مندرجات کا رخ کریں

"ائمہ معصومین علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 152: سطر 152:
علی بن محمد جو [[امام علی نقی علیہ السلام|امام علی بن نقیؑ]] اور شیعوں کے دسویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ نویں [[امام جواد|نویں امامؑ]] اور جناب سمانہ مغربیہ کے بیٹے ہیں۔ آپ مدینہ کے نزدیک صریا نامی علاقے میں 212ھ پیدا ہوئے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور 254ھ کو سامرا<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۹۷؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷ و۳۱۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> میں عباسی خلیفہ المعتز باللہ کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵؛ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۵-۲۲۶.</ref>
علی بن محمد جو [[امام علی نقی علیہ السلام|امام علی بن نقیؑ]] اور شیعوں کے دسویں امام سے مشہور ہیں۔ آپ نویں [[امام جواد|نویں امامؑ]] اور جناب سمانہ مغربیہ کے بیٹے ہیں۔ آپ مدینہ کے نزدیک صریا نامی علاقے میں 212ھ پیدا ہوئے<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور 254ھ کو سامرا<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۹۷؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷ و۳۱۲؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> میں عباسی خلیفہ المعتز باللہ کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵؛ طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۵-۲۲۶.</ref>


امام ہادی نے 33 سال (254-220ھ) شیعوں کی امامت کی<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور اس مدت میں سات عباسی خلفاء، [[مامون عباسی|مامون]]، [[معتصم عباسی|معتصم]]، [[واثق عباسی|واثق]]، [[متوکل عباسی|متوکل]]، [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتز]] حاکم رہے۔<ref> طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۲.</ref>
امام ہادی نے 33 سال (254-220ھ) شیعوں کی امامت کی<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۹۷؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور دوران امامت 6 عباسی خلفاء، [[مامون عباسی|مامون]]، [[معتصم عباسی|معتصم]]، [[واثق عباسی|واثق]]، [[متوکل عباسی|متوکل]]، [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتز]] حاکم رہے۔<ref> طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۲.</ref>


متوکل نے آپؑ کو اپنے زیر نظر رکھنے<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۳.</ref> کے لئے 233ھ میں آپ کو [[مدینہ]] سے [[سامرا]]، جو ان دنوں درالخلافہ تھا،<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸.</ref> بلایا<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۹۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور آپ کی باقی زندگی اسی شہر میں گزر گئی۔<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۶.</ref> متوکل کی موت کے بعد [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتر]] یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آئے اور آپؑ معتز کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۷؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۰و۵۰۲.</ref>
متوکل نے آپؑ کو اپنے زیر نظر رکھنے<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۳.</ref> کے لئے 233ھ میں آپ کو [[مدینہ]] سے [[سامرا]]، جو ان دنوں درالخلافہ تھا،<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸.</ref> بلایا<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۴۹۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۵۵.</ref> اور آپ کی باقی زندگی اسی شہر میں گزر گئی۔<ref> جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۶.</ref> متوکل کی موت کے بعد [[منتصر عباسی|منتصر]]، [[مستعین عباسی|مستعین]] اور [[معتز عباسی|معتر]] یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار آئے اور آپؑ معتز کے ہاتھوں مسموم اور شہید ہوئے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۷؛ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۰و۵۰۲.</ref>
سطر 165: سطر 165:
[[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] اپنے [[امام ہادی|والد ماجد]] کی شہادت کے بعد بامر خدا اور گذشتہ معصوم پیشواؤں کے تعین کے نتیجے میں منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے اور 6 سال کے عرصے تک امام رہے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۳و۳۱۴؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref> اس دوران معتز، مهتدی اور معتمد عباسی حاکم رہے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref>  
[[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] اپنے [[امام ہادی|والد ماجد]] کی شہادت کے بعد بامر خدا اور گذشتہ معصوم پیشواؤں کے تعین کے نتیجے میں منصب [[امامت]] پر فائز ہوئے اور 6 سال کے عرصے تک امام رہے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۱۳و۳۱۴؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref> اس دوران معتز، مهتدی اور معتمد عباسی حاکم رہے۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۳۶۷.</ref>  
امام سامرا میں حکومت کے سخت نگرانی میں تھے اور کئی بار زندان چلے گئے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸، ۵۳۹و۵۴۲.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ سامرا میں طویل عرصہ رہنا ہی ایک قسم کا زندان اور خلیفہ کے قیدی تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸و۵۴۲.</ref> اسی لئے امام تقیہ کی زندگی گزارتے تھے<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۸.</ref> اور اپنے سے پہلے کے بعض امام کی طرح [[نظام وکالت]] کے ذریعے شیعوں سے رابطہ کرتے تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۷-۵۵۰.</ref>
امام سامرا میں حکومت کے سخت نگرانی میں تھے اور کئی بار زندان چلے گئے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸، ۵۳۹و۵۴۲.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ سامرا میں طویل عرصہ رہنا ہی ایک قسم کا زندان اور خلیفہ کے قیدی تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۳۸و۵۴۲.</ref> اسی لئے امام تقیہ کی زندگی گزارتے تھے<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۸.</ref> اور اپنے سے پہلے کے بعض امام کی طرح [[نظام وکالت]] کے ذریعے شیعوں سے رابطہ کرتے تھے۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۴۷-۵۵۰.</ref>


