"امام حسین علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←واقعۂ کربلا
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 254: | سطر 254: | ||
{{اصلی|واقعہ کربلا}} | {{اصلی|واقعہ کربلا}} | ||
واقعہ کربلا جہاں حسین بن علیؑ اور ان کے اصحاب و انصار کی شہادت ہوئی؛ آپ کی زندگی کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔ بعض گزارشات کے مطابق عراق کی جانب روانہ ہونے سے پہلے امام حسینؑ نے اپنی شہادت کی خبر دی تھی۔{{نوٹ|[[لہوف]] میں ذکر ہوا ہے کہ امام حسینؑ نے عراق کی جانب ورانہ ہونے سے پہلے رسول اللہؑ کو (خواب میں) دیکھا اور آنحضرتؐ نے فرمایا:{{حدیث|«إنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ یَرَاکَ قَتِیلا»}} یعنی؛ اللہ تعالی تمہیں مقتول دیکھنا چاہا ہے۔(ابن طاوس، لہوف، 1348، ص65.) اسی طرح ایک اور کتاب میں آیا ہے کہ عراق کی سمت روانگی سے پہلے آپؑ نے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرا کے بھیڑئے نواویس اور [[کربلا]] کے درمیان مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ (اربلی، كشف الغمۃ، 1421، ج1، ص573.)}} یہ واقعہ یزید کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوا۔ امام حسین، کوفہ والوں کی وعوت پر اپنے گھر والے اور اصحاب کے ساتھ کوفہ کی جانب سفر پر نکلے تھے، [[ذو حسم]] نامی جگہ پر [[حر بن یزید ریاحی]] کی سربراہی میں ایک لشکر کے رو برو ہوئے اور اپنا راستہ کوفہ سے کربلا کی جانب تبدیل دینے پر مجبور ہوئے۔<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص408، مسکویہ، تجارب الامم، 1379، ج2، ص67؛ ابن اثیر، الکامل، 1965، ج4، ص51.</ref> | واقعہ کربلا جہاں حسین بن علیؑ اور ان کے اصحاب و انصار کی شہادت ہوئی؛ آپ کی زندگی کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔ بعض گزارشات کے مطابق عراق کی جانب روانہ ہونے سے پہلے امام حسینؑ نے اپنی شہادت کی خبر دی تھی۔{{نوٹ|[[لہوف]] میں ذکر ہوا ہے کہ امام حسینؑ نے عراق کی جانب ورانہ ہونے سے پہلے رسول اللہؑ کو (خواب میں) دیکھا اور آنحضرتؐ نے فرمایا:{{حدیث|«إنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ یَرَاکَ قَتِیلا»}} یعنی؛ اللہ تعالی تمہیں مقتول دیکھنا چاہا ہے۔(ابن طاوس، لہوف، 1348، ص65.) اسی طرح ایک اور کتاب میں آیا ہے کہ عراق کی سمت روانگی سے پہلے آپؑ نے ایک خطبہ دیا اور فرمایا: میں دیکھ رہا ہوں کہ صحرا کے بھیڑئے نواویس اور [[کربلا]] کے درمیان مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں۔ (اربلی، كشف الغمۃ، 1421، ج1، ص573.)}} یہ واقعہ یزید کی بیعت نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہوا۔ امام حسین، کوفہ والوں کی وعوت پر اپنے گھر والے اور اصحاب کے ساتھ کوفہ کی جانب سفر پر نکلے تھے، [[ذو حسم]] نامی جگہ پر [[حر بن یزید ریاحی]] کی سربراہی میں ایک لشکر کے رو برو ہوئے اور اپنا راستہ کوفہ سے کربلا کی جانب تبدیل دینے پر مجبور ہوئے۔<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص408، مسکویہ، تجارب الامم، 1379، ج2، ص67؛ ابن اثیر، الکامل، 1965، ج4، ص51.</ref> | ||
{{جعبہ نقل قول | |||
{{ | | عنوان = '''امام حسین علیہ السلام''' | ||
| | | نویسنده =امام حسینؑ | ||
| نقل قول = {{حدیث|و علی الإسلام السلام اذا بُلیت الاُمّۃ براعٍ مثل یزید|ترجمہ=اگر امت کے لیے یزید جیسا حاکم بنے، تو [[اسلام]] کا فاتحہ پڑھنا ہوگا!}} | |||
| منبع = <small>مقتل خوارزمی،1423، ج1، ص268</small> | |||
و علی الإسلام السلام اذا بُلیت الاُمّۃ براعٍ مثل | | تراز = تراز گفتاورد (اختیاری) | ||
| | | پسزمینه = #ffeebb | ||
| عرض = 250px | |||
| حاشیه = حاشیه (اختیاری) | |||
| اندازه قلم = اندازه قلم (اختیاری) | |||
}} | }} | ||
اکثر تاریخی کتابوں کے مطابق [[2 محرم]] کو آپ کربلا پہنچے<ref> ابن اعثم الکوفی، الفتوح، 1991م، ج5، ص83؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص409؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص84؛ ابن مسکویہ، تجارب الامم، 1379، ج2، ص68.</ref>اور اس سے اگلے دن عمر بن سعد کی سربراہی میں کوفہ سے چار ہزار کا لشکر کربلا پہنچا۔<ref> دینوری، الاخبار الطوال، 1368، ص253؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص409؛ ابن اثیر، الکامل، 1965م، ج4، ص52.</ref>اس عرصے میں امام حسینؑ اور عمر سعد کے درمیان کچھ مذاکرات بھی ہوئے<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص414؛ ابن مسکویہ، تجارب الامم، 1379، ج2، ص71</ref> لیکن ابن زیاد یزید کی بیعت یا جنگ کے علاوہ کسی اور بات کے لئے تیار نہیں ہوا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص182؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص414؛ مفید، الارشاد، 1399، ج2، ص89.</ref> | اکثر تاریخی کتابوں کے مطابق [[2 محرم]] کو آپ کربلا پہنچے<ref> ابن اعثم الکوفی، الفتوح، 1991م، ج5، ص83؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص409؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج2، ص84؛ ابن مسکویہ، تجارب الامم، 1379، ج2، ص68.</ref>اور اس سے اگلے دن عمر بن سعد کی سربراہی میں کوفہ سے چار ہزار کا لشکر کربلا پہنچا۔<ref> دینوری، الاخبار الطوال، 1368، ص253؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص409؛ ابن اثیر، الکامل، 1965م، ج4، ص52.</ref>اس عرصے میں امام حسینؑ اور عمر سعد کے درمیان کچھ مذاکرات بھی ہوئے<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص414؛ ابن مسکویہ، تجارب الامم، 1379، ج2، ص71</ref> لیکن ابن زیاد یزید کی بیعت یا جنگ کے علاوہ کسی اور بات کے لئے تیار نہیں ہوا۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص182؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج5، ص414؛ مفید، الارشاد، 1399، ج2، ص89.</ref> |