مندرجات کا رخ کریں

"شہادت فاطمہ زہرا" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:
{{خانہ معلومات واقعہ
{{خانہ معلومات واقعہ
  |عنوان            = شادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
  |عنوان            = شادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
  |تصویر            = ایتہا الصدیقۃ الشہیدہ۔jpg
  |تصویر            = ایتہا الصدیقۃ الشہیدہ.jpg
  |اندازہ تصویر    = 250px
  |اندازہ تصویر    = 250px
  |توضیح تصویر      = <small> [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا]] کے [[زیارت‌ نامہ]] کا خوشخط طغرا جس میں آپ کو [[شہید|شہیدہ]] کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔</small>
  |توضیح تصویر      = <small> [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا]] کے [[زیارت‌ نامہ]] کا خوشخط طغرا جس میں آپ کو [[شہید|شہیدہ]] کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔</small>
سطر 40: سطر 40:
[[حضرت فاطمہ(س)]] کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کی رحلت فطری نہیں تھی بلکہ بعض [[صحابی|صحابہ پیغمبر]] کی طرف سے دی گئی اذیتیں، رنج و الم اور صعوبتیں آپ کی [[شہادت]] کا سبب بنیں۔ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت یا فطری رحلت [[شیعہ]] و [[سنی]] اختلاف کا موضوع ہے۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۱۴۔</ref> پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد کے واقعات کے کچھ جزئیات کے علاوہ تقریبا تمام شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی [[شہادت]] ہوئی ہے اور اس کا سبب جناب محسن علیہ السلام کے [[سقط جنین|ساقط ہونے]] کو قرار دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف [[اہل‌ سنت]] کا خیال ہے کہ آپ کی رحلت فطری طور پر اپنے پدر بزرگوار کی رحلت کے صدمہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۳، ص۴۳۱-۵۵۰۔</ref>
[[حضرت فاطمہ(س)]] کی شہادت سے مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بیٹی کی رحلت فطری نہیں تھی بلکہ بعض [[صحابی|صحابہ پیغمبر]] کی طرف سے دی گئی اذیتیں، رنج و الم اور صعوبتیں آپ کی [[شہادت]] کا سبب بنیں۔ بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت یا فطری رحلت [[شیعہ]] و [[سنی]] اختلاف کا موضوع ہے۔<ref>مہدی، الہجوم، ۱۴۲۵ق، ص۱۴۔</ref> پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی رحلت کے بعد کے واقعات کے کچھ جزئیات کے علاوہ تقریبا تمام شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی [[شہادت]] ہوئی ہے اور اس کا سبب جناب محسن علیہ السلام کے [[سقط جنین|ساقط ہونے]] کو قرار دیتے ہیں۔ اس کے برخلاف [[اہل‌ سنت]] کا خیال ہے کہ آپ کی رحلت فطری طور پر اپنے پدر بزرگوار کی رحلت کے صدمہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۳، ص۴۳۱-۵۵۰۔</ref>


شیعہ ہر سال [[ایام فاطمیہ]] میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے [[عزاداری]] کرتے ہیں۔<ref>مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۵۔</ref> اسی مناسبت سے مشہور نقل کی بنیاد پر [[۳ جمادی‌الثانی]] کو روز شہادت فاطمہ کے عنوان سے <ref> شبیری، «شہادت فاطمہ(س)»، ج۱، ص۳۴۷۔</ref>  [[ایران]] میں سرکاری چھٹی رہتی ہے۔<ref>[https://aftabnews۔ir/fa/news/126651/ «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»]، سائٹ آفتاب‌ نیوز۔</ref> اور [[انجمن عزاداری|انجمن ہائے عزاداری]] سڑکوں پر نکلتی ہیں۔<ref>نمونے کے طور پر دیکھئے: [https://www۔farsnews۔