مندرجات کا رخ کریں

"حضرت یوسف" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 36: سطر 36:


==مقام و منزلت==
==مقام و منزلت==
حضرت یوسف جناب یعقوبؑ کے بیٹے اور بنی اسرائیل کے [[نبی]] تھے۔ آپ کی والدہ کا نام راحیل تھا۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، ۱۳۷۹ش، ص۱۰۶.</ref> آپ کے گیارہ بھائی تھے جن میں سے [[بنیامین]] اور آپ کی ماں ایک تھیں۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، ۱۳۷۹ش، ص۱۰۶.</ref> حضرت یوسفؑ بنیامین کے علاوہ باقی سب بھائیوں سے عمر میں چھوٹے تھے۔<ref> صحفی، قصہ های قرآن، ۱۳۷۹ش، ص۸۷.</ref>
حضرت یوسف جناب یعقوبؑ کے بیٹے اور بنی اسرائیل کے [[نبی]] تھے۔ آپ کی والدہ کا نام راحیل تھا۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص106.</ref> آپ کے گیارہ بھائی تھے جن میں سے [[بنیامین]] اور آپ کی ماں ایک تھیں۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص106.</ref> حضرت یوسفؑ بنیامین کے علاوہ باقی سب بھائیوں سے عمر میں چھوٹے تھے۔<ref> صحفی، قصہ های قرآن، 1379شمسی، ص87.</ref>


یوسفؑ کا نام قرآن مجید میں 27 مرتبہ ذکر ہوا ہے<ref>جعفری، «نام‌ہای پیامبران در قرآن»، ص25 -26</ref> اور قرآن کی بارہویں سورت آپ ہی کے نام سے منسوب ہے۔ قرآن نے آپ کو [[اللہ تعالی]] کے مخلص بندوں میں سے قرار دیا ہے۔<ref> سورہ یوسف، آیہ 24۔</ref> جس کے بارے میں [[محمد حسین طباطبایی|علامہ طباطبایی]] کا کہنا ہے کہ آپ نے نہ صرف زلیخا کی خواہش کے مطابق عمل نہیں کیا بلکہ دل میں بھی اس کام کی طرف کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۳۰.</ref> اسی طرح قرآن میں آپ کو محسنوں میں بھی شمار کیا گیا ہے۔<ref> سورہ انعام، آیہ 84۔</ref>
یوسفؑ کا نام قرآن مجید میں 27 مرتبہ ذکر ہوا ہے<ref>جعفری، «نام‌ہای پیامبران در قرآن»، ص25 -26</ref> اور قرآن کی بارہویں سورت آپ ہی کے نام سے منسوب ہے۔ قرآن نے آپ کو [[اللہ تعالی]] کے مخلص بندوں میں سے قرار دیا ہے۔<ref> سورہ یوسف، آیہ 24۔</ref> جس کے بارے میں [[محمد حسین طباطبایی|علامہ طباطبایی]] کا کہنا ہے کہ آپ نے نہ صرف زلیخا کی خواہش کے مطابق عمل نہیں کیا بلکہ دل میں بھی اس کام کی طرف کوئی رغبت نہیں رکھتے تھے۔<ref> طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص130.</ref> اسی طرح قرآن میں آپ کو محسنوں میں بھی شمار کیا گیا ہے۔<ref> سورہ انعام، آیہ 84۔</ref>


===نبوت===
===نبوت===
حضرت یوسفؑ کا شمار بزرگ انبیا میں ہوتا ہے۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ۱۴۲۳ق، ص۲۵۹.</ref> قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے [[امام باقرؑ]] کی ایک روایت کے مطابق حضرت یوسف، نبی اور [[رسول]] تھے۔<ref> قطب‌ الدین راوندی، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ص۳۴۸.</ref> [[تفسیر نمونہ]] کے مطابق حضرت یوسف کا خواب کہ جس میں گیارہ ستارے، سورج اور چاند کا انکو سجدہ کرنا، حضرت یوسف کے ثروت اور حکومت تک پہنچنے کے علاوہ مستقبل میں نبوت پر فائز ہونے کی طرف بھی اشارہ تھا۔<ref> ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۹، ص۳۱۰.</ref> [[علامہ طباطبایی]] کا بھی کہنا ہے کہ سورہ یوسف کی چھٹی آیت کے مطابق حضرت یوسفؑ پر نعمت کے کامل ہونے سے مراد آپؑ کا نبوت پر فائز ہونا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۸۲.</ref>
حضرت یوسفؑ کا شمار بزرگ انبیا میں ہوتا ہے۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص259.</ref> قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے [[امام باقرؑ]] کی ایک روایت کے مطابق حضرت یوسف، نبی اور [[رسول]] تھے۔<ref> قطب‌ الدین راوندی، قصص‌ الانبیاء، 1430ھ، ص348.</ref> [[تفسیر نمونہ]] کے مطابق حضرت یوسف کا خواب کہ جس میں گیارہ ستارے، سورج اور چاند کا انکو سجدہ کرنا، حضرت یوسف کے ثروت اور حکومت تک پہنچنے کے علاوہ مستقبل میں نبوت پر فائز ہونے کی طرف بھی اشارہ تھا۔<ref> ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374شمسی، ج9، ص310.</ref> [[علامہ طباطبایی]] کا بھی کہنا ہے کہ سورہ یوسف کی چھٹی آیت کے مطابق حضرت یوسفؑ پر نعمت کے کامل ہونے سے مراد آپؑ کا نبوت پر فائز ہونا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص82.</ref>