عباسی خلافت کی طرف سے ناقابل برداشت دباؤ اور نگرانی کے اسباب میں شیعہ آبادی اور طاقت کا اضافہ ہونا اور خلفا کو شیعوں سے خائف ہونا کہا گیا ہے اور دوسری طرف کچھ شواہد ایسے بھی تھے جو  [[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] کے لئے ایک فرزند ہونے کی خبر دیتے تھے جسے مہدی موعود سمجھتے تھے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۸و۲۲۹.</ref>
عباسی خلافت کی طرف سے ناقابل برداشت دباؤ اور نگرانی کے اسباب میں شیعہ آبادی اور طاقت کا اضافہ ہونا اور خلفا کو شیعوں سے خائف ہونا کہا گیا ہے اور دوسری طرف کچھ شواہد ایسے بھی تھے جو  [[امام حسن عسکری علیہ السلام|گیارہویں امام]] کے لئے ایک فرزند ہونے کی خبر دیتے تھے جسے مہدی موعود سمجھتے تھے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۲۸و۲۲۹.</ref>
سطر 171: سطر 170:
امام عسکری اور ان کے والد گرامی امام ہادیؑ سامرا (عسکر) میں رہنے کی وجہ سے [[عسکریین (لقب)|عسکریین]] سے مشہور ہیں۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۰و۵۳۶.</ref>
امام عسکری اور ان کے والد گرامی امام ہادیؑ سامرا (عسکر) میں رہنے کی وجہ سے [[عسکریین (لقب)|عسکریین]] سے مشہور ہیں۔<ref>جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، ۱۳۸۷ش، ص۵۰۰و۵۳۶.</ref>
=== امام مہدی ===
=== امام مہدی ===
[[ملف:جمکران1.jpg|thumbnail|35٪|مسجد جمکران [[قم]] کی پرانی تصویر]]
{{اصلی|امام مہدی علیہ السلام}}
{{اصلی|امام مہدی علیہ السلام}}
محمد بن حسن جو [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدی]] اور امام زمانہ سے مشہور ہیں۔ آپ شیعوں کے آخری اور بارہویں امام اور امام عسکری اور نرجس خاتون کے بیٹے ہیں جو 15 شعبان 255ھ کو سامرا میں پیدا ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۱۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۳۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۴۱۸.</ref>
محمد بن حسن جو [[امام مہدی علیہ السلام|امام مہدی]] اور امام زمانہ سے مشہور ہیں۔ آپ شیعوں کے آخری اور بارہویں امام اور امام عسکری اور نرجس خاتون کے بیٹے ہیں جو 15 شعبان 255ھ کو سامرا میں پیدا ہوئے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۵۱۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۳۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۴۱۸.</ref>
سطر 211: سطر 209:
#[[ینابیع المودة لذوی القربی (کتاب)|یَنابیعُ المَوَدّة لِذَوی القُرْبی]]، تالیف: حنفی عالم سلیمان بن ابراہیم قندوزی<ref>شاه محمدی، علی و شکوه غدیرخم، ۱۳۸۴ش، ص۴۳.</ref> نے پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہل بیت کے فضائل اور حالات زندگی بیان کیا ہے۔<ref>شاه محمدی، علی و شکوه غدیرخم، ۱۳۸۴ش، ص۴۵.</ref>
#[[ینابیع المودة لذوی القربی (کتاب)|یَنابیعُ المَوَدّة لِذَوی القُرْبی]]، تالیف: حنفی عالم سلیمان بن ابراہیم قندوزی<ref>شاه محمدی، علی و شکوه غدیرخم، ۱۳۸۴ش، ص۴۳.</ref> نے پیغمبر اکرمؐ اور ان کے اہل بیت کے فضائل اور حالات زندگی بیان کیا ہے۔<ref>شاه محمدی، علی و شکوه غدیرخم، ۱۳۸۴ش، ص۴۵.</ref>