ir/photo/13971030001209/ «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»]، سائٹ  فارس خبر رساں ایجنسی؛ [https://fa۔shafaqna۔com/news/1082634/ «مراسم بزرگ عزاداری فاطمیہ با حضور۔۔۔»]، سائٹ شفقنا خبر رساں ایجنسی۔</ref> شیعہ حضرات کیونکہ [[عمر بن خطاب]] کو بی بی فاطمہ کی شہادت کا سبب مانتے ہیں لہذا عزاداری کی بہت سی مجلسوں میں اس کی مذمت کی جاتی ہے<ref> مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۶۔</ref> اور کچھ لوگ اس پر [[لعنت]] بھیجتے ہیں۔ یہی بات شیعہ سنی اختلاف کو میدان فراہم کرتا ہے۔<ref>[https://www۔mehrnews۔com/news/4765248/ «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہل‌سنت»]، سائٹ مہر خبر رساں ایجنسی</ref> شہادت فاطمہ زہرا اس بات کا سبب بھی بنا ہے کہ بعض شیعہ حضرات [[نہم ربیع الاول|9 ربیع‌ الاول]] کو کچھ روایات کی بنیاد پر عمر ابن خطاب کے مارے جانے کا دن سمجھیں اور اسے عید زہرا قرار دیں اور اس دن خوشی منائیں۔<ref>مسائلی، نہم ربیع، جہالت‌ ہا، خسارت‌ ہا، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷-۱۱۹۔</ref>
شیعہ ہر سال [[ایام فاطمیہ]] میں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے [[عزاداری]] کرتے ہیں۔<ref>مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۵۔</ref> اسی مناسبت سے مشہور نقل کی بنیاد پر [[۳ جمادی‌الثانی]] کو روز شہادت فاطمہ کے عنوان سے <ref> شبیری، «شہادت فاطمہ(س)»، ج۱، ص۳۴۷۔</ref>  [[ایران]] میں سرکاری چھٹی رہتی ہے۔<ref>[https://aftabnews.ir/fa/news/126651/ «ماجرای تعطیل شدن روز شہادت حضرت زہرا»]، سائٹ آفتاب‌ نیوز۔</ref> اور [[انجمن عزاداری|انجمن ہائے عزاداری]] سڑکوں پر نکلتی ہیں۔<ref>نمونے کے طور پر دیکھئے: [https://www.farsnews.ir/photo/13971030001209/ «حرکت دستہ عزاداری فاطمیہ مقدسہ زنجان»]، سائٹ  فارس خبر رساں ایجنسی؛ [https://fa.shafaqna.com/news/1082634/ «مراسم بزرگ عزاداری فاطمیہ با حضور۔۔۔»]، سائٹ شفقنا خبر رساں ایجنسی۔</ref> شیعہ حضرات کیونکہ [[عمر بن خطاب]] کو بی بی فاطمہ کی شہادت کا سبب مانتے ہیں لہذا عزاداری کی بہت سی مجلسوں میں اس کی مذمت کی جاتی ہے<ref> مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۶۶۔</ref> اور کچھ لوگ اس پر [[لعنت]] بھیجتے ہیں۔ یہی بات شیعہ سنی اختلاف کو میدان فراہم کرتا ہے۔<ref>[https://www.mehrnews.com/news/4765248/ «نظر مراجع تقلید دربارہ توہین بہ مقدسات اہل‌سنت»]، سائٹ مہر خبر رساں ایجنسی</ref> شہادت فاطمہ زہرا اس بات کا سبب بھی بنا ہے کہ بعض شیعہ حضرات [[نہم ربیع الاول|9 ربیع‌ الاول]] کو کچھ روایات کی بنیاد پر عمر ابن خطاب کے مارے جانے کا دن سمجھیں اور اسے عید زہرا قرار دیں اور اس دن خوشی منائیں۔<ref>مسائلی، نہم ربیع، جہالت‌ ہا، خسارت‌ ہا، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷-۱۱۹۔</ref>


=== اختلاف کا سبب ===
=== اختلاف کا سبب ===
سطر 65: سطر 65:
{{-}}
{{-}}


جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کی رحلت کے بارے میں اختلاف کا مسئلہ ایک طولانی اختلاف کا مسئلہ ہے؛ دوسری صدی ہجری کے ضرار بن عمرو کی کتاب «التحریش» میں بعض محققین سے منقول ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ فاطمہ زہرا س، عمر ابن خطاب کے حملے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔<ref>[https://www۔valiasr-aj۔com/persian/shownews۔php?idnews=12364 «آیا اعتقاد بہ شہادت و مظلومیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا دارای سابقہ تاریخی می‌باشد؟»]،  تحقیقاتی سائٹ ولی‌ عصر (عج)۔