==حالات زندگی==
==حالات زندگی==
[[سورہ یوسف]] میں حضرت یوسف کے حالات زندگی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے قصے کو اَحْسَنُ الْقِصَص (سب سے اچھا قصہ) کے نام سے یاد کیا ہے۔<ref> سوره یوسف، آیہ 3۔</ref> اور آپ کا بچپنا، کنویں میں پھینکنے، عزیز مصر کے ہاتھوں بیچنے، یوسفؑ و زلیخا کا واقعہ، جیل جانے، والد اور بھائیوں سے ملاقات اور مصر کی حکومت سب کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔<ref> سوره یوسف، آیات۸ تا ۱۰۰.</ref>
[[سورہ یوسف]] میں حضرت یوسف کے حالات زندگی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں ان کے قصے کو اَحْسَنُ الْقِصَص (سب سے اچھا قصہ) کے نام سے یاد کیا ہے۔<ref> سوره یوسف، آیہ 3۔</ref> اور آپ کا بچپنا، کنویں میں پھینکنے، عزیز مصر کے ہاتھوں بیچنے، یوسفؑ و زلیخا کا واقعہ، جیل جانے، والد اور بھائیوں سے ملاقات اور مصر کی حکومت سب کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔<ref> سوره یوسف، آیات8 تا 100.</ref>


===کنویں میں پھینکنا اور مصر کی طرف منتقل ہونا===
===کنویں میں پھینکنا اور مصر کی طرف منتقل ہونا===
{{مزید|سورہ یوسف}}
{{مزید|سورہ یوسف}}
[[ملف:یوسف و چاه.jpg|250px|تصغیر|جناب یوسف کو کنویں میں پھینکنے کی منظرکشی]]
[[ملف:یوسف و چاه.jpg|250px|تصغیر|جناب یوسف کو کنویں میں پھینکنے کی منظرکشی]]
قرآن کے سورہ یوسف میں آپ کے حالات زندگی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کے مطابق، حضرت یوسفؑ خواب دیکھتے ہیں کہ گیارہ ستارے، چاند اور سورج ان کے لیے سجدہ کر رہے ہیں اور یہ خواب حضرت یعقوبؑ کو بیان کرتے ہیں۔ جناب یعقوب، اس خواب کو بھائیوں سے بیان کرنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ خطرناک سازش کر سکتے ہیں۔<ref> سورہ یوسف، آیہ ۴و۵.</ref>
قرآن کے سورہ یوسف میں آپ کے حالات زندگی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔ قرآن کے مطابق، حضرت یوسفؑ خواب دیکھتے ہیں کہ گیارہ ستارے، چاند اور سورج ان کے لیے سجدہ کر رہے ہیں اور یہ خواب حضرت یعقوبؑ کو بیان کرتے ہیں۔ جناب یعقوب، اس خواب کو بھائیوں سے بیان کرنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ خطرناک سازش کر سکتے ہیں۔<ref> سورہ یوسف، آیہ 4و5.</ref>


[[تفسير|مفسروں]] نے گیارہ ستاروں سے مراد یوسف کے بھائی اور سورج و چاند سے مراد ان کے والدین لیا ہے کہ یوسفؑ دنیوی مقام و منزلت پر فائز ہونے کے بعد ان لوگوں نے آپ کی تعظیم کی۔<ref> ابن‌ کثیر، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۶م، ص۱۹۱.</ref>
[[تفسير|مفسروں]] نے گیارہ ستاروں سے مراد یوسف کے بھائی اور سورج و چاند سے مراد ان کے والدین لیا ہے کہ یوسفؑ دنیوی مقام و منزلت پر فائز ہونے کے بعد ان لوگوں نے آپ کی تعظیم کی۔<ref> ابن‌ کثیر، قصص‌ الانبیاء، 1416ق/1996م، ص191.</ref>


حضرت یعقوب کے بیٹوں کا کہنا تھا کہ یوسفؑ اور ان کے بھائی بنیامین والد کے ہاں زیادہ عزیز ہیں۔<ref> سورہ یوسف، آیہ 8۔</ref> اس لیے ایک دن انہوں نے جناب یعقوب سے اجازت مانگی کہ وہ یوسفؑ کو ان کے ہمراہ صحرا بھیجیں۔<ref> سورہ یوسف، آیہ ۱۲.</ref> صحرا میں انہوں نے یوسفؑ کو کنویں میں پھینک دیا اور واپس آکر جناب یعقوب سے کہا کہ انہیں بھیڑیے نے چیر پھاڑا ہے۔<ref> سورہ یوسف،‌ آیہ 17۔</ref> قرآنی آیت کے مطابق، جناب یعقوبؑ نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا<ref> سورہ یوسف،‌ آیہ ۱۸.</ref> اور یوسفؑ کے فراق میں گریہ کرکے نابینا ہوگئے۔<ref> سوره یوسف، آیہ ۸۴.</ref>
حضرت یعقوب کے بیٹوں کا کہنا تھا کہ یوسفؑ اور ان کے بھائی بنیامین والد کے ہاں زیادہ عزیز ہیں۔<ref> سورہ یوسف، آیہ 8۔</ref> اس لیے ایک دن انہوں نے جناب یعقوب سے اجازت مانگی کہ وہ یوسفؑ کو ان کے ہمراہ صحرا بھیجیں۔<ref> سورہ یوسف، آیہ 12.</ref> صحرا میں انہوں نے یوسفؑ کو کنویں میں پھینک دیا اور واپس آکر جناب یعقوب سے کہا کہ انہیں بھیڑیے نے چیر پھاڑا ہے۔<ref> سورہ یوسف،‌ آیہ 17۔</ref> قرآنی آیت کے مطابق، جناب یعقوبؑ نے ان کی بات پر یقین نہیں کیا<ref> سورہ یوسف،‌ آیہ 18.</ref> اور یوسفؑ کے فراق میں گریہ کرکے نابینا ہوگئے۔<ref> سوره یوسف، آیہ 84.</ref>


