1325ق.
* جعفریان، رسول، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعه، قم، انصاریان، چاپ یازدهم، ۱۳۸۷ش.
* جعفریان، رسول، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، چاپ یازدہم، 1387ش.
* حاکم حسکانی، عبیدالله‌بن‌ عبدالله‌، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل‌، تحقیق محمدباقر محمودی، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
* حاکم حسکانی، عبیداللہ‌بن‌ عبداللہ‌، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل‌، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1411ق.
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، بی نا، ۱۳۳۴ق.
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، بی نا، 1334ق.
* حسینی میلانی، سیدعلی، اثبات الولایة العامة للنّبی و الائمة(ع)، قم، نشرالحقایق، چاپ اول، ۱۴۳۸ق.
* حسینی میلانی، سیدعلی، اثبات الولایۃ العامۃ للنّبی و الائمۃ(ع)، قم، نشرالحقایق، چاپ اول، 1438ق.
* حکیم، سید محمدباقر، الامامة‌ و اهل البیت(ع) نظریة و الاستدلال، قم، مرکز الاسلامیة المعاصر، چاپ اول، ۱۴۲۴ق.
* حکیم، سید محمدباقر، الامامۃ‌ و اہل البیت(ع) نظریۃ و الاستدلال، قم، مرکز الاسلامیۃ المعاصر، چاپ اول، 1424ق.
* حمود، محمدجمیل، الفوائدالبهیة فی شرح عقائدالإمامیة، بیروت، مؤسسة الأعلمی، چاپ دوم، ۱۴۲۱ق.
* حمود، محمدجمیل، الفوائدالبہیۃ فی شرح عقائدالإمامیۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ دوم، 1421ق.
* خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الاثر فی النص علی الائمة الاثنی عشر، تصحیح: عبداللطیف حسینی کوهکمری، قم، بیدار، ۱۴۰۱ق.
* خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تصحیح: عبداللطیف حسینی کوہکمری، قم، بیدار، 1401ق.
* خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاهة(طبع قدیم)، تقریر محمد علی توحیدی، قم،‌ انصاریان، ۱۴۱۷ق.
* خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاہۃ(طبع قدیم)، تقریر محمد علی توحیدی، قم،‌ انصاریان، 1417ق.
* ذهبی، شمس الدین محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، مؤسسه الرساله، چاپ سوم، ۱۴۰۵ق.
* ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، مؤسسہ الرسالہ، چاپ سوم، 1405ق.
* زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقایق غوامض التنزیل،‌ تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتب العربی،‌ چاپ اول، ۱۴۰۷ق.
* زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقایق غوامض التنزیل،‌ تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتب العربی،‌ چاپ اول، 1407ق.
* سبحانی، جعفر، سیمای عقاید شیعه، ترجمه جواد محدثی، تهران، نشر مشعر، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* سبحانی، جعفر، سیمای عقاید شیعہ، ترجمہ جواد محدثی، تہران، نشر مشعر، چاپ اول، 1386ش.
* سبحانی، جعفر، علم غیب (آگاهی سوم)، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* سبحانی، جعفر، علم غیب (آگاہی سوم)، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1386ش.
* سبحانی، جعفر، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، قم، توحید، ۱۳۹۵ش.
* سبحانی، جعفر، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، قم، توحید، 1395ش.
* سبحانی، جعفر، منشور عقاید امامیه، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ اول، ۱۳۷۶ش.
* سبحانی، جعفر، منشور عقاید امامیہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ اول، 1376ش.
* سجستانی، سلیمان بن الأشعث، سنن أبی داود، تحقیق وتعلیق سعید محمد اللحام، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۰ق-۱۹۹۰م.
* سجستانی، سلیمان بن الأشعث، سنن أبی داود، تحقیق وتعلیق سعید محمد اللحام، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1410ق-1990م.
* شاه محمدی، محمد علی، علی و شکوه غدیرخم بر فراز وحی و رسالت در ترجمه ینابیع الموده، قم، مهر امیر المؤمنین(ع)، ۱۳۸۴ش.
* شاہ محمدی، محمد علی، علی و شکوہ غدیرخم بر فراز وحی و رسالت در ترجمہ ینابیع المودہ، قم، مہر امیر المؤمنین(ع)، 1384ش.
* شبر، سیدعبدالله، حق الیقین فی معرفة اصول الدین، قم، انوار الهدی، چاپ دوم، ۱۴۲۴ق.
* شبر، سیدعبداللہ، حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین، قم، انوار الہدی، چاپ دوم، 1424ق.
* شبراوی، عبدالله بن محمد، الإتحاف بحب الأشراف، تصحیح سامی غریری، قم، دارالکتاب، ۱۴۲۳ق.
* شبراوی، عبداللہ بن محمد، الإتحاف بحب الأشراف، تصحیح سامی غریری، قم، دارالکتاب، 1423ق.
* شهیدی، سیدجعفر، زندگانی امام صادق جعفر بن محمد، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۷ش.
* شہیدی، سیدجعفر، زندگانی امام صادق جعفر بن محمد، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ اول، 1377ش.
* صافی گلپایگانی، لطف الله، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی (ویراست جدید)، قم، دفتر تنظیم و نشرآثار آیت الله العظمی صافی گلپایگانی، چاپ اول، ۱۳۹۲ش.
* صافی گلپایگانی، لطف اللہ، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی (ویراست جدید)، قم، دفتر تنظیم و نشرآثار آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی، چاپ اول، 1392ش.
* صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
* صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ دوم، 1414ق.
* صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح و تحقیق علی اکبر غفاری، قم،‌ جامعه مدرسین حوزه علمیه قم،‌ چاپ اول، ۱۳۶۲ش.
* صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح و تحقیق علی اکبر غفاری، قم،‌ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم،‌ چاپ اول، 1362ش.
* صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، ۱۳۷۸ق.
* صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378ق.
* صدوق، محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمه، تصحیح علی اکبر غفاری، تهران، اسلامیه، ۱۳۹۵ق.
* صدوق، محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، 1395ق.
* صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق.
* صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ق.
* صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد، قم، مکتبة آیت الله المرعشی النجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق.
* صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد، قم، مکتبۃ آیت اللہ المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404ق.
* طباطبائی، سید عبدالعزیز، اهل البیت(ع) فی المکتبه العربیه، قم، مؤسسة آل البيت(ع) لإحياء التراث، بی‌تا.
* طباطبائی، سید عبدالعزیز، اہل البیت(ع) فی المکتبہ العربیہ، قم، مؤسسۃ آل البيت(ع) لإحياء التراث، بی‌تا.
* طباطبایی، سید محمدحسین، شیعه در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۳ش.
* طباطبایی، سید محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1383ش.
* طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الهدی، تهران، اسلامیه،‌ چاپ چهارم، ۱۳۹۰ق.
* طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، اسلامیہ،‌ چاپ چہارم، 1390ق.
* طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، داراحیاء‌التراث العربی،‌ بی‌تا.
* طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، داراحیاء‌التراث العربی،‌ بی‌تا.
* عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایة التکوینیة و التشریعیة، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، ۱۴۲۸ق.
* عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایۃ التکوینیۃ و التشریعیۃ، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، 1428ق.
* علامه حلی، حسن بن یوسف، [[كشف المراد في شرح تجريد الإعتقاد]] قسم الاهیات، تعلیقه جعفر سبحانی، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۲ش.
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، [[كشف المراد في شرح تجريد الإعتقاد]] قسم الاہیات، تعلیقہ جعفر سبحانی، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، چاپ دوم، 1382ش.
* علی بن حسین(ع)، صحیفه سجادیه، ترجمه و شرح فیض الاسلام، تهران، فقیه، چاپ دوم، ۱۳۷۶ش.
* علی بن حسین(ع)، صحیفہ سجادیہ، ترجمہ و شرح فیض الاسلام، تہران، فقیہ، چاپ دوم، 1376ش.
* عمادی حائری، سید محمد، «صحیفه سجادیه»، در دانشنامه جهان اسلام، ج۲۹، تهران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی،‌ ۱۴۰۰ش.
* عمادی حائری، سید محمد، «صحیفہ سجادیہ»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج29، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی،‌ 1400ش.
* فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق.
* فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ق.
* قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسة، تعلیه احمد بن حسین ابی‌هاشم، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
* قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسۃ، تعلیہ احمد بن حسین ابی‌ہاشم، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، 1422ق.
* قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع المودة لذوی القربى، بیروت، دارالاسوة، بی‌تا.
* قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربى، بیروت، دارالاسوۃ، بی‌تا.
* کلینى، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، الإسلامیة، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق.
* کلینى، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، الإسلامیۃ، چاپ سوم، 1407ق.
* مؤمن قمی، محمد، «ولایة ولی المعصوم(ع)»، در مجموعة الآثار المؤتمر العالمی الثانی للامام الرضا(ع)، مشهد، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، ۱۴۰۹ق.
* مؤمن قمی، محمد، «ولایۃ ولی المعصوم(ع)»، در مجموعۃ الآثار المؤتمر العالمی الثانی للامام الرضا(ع)، مشہد، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، 1409ق.
* مجلسی، محمد باقر، [[بحار الأنوار|بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار]]، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
* مجلسی، محمد باقر، [[بحار الأنوار|بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار]]، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ق.
* محمدی، علی، شرح کشف المراد، قم، دارالفکر، چاپ چهارم، ۱۳۷۸ش.
* محمدی، علی، شرح کشف المراد، قم، دارالفکر، چاپ چہارم، 1378ش.
* مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بی‌تا.
* مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بی‌تا.
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ق.
* مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، فی المذاهب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، 1413ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ نهم، ۱۳۸۶ش.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، چاپ نہم، 1386ش.
* موسوی زنجانی، سید ابراهیم، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، بیروت، مؤسسه اعلمی، چاپ سوم، ۱۴۱۳ق.
* موسوی زنجانی، سید ابراہیم، عقائد الامامیۃ الاثنی عشریۃ، بیروت، مؤسسہ اعلمی، چاپ سوم، 1413ق.
* نعمانی، محمد بن ابراهیم، کتاب الغیبه، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
* نعمانی، محمد بن ابراہیم، کتاب الغیبہ، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، 1403ق /1983م.
* یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
* یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.


{{چپ چین}}
{{چپ چین}}
* "[https://lccn.loc.gov/2019714627 Gulzar calligraphic panel]", Library of Congress, تاریخ بازدید:‌ ۱۱ اسفند ۱۴۰۰ش.
* "[https://lccn.loc.gov/2019714627 Gulzar calligraphic panel]", Library of Congress, تاریخ بازدید:‌ 11 اسفند 1400ش.
{{پایان}}
{{پایان}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,901

ترامیم