===مقام امامت کی اہمیت ===
==متعلقہ مضامین==
 
* [[اہل بیتؑ]]
'''الف: [[شریعت]] کے تحفظ کی ضرورت''':
* [[ائمہ معصومین کی امامت]]
 
* [[چودہ معصومین]]
ہر معاشرے کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جس کی بات اور روش حجت قاطع اور میزان حق و باطل ہو، تا کہ اس معاشرے کے دین کے محتوا اور مندرجات و مضامین میں کوئی اختلاف نمودار ہونے کی صورت میں اختلاف حل ہو دین انحراف سے محفوظ رہے۔ دین [[اسلام]] میں بھی [[رسول اللہ|پیغمبرؐ]] کے بعد ایسے افراد کی ضرورت ہے ورنہ دین کے بارے میں لوگوں کے مختلف النوع تصورات اور نظریات کا ظہور دین کی منزلت کو مخدوش کرے گا۔ [[امام علی رضا علیہ السلام|امام رضاؑ]] فرماتے ہیں:
 
" ... اگر خداوند متعال ایک استوار، امین اور (دین اور اسرار خداوندی کا) حافظ و پاسدار [[امام]] لوگوں کے لئے مقرر نہ کرے تو یقینی طور پر [[شریعت]] پوسیدگی اور فرسودگی کا شکار ہو جائے گی اور دین نیست و نابود ہوگا اور [[سنت]] [[رسول اللہ|نبوی]] اور احکام الہی میں تبدیلیاں آئیں گی، [[بدعت|بدعت گذار]] اس میں اضافات کریں گے اور [[ملحد|ملحدین]] اس میں سے کم کریں گے، اور صورت حال مسلمانوں کے لئے مشکوک ہوگی۔<ref>ابن بابویہ، عیون اخبار الرضا، ج2،ص100، مجلسی، بحار الانوار، ج23، ص32۔... و يمنع ظالمهم من مظلومهم، و منها أنه لو لم يجعل لهم إماما قيما أمينا حافظا مستودعا لدرست الملة، و ذهب الدين و غيرت السنة والاحكام، ولزاد فيه المبتدعون، و نقص منه الملحدون، و  شبهوا ذلك على المسلمين...۔</ref>
 
'''ب) معاشرے کو الہی راہنماؤں کی ضرورت''':
 
انسان کی بہت سی ضروریات معاشرے کی تشکیل اور عمومی تعاون کے بغیر پوری نہیں ہوتیں اور ایک صالح معاشرہ الہی قوانین کے نفاذ کے بغیر تشکیل نہیں پاتا اور ان قوانین کے نفاذ کے لئے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اولا عالم ہو اور اپنے علم پر عمل کرتا ہو اور لغزش و خطا سے محفوظ ہو تا کہ قانون کا من و عن نفاذ کرے اور ہر صاحب حق کا حق ادا کرے ورنہ تو انسان کے وجود میں کمال تک پہنچنے کے لئے رکھی ہوئی قوتیں ظہور تک نہیں پہنچیں گی اور یہ لازم آئے گا کہ ان قوانین کا خداوند متعال کی صرف سے وضع ہونا ہی مہمل تھا جبکہ وہ حکیم ہے اور مہمل کام کا صدور اس کی ذات کے لئے محال ہے۔
 
'''ج) دین کی تفسیر و تشریح کی ضرورت''':
 
[[نبی|انبیاء]] کا فریضہ ہے کہ سابقہ اقوام سے باقیماندہ انحرافات کا مقابلہ کریں نیز سابقہ [[شریعت]] کی تکمیل اور شرائع کے ارتقائی سفر میں اپنا کردار ادا کریں جبکہ [[وصی|اوصیاء]] میں سے ہر ایک کا فریضہ ہے کہ اس شریعت کی تشریح کرے، اس کا نفاذ کرے اور اس کی تطبیق کا کام سرانجام دے جس کے کلی اور اجمالی اصول اس کے [[نبی|پیغمبر]] نے لوگوں کے لئے بیان کئے ہیں چنانچہ ہر [[اولو العزم]] پیغمبر نے اوصیاء اور الہی حجتوں کو اپنے بعد چھوڑا ہے تاکہ وہ اس کی شریعت کو وسعت دیں اور وسیع سطح پر اس کو نافذ کریں۔
 