امام صادقؑ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یعقوبؑ کتنا مغموم ہوئے؟ آپ نے فرمایا: «جس عورت کا بچہ مرگیا ہے اس عورت کے غم کے 70 برابر غمگین ہوئے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۲، ص۲۴۲</ref>
امام صادقؑ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت یعقوبؑ کتنا مغموم ہوئے؟ آپ نے فرمایا: «جس عورت کا بچہ مرگیا ہے اس عورت کے غم کے 70 برابر غمگین ہوئے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج12، ص242</ref>
کسی قافلے نے یوسفؑ کو کنویں سے نکالا<ref> سورہ یوسف، آیہ ۱۰و۱۹.</ref> اور غلام بنا کر [[مصر]] لے گئے اور [[عزیز مصر]] نے انہیں خریدا اور یوں عزیز مصر کے گھر تک پہنچ گئے۔<ref> سورہ یوسف، آیہ ۲۱.</ref>
کسی قافلے نے یوسفؑ کو کنویں سے نکالا<ref> سورہ یوسف، آیہ 10و19.</ref> اور غلام بنا کر [[مصر]] لے گئے اور [[عزیز مصر]] نے انہیں خریدا اور یوں عزیز مصر کے گھر تک پہنچ گئے۔<ref> سورہ یوسف، آیہ 21.</ref>


===یوسف کا جمال اور زلیخا اور آپ کا قصہ===
===یوسف کا جمال اور زلیخا اور آپ کا قصہ===
[[قصص القرآن]] کی کتابوں کے مطابق یوسف ایک خوبرو جوان تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ۱۴۲۳ق، ص۲۱۷؛ بلاغی، قصص قرآن، ۱۳۸۰ش، ص۹۸؛ صحفی، قصہ ہای قرآن، ۱۳۷۹ش، ص۱۱۴و۱۱۵.</ref> {{یادداشت|{{عربی|فقد كان يوسف عليه‌السلام رجلا ...وكان ذا جمال بديع يدهش العقول ويسلب الألباب...، وكانت الملكة فتاة فائقة الجمال وكذلك تكون حرم الملوك والعظماء}}. المیزان، منشورات اسماعیلیان، ج۱۱، ص۱۲۶؛ ان دنوں یوسف ایک خوبرو جوان تھے اور ان کا جمال دیکھ کر دیکھنے والوں کے دل اور عقلیں مدہوش ہوجاتی تھیں۔۔۔ دوسری طرف مصر کی ملکہ بھی بہت خوبرو تھی کیونکہ سلاطین کی عادت یہی ہوتی تھی کہ دربار کے لئے کسی حسین عورت کو انتخاب کیا جائے۔ موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ج۱۱، ص۱۷۰}} اسی لئے عزیز مصر کی بیوی [[زلیخا]] ان کی عاشق ہوگئی، لیکن یوسفؑ نے اپنے پر قابو کرتے ہوئے زلیخا کی درخواست کو رد کر دیا۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، ۱۳۷۹ش، ص۱۱۵و۱۱۶؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۲۳.</ref> {{یادداشت| علامہ طباطبایی اپنی کتاب المیزان میں اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سلاطین اور بادشاہوں کے گھر پر اپنی چاہت کے مطابق زندگی گزارنے کے وسائل فراہم ہوتے ہیں اور عزیز مصر کا گھر بھی یوسف کو گناہ میں آلودہ کرنے کے لئے ایسا ہی تھا۔ ولبيوت الملوك والأعزة أن تحتال لشتى مقاصدها و مآربها بأنواع الحيل و المكايد فإن عامة الأسباب و إن عزّت و امتنعت ميسّرة لها. طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۱ق، ج۱۱، ص۱۲۲. }}
[[قصص القرآن]] کی کتابوں کے مطابق یوسف ایک خوبرو جوان تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص217؛ بلاغی، قصص قرآن، 1380شمسی، ص98؛ صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص114و115.</ref> {{یادداشت|{{عربی|فقد كان يوسف عليه‌السلام رجلا ...وكان ذا جمال بديع يدهش العقول ويسلب الألباب...، وكانت الملكة فتاة فائقة الجمال وكذلك تكون حرم الملوك والعظماء}}. المیزان، منشورات اسماعیلیان، ج11، ص126؛ ان دنوں یوسف ایک خوبرو جوان تھے اور ان کا جمال دیکھ کر دیکھنے والوں کے دل اور عقلیں مدہوش ہوجاتی تھیں۔۔۔ دوسری طرف مصر کی ملکہ بھی بہت خوبرو تھی کیونکہ سلاطین کی عادت یہی ہوتی تھی کہ دربار کے لئے کسی حسین عورت کو انتخاب کیا جائے۔ موسوی ہمدانی، ترجمہ تفسیر المیزان، ج11، ص170}} اسی لئے عزیز مصر کی بیوی [[زلیخا]] ان کی عاشق ہوگئی، لیکن یوسفؑ نے اپنے پر قابو کرتے ہوئے زلیخا کی درخواست کو رد کر دیا۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص115و116؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 23.</ref> {{یادداشت| علامہ طباطبایی اپنی کتاب المیزان میں اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سلاطین اور بادشاہوں کے گھر پر اپنی چاہت کے مطابق زندگی گزارنے کے وسائل فراہم ہوتے ہیں اور عزیز مصر کا گھر بھی یوسف کو گناہ میں آلودہ کرنے کے لئے ایسا ہی تھا۔ ولبيوت الملوك والأعزة أن تحتال لشتى مقاصدها و مآربها بأنواع الحيل و المكايد فإن عامة الأسباب و إن عزّت و امتنعت ميسّرة لها. طباطبایی، المیزان، 1391ھ، ج11، ص122. }}
یہ بات شہر کے لوگوں تک پہنچی اور شہر کی خواتین میں سے ایک گروہ نے زلیخا کی مذمت کی۔ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور شہر کی 40 عورتوں کو مدعو کیا۔ ان کو ایک چاقو اور میوہ تھما دیا۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۳۹۶.</ref> پھر یوسفؑ کو مجلس میں بلایا۔ جب آپؑ داخل ہوئے تو خواتین آپ کے حسن کے نظارہ میں اتنا محو ہو گئیں کہ میوہ کی جگہ اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، ۱۳۷۹ش، ص۱۱۷و۱۱۸؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۳۰و۳۱.</ref>
یہ بات شہر کے لوگوں تک پہنچی اور شہر کی خواتین میں سے ایک گروہ نے زلیخا کی مذمت کی۔ زلیخا نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور شہر کی 40 عورتوں کو مدعو کیا۔ ان کو ایک چاقو اور میوہ تھما دیا۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج5، ص396.</ref> پھر یوسفؑ کو مجلس میں بلایا۔ جب آپؑ داخل ہوئے تو خواتین آپ کے حسن کے نظارہ میں اتنا محو ہو گئیں کہ میوہ کی جگہ اپنے ہاتھ کاٹ لئے۔<ref> صحفی، قصہ ہای قرآن، 1379شمسی، ص117و118؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 30و31.</ref>