</ref> اسی طرح دوسری صدی ہجری کے متکلم، عبداللہ بن یزید فزاری اپنی کتاب «کتاب الردود» میں شیعوں کے اس عقیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فاطمہ کو بعض صحابہ کی طرف سے صدمہ ہوا اور آپ کے شکم میں محسن ساقط ہوئے۔<ref>سلیمی, Early Ibadi Theology: New Material on Rational Thought in Islam from the Pen of al-Fazārī, ص۳۳۔</ref> [[محمدحسین کاشف‌ الغطاء]] (وفات ۱۳۷۳ھ) نے لکھا ہے کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے شعراء جیسے [[کمیت بن زید اسدی|کُمیت اسدی]]، [[سید اسماعیل حمیری|سید حِمیَری]] اور [[دعبل بن علی خزاعی|دِعبِل خُزاعی]] نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اوپر ہونے والوں مظالم کو نظم کیا ہے۔<ref> کاشف‌الغطاء، جنۃ المأوی، ۱۴۲۹ھ، ص۶۲۔</ref>
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کی رحلت کے بارے میں اختلاف کا مسئلہ ایک طولانی اختلاف کا مسئلہ ہے؛ دوسری صدی ہجری کے ضرار بن عمرو کی کتاب «التحریش» میں بعض محققین سے منقول ہے کہ شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ فاطمہ زہرا س، عمر ابن خطاب کے حملے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔<ref>[https://www.valiasr-aj.com/persian/shownews.php?idnews=12364 «آیا اعتقاد بہ شہادت و مظلومیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا دارای سابقہ تاریخی می‌باشد؟»]،  تحقیقاتی سائٹ ولی‌ عصر (عج)۔</ref> اسی طرح دوسری صدی ہجری کے متکلم، عبداللہ بن یزید فزاری اپنی کتاب «کتاب الردود» میں شیعوں کے اس عقیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فاطمہ کو بعض صحابہ کی طرف سے صدمہ ہوا اور آپ کے شکم میں محسن ساقط ہوئے۔<ref>سلیمی, Early Ibadi Theology: New Material on Rational Thought in Islam from the Pen of al-Fazārī, ص۳۳۔</ref> [[محمدحسین کاشف‌ الغطاء]] (وفات ۱۳۷۳ھ) نے لکھا ہے کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے شعراء جیسے [[کمیت بن زید اسدی|کُمیت اسدی]]، [[سید اسماعیل حمیری|سید حِمیَری]] اور [[دعبل بن علی خزاعی|دِعبِل خُزاعی]] نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اوپر ہونے والوں مظالم کو نظم کیا ہے۔<ref> کاشف‌الغطاء، جنۃ المأوی، ۱۴۲۹ھ، ص۶۲۔</ref>


عبد الکریم شہرستانی (وفات: ۵۴۸ھ) کے بقول اہل سنت کے مشہور فرقہ شناس ابراہیم بن سیار عرف نَظّام معتزلی (وفات: ۲۲۱ھ) کا نظریہ تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شکم میں موجود بچہ عمر کے حملے کی وجہ سے ساقط ہوا۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref> شہرستانی کے بقول یہ عقیدہ اور نظام معتزلی کے کچھ دیگر نظریات باعث بنے کہ وہ اپنے ہمراہیوں سے فاصلہ بنائیں۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref>
عبد الکریم شہرستانی (وفات: ۵۴۸ھ) کے بقول اہل سنت کے مشہور فرقہ شناس ابراہیم بن سیار عرف نَظّام معتزلی (وفات: ۲۲۱ھ) کا نظریہ تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شکم میں موجود بچہ عمر کے حملے کی وجہ سے ساقط ہوا۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref> شہرستانی کے بقول یہ عقیدہ اور نظام معتزلی کے کچھ دیگر نظریات باعث بنے کہ وہ اپنے ہمراہیوں سے فاصلہ بنائیں۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref>
سطر 115: سطر 115:
=== قدیمی منابع میں وفات کی تعبیر===
=== قدیمی منابع میں وفات کی تعبیر===
شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ شیعوں کی قدیمی کتب میں آپ کی رحلت کے بارے میں وفات کی تعبیر استعمال ہوئی ہے نہ شہادت کی تعبیر۔ شیعہ مصنفین کے ایک گروہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ عربی زبان میں وفات کی تعبیر عام ہے جو فطری انتقال کو بھی شامل ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں کے ذریعہ دیگر اسباب کے تحت جیسے زہر کے سبب مرنے کو بھی شامل ہوتی ہے۔
شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ شیعوں کی قدیمی کتب میں آپ کی رحلت کے بارے میں وفات کی تعبیر استعمال ہوئی ہے نہ شہادت کی تعبیر۔ شیعہ مصنفین کے ایک گروہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ عربی زبان میں وفات کی تعبیر عام ہے جو فطری انتقال کو بھی شامل ہوتی ہے اور دوسرے لوگوں کے ذریعہ دیگر اسباب کے تحت جیسے زہر کے سبب مرنے کو بھی شامل ہوتی ہے۔
نمونہ کے طور پر «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا» کے مقالہ میں اس کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں؛ مثلا [[اہل‌سنت]] کے بعض منابع میں [[عمر بن خطاب|عمر]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے دنیا سے جانے کے لئے وفات کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جبکہ ان دونوں کو قتل کیا گیا تھا۔<ref>دیکھئے: محسنی، [https://rasekhoon۔net/article/show/1559653 «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»]،  راسخون سائٹ۔</ref> جیساکہ [[احمد بن علی طبرسی|طبرسی]] نے بعض جگہ [[شہادت]] [[امام حسین علیہ السلام]] کے لئے بھی لفظ وفات کا استعمال کیا ہے۔<ref>طبرسی، الاحتجاج، ج۲، ص۳۷۳، محسنی سے منقول، [https://rasekhoon۔net/article/show/1559653 «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»]،  راسخون سائٹ</ref>
نمونہ کے طور پر «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا» کے مقالہ میں اس کی مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں؛ مثلا [[اہل‌سنت]] کے بعض منابع میں [[عمر بن خطاب|عمر]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے دنیا سے جانے کے لئے وفات کی تعبیر استعمال ہوئی ہے جبکہ ان دونوں کو قتل کیا گیا تھا۔<ref>دیکھئے: محسنی، [https://rasekhoon.net/article/show/1559653 «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»]،  راسخون سائٹ۔</ref> جیساکہ [[احمد بن علی طبرسی|طبرسی]] نے بعض جگہ [[شہادت]] [[امام حسین علیہ السلام]] کے لئے بھی لفظ وفات کا استعمال کیا ہے۔<ref>طبرسی، الاحتجاج، ج۲، ص۳۷۳، محسنی سے منقول، [https://rasekhoon.net/article/show/1559653 «شہادت یا وفات حضرت زہرا سلام اللہ علیہا»]،  راسخون سائٹ</ref>


=== خلفاء سے حضرت علی کے اچھے تعلقات ===
=== خلفاء سے حضرت علی کے اچھے تعلقات ===
شہادت فاطمہ کا انکار کرنے کے لئے [[اہل‌ سنت]] کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] اور حضرت علی اور آپ کے خانوادے کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے۔ «فاطمۃ بنت النبی» نامی مفصل کتاب کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پہلے اور دوسرے خلیفہ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے بڑی محبت رکھتے تھے،<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۳۵۷، تا آخر، و ج۵ از ابتدا تا ص۸۹۔</ref> اس کے باوجود مصنف نے آخر میں نتیجہ یہی نکالا ہے کہ بی بی فاطمہ نے [[واقعہ فدک]] کے بعد [[ابوبکر]] سے قطع تعلق کر لیا تھا اور ان کی [[بیعت]] بھی نہیں کی۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۵۲۱-۵۲۳۔</ref> اہل سنت کے ایک مصنف محمد نافع نے «رحماء بینہم» کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] کے حضرت علی علیہ السلام سے اچھے تعلقات تھے۔<ref>[https://www۔neelwafurat۔com/itempage۔aspx?id=lbb185806-154633&search=books «رحماء بینہم»]،  نیل و فرات سائٹ۔