'''د) تکوینی ہدایت''':
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہو رہا ہے
: :<font color=green>{{حدیث|'''وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاء الزَّكَاةِ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ'''}}۔</font>؛ <br/> '''ترجمہ''': اور ہم نے انہیں امام بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق ہدایت کرتے ہیں اور ان کی جانب وحی بھیجی نیک کاموں کے کرنے اور نماز ادا کرنے اور زکوٰة دینے کی اور وہ صرف ہماری عبادت کرتے تھے۔<ref>سورہ انبیاء، آیت 73۔</ref>۔<ref>نیز دیکھئے:{{حدیث|'''وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ'''}}۔<br/> ترجمہ: اور ان میں سے ہم نے کچھ پیشوا قرار دیئے جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں جب کہ انہوں نے صبر سے کام لیا اور وہ ہماری آیتوں پر یقین کرتے تھے۔ سورہ انبیاء، آیت 24۔</ref>
 
[[علامہ طباطبائی]] اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہ ہدایت جو خداوند متعال نے [[امامت]] کے فرائض میں قرار دی ہے، ہدایت بمعنی راہنمائی (راہ دکھانا) نہیں ہے، کیونکہ خداوند متعال نے [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]ؑ کو [[نبوت]] کا عہدہ عطا کرنے کے برسوں بعد، عہدہ امامت عطا کیا؛ واضح ہے کہ [[نبوت]] منصب ہدایت ـ بمعنی راہنمائی ـ کے لحاظ سے [[امامت]] سے جدا نہیں ہے۔ پس ہدایت ـ جو منصب امامت ہے ـ کے معنی مقصود تک پہنچانے (ایصال الی المطلوب) کے سوا کچھ نہیں ہو سکتے؛ اور یہ معنی در حقیقت نفوس میں ایک قسم کا تکوینی تصرف ہے؛ اور امام اس تصرف کے ذریعے دلوں کو کمال کی طرف راغب کرتا ہے اور انہیں نچلے مرحلے سے اعلی مراحل تک پہنچانے کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ اور چونکہ یہ تصرف تکوینی اور یہ عمل باطنی عمل ہے چنانچہ لازما وہ امر بھی تکوینی ہے ـ نہ کہ تشریعی ـ جس کے ذریعے یہ ہدایت انجام پاتی ہے ... اور یہ وہی حقیقت ہے جس کی تفسیر ذیل کی آیات کریمہ سے ہوتی ہے: <font color=green>{{حدیث|'''إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئاً أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ٭ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ'''}}۔</font>؛ <br/> '''ترجمہ''': اس کی بات تو بس یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو چاہتا ہے، کہہ دیتا ہے ہو جا اور فوراً ہی وہ ہو جاتی ہے ٭ تو پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے۔<ref>سورہ یس، آیات 82 و 83۔</ref>
 
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خدا کے حکم کے مطابق ہدایت معنوی فیوضات اور باطنی مراتب و مقامات میں سے ہے اور [[مؤمن|مؤمنین]] عمل صالح کے واسطے سے اس کی طرف راہنمائی پاتے ہیں اور اپنے پرودگار کی رحمت کے لباس سے ملبس ہو جاتے ہیں، اور یہ رحمت اس سے دوسرے لوگوں تک پھیل جاتی ہے، اور لوگ اپنے ذاتی استعداد کے مطابق اس سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہاں سے سمجھا جا سکتا ہے کہ [[امام]] لوگوں اور ان کے پروردگار کے درمیان واسطے اور رابط کا کام انجام دیتا ہے اور لوگ اس کے واسطے سے اللہ کے ظاہری اور باطنی فیوضات سے مستفیض ہوتے ہیں اور فیوضات الہی درحقیقت وہی [[شریعت|شرائع الہیہ]] ہیں جو [[وحی]] کے ذریعے اترتے اور پیغمبر کے ذریعے دوسرے انسانوں تک فروغ پاتے ہیں۔ نیز ہم سمجھ لیتے ہیں کہ امام وہ ہادی اور راہنما ہے جو نفوس کی ان کے مراتب کی طرف راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جس طرح کہ پیغمبر وہ ہادی اور راہنما ہے جو لوگوں کو صحیح اور حقیقی عقائد اور اعمال صالح کی طرف راہنمائی فراہم کرتا ہے، البتہ بعض اولیائے الہی صرف پیغمبر ہیں اور بعض دونوں مناصب کے عہدیدار ہیں جیسے [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|حضرت ابراہیمؑ]] کے دونوں بیٹے۔ ([[حضرت اسماعیل علیہ السلام|اسماعیل]] اور [[حضرت اسحاق علیہ السلام|اسحق]] علیہما السلام)۔<ref>طباطائی، تفسیر المیزان، ج14، ص430۔</ref>
 
== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
سطر 240: سطر 218:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
* آقابزرگ تهرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعه، بیروت، دارالاضواء، ۱۴۰۳ ق.
* نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شهیدی، تهران: علمی و فرهنگی، 1377 ہجری شمسی۔
* ابوزرعه دمشقی،‌ عبدالرحمن بن عمرو، تاریخ ابی زرعة الدمشقی، دمشق، مجمع اللغة العربیة، بی‌تا.
* سید محمد حسین طباطبائی، شیعہ در اسلام، قم: دفتر انتشارات اسلامی، 1383 ہجری شمسی۔
* ابن‌جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکره الخواص من الأمّة فی ذکر خصائص الأئمة، تحقیق حسین تقی‌زاده، قم، مجمع العالمی لاهل البیت(ع)، ۱۴۲۶ق.
* ابن بابویہ، محمد، الخصال، بہ کوشش علی اکبر غفاری، قم، 1403 ہجری قمری۔
* ابن‌حبان، محمد بن حبان، الثقات، حیدرآباد، دایره المعارف العثمانیه، چاپ اول، ۱۳۹۳ق.
* وہی مؤلف، عیون اخبار الرضاؑ، منشورات موسسة الاعلمي للمطبوعات بيروت، 1404 ہجری قمری۔
* ابن‌حجر عسقلانی، احمد بن علی، تهذیب التهذیب، هند، دائرة المعارف النظامیة، چاپ اول، ۱۳۲۶ق.
* ابن صباغ مالکی، علی، الفصول المهمہ، نجف، دار الکتب التجاریہ.
* ابن‌شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌طالب، قم، علامه، چاپ اول، ۱۳۷۹ق.
* ابن طولون، محمد، الائمہ الاثنا عشر، بہ کوشش صلاح الدین منجد، بیروت، 1958 عیسوی۔
* ابن‌صباغ، علی بن محمد، الفصول المهمة فی معرفة‌الائمة، تحقیق سامی غریزی، قم، دارالحدیث، بی‌تا.
* ابن عیاش جوهری، احمد، مقتضب الاثر، قم، 1379 ہجری قمری۔
* ابن‌عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامة العمروی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ق-۱۹۹۵م.
* ابن یمین فریومدی، دیوان اشعار، تصحیح: حسین علی باستانی راد، بی‌جا: انتشارات کتابخانه سنائی، 1344 ہجری شمسی۔
* احمد بن حنبل، أحمد بن محمد بن حنبل، مسند أحمد، بیروت، دارصادر، بی‌تا.
* ابو داؤد سجستانی، سلیمان، سنن، بہ کوشش محمد محیی الدین عبد الحمید، قاهره، دار احیاء السنہ النبویہ۔
* بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۱ق-۱۹۸۱م.
* احمد بن حنبل، مسند، قاهره، 1313 ہجری قمری۔
* بغدادی، خطیب، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیه، ۱۴۱۷ق.
* امین العاملی، سید محسن، أعيان‏ الشيعہ۔
* بغدادی، عبدالقاهر، الفرق بین الفرق وبیان الفرقة الناجیة، بیروت، دارالآفاق، چاپ دوم،  ۱۹۷۷م.
* بخاری، محمد، صحیح، استانبول، 1315 ہجری قمری۔
* پیشوایی، مهدی، سیره پیشوایان، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، ۱۳۹۷ش.
* ترمذی، محمد، سنن، بہ کوشش احمد محمد شاکر و دیگران، قاهره، 1357 ہجری قمری/1938 عیسوی۔
* ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، تحقیق و تصحیح عبدالرحمن محمد عثمان، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق-۱۹۸۳م.
* حاکم نیشابوری، محمد، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، 1334 ہجری قمری۔
* تفتازانی، سعد الدین، شرح المقاصد، افست قم، شریف رضی، ۱۴۰۹ق.
* خزاز قمی، علی، کفایہ الاثر، قم، 1401 ہجری قمری۔
* جرجانی، میرسید شریف، شرح المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانی، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۳۲۵ق.
* سبط ابن جوزی، یوسف، تذکره الخواص، نجف، 1383 ہجری قمری/1964 عیسوی۔
* جعفریان، رسول، حیات فکری‌سیاسی امامان شیعه، قم، انصاریان، چاپ یازدهم، ۱۳۸۷ش.