اس واقعے کے بعد ہر دن کوئی نا کوئی عورت یوسفؑ سے غیر مشروع رابطے کی درخواست کرتی تھی تو آپؑ نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ ان سے نجات دے کر زندان بھیج دیں۔ اس کے چند دن بعد زلیخا کے حکم سے جیل بھیج دیئے گئے۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ۱۴۲۳ق، ص۲۲۱؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۳۳تا۳۵.</ref>
اس واقعے کے بعد ہر دن کوئی نا کوئی عورت یوسفؑ سے غیر مشروع رابطے کی درخواست کرتی تھی تو آپؑ نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ ان سے نجات دے کر زندان بھیج دیں۔ اس کے چند دن بعد زلیخا کے حکم سے جیل بھیج دیئے گئے۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص221؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 33تا35.</ref>


===بادشاہ کے خواب کی تعبیر اور عزیز مصر بننا===
===بادشاہ کے خواب کی تعبیر اور عزیز مصر بننا===
حضرت یوسفؑ نے تعبیر خواب جاننے کی وجہ سے دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر کی کہ ان میں سے ایک مارا جائے گا اور دوسرے کو جیل سے رہائی اور بادشاہ کے حضور مقام ملے گا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۰۵تا۱۰۶؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ ۴۱.</ref> اس واقعے کے چند سال بعد، مصر کے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات کمزور گائے، سات موٹی تازی گائے کھا رہی ہیں۔ نیز سات سرسبز خوشے اور سات خشک خوشے بھی دیکھا۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ۱۴۲۳ق، ص۲۲۳؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۴۳.</ref> کوئی بھی اس خواب کی تعبیر نہیں کرسکا یہاں تک کہ وہ قیدی آزاد ہو کر دربار میں پہنچا تھا، تو اسے حضرت یوسف یاد آئے اور کہا کہ وہ اس خواب کی تعبیر کر سکتے ہیں۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ۱۴۲۳ق، ص۲۲۳؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۴۴و۴۵.</ref>
حضرت یوسفؑ نے تعبیر خواب جاننے کی وجہ سے دو قیدیوں کے خواب کی تعبیر کی کہ ان میں سے ایک مارا جائے گا اور دوسرے کو جیل سے رہائی اور بادشاہ کے حضور مقام ملے گا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص105تا106؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ 41.</ref> اس واقعے کے چند سال بعد، مصر کے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات کمزور گائے، سات موٹی تازی گائے کھا رہی ہیں۔ نیز سات سرسبز خوشے اور سات خشک خوشے بھی دیکھا۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص223؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 43.</ref> کوئی بھی اس خواب کی تعبیر نہیں کرسکا یہاں تک کہ وہ قیدی آزاد ہو کر دربار میں پہنچا تھا، تو اسے حضرت یوسف یاد آئے اور کہا کہ وہ اس خواب کی تعبیر کر سکتے ہیں۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص223؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 44و45.</ref>


وہ جیل گیا اور وہاں حضرت یوسف سے خواب کی تعبیر پوچھی، آپؑ نے کہا: تمہارے پاس سات سال میں پانی کی فراوانی ہوگی اس کے بعد سال خشک سالی ہوگی۔ یوں تجویز دی کہ سات سال کی قحط سالی کے لئے پہلے کے سات سال میں خوب کھیتی باڑی کریں، اور ضرورت سے زیادہ کے غلات کو خوشہ سمیت ذخیرہ کریں تاکہ صحیح رہ سکیں۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ۱۴۲۳ق، ص۲۲۳؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ ۴۷تا۴۹.</ref>
وہ جیل گیا اور وہاں حضرت یوسف سے خواب کی تعبیر پوچھی، آپؑ نے کہا: تمہارے پاس سات سال میں پانی کی فراوانی ہوگی اس کے بعد سال خشک سالی ہوگی۔ یوں تجویز دی کہ سات سال کی قحط سالی کے لئے پہلے کے سات سال میں خوب کھیتی باڑی کریں، اور ضرورت سے زیادہ کے غلات کو خوشہ سمیت ذخیرہ کریں تاکہ صحیح رہ سکیں۔<ref> جزایری، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص223؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ 47تا49.</ref>


بادشاہ کو حضرت یوسف کی تعبیر اور اس کا راہ حل پسند آیا، حضرت یوسف کو دربار میں بلایا۔ آپ نے بادشاہ کے بھیجے ہوئے شخص سے کہا کہ وہ بادشاہ سے مصر کی عورتوں کا ہاتھ کاٹنے اور آپ کے گرفتار ہونے کے واقعے کو بھی بیان کرے۔ بادشاہ نے اس بارے میں تحقیق کیا اور شہر کی عورتوں کو دربار میں بلایا اور مصر کی عورتوں نے یوسفؑ کی بیگناہی کی گواہی دی اور زلیخا نے بھی اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۰۵تا۱۰۶؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ ۵۰و۵۱.</ref>
بادشاہ کو حضرت یوسف کی تعبیر اور اس کا راہ حل پسند آیا، حضرت یوسف کو دربار میں بلایا۔ آپ نے بادشاہ کے بھیجے ہوئے شخص سے کہا کہ وہ بادشاہ سے مصر کی عورتوں کا ہاتھ کاٹنے اور آپ کے گرفتار ہونے کے واقعے کو بھی بیان کرے۔ بادشاہ نے اس بارے میں تحقیق کیا اور شہر کی عورتوں کو دربار میں بلایا اور مصر کی عورتوں نے یوسفؑ کی بیگناہی کی گواہی دی اور زلیخا نے بھی اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص105تا106؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف آیہ 50و51.</ref>


