"بت شکنی کا واقعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 2: | سطر 2: | ||
{{دربارہ 2|واقعہ کسر اصنام| اسی نام سے ایک کتاب |کسر اصنام الجاهلیۃ (کتاب)}} | {{دربارہ 2|واقعہ کسر اصنام| اسی نام سے ایک کتاب |کسر اصنام الجاهلیۃ (کتاب)}} | ||
'''بت شکنی کا واقعہ''' یا '''کَسْرِ اَصْنام کا واقعہ'''، اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں کعبہ میں موجود بت امام علیؑ کے ہاتھوں توڑے گئے۔ اس واقعے میں [[پیغمبر اسلامؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] کو [[کعبہ]] کے بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور آپؑ نے ھبل جیسے بتوں کو نیچے گرایا۔ یہ واقعہ، [[شیعہ]] و [[اہل سنت]] دونوں کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اور یہ [[لیلۃ المبیت]] (جس رات رسول اللہؐ مکہ سے چلے گئے اور امام علیؑ آپ کے بستر پر سوتے رہے) یا [[فتح مکہ]] کے موقع پر پیش آیا۔ | '''بت شکنی کا واقعہ''' یا '''کَسْرِ اَصْنام کا واقعہ'''، اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں کعبہ میں موجود بت امام علیؑ کے ہاتھوں توڑے گئے۔ اس واقعے میں [[پیغمبر اسلامؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] کو [[کعبہ]] کے بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور آپؑ نے ھبل جیسے بتوں کو نیچے گرایا۔ یہ واقعہ، [[شیعہ]] و [[اہل سنت]] دونوں کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اور یہ [[لیلۃ المبیت]] (جس رات رسول اللہؐ مکہ سے چلے گئے اور امام علیؑ آپ کے بستر پر سوتے رہے) یا [[فتح مکہ]] کے موقع پر پیش آیا۔ | ||
بت شکنی کا واقعہ قرآن مجید کی آیات {{ | بت شکنی کا واقعہ قرآن مجید کی آیات {{عربی|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَهوقًا»}} اور {{عربی|«وَ رَفَعْناهُ مَكاناً عَلِيًّا»}} کا سبب نزول بھی شمار ہوتا ہے۔ اس واقعے کے بعد رسول اللہؐ نے حضرت ابراہیم کو سب سے پہلا بت شکن اور امام علیؐ کو آخری بت شکن کے طور پر معرفی کیا ہے۔ بعض روایات میں «کسر الاصنام» (بتوں کو توڑنے والا) کے لقب سے یاد کیا ہے۔ | ||
بت شکنی، [[فضائل علی]] میں شمار ہوتی ہے۔ [[دوسرے خلیفہ]] کے بعد [[خلیفہ]] معین کرنے والی [[چھ رکنی شورا]] میں حضرت علیؑ نے اپنی بت شکنی سے استدلال کیا۔ اسی طرح اہل سنت کے بعض منابع میں [[گناہ]] کے وسائل کو نابود کرنے کے لزوم پر اسی واقعہ سے استدلال ہوا ہے۔ | بت شکنی، [[فضائل علی]] میں شمار ہوتی ہے۔ [[دوسرے خلیفہ]] کے بعد [[خلیفہ]] معین کرنے والی [[چھ رکنی شورا]] میں حضرت علیؑ نے اپنی بت شکنی سے استدلال کیا۔ اسی طرح اہل سنت کے بعض منابع میں [[گناہ]] کے وسائل کو نابود کرنے کے لزوم پر اسی واقعہ سے استدلال ہوا ہے۔ | ||
سطر 11: | سطر 11: | ||
بام کعبہ سے حضرتؑ کے نیچے آنے کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ کچھ احادیث کے مطابق حضرتؑ، کعبہ کی چھت سے کودے اور اس وقت کعبہ کی چھت چالیس زراع{{نوٹ| ہر زراع کو 45 سے 75 سینٹی میٹر تک بیان کیا گیا ہے۔(عاملی بیاضی، الأوزان و المقادیر، ۱۳۸۱ھ، ص۵۶۔)}} کی ہوتی تھی<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۴۱۔</ref> لیکن آپ کو کوئی چوٹ نہیں لگی۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸۔</ref> دوسرے نقل کے مطابق، رسول خداؐ نے علیؑ سے فرمایا کہ [[جبرئیل]] نے تمہیں کعبہ کی چھت سے نیچے اتارا۔<ref> بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۸۰۔</ref> | بام کعبہ سے حضرتؑ کے نیچے آنے کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ کچھ احادیث کے مطابق حضرتؑ، کعبہ کی چھت سے کودے اور اس وقت کعبہ کی چھت چالیس زراع{{نوٹ| ہر زراع کو 45 سے 75 سینٹی میٹر تک بیان کیا گیا ہے۔(عاملی بیاضی، الأوزان و المقادیر، ۱۳۸۱ھ، ص۵۶۔)}} کی ہوتی تھی<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۴۱۔</ref> لیکن آپ کو کوئی چوٹ نہیں لگی۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸۔</ref> دوسرے نقل کے مطابق، رسول خداؐ نے علیؑ سے فرمایا کہ [[جبرئیل]] نے تمہیں کعبہ کی چھت سے نیچے اتارا۔<ref> بحرانی، البرہان، ۱۴۱۵ھ، ج۳، ص۵۸۰۔</ref> | ||
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرمؐ اس موقع پر آیہ {{ | کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرمؐ اس موقع پر آیہ {{عربی|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَهوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ۸۱۔</ref> کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ج۳، ص۶۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> اسی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ {{عربی|«وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»}}<ref>سورہ مریم، آیہ ۵۷۔</ref> اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> | ||
بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref> برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابیطالب(ع)، بیتا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اور ابو مریم<ref> برای نمونہ: ابن ابیشیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۱۸–۲۴۔</ref> | بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref> برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابیطالب(ع)، بیتا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اور ابو مریم<ref> برای نمونہ: ابن ابیشیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابییعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۱۸–۲۴۔</ref> |