* سید مرتضی، علی، الذخیره، بہ کوشش احمد حسینی، قم، 1411 ہجری قمری۔
* حاکم حسکانی، عبیدالله‌بن‌ عبدالله‌، شواهد التنزیل لقواعد التفضیل‌، تحقیق محمدباقر محمودی، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۱ق.
* طباطبایی، عبدالعزیز، «اهل البیتؑ فی المکتبہ العربیہ»، تراثنا، قم، 1405 ہجری قمری۔
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبدالله، المستدرک علی الصحیحین، حیدرآباد دکن، بی نا، ۱۳۳۴ق.
* علامہ حلی، حسن، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، قم، مکتبہ المصطفوی.
* حسینی میلانی، سیدعلی، اثبات الولایة العامة للنّبی و الائمة(ع)، قم، نشرالحقایق، چاپ اول، ۱۴۳۸ق.
* کتاب سلیم بن قیس، بہ کوشش علوی حسنی نجفی، بیروت، 1400 ہجری قمری/1980 عیسوی۔
* حکیم، سید محمدباقر، الامامة‌ و اهل البیت(ع) نظریة و الاستدلال، قم، مرکز الاسلامیة المعاصر، چاپ اول، ۱۴۲۴ق.
* کلینی رازی، محمد بن یعقوب، الناشر دار الكتب الاسلاميہ، تهران - بازار سلطاني، الجزء الاول الطبعہ الثالثہ 1388 ہجری قمری۔
* حمود، محمدجمیل، الفوائدالبهیة فی شرح عقائدالإمامیة، بیروت، مؤسسة الأعلمی، چاپ دوم، ۱۴۲۱ق.
* مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح، بہ کوشش محمد فؤاد عبد الباقی، قاهره، 1955 عیسوی۔
* خزاز رازی، علی بن محمد، کفایة الاثر فی النص علی الائمة الاثنی عشر، تصحیح: عبداللطیف حسینی کوهکمری، قم، بیدار، ۱۴۰۱ق.
* نجاشی، احمد، الرجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، 1407 ہجری قمری۔
* خویی، سید ابوالقاسم، مصباح الفقاهة(طبع قدیم)، تقریر محمد علی توحیدی، قم،‌ انصاریان، ۱۴۱۷ق.
* نعمانی، محمد، الغیبہ، بیروت، 1403 ہجری قمری/1983 عیسوی۔
* ذهبی، شمس الدین محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، مؤسسه الرساله، چاپ سوم، ۱۴۰۵ق.
* زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقایق غوامض التنزیل،‌ تصحیح مصطفی حسین احمد، بیروت، دارالکتب العربی،‌ چاپ اول، ۱۴۰۷ق.
* سبحانی، جعفر، سیمای عقاید شیعه، ترجمه جواد محدثی، تهران، نشر مشعر، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* سبحانی، جعفر، علم غیب (آگاهی سوم)، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ اول، ۱۳۸۶ش.
* سبحانی، جعفر، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، قم، توحید، ۱۳۹۵ش.
* سبحانی، جعفر، منشور عقاید امامیه، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ اول، ۱۳۷۶ش.
* سجستانی، سلیمان بن الأشعث، سنن أبی داود، تحقیق وتعلیق سعید محمد اللحام، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، ۱۴۱۰ق-۱۹۹۰م.
* شاه محمدی، محمد علی، علی و شکوه غدیرخم بر فراز وحی و رسالت در ترجمه ینابیع الموده، قم، مهر امیر المؤمنین(ع)، ۱۳۸۴ش.
* شبر، سیدعبدالله، حق الیقین فی معرفة اصول الدین، قم، انوار الهدی، چاپ دوم، ۱۴۲۴ق.
* شبراوی، عبدالله بن محمد، الإتحاف بحب الأشراف، تصحیح سامی غریری، قم، دارالکتاب، ۱۴۲۳ق.
* شهیدی، سیدجعفر، زندگانی امام صادق جعفر بن محمد، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۷ش.
* صافی گلپایگانی، لطف الله، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی (ویراست جدید)، قم، دفتر تنظیم و نشرآثار آیت الله العظمی صافی گلپایگانی، چاپ اول، ۱۳۹۲ش.
* صدوق، محمد بن علی، الاعتقادات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
* صدوق، محمد بن علی، الخصال، تصحیح و تحقیق علی اکبر غفاری، قم،‌ جامعه مدرسین حوزه علمیه قم،‌ چاپ اول، ۱۳۶۲ش.
* صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، ۱۳۷۸ق.
* صدوق، محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمه، تصحیح علی اکبر غفاری، تهران، اسلامیه، ۱۳۹۵ق.
* صدوق، محمد بن علی، من لایحضره الفقیه، تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق.
* صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد، قم، مکتبة آیت الله المرعشی النجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ق.
* طباطبائی، سید عبدالعزیز، اهل البیت(ع) فی المکتبه العربیه، قم، مؤسسة آل البيت(ع) لإحياء التراث، بی‌تا.
* طباطبایی، سید محمدحسین، شیعه در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۳ش.
* طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الهدی، تهران، اسلامیه،‌ چاپ چهارم، ۱۳۹۰ق.
* طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تصحیح احمد حبیب عاملی، بیروت، داراحیاء‌التراث العربی،‌ بی‌تا.
* عاملی، سیدجعفر مرتضی، الولایة التکوینیة و التشریعیة، مرکز الاسلامی للدراسات، چاپ دوم، ۱۴۲۸ق.
* علامه حلی، حسن بن یوسف، [[كشف المراد في شرح تجريد الإعتقاد]] قسم الاهیات، تعلیقه جعفر سبحانی، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، چاپ دوم، ۱۳۸۲ش.
* علی بن حسین(ع)، صحیفه سجادیه، ترجمه و شرح فیض الاسلام، تهران، فقیه، چاپ دوم، ۱۳۷۶ش.
* عمادی حائری، سید محمد، «صحیفه سجادیه»، در دانشنامه جهان اسلام، ج۲۹، تهران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی،‌ ۱۴۰۰ش.
* فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، داراحیاء التراث العربی، چاپ سوم، ۱۴۲۰ق.
* قاضی عبدالجبار، عبدالجبار بن احمد، شرح الاصول الخمسة، تعلیه احمد بن حسین ابی‌هاشم، بیروت، دار احیاء‌التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
* قندوزی، سلیمان بن ابراهیم، ینابیع المودة لذوی القربى، بیروت، دارالاسوة، بی‌تا.
* کلینى، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، الإسلامیة، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق.
* مؤمن قمی، محمد، «ولایة ولی المعصوم(ع)»، در مجموعة الآثار المؤتمر العالمی الثانی للامام الرضا(ع)، مشهد، المؤتمر العالمی للامام الرضا(ع)، ۱۴۰۹ق.
* مجلسی، محمد باقر، [[بحار الأنوار|بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار]]، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق.
* محمدی، علی، شرح کشف المراد، قم، دارالفکر، چاپ چهارم، ۱۳۷۸ش.
* مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بی‌تا.
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات، فی المذاهب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام قرآن، تهران، دارالکتب الاسلامیه، چاپ نهم، ۱۳۸۶ش.
* موسوی زنجانی، سید ابراهیم، عقائد الامامیة الاثنی عشریة، بیروت، مؤسسه اعلمی، چاپ سوم، ۱۴۱۳ق.
* نعمانی، محمد بن ابراهیم، کتاب الغیبه، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۳ق /۱۹۸۳م.
* یعقوبی، احمد بن اسحاق، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.
 
{{آغاز چپ چین}}
* "[https://lccn.loc.gov/2019714627 Gulzar calligraphic panel]", Library of Congress, تاریخ بازدید:‌ ۱۱ اسفند ۱۴۰۰ش.
{{پایان چپ چین}}
 
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
{{امامت}}
{{امامت}}
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,901

ترامیم