خواب کی تعبیر اور بیگناہی ثابت ہونے کے بعد مصر کے بادشاہ نے آپؑ کو جیل سے آزاد کیا اور اپنے وزیر اور عزیز مصر کے منصب پر فائز کیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۰۸.</ref>
خواب کی تعبیر اور بیگناہی ثابت ہونے کے بعد مصر کے بادشاہ نے آپؑ کو جیل سے آزاد کیا اور اپنے وزیر اور عزیز مصر کے منصب پر فائز کیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص108.</ref>


===گھر والوں سے ملاقات===
===گھر والوں سے ملاقات===
مصر کی خشک سالی کے دوران [[کنعان]] میں بھی قحط سالی آگئی۔ اسی لئے حضرت یعقوب نے بیٹوں کو گندم لانے کے لئے مصر بھیج دیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۱۰.</ref> حضرت یوسف نے بھائیوں کو دیکھتے ہی پہچان لیا، لیکن وہ آپ کو نہ پہچان سکے۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۰۹؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۵۸.</ref> آپ نے بھائیوں سے اچھا سلوک کیا<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۱۰؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۵۹.</ref> اور اپنی قمیص بھیج کر یعقوبؑ کی آنکھوں کی بینائی کو ٹھیک کردیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۱۹؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ ۹۳تا۹۶.</ref> اس کے بعد حضرت یعقوب اور ان کی اولاد ان سے ملنے مصر چلے گئے۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص۱۱۹؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ۱۰۰.</ref>
مصر کی خشک سالی کے دوران [[کنعان]] میں بھی قحط سالی آگئی۔ اسی لئے حضرت یعقوب نے بیٹوں کو گندم لانے کے لئے مصر بھیج دیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص110.</ref> حضرت یوسف نے بھائیوں کو دیکھتے ہی پہچان لیا، لیکن وہ آپ کو نہ پہچان سکے۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص109؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 58.</ref> آپ نے بھائیوں سے اچھا سلوک کیا<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص110؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 59.</ref> اور اپنی قمیص بھیج کر یعقوبؑ کی آنکھوں کی بینائی کو ٹھیک کردیا۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص119؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ 93تا96.</ref> اس کے بعد حضرت یعقوب اور ان کی اولاد ان سے ملنے مصر چلے گئے۔<ref> بلاغی، قصص قرآن، ص119؛ نیز ملاحظہ کریں: سورہ یوسف، آیہ100.</ref>


===شادی اور اولاد===
===شادی اور اولاد===
چوتھی صدی ہجری کے مسلمان مورخ [[مسعودی]] کے نقل کے مطابق، یوسفؑ نے مصر میں شادی کی اور دو بیٹے؛ اِفرائیم اور میشا پیدا ہوئے۔ افرائیم، [[حضرت یوشع|یوشَع‌ بن‌ نون]] کے باپ تھے۔<ref>  مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۴۹.</ref>
چوتھی صدی ہجری کے مسلمان مورخ [[مسعودی]] کے نقل کے مطابق، یوسفؑ نے مصر میں شادی کی اور دو بیٹے؛ اِفرائیم اور میشا پیدا ہوئے۔ افرائیم، [[حضرت یوشع|یوشَع‌ بن‌ نون]] کے باپ تھے۔<ref>  مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص49.</ref>


===زلیخا سے شادی===
===زلیخا سے شادی===
بعض [[احادیث]] میں جناب یوسف عزیز مصر بننے کے بعد زلیخا سے شادی کرنے کا ذکر آیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں یوں ذکر ہوا ہے کہ یوسف نے ایک عورت کو دیکھا جو کہہ رہی تھی کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اطاعت کی وجہ سے غلام کو بادشاہ اور بادشاہ کو معصیت کی وجہ سے غلام بنا دیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو کہا میں زلیخا ہوں اور یوں اس کے ساتھ شادی کی۔<ref> قطب‌ الدین راوندی، قصص‌ الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ص۳۵۱.</ref> [[سید نعمت‌ الله جزایری]] کا کہنا ہے کہ زلیخا جناب یوسفؑ کی [[دعا]] کی بدولت جوان ہوئی اور پھر آپ نے اس سے شادی کی۔<ref> جزایری، النورالمبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، ۱۴۲۳ق، ص۲۳۴.</ref> لیکن بعض نے ان روایات پر تحقیق کرنے کے بعد ان روایات کو مخدوش اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: معارف و دیگران، «بررسی روایات تفسیري فریقین در مسئلۀ ازدواج حضرت یوسف با زلیخا»، ص۷تا۳۲. </ref> بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت یوسف کے دونوں بیٹے (مِنشا و افرایم یا اِفرائیم) زلیخا سے تھے۔<ref>مقدسی، البدء و التاريخ، بور سعید، ج۳، ص۶۹؛ ابن کثیر، البداية و النهاية، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۱۰؛https://pasokh.org/fa/Question/View/73787/آيا-از-فرزندان-و-نوادگان-حضرت-يوسف-ـ-عليه-السلام-ـ-پيامبر-هم-شد-و-اصلاً-يوسف-ـ-عليه-السلام-ـ-فرزند-داشته-است </ref>
بعض [[احادیث]] میں جناب یوسف عزیز مصر بننے کے بعد زلیخا سے شادی کرنے کا ذکر آیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں یوں ذکر ہوا ہے کہ یوسف نے ایک عورت کو دیکھا جو کہہ رہی تھی کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اطاعت کی وجہ سے غلام کو بادشاہ اور بادشاہ کو معصیت کی وجہ سے غلام بنا دیا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو کہا میں زلیخا ہوں اور یوں اس کے ساتھ شادی کی۔<ref> قطب‌ الدین راوندی، قصص‌ الانبیاء، 1430ھ، ص351.</ref> [[سید نعمت‌ الله جزایری]] کا کہنا ہے کہ زلیخا جناب یوسفؑ کی [[دعا]] کی بدولت جوان ہوئی اور پھر آپ نے اس سے شادی کی۔<ref> جزایری، النورالمبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، 1423ھ، ص234.</ref> لیکن بعض نے ان روایات پر تحقیق کرنے کے بعد ان روایات کو مخدوش اور ناقابل قبول قرار دیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: معارف و دیگران، «بررسی روایات تفسیري فریقین در مسئلۀ ازدواج حضرت یوسف با زلیخا»، ص7تا32. </ref> بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت یوسف کے دونوں بیٹے (مِنشا و افرایم یا اِفرائیم) زلیخا سے تھے۔<ref>مقدسی، البدء و التاريخ، بور سعید، ج3، ص69؛ ابن کثیر، البداية و النهاية، 1407ھ، ج1، ص210؛https://pasokh.org/fa/Question/View/73787/آيا-از-فرزندان-و-نوادگان-حضرت-يوسف-ـ-عليه-السلام-ـ-پيامبر-هم-شد-و-اصلاً-يوسف-ـ-عليه-السلام-ـ-فرزند-داشته-است </ref>


