"نہج البلاغہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←مضامین
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مضامین) |
||
سطر 56: | سطر 56: | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
نہج البلاغہ کے مختلف قلمی نسخوں میں اختلاف کے پیش نظر نہج البلاغہ کے خطبوں، خطوط اور مواعظ کی ترتیب اور نمبروں میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کتاب {{حدیث|المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ}} کے مطابق خطبات 241، مکاتیب 79 اور کلمات قصار 480 کی تعداد میں ہیں۔<ref> رجوع کریں: محمدی، سید کاظم اور دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: مطبعہ نشر امام علیؑ، 1369۔</ref> اسی طرح کتاب کے مقدمے میں مذکور ہے کہ مختلف فصول کے درمیان عدم یکسانیت کا لحاظ کئے بغیر ترتیب دیا گیا ہے۔ کلام امیر المومنین میں صرف موجود بلاغت اور پسندیدگی کی بنا پر اسے جمع کیا گیا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ فصول کے درمیان عدم یکسانیت یا نظم نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض کلمات میں شک و تردید کی وجہ سے انہیں مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔<ref> نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۳.</ref> | نہج البلاغہ کے مختلف قلمی نسخوں میں اختلاف کے پیش نظر نہج البلاغہ کے خطبوں، خطوط اور مواعظ کی ترتیب اور نمبروں میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کتاب {{حدیث|المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ}} کے مطابق خطبات 241، مکاتیب 79 اور کلمات قصار 480 کی تعداد میں ہیں۔<ref> رجوع کریں: محمدی، سید کاظم اور دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: مطبعہ نشر امام علیؑ، 1369۔</ref> اسی طرح کتاب کے مقدمے میں مذکور ہے کہ مختلف فصول کے درمیان عدم یکسانیت کا لحاظ کئے بغیر ترتیب دیا گیا ہے۔ کلام امیر المومنین میں صرف موجود بلاغت اور پسندیدگی کی بنا پر اسے جمع کیا گیا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ فصول کے درمیان عدم یکسانیت یا نظم نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض کلمات میں شک و تردید کی وجہ سے انہیں مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔<ref> نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۳.</ref> | ||
=== خطبات === | |||
نہج البلاغہ اسلامی ثقافت اور تعلیمات کا ایک ایسا اسلامی دائرۃ المعارف ہے جو خدا شناسی [[توحید]]، [[ملائکہ|ملائکہ کی دنیا]]، [[خلقت کائنات]]، [[انسانی فطرت]]، امتوں، نیکوکار اور ستمگر حکومتوں پر بحث کرتا ہے تاہم اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین علیہ السلام]] کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تفہیم اور تدریس مقصود نہیں تھا۔<ref> شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ی د۔</ref> | |||
کلام امیر المومنین اس طرح کے موضوعات بیان کرنے میں [[قرآن کریم]] کی مانند ہے جس طرح [[قرآن پاک]] ان موضوعات کو موعظہ و نصیحت کی زبان میں محسوس یا معقول بیان کے ساتھ روشن اور قابل ادراک نمونوں کی صورت میں پڑھنے والے کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر قدم بقدم اگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ اس منزل یعنی [[اللہ]] کی درگاہ کی جانب آستان [[پروردگار]] یکتا کی جانب لے جاتا ہے جہاں اسے پہنچنا چاہئے۔ | |||
جہاں آسمان، زمین و آفتاب اور چاند، تاروں اور پہاڑوں کی خلقت کی بات آتی ہے، آپؑ نصیحت کی زبان میں سکھا دیتے ہیں کہ جو کچھ خالق نے مخلوقات کو عطا کیا ہے، خیر ہی خیر ہے لیکن ناشکرا انسان اتنی ساری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور راہ خدا کو چھوڑ کر راہ شیطان کی طرف بھاگتا ہے اور اللہ کی بخشش و عطاء کو شرانگیزیوں و فتنہ انگیزیوں میں صرف کر دیتا ہے اور چونکہ اس میں گذشتہ قوام و امم کی داستانوں کا تذکرہ ہے، چنانچہ آپ ان کے توسط سے حاضرین کو تعلیم دیتے ہیں کہ زمانہ آئینۂ عبرت ہے جس میں ماضی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے والا کون ہے؟ دیکھو دنیا سے گذرنے والی اور زیر خاک سوجانے والی امتوں کو، کیا دیکھا انھوں نے اور کیا کیا انھوں نے، ان کے نیک کاموں کی [[تقلید]] کرو اور ان بھونڈے افعال سے پرہیز کرو جو ان کی نابودی کا سبب ہوئے۔<ref> وہی ماخذ۔</ref> | |||