</ref> اسی طرح ندائے اسلام نامی سہ ماہی رسالہ کے مقالہ میں مصنف نے خلفاء اور حضرت علی علیہ السّلام کے حسن تعلق اور خلفاء کی عورتوں اور بیٹیوں کے فاطمہ زہرا سے اچھے تعلقات کی مثالیں دیکر کوشش کی ہے کہ یہ ظاہر کرے کہ یہ تعلقات بی بی فاطمہ کی توہین اور ان پر حملہ کرنے سے میل نہیں کھاتے ہیں۔<ref> مرجانی، [http://sunnionline۔us/farsi/2016/07/6823 «ارتباط و محبت خلفای ثلاثہ با علی و فاطمہ رضی‌ اللہ عنہما»]، سنی‌ آنلاین سائٹ۔</ref> شیعہ متکلم [[سید مرتضی]] (وفات: ۴۳۶ھ) کے بقول، حضرت علیہ السّلام کی جانب سے خلفاء کو مشورہ دینے سے یہ استفادہ نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے کیونکہ احکام الہٰی کی رہنمائی اور مسلمانوں کا دفاع کرنا ہر عالم پر واجب ہے۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۵۱۔</ref> اسی طرح «دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفاء» کے مصنف نے خلفاء کو حضرت علی علیہ السّلام کے 107 مشوروں کا جائزہ لیکر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلفاء کا حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ لینا آپ کے خلفاء سے اتفاق اور ہمدلی کا قرینہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر مشورے عام طریقے کے مشوروں کے تحت ہوئے ہیں نہ یہ کہ خلفاء نے حضرت علی علیہ السّلام کو اپنا وزیر یا مشیر بنایا ہو بلکہ حضرت علی سیاسی گوشہ نشینی کے دوران زراعت کرنے اور کنویں کھودنے میں مشغول تھے۔ اسی طرح اگر کچھ مواقع پر خلفاء حضرت علی علیہ السّلام سے مشورہ کرتے تھے تو وہ ناچاری اور مجبوری کی وجہ سے تھا تاکہ مشکلات کی گرہیں کھولی جاسکیں۔<ref>لباف، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفا، ۱۳۸۸ش، ص۷۳-۷۶۔</ref>
شہادت فاطمہ کا انکار کرنے کے لئے [[اہل‌ سنت]] کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] اور حضرت علی اور آپ کے خانوادے کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے۔ «فاطمۃ بنت النبی» نامی مفصل کتاب کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پہلے اور دوسرے خلیفہ، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے بڑی محبت رکھتے تھے،<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۳۵۷، تا آخر، و ج۵ از ابتدا تا ص۸۹۔</ref> اس کے باوجود مصنف نے آخر میں نتیجہ یہی نکالا ہے کہ بی بی فاطمہ نے [[واقعہ فدک]] کے بعد [[ابوبکر]] سے قطع تعلق کر لیا تھا اور ان کی [[بیعت]] بھی نہیں کی۔<ref>دیکھئے: المدیہش، فاطمہ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۴، ص۵۲۱-۵۲۳۔</ref> اہل سنت کے ایک مصنف محمد نافع نے «رحماء بینہم» کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ [[خلفائے ثلاثہ]] کے حضرت علی علیہ السلام سے اچھے تعلقات تھے۔<ref>[https://www.neelwafurat.com/itempage.aspx?id=lbb185806-154633&search=books «رحماء بینہم»]،  نیل و فرات سائٹ۔</ref> اسی طرح ندائے اسلام نامی سہ ماہی رسالہ کے مقالہ میں مصنف نے خلفاء اور حضرت علی علیہ السّلام کے حسن تعلق اور خلفاء کی عورتوں اور بیٹیوں کے فاطمہ زہرا سے اچھے تعلقات کی مثالیں دیکر کوشش کی ہے کہ یہ ظاہر کرے کہ یہ تعلقات بی بی فاطمہ کی توہین اور ان پر حملہ کرنے سے میل نہیں کھاتے ہیں۔<ref> مرجانی، [http://sunnionline.us/farsi/2016/07/6823 «ارتباط و محبت خلفای ثلاثہ با علی و فاطمہ رضی‌ اللہ عنہما»]، سنی‌ آنلاین سائٹ۔</ref> شیعہ متکلم [[سید مرتضی]] (وفات: ۴۳۶ھ) کے بقول، حضرت علیہ السّلام کی جانب سے خلفاء کو مشورہ دینے سے یہ استفادہ نہیں کیا جاسکتا کہ آپ ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے کیونکہ احکام الہٰی کی رہنمائی اور مسلمانوں کا دفاع کرنا ہر عالم پر واجب ہے۔