[[ملف:یوسف نبی.jpg|تصغیر|280px|جناب یوسف کی جائے ولادت اور نبوت کا نقشہ]]
[[ملف:یوسف نبی.jpg|تصغیر|280px|جناب یوسف کی جائے ولادت اور نبوت کا نقشہ]]
سطر 86: سطر 86:
==ارتکاب تَرک اولی==
==ارتکاب تَرک اولی==
{{مزید|ترک اولی}}
{{مزید|ترک اولی}}
سورہ یوسف کی [[آیت]] 42 کے مطابق، جب حضرت یوسفؑ زندان میں تھے تو اس وقت ایک قیدی کو آزادی کی خبر دی اور کہا: بادشاہ کے پاس میری بے گناہی کو بیان کرو، لیکن [[شیطان]] نے اسے بھلا دیا اور اسی وجہ سے مزید کئی سال تک حضرت یوسفؑ زندان میں رہے۔ اس بارے میں مفسروں کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ شیطان نے حضرت یوسف کے ذہن سے [[خدا]] کی یاد کو بھلا دیا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ [[شیطان]] کی وجہ سے وہ قیدی بھول گیا اور جناب یوسفؑ کی بے گناہی کو بادشاہ کے پاس بیان نہ کرسکے۔ علامہ طباطبائی پہلے نظریئے کو قرآن کے ساتھ سازگار نہیں سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ایک طرف سے قرآن مجید میں جناب یوسفؑ کو مخلصین میں سے قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان کسی بھی صورت میں مخلصوں کے ذہن میں نفوذ نہیں کر سکتا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۱۸۱.</ref>
سورہ یوسف کی [[آیت]] 42 کے مطابق، جب حضرت یوسفؑ زندان میں تھے تو اس وقت ایک قیدی کو آزادی کی خبر دی اور کہا: بادشاہ کے پاس میری بے گناہی کو بیان کرو، لیکن [[شیطان]] نے اسے بھلا دیا اور اسی وجہ سے مزید کئی سال تک حضرت یوسفؑ زندان میں رہے۔ اس بارے میں مفسروں کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا کہنا ہے کہ شیطان نے حضرت یوسف کے ذہن سے [[خدا]] کی یاد کو بھلا دیا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ [[شیطان]] کی وجہ سے وہ قیدی بھول گیا اور جناب یوسفؑ کی بے گناہی کو بادشاہ کے پاس بیان نہ کرسکے۔ علامہ طباطبائی پہلے نظریئے کو قرآن کے ساتھ سازگار نہیں سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ایک طرف سے قرآن مجید میں جناب یوسفؑ کو مخلصین میں سے قرار دیا گیا ہے اور دوسری طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ شیطان کسی بھی صورت میں مخلصوں کے ذہن میں نفوذ نہیں کر سکتا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص181.</ref>
{{یادداشت|[[سورہ حجر]] آیات ۳۹و۴۰ {{عربی|...لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ* إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ.}} تو میں بھی زمین میں ان (بندوں) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا۔  سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔}}
{{یادداشت|[[سورہ حجر]] آیات 39و40 {{عربی|...لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ* إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ.}} تو میں بھی زمین میں ان (بندوں) کے لئے گناہوں کو خوشنما بناؤں گا اور سب کو گمراہ کروں گا۔  سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔}}
بہر حال مفسروں نے جناب یوسفؑ کے عمل کو [[ترک اولی]] سے تعبیر کیا ہے؛ کیونکہ انبیاء اور وہ لوگ جو [[توحید]] کے اعلی مراتب پر فائز ہیں ان سے اسی مقدار میں دنیوی اسباب سے [[توسل|متوسل]] ہونا مناسب نہیں ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،۱۳۷۴ش، ج۹، ص۴۱۴.</ref>
بہر حال مفسروں نے جناب یوسفؑ کے عمل کو [[ترک اولی]] سے تعبیر کیا ہے؛ کیونکہ انبیاء اور وہ لوگ جو [[توحید]] کے اعلی مراتب پر فائز ہیں ان سے اسی مقدار میں دنیوی اسباب سے [[توسل|متوسل]] ہونا مناسب نہیں ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،1374شمسی، ج9، ص414.</ref>