{{جعبہ نقل قول | {{جعبہ نقل قول | ||
| عنوان = '''امام علی علیہ السلام''': | | عنوان = '''امام علی علیہ السلام''': | ||
سطر 67: | سطر 74: | ||
| اندازه قلم = | | اندازه قلم = | ||
}} | }} | ||
ان نصائح کے ضمن میں کبھی اپنے [[اصحاب]] پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے حال اور کردار کے بارے میں متفکر ہو جاتے ہیں؛ اچانک غم و اندوہ اور افسوس کا بھاری بھرکم پہاڑ آ گرتا ہے اور یہ وہ موقع ہے جب آپ اپنی حقیقت بین نگاہیں اپنے منبر تلے بیٹھے سامعین پر سے پلٹا کر دور کے افق پر جما لیتے ہیں، عصر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدیؐ]] کے افق پر، جہاں آپؐ کے پاک دل اصحاب خدا اور روز [[قیامت]] پر یقین کی بنا پر نصرت دین کو اپنے دنیاوی مفادات پر مقدم رکھتے تھے، ایک بار حاضرین و سامعین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور دیکھتے تھے کہ اس دور سے اب تک 30 سال سے زیادہ مدت نہیں گذری ہے، یہ اچانک کیا ہوا کہ اس مختصر سی مدت میں نام کے [[مسلمان]] حقیقی مسلمانوں کے مسند پر براجماں ہوئے ہیں؟ وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو بانہیں اپنی جانب پھیلا کر مسکراتے ہوئے دیکھا تو خدا کو فراموش کرکے اپنے امام کی نافرمانی کر بیٹھے! وہ لوگ ـ جو سر اٹھا کر فخر کرتے اور کہا کرتے تھے کہ "ہم نے خدا کی راہ میں [[شہید|شہیدوں]] کی قربانی دی ہے اور ہم بھی [[شہادت]] کے آرزومند ہیں"، ـ کہاں چلے گئے؟ یہ میرے گرد جمع ہونے والے تن آسانی اور راحت طلبی کو راہ خدا میں مارے جانے پر ترجیح کیوں دینے لگے ہیں؟ اور وہ یہ دینی فریضہ دوسروں پر عائد کرنے کی کوششیں کیوں کرنے لگے ہیں؟ [یہ دیکھ کر] آپ صدر اول کے مسلمانوں کے ایثار اور مساوات [و مواسات] کے مناظر کی جانب پلٹتے ہیں جو دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور مال دنیا کی آلودگیوں پاک رہنے کی تدبیروں میں مگن نظر آتے تھے؛ [اور اپنے آپ سے پوچھتے تھے کہ] یہ سب اس قدر مال اندوز اور دنیا پرست کیوں ہوئے ہیں؟ یہ نمونے اور دسوں دوسرے نمونے [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کے خطبات کے مضامین و محتویات کو تشکیل دیتے ہیں۔<ref> شہیدی، وہی ماخذ، صص: ی د، ی ہ۔</ref> | ان نصائح کے ضمن میں کبھی اپنے [[اصحاب]] پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے حال اور کردار کے بارے میں متفکر ہو جاتے ہیں؛ اچانک غم و اندوہ اور افسوس کا بھاری بھرکم پہاڑ آ گرتا ہے اور یہ وہ موقع ہے جب آپ اپنی حقیقت بین نگاہیں اپنے منبر تلے بیٹھے سامعین پر سے پلٹا کر دور کے افق پر جما لیتے ہیں، عصر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدیؐ]] کے افق پر، جہاں آپؐ کے پاک دل اصحاب خدا اور روز [[قیامت]] پر یقین کی بنا پر نصرت دین کو اپنے دنیاوی مفادات پر مقدم رکھتے تھے، ایک بار حاضرین و سامعین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور دیکھتے تھے کہ اس دور سے اب تک 30 سال سے زیادہ مدت نہیں گذری ہے، یہ اچانک کیا ہوا کہ اس مختصر سی مدت میں نام کے [[مسلمان]] حقیقی مسلمانوں کے مسند پر براجماں ہوئے ہیں؟ وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو بانہیں اپنی جانب پھیلا کر مسکراتے ہوئے دیکھا تو خدا کو فراموش کرکے اپنے امام کی نافرمانی کر بیٹھے! وہ لوگ ـ جو سر اٹھا کر فخر کرتے اور کہا کرتے تھے کہ "ہم نے خدا کی راہ میں [[شہید|شہیدوں]] کی قربانی دی ہے اور ہم بھی [[شہادت]] کے آرزومند ہیں"، ـ کہاں چلے گئے؟ یہ میرے گرد جمع ہونے والے تن آسانی اور راحت طلبی کو راہ خدا میں مارے جانے پر ترجیح کیوں دینے لگے ہیں؟ اور وہ یہ دینی فریضہ دوسروں پر عائد کرنے کی کوششیں کیوں کرنے لگے ہیں؟ [یہ دیکھ کر] آپ صدر اول کے مسلمانوں کے ایثار اور مساوات [و مواسات] کے مناظر کی جانب پلٹتے ہیں جو دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور مال دنیا کی آلودگیوں پاک رہنے کی تدبیروں میں مگن نظر آتے تھے؛ [اور اپنے آپ سے پوچھتے تھے کہ] یہ سب اس قدر مال اندوز اور دنیا پرست کیوں ہوئے ہیں؟ یہ نمونے اور دسوں دوسرے نمونے [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کے خطبات کے مضامین و محتویات کو تشکیل دیتے ہیں۔<ref> شہیدی، وہی ماخذ، صص: ی د، ی ہ۔</ref> |