<ref>سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۵۱۔</ref> اسی طرح «دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفاء» کے مصنف نے خلفاء کو حضرت علی علیہ السّلام کے 107 مشوروں کا جائزہ لیکر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خلفاء کا حضرت علی علیہ السلام سے مشورہ لینا آپ کے خلفاء سے اتفاق اور ہمدلی کا قرینہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان میں سے اکثر مشورے عام طریقے کے مشوروں کے تحت ہوئے ہیں نہ یہ کہ خلفاء نے حضرت علی علیہ السّلام کو اپنا وزیر یا مشیر بنایا ہو بلکہ حضرت علی سیاسی گوشہ نشینی کے دوران زراعت کرنے اور کنویں کھودنے میں مشغول تھے۔ اسی طرح اگر کچھ مواقع پر خلفاء حضرت علی علیہ السّلام سے مشورہ کرتے تھے تو وہ ناچاری اور مجبوری کی وجہ سے تھا تاکہ مشکلات کی گرہیں کھولی جاسکیں۔<ref>لباف، دانشنامہ روابط سیاسی حضرت علی(ع) با خلفا، ۱۳۸۸ش، ص۷۳-۷۶۔</ref>


[[ام کلثوم کا عمر سے نکاح|دوسرے خلیفہ سے حضرت علی علیہ السّلام کی بیٹی کا نکاح]] بھی ان مثالوں میں سے ایک ہے جس کو عمر کی اہل بیت علیہم السلام سے دوستی ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ شہادت فاطمہ میں ان کی مداخلت سے منافی ہے۔<ref> المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۵۴۔</ref> کچھ صاحبان قلم نے اس نکاح کا انکار کیا ہے<ref> دیکھئے: اللہ اکبری، «ازدواج ام‌ کلثوم با عمر از نگاہ فریقین»، ص۱۱-۱۲۔</ref> [[سید مرتضی]] نے اس کو زور زبردستی اور دھمکی کا نتیجہ قرار دیا ہے <ref> دیکھئے: سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۷۲-۲۷۳۔</ref>  
[[ام کلثوم کا عمر سے نکاح|دوسرے خلیفہ سے حضرت علی علیہ السّلام کی بیٹی کا نکاح]] بھی ان مثالوں میں سے ایک ہے جس کو عمر کی اہل بیت علیہم السلام سے دوستی ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ شہادت فاطمہ میں ان کی مداخلت سے منافی ہے۔<ref> المدیہش، فاطمۃ بنت النبی، ۱۴۴۰ھ، ج۵، ص۵۴۔</ref> کچھ صاحبان قلم نے اس نکاح کا انکار کیا ہے<ref> دیکھئے: اللہ اکبری، «ازدواج ام‌ کلثوم با عمر از نگاہ فریقین»، ص۱۱-۱۲۔</ref> [[سید مرتضی]] نے اس کو زور زبردستی اور دھمکی کا نتیجہ قرار دیا ہے <ref> دیکھئے: سید مرتضی، الشافی فی الامامۃ، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۲۷۲-۲۷۳۔</ref>  
سطر 137: سطر 137:
اسی طرح اہل سنت کے صاحبان قلم نے خلفاء اور اہل بیت علیہ السلام کے حسن تعلق اور شہادت حضرت فاطمہ کے انکار میں کچھ کتابیں لکھی ہیں:  
اسی طرح اہل سنت کے صاحبان قلم نے خلفاء اور اہل بیت علیہ السلام کے حسن تعلق اور شہادت حضرت فاطمہ کے انکار میں کچھ کتابیں لکھی ہیں:  
* «فاطمۃ الزہراء بنت رسول اللہ و ام الحسنین»، مولف: عبدالستار الشیخ۔ یہ کتاب اہم مسلمان شخصیات کے تعارف ناموں کے کئی جلد پر مشتمل مجموعہ کا ایک حصہ ہے، اور یہ حصہ حضرت فاطمہ زہرا(س) سے مخصوص ہے۔ مصنف نے اس میں روز بیعت کے واقعات اور [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|خانہ زہرا میں آتشزنی]] کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ اس کتاب میں صرف میراث النبی(ع) کے عنوان سے [[واقعہ فدک]] کی طرف اشارہ ہوا ہے اور مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فدک کے سلسلہ میں فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا<ref>الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۲۹۹-۳۱۸۔</ref> اور یہ کہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ فاطمہ زہرا(س)، [[خلیفہ اول]] و [[خلیفہ دوم|دوم]] سے ناراض تھیں اور یہ بات ایک راوی کے ذہن کی ایجاد ہےکہ فاطمہ نے عیادت کے دن ان دونوں سے بات نہیں کی۔<ref> الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۱۹-۳۲۶۔</ref> مصنف کے لحاظ سے یہ مسئلہ علمائے [[شیعہ]] کا گھڑا ہوا ہے۔<ref>الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۲۷۔</ref>
* «فاطمۃ الزہراء بنت رسول اللہ و ام الحسنین»، مولف: عبدالستار الشیخ۔ یہ کتاب اہم مسلمان شخصیات کے تعارف ناموں کے کئی جلد پر مشتمل مجموعہ کا ایک حصہ ہے، اور یہ حصہ حضرت فاطمہ زہرا(س) سے مخصوص ہے۔ مصنف نے اس میں روز بیعت کے واقعات اور [[حضرت فاطمہؑ کے گھر پر حملہ|خانہ زہرا میں آتشزنی]] کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ اس کتاب میں صرف میراث النبی(ع) کے عنوان سے [[واقعہ فدک]] کی طرف اشارہ ہوا ہے اور مصنف نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فدک کے سلسلہ میں فاطمہ اور ابوبکر کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا<ref>الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۲۹۹-۳۱۸۔</ref> اور یہ کہ اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ فاطمہ زہرا(س)، [[خلیفہ اول]] و [[خلیفہ دوم|دوم]] سے ناراض تھیں اور یہ بات ایک راوی کے ذہن کی ایجاد ہےکہ فاطمہ نے عیادت کے دن ان دونوں سے بات نہیں کی۔<ref> الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۱۹-۳۲۶۔</ref> مصنف کے لحاظ سے یہ مسئلہ علمائے [[شیعہ]] کا گھڑا ہوا ہے۔<ref>الشیخ، فاطمۃ الزہراء، دار القلم، ص۳۲۷۔</ref>
* «بین الزہراء و الصدیق حقیقۃ و تحقیق»، مولف: بدر العمرانی۔ یہ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی اور [[فاطمہ]] سے خلیفہ اول [[ابوبکر]] کا رابطہ اس کتاب کا موضوع ہے۔<ref>[https://www۔alkotoby۔com/بين-الزہراء-والصديق «بین الزہراء و الصدیق»]، سائٹ الکتبی۔</ref>
* «بین الزہراء و الصدیق حقیقۃ و تحقیق»، مولف: بدر العمرانی۔ یہ کتاب 2014ء میں شائع ہوئی اور [[فاطمہ]] سے خلیفہ اول [[ابوبکر]] کا رابطہ اس کتاب کا موضوع ہے۔<ref>[https://www.alkotoby.com/بين-الزہراء-والصديق «بین الزہراء و الصدیق»]، سائٹ الکتبی۔</ref>
* «دفاعاً عن الآل و الاصحاب»؛ اس کتاب کا کوئی خاص مصنف نہیں ہے اور ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب جمعیۃ الآل و الاصحاب کی جانب سے سنہ ۱۴۳۱ھ میں [[بحرین]] میں چھپی ہے۔<ref>[https://www۔arabicbookshop۔net/difaan-an-al-al-wa-al-ashab/208-436 «اطلاعات کتاب دفاعا عن الآل و الأصحاب»]، سائٹ عربک بک شاپ۔</ref> کلی طور سے اس کتاب کا موضوع ان شبہات و اعتراضات کا جواب دینا ہے جو اہل سنت کے عقائد سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کا ایک حصہ شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص ہے۔<ref>[https://fnoor۔com/main/articles۔aspx?article_no=23991 «کتاب دفاعا عن الآل و الرسول»]، فیصل نور سائٹ۔</ref>
* «دفاعاً عن الآل و الاصحاب»؛ اس کتاب کا کوئی خاص مصنف نہیں ہے اور ایک ہزار صفحات پر مشتمل یہ کتاب جمعیۃ الآل و الاصحاب کی جانب سے سنہ ۱۴۳۱ھ میں [[بحرین]] میں چھپی ہے۔<ref>[https://www.arabicbookshop.net/difaan-an-al-al-wa-al-ashab/208-436 «اطلاعات کتاب دفاعا عن الآل و الأصحاب»]، سائٹ عربک بک شاپ۔</ref> کلی طور سے اس کتاب کا موضوع ان شبہات و اعتراضات کا جواب دینا ہے جو اہل سنت کے عقائد سے متعلق ہیں۔ اس کتاب کا ایک حصہ شہادت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے مخصوص ہے۔<ref>[https://fnoor.com/main/articles.aspx?article_no=23991 «کتاب دفاعا عن الآل و الرسول»]، فیصل نور سائٹ۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
17

ترامیم