==یوسف کا قصہ اور قرآن و توریت کا باہمی فرق==
==یوسف کا قصہ اور قرآن و توریت کا باہمی فرق==
علامہ طباطبائی کے نقل کے مطابق قرآن مجید کے برخلاف،<ref> سورہ یوسف، آیہ ۴.</ref> توریت میں یوں آیا ہے کہ جناب یوسفؑ نے چاند، سورج اور ستاروں کا [[سجدہ]] کرنے کے خواب کو اپنے بھائیوں سے بیان کر دیا اور انہوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں بعد میں یہ ہم پر حاکم نہ بنے، [[حسد]] کرنے لگے۔ نیز توریت کے مطابق جب خواب کو اپنے باپ سے نقل کیا تو جناب یعقوبؑ غصہ ہوئے اور کہا: کیا میں، تمہاری ماں اور گیارہ بھائی تمہیں سجدہ کریں گے؟!<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ۲۶۱.</ref>
علامہ طباطبائی کے نقل کے مطابق قرآن مجید کے برخلاف،<ref> سورہ یوسف، آیہ 4.</ref> توریت میں یوں آیا ہے کہ جناب یوسفؑ نے چاند، سورج اور ستاروں کا [[سجدہ]] کرنے کے خواب کو اپنے بھائیوں سے بیان کر دیا اور انہوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں بعد میں یہ ہم پر حاکم نہ بنے، [[حسد]] کرنے لگے۔ نیز توریت کے مطابق جب خواب کو اپنے باپ سے نقل کیا تو جناب یعقوبؑ غصہ ہوئے اور کہا: کیا میں، تمہاری ماں اور گیارہ بھائی تمہیں سجدہ کریں گے؟!<ref> طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، 261.</ref>


دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کے مطابق، یوسف کے بھائیوں نے آپؑ کو اپنے ساتھ صحرا لے جانے کی جناب یعقوب سے درخواست کی اور حضرت یعقوب نے آپؑ کو صحرا بھیج دیا،<ref> سورہ یوسف، آیہ ۱۲.</ref> لیکن توریت کے مطابق جناب یعقوب نے خود ہی جناب یوسفؑ سے کہا کہ بھائیوں کے ساتھ صحرا چلا جائے تاکہ بھائیوں اور گوسفندوں کی خیریت دریافت کر سکے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۱، ص۲۶۱.</ref>
دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کے مطابق، یوسف کے بھائیوں نے آپؑ کو اپنے ساتھ صحرا لے جانے کی جناب یعقوب سے درخواست کی اور حضرت یعقوب نے آپؑ کو صحرا بھیج دیا،<ref> سورہ یوسف، آیہ 12.</ref> لیکن توریت کے مطابق جناب یعقوب نے خود ہی جناب یوسفؑ سے کہا کہ بھائیوں کے ساتھ صحرا چلا جائے تاکہ بھائیوں اور گوسفندوں کی خیریت دریافت کر سکے۔<ref> طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج11، ص261.</ref>


==وفات و محل دفن==
==وفات و محل دفن==
[[ملف:یوسف پیامبر...jpg|190px|تصغیر|پوسٹر[[فیلم یوسف پیغمبر]]]]
[[ملف:یوسف پیامبر...jpg|190px|تصغیر|پوسٹر[[فیلم یوسف پیغمبر]]]]
چوتھی صدی ہجری کے مورخ [[علی بن حسین مسعودی|مسعودی]] کے مطابق جناب یوسفؑ کی عمر 120 سال تھی۔ اور رحلت کے وقت اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہوئی کہ جو نور اور حکمت ہاتھ میں ہے اسے ببرز بن لاوی بن یعقوب کے حوالے کرے۔ اس وقت آپؑ نے ببرز بن لاوی اور بنی اسرائیل کے 80 مردوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ عنقریب ایک گروہ تم پر غالب آئے گا اور تمہیں سخت عذاب سے دوچار کرے گا، یہاں تک کہ لاوی کی اولاد میں سے موسی نامی انسان کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا۔<ref> مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۷۴.</ref>  
چوتھی صدی ہجری کے مورخ [[علی بن حسین مسعودی|مسعودی]] کے مطابق جناب یوسفؑ کی عمر 120 سال تھی۔ اور رحلت کے وقت اللہ تعالی کی طرف سے وحی ہوئی کہ جو نور اور حکمت ہاتھ میں ہے اسے ببرز بن لاوی بن یعقوب کے حوالے کرے۔ اس وقت آپؑ نے ببرز بن لاوی اور بنی اسرائیل کے 80 مردوں کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ عنقریب ایک گروہ تم پر غالب آئے گا اور تمہیں سخت عذاب سے دوچار کرے گا، یہاں تک کہ لاوی کی اولاد میں سے موسی نامی انسان کے ذریعے تمہاری مدد کرے گا۔<ref> مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص74.</ref>  
جناب یوسف کی وفات کے بعد، ہر گروہ آپ کو اپنے محلے میں دفن کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اختلاف سے بچنے کے لیے آپ کو مرمر کے ایک صندوق میں رکھ کر دیائے نیل میں دفن کیا۔ کئی سالوں کے بعد حضرت موسی نے آپ کے جنازے کو وہاں سے نکال دیا۔<ref> مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۷۵.</ref> چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے مورخ یاقوت حَمَوی کے مطابق آپ کو [[فلسطین]] میں دفن کیا گیا۔<ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۱، ص۴۷۸.</ref>
جناب یوسف کی وفات کے بعد، ہر گروہ آپ کو اپنے محلے میں دفن کرنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اختلاف سے بچنے کے لیے آپ کو مرمر کے ایک صندوق میں رکھ کر دیائے نیل میں دفن کیا۔ کئی سالوں کے بعد حضرت موسی نے آپ کے جنازے کو وہاں سے نکال دیا۔<ref> مسعودی، اثبات الوصیۃ، 1384شمسی، ص75.</ref> چھٹی اور ساتویں صدی ہجری کے مورخ یاقوت حَمَوی کے مطابق آپ کو [[فلسطین]] میں دفن کیا گیا۔<ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج1، ص478.</ref>


==ہنری آثار==
==ہنری آثار==
حضرت یوسف کا قصہ ہنری آثار، جیسے نقاشی، کاشی کاری، ادبیات، سینما اور ٹی وی پر بھی منعکس ہوتا رہا ہے۔ اور سنہ 2008ء میں ایک ٹی وی سیریل کی شکل میں یوسف پیغمبر کے نام سے نشر ہوا۔<ref>[http://vista.ir/article/351963 «چهار سال با یوسف پیامبر»، وبگاه ویستا، تاریخ بازدید: ۱۱ شهریور ۱۳۹۸.]</ref>  
حضرت یوسف کا قصہ ہنری آثار، جیسے نقاشی، کاشی کاری، ادبیات، سینما اور ٹی وی پر بھی منعکس ہوتا رہا ہے۔ اور سنہ 2008ء میں ایک ٹی وی سیریل کی شکل میں یوسف پیغمبر کے نام سے نشر ہوا۔<ref>[http://vista.ir/article/351963 «چهار سال با یوسف پیامبر»، وبگاه ویستا، تاریخ بازدید: 11 شهریور 1398.]</ref>  
آٹھویں صدی ہجری کے ایرانی شاعر [[حافظ شیرازی]] نے اپنے مندرجہ ذیل شعر میں ان کی داستان کی طرف اشارہ کیا ہے:
آٹھویں صدی ہجری کے ایرانی شاعر [[حافظ شیرازی]] نے اپنے مندرجہ ذیل شعر میں ان کی داستان کی طرف اشارہ کیا ہے:


{{شعر2
{{شعر2
| یوسف گم ‌گشتہ باز آید بہ کنعان غم مخور|کلبہ احزان شود روزی گلستان غم مخور
| یوسف گم ‌گشتہ باز آید بہ کنعان غم مخور|کلبہ احزان شود روزی گلستان غم مخور
<ref>[https://ganjoor.net/hafez/ghazal/sh255/ حافظ، غزلیات، غزل ۲۵۵]</ref> }}
<ref>[https://ganjoor.net/hafez/ghazal/sh255/ حافظ، غزلیات، غزل 255]</ref> }}


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 116: سطر 116:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن‌ طاووس، علی بن موسی، المجتنی من الدعاء المجتبی، قم،‌ دار الذخائر، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
* ابن‌ طاووس، علی بن موسی، المجتنی من الدعاء المجتبی، قم،‌ دار الذخائر، چاپ اول، 1411ھ۔
* ابن‌ کثیر، قصص‌ الانبیاء و اخبار الماضین (خلاصۃ تاریخ ابن‌ کثیر)، تدوین محمد بن احمد کنعان، بیروت، مؤسسۃ المعارف، چاپ اول، ۱۴۱۶ق/۱۹۹۶ء۔
* ابن‌ کثیر، قصص‌ الانبیاء و اخبار الماضین (خلاصۃ تاریخ ابن‌ کثیر)، تدوین محمد بن احمد کنعان، بیروت، مؤسسۃ المعارف، چاپ اول، 1416ق/1996ء۔
* بلاغی، صدر الدین، قصص قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ ہفدہم، ۱۳۸۰ھ۔
* بلاغی، صدر الدین، قصص قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ ہفدہم، 1380ھ۔
* [http://vista.ir/article/351963) «چہار سال با یوسف پیامبر»، وبگاہ ویستا، تاریخ بازدید: ۱۱ شہریور ۱۳۹۸].
* [http://vista.ir/article/351963) «چہار سال با یوسف پیامبر»، وبگاہ ویستا، تاریخ بازدید: 11 شہریور 1398].
* جزایری، نعمت‌ اللہ، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، بیروت، دار الاضوا، چاپ دوم، ۱۴۲۳ھ۔
* جزایری، نعمت‌ اللہ، النور المبین فی قصص الانبیاء و المرسلین، بیروت، دار الاضوا، چاپ دوم، 1423ھ۔
*[https://ganjoor.net/hafez/ghazal/sh255/ حافظ شیرازی، شمس‌ الدین محمد، غزلیات حافظ، غزل ۲۵۵، وبگاہ گنجور، تاریخ بازدید ۳۱ شہریور ۱۳۹۸شمسی ہجری۔]
*[https://ganjoor.net/hafez/ghazal/sh255/ حافظ شیرازی، شمس‌ الدین محمد، غزلیات حافظ، غزل 255، وبگاہ گنجور، تاریخ بازدید 31 شہریور 1398شمسی ہجری۔]
* صحفی، سید محمد، قصہ‌ہای قرآن، قم، اہل بیت، چاپ دوم، ۱۳۷۹شمسی ہجری۔
* صحفی، سید محمد، قصہ‌ہای قرآن، قم، اہل بیت، چاپ دوم، 1379شمسی ہجری۔
* ضیاء آبادی، محمد، تفسیر سورہ یوسف، تہران، موسسہ بنیاد خیریہ الزہرا(علیہا السلام)، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
* ضیاء آبادی، محمد، تفسیر سورہ یوسف، تہران، موسسہ بنیاد خیریہ الزہرا(علیہا السلام)، 1388شمسی ہجری۔
* طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ھ۔
* طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فى تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
* قطب‌ الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص‌ الانبیاء الحاوی لاحادیث کتاب النبوہ للشیخ الصدوق، قم، انتشارات علامہ مجلسی، ۱۳۸۸شمسی ہجری۔
* قطب‌ الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص‌ الانبیاء الحاوی لاحادیث کتاب النبوہ للشیخ الصدوق، قم، انتشارات علامہ مجلسی، 1388شمسی ہجری۔
* مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، قم، اسماعیلیان، چاپ سوم، ۱۳۸۴شمسی ہجری۔
* مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، قم، اسماعیلیان، چاپ سوم، 1384شمسی ہجری۔
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴شمسی ہجری۔
* مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1374شمسی ہجری۔
* یاقوت حموی، معجم‌ البلدان، بیروت دار صادر، چاپ دوم، ۱۹۹۵ء۔
* یاقوت حموی، معجم‌ البلدان، بیروت دار صادر، چاپ دوم، 1995ء۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم