مندرجات کا رخ کریں

"اصلاح ذات البین" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{اخلاق-عمودی}}
{{اخلاق-عمودی}}
'''اِصلاح ذات‌البَین''' کے معنی لوگوں کے درمیان صلح و صفائی قائم کرتے ہوئے ان کے مابین تعلقات کی اصلاح کرنا ہیں۔ اصلاح ذات البین  کو [[اخلاق|اخلاقی فضائل]] اور خوبیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں بہتان تراشی، طعنہ زنی اور [[سخن‌چینی]]، لوگوں کے درمیان افتراق بازی اور دشمنیاں پیدا کرنا اخلاقی بری صفات میں سے ہیں۔
'''اِصلاح ذات‌البَین''' کے معنی لوگوں کے درمیان صلح و صفائی قائم کرتے ہوئے ان کے مابین تعلقات کی اصلاح کرنا ہیں۔ اصلاح ذات البین  کو [[اخلاق|اخلاقی فضائل]] اور خوبیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کے مقابلے میں بہتان تراشی، طعنہ زنی اور [[سخن‌چینی]]، لوگوں کے درمیان اختلاف ڈالنا اور دشمنیاں پیدا کرنا اخلاقی بری صفات میں سے ہیں۔


[[قرآن]] کی آیات اور [[احادیث]] میں لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے اور ان کے مایبن موجود تنازعات اور اختلافات کو ختم کرنے کے لیے راہ حل پیش کیا گیا ہے؛ ان میں سے بعض راہ حل یہ ہیں: گھریلو اختلافات کی صورت میں دونوں طرف سے فرد ثالث کو صلح کرنے کا اختیار دینا، اختلافات پیدا ہونے والے عوامل و اسباب کے روک تھام کے لیے اقدامات کرنا، اپنے مال و منال کے بارے میں شرعی اور درست طریقے سے وصیت کرنا اور دینی و مذہبی احساسات کو ابھارنا وغیرہ۔ دینی تعلیمات میں [[بخل]] [[شیطان]] کی پیروی اور دنیا طلبی جیسی صفات کو اصلاح ذات البین کی راہ میں رکاوٹ کے طور تعارف کیا گیا ہے۔
[[قرآن]] کی آیات اور [[احادیث]] میں لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے اور ان کے مایبن موجود تنازعات اور اختلافات کو ختم کرنے کے لیے راہ حل پیش کیا گیا ہے؛ ان میں سے بعض راہ حل یہ ہیں: گھریلو اختلافات کی صورت میں دونوں طرف سے فرد ثالث کو صلح کرنے کا اختیار دینا، اختلافات پیدا ہونے والے عوامل و اسباب کے روک تھام کے لیے اقدامات کرنا، اپنے مال و جائداد کے بارے میں شرعی اور درست طریقے سے وصیت کرنا اور دینی و مذہبی احساسات کو ابھارنا وغیرہ۔ دینی تعلیمات میں [[بخل]]، [[شیطان]] کی پیروی اور دنیا طلبی جیسی صفات کو اصلاح ذات البین کی راہ میں رکاوٹ کے طور تعارف کیا گیا ہے۔


== تعریف ==
== تعریف ==
چند لوگوں یا چند گروہوں کے درمیان تنازعات اور دشمنیوں کی وجہ سے پیدا شدہ خراب تعلقات کو صلح و آشتی میں تبدیل کرنا اور اس کی اصلاح کرنا اصلاح ذات‌البین کہلاتا ہے۔ <ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰شمسی، ج۹، ص۶.</ref>{{یادداشت|دو لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنا، دو لوگوں کے درمیان موجود اختلاف کو ختم کرکے ان کو ایک کردینا، اصلاح کا نقطہ مقابل افساد ہے جس کے معنی لوگوں میں اختلاف اور اور افتراق پیدا کرنا ہے۔ لغت نامہ دہخدا ذیل اصلاح ذات البین }} <ref> رجوع کریں طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۴، ص۷۹۸.</ref> اصلاح ذات البین کا لفظ [[سورہ انفال]] کی پہلی آیت سے اخذ کیا گیا ہے۔<ref>دہخدا، لغت‌نامہ، ذیل واژه اصلاح ذات بین.</ref> اصلاح ذات‌البین کے سلسلے میں ممکن ہے صلح و آشتی دو افراد کے درمیان ہو اور ممکن ہے دو گروہوں کے درمیان ہو۔
چند لوگوں یا چند گروہوں کے درمیان تنازعات اور دشمنیوں کی وجہ سے پیدا شدہ خراب تعلقات کو صلح و آشتی میں تبدیل کرنا اور اس کی اصلاح کرنا اصلاح ذات‌البین کہلاتا ہے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰شمسی، ج۹، ص۶.</ref>{{یادداشت|دو لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنا، دو لوگوں کے درمیان موجود اختلاف کو ختم کرکے ان کو ایک کردینا، اصلاح کا نقطہ مقابل افساد ہے جس کے معنی لوگوں میں اختلاف اور اور افتراق پیدا کرنا ہے۔ لغت نامہ دہخدا ذیل اصلاح ذات البین }}<ref> رجوع کریں طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۲شمسی، ج۴، ص۷۹۸.</ref> اصلاح ذات البین کا لفظ [[سورہ انفال]] کی پہلی آیت سے اخذ کیا گیا ہے۔<ref>دہخدا، لغت‌نامہ، ذیل واژه اصلاح ذات بین.</ref> اصلاح ذات‌البین کے سلسلے میں ممکن ہے صلح و آشتی دو افراد کے درمیان ہو اور ممکن ہے دو گروہوں کے درمیان ہو۔
'''دبیز متن'''
'''دبیز متن'''


سطر 13: سطر 13:
قرآن مجید میں چند مقامات پر اصلاح ذات البین کا ذکر آیا ہے ساتھ ساتھ  اسے انجام دینے کی تاکید بھی کی ہے۔<ref> سورہ حجرات، آیہ نمبر۱۰ میں اس کا ذکر آیا ہے.</ref> اسی طرح [[امام علیؑ]] نے اپنے دونوں فرزند حضرات حسنینؑ کو اصلاح ذات البین کی وصیت فرمائی ہے۔ {{یادداشت|وَ صَلاَحِ ذَاتِ بَيْنِكُمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ جَدَّكُمَا - صلى الله عليه و اله - يَقُولُ صَلاَحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلاَةِ وَ الصِّيَامِ ... اور تم دونوں کو اصلاح ذات البین کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ میں نے تمارے جد امجدحضرت رسول خدا ؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:  
قرآن مجید میں چند مقامات پر اصلاح ذات البین کا ذکر آیا ہے ساتھ ساتھ  اسے انجام دینے کی تاکید بھی کی ہے۔<ref> سورہ حجرات، آیہ نمبر۱۰ میں اس کا ذکر آیا ہے.</ref> اسی طرح [[امام علیؑ]] نے اپنے دونوں فرزند حضرات حسنینؑ کو اصلاح ذات البین کی وصیت فرمائی ہے۔ {{یادداشت|وَ صَلاَحِ ذَاتِ بَيْنِكُمْ فَإِنِّي سَمِعْتُ جَدَّكُمَا - صلى الله عليه و اله - يَقُولُ صَلاَحُ ذَاتِ الْبَيْنِ أَفْضَلُ مِنْ عَامَّةِ الصَّلاَةِ وَ الصِّيَامِ ... اور تم دونوں کو اصلاح ذات البین کی سفارش کرتا ہوں کیونکہ میں نے تمارے جد امجدحضرت رسول خدا ؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:  
«لوگوں کے درمیان صلح کرنا تمام نمازوں اور روزوں سے بہتر کام ہے».  
«لوگوں کے درمیان صلح کرنا تمام نمازوں اور روزوں سے بہتر کام ہے».  
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ عموما موت کے وقت انسان کی جانب سے کی گئی ہدایات اور سفارشیں سب سے اہم نصیحت ہوتی ہے، خاص طور پر اگر وہ کوئی اہم اور بااثر شخصیت و مقام کا حامل انسان ہو۔ اس لیے امام علیؑ کے اصلاح ذات البین کے بارے میں ارشادات اپنے مبارک سر پر ذخم آنے کے بعد اور اپنی زندگی کے آخری لمحات یعنی شہادت کے درجے پر فائز ہونے سے چند لمحہ پہلے بیان فرمائے ہیں۔خاص طور پر یہ کہ انہوں نے اپنے اس ارشاد کو پیغمبرؐ  سے نقل کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔ ایسی صورت حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ امام علیؑ کی نظر میں سماجی روابط میں اصلاح ذات البین کی کتنی اہمیت ہے! }}<ref>نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، نامہ۴۷.</ref> قرآنی آیات کے مطابق جو شخص لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے کے لیے کوششیں کرتا ہے  اللہ کی رحمت و مغفرت اس کی شامل حال ہوتی ہے۔<ref> سوره نساء، آیہ ۱۲۹.</ref> بعض روایات میں تو اصلاح ذات البین کو [[نماز]] اور [[روزہ]] سے بھی برتر عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۴۸.</ref> اور بعض روایات میں [[صدقہ]] و [[خیرات]] سے برتر عمل قرار دیا گیا ہے۔ <ref>حرعاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۸، ص۴۴۱.</ref>  ایک اور  روایت کے مطابق جو شخص دو افراد کے درمیان صلح کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے [[فرشتہ|فرشتے]] اس پر سلام و درود بھیجتے ہیں اور اسے [[شب قدر]] درک کرنے کا ثواب عنایت کرتا ہے۔<ref>دیلمی، اعلام الدین، ۱۴۰۸ق، ص۴۱۹.</ref>
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ عموما موت کے وقت انسان کی جانب سے کی گئی ہدایات اور سفارشیں سب سے اہم نصیحت ہوتی ہے، خاص طور پر اگر وہ کوئی اہم اور بااثر شخصیت و مقام کا حامل انسان ہو۔ اس لیے امام علیؑ کے اصلاح ذات البین کے بارے میں ارشادات اپنے مبارک سر پر ذخم آنے کے بعد اور اپنی زندگی کے آخری لمحات یعنی شہادت کے درجے پر فائز ہونے سے چند لمحہ پہلے بیان فرمائے ہیں۔خاص طور پر یہ کہ انہوں نے اپنے اس ارشاد کو پیغمبرؐ  سے نقل کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے۔ ایسی صورت حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ امام علیؑ کی نظر میں سماجی روابط میں اصلاح ذات البین کی کتنی اہمیت ہے! }}<ref>نہج‌البلاغہ، صبحی صالح، نامہ۴۷.</ref> قرآنی آیات کے مطابق جو شخص لوگوں کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے کے لیے کوششیں کرتا ہے  اللہ کی رحمت و مغفرت اس کی شامل حال ہوتی ہے۔<ref> سوره نساء، آیہ ۱۲۹.</ref> بعض روایات میں تو اصلاح ذات البین کو [[نماز]] اور [[روزہ]] سے بھی برتر عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>صدوق، ثواب الاعمال، ۱۴۰۶ق، ص۱۴۸.</ref> اور بعض روایات میں [[صدقہ]] و [[خیرات]] سے برتر عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>حرعاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۱۸، ص۴۴۱.</ref>  ایک اور  روایت کے مطابق جو شخص دو افراد کے درمیان صلح کرنے کے لیے قدم اٹھاتا ہے [[فرشتہ|فرشتے]] اس پر سلام و درود بھیجتے ہیں اور اسے [[شب قدر]] درک کرنے کا ثواب عنایت کرتا ہے۔<ref>دیلمی، اعلام الدین، ۱۴۰۸ق، ص۴۱۹.</ref>
امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت کے مطابق اصلاح ذات البین کے سلسلے میں اگر جھوٹ کا سہارا بھی لیا جائے تو یہ ایک جائز عمل ہے<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۴۱.</ref>{{نوٹ|قَالَ إِنَّ اللهَ... وَ أَحَبَّ الْكَذِبَ فِي الْإِصْلَاحِ... امام صادقؑ نے اصلاح ذات البین کو جھوٹ بولنا جائز ہونے کے موراد میں سے قرار دیا ہے۔ البتہ اصلاح کے معنی و مفہوم وسیع ہیں اور اصلاح سے مراد ہر قسم کے فساد اور خرابی سے مقابلہ مد نظر ہے۔ جیسے کہ حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں کو بت برستی کی لعنت سے محفوظ رکھنے لیے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور کلہاڑی کو بڑے بت کی گردن میں لٹکا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اس بڑے بت نے تمام چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا ہے۔ اصول كافی، ج۲،ص۳۴۲  }} قرآن مجید کے ایک اور مقام پر اصلاح ذات البین کے لیے نجوا اور سرگوشی کرنے کو جائز اور روا عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>سوره نساء، آیہ ۱۱۴.</ref> حالانکہ نجوا اور سرگوشی کو ایک مقام پر شیطانی عمل<ref>سوره مجادلہ، آیہ ۱۰.</ref> سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۲۷.</ref> یہاں تک کہ قرآن نے اصلاح ذات البین ترک کرنے کی قسم کو ناروا قرار دیا ہے،<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۲۲۴.</ref>
امام جعفر صادقؑ سے منقول روایت کے مطابق اصلاح ذات البین کے سلسلے میں اگر جھوٹ کا سہارا بھی لیا جائے تو یہ ایک جائز عمل ہے<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۴۱.</ref>{{نوٹ|قَالَ إِنَّ اللهَ... وَ أَحَبَّ الْكَذِبَ فِي الْإِصْلَاحِ... امام صادقؑ نے اصلاح ذات البین کو جھوٹ بولنا جائز ہونے کے موراد میں سے قرار دیا ہے۔ البتہ اصلاح کے معنی و مفہوم وسیع ہیں اور اصلاح سے مراد ہر قسم کے فساد اور خرابی سے مقابلہ مد نظر ہے۔ جیسے کہ حضرت ابراہیمؑ نے لوگوں کو بت برستی کی لعنت سے محفوظ رکھنے لیے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور کلہاڑی کو بڑے بت کی گردن میں لٹکا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اس بڑے بت نے تمام چھوٹے بتوں کو توڑ ڈالا ہے۔ اصول كافی، ج۲،ص۳۴۲  }} قرآن مجید کے ایک اور مقام پر اصلاح ذات البین کے لیے نجوا اور سرگوشی کرنے کو جائز اور روا عمل قرار دیا گیا ہے۔<ref>سوره نساء، آیہ ۱۱۴.</ref> حالانکہ نجوا اور سرگوشی کو ایک مقام پر شیطانی عمل<ref>سوره مجادلہ، آیہ ۱۰.</ref> سے تعبیر کیا گیا ہے۔<ref> مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۲۷.</ref> یہاں تک کہ قرآن نے اصلاح ذات البین ترک کرنے کی قسم کو ناروا قرار دیا ہے،<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۲۲۴.</ref>
ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق ؑ کی جانب سے [[مفضل بن عمر|مُفَضّل بن عُمر]] کے پاس کچھ رقم رکھے گئے تھے اسے شیعوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی اصلاح میں خرچ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
ایک روایت کے مطابق امام جعفر صادق ؑ کی جانب سے [[مفضل بن عمر|مُفَضّل بن عُمر]] کے پاس کچھ رقم رکھے گئے تھے اسے شیعوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کی اصلاح میں خرچ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔


مثال کے طور پر اس رقم سے ابو حنیفہ اور اس کے داماد کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اس رقم سے خرچ کرنے کی اجازت دی گئی۔ <ref>کلینی، الکافی، ۱۴۷ق، ج۲، ص۲۰۹، ح۴.</ref>
مثال کے طور پر اس رقم سے ابو حنیفہ اور اس کے داماد کے مابین پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اس رقم سے خرچ کرنے کی اجازت دی گئی۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۷ق، ج۲، ص۲۰۹، ح۴.</ref>
{{نوٹ| یہاں ابو حنیفہ سے مراد سعید بن بیان ہے جو مشہور ابوحنیفہ(حنفیوں کے پیشوا) کے علاوہ کوئی اور شخص ہے جس کا کام حاجیوں کے قافلوں کی رہنمائی کرنا تھا جس وجہ سےانہیں سائق الحاج کے نام سے پکارا جاتا تھا یا لوگوں کو کوفہ سے عرفات کی طرف جلدی پہنچانے کے سلسلے میں کام کرتا تھا، اس لیے وہ سابق الحاج کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ اصول كافی،۱۴۰۷ق.  چاپ چہارم دار الکتب الاسلاميہ، تصحیح علی اکبرغفاری، ج ۲، ص۲۹۷ پاورقی شماره ۲ }}
{{نوٹ| یہاں ابو حنیفہ سے مراد سعید بن بیان ہے جو مشہور ابوحنیفہ(حنفیوں کے پیشوا) کے علاوہ کوئی اور شخص ہے جس کا کام حاجیوں کے قافلوں کی رہنمائی کرنا تھا جس وجہ سےانہیں سائق الحاج کے نام سے پکارا جاتا تھا یا لوگوں کو کوفہ سے عرفات کی طرف جلدی پہنچانے کے سلسلے میں کام کرتا تھا، اس لیے وہ سابق الحاج کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ اصول كافی،۱۴۰۷ق.  چاپ چہارم دار الکتب الاسلاميہ، تصحیح علی اکبرغفاری، ج ۲، ص۲۹۷ پاورقی شماره ۲ }}


==اصلاح کے راہ حل اور رکاوٹیں==
==اصلاح کے راہ حل اور رکاوٹیں==
لوگوں کےدرمیان اصلاح قائم کرنے کے لیے چند راہ حل بیان کیے گئے ہیں۔ ذیل میں بعض کو بیان کیا جاتا ہے:
لوگوں کےدرمیان اصلاح قائم کرنے کے لیے چند راہ حل بیان کیے گئے ہیں۔ ذیل میں بعض کو بیان کیا جاتا ہے:
* '''اختلاف کا روک تھام:''' [[قرآن]] کے [[مفسرین]] نے [[سورہ بقرہ]] آیت نمبر 182 کے مضمون و مفہوم کے مطابق کسی شخص کے وارثین کے مابین اختلاف کے روک تھام کے لیے ضروری اقدام یہ قرار دیا ہے<ref>طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۴۸۵.</ref> کہ مورث شرعی اصولوں اور قواعد کے مطابق وصیت کرے تاکہ وارثین اس کے مطابق عدالت کی رعایت کرتے ہوئے اس پر عمل کریں اور اختلاف کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔ <ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۳۶-۲۳۹.</ref>
* '''اختلاف کا روک تھام:''' [[قرآن]] کے [[مفسرین]] نے [[سورہ بقرہ]] آیت نمبر 182 کے مضمون و مفہوم کے مطابق کسی شخص کے وارثین کے مابین اختلاف کے روک تھام کے لیے ضروری اقدام یہ قرار دیا ہے<ref>طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۱ش، ج۱، ص۴۸۵.</ref> کہ مورث شرعی اصولوں اور قواعد کے مطابق وصیت کرے تاکہ وارثین اس کے مطابق عدالت کی رعایت کرتے ہوئے اس پر عمل کریں اور اختلاف کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔<ref>فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۵، ص۲۳۶-۲۳۹.</ref>
* '''گھریلو جھگڑوں میں میاں بیوی کی طرف سے ثالث کا انتخاب:''' گھریلو جھگڑوں کی صورت میں جب میاں بیوی کے مابین علیحدگی کا ڈر ہو تو شریعت نے یہ تجویز دی ہے کہ ہر ایک مرد اور عورت اپنے مابین مصالحت کے لیے ایک ثالث کا انتخاب کریں۔ <ref> طوسی، التبیان، ج۳، ص۱۹۲؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۷۰.</ref>
* '''گھریلو جھگڑوں میں میاں بیوی کی طرف سے ثالث کا انتخاب:''' گھریلو جھگڑوں کی صورت میں جب میاں بیوی کے مابین علیحدگی کا ڈر ہو تو شریعت نے یہ تجویز دی ہے کہ ہر ایک مرد اور عورت اپنے مابین مصالحت کے لیے ایک ثالث کا انتخاب کریں۔<ref> طوسی، التبیان، ج۳، ص۱۹۲؛ طبرسی، مجمع‌البیان، ۱۳۷۱ش، ج۳، ص۷۰.</ref>
تنازعات اور اختلافات کی جڑوں کی پہچان، عاطفی مسائل سے استفادہ، صبر کرنا اور غیرجانبداری وغیرہ وہ عوامل ہیں جن کے ذریعے  بہتر طریقے سے اصلاحی عمل کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ <ref>مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۳۱۷-۳۱۸.</ref>
تنازعات اور اختلافات کی جڑوں کی پہچان، عاطفی مسائل سے استفادہ، صبر کرنا اور غیرجانبداری وغیرہ وہ عوامل ہیں جن کے ذریعے  بہتر طریقے سے اصلاحی عمل کو انجام دیا جاسکتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، ۱۳۷۷ش، ج۳، ص۳۱۷-۳۱۸.</ref>


== اقدامات اور طریقے==
== اقدامات اور طریقے==
لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والی تنازعات اور اختلافات کو ختم کرنا مؤمنین اور ریاست کی ذمہ داری ہے. چنانچہ [[تفسیر نمونہ (کتاب)|تفسیر نمونہ]] میں آیا ہے:  
لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والی تنازعات اور اختلافات کو ختم کرنا مؤمنین اور ریاست کی ذمہ داری ہے. چنانچہ [[تفسیر نمونہ (کتاب)|تفسیر نمونہ]] میں آیا ہے:  
اگر اصلاح ذات البین مکالمات کے ذریعے کی جائے تو اس کے لیے شرعی حکم کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اصلاح کے لیے سخت اقدام کی ضرورت ہو تو [[حاکم شرع]] سے اجازت لینی چاہیے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۱۷۰.</ref>
اگر اصلاح ذات البین مکالمات کے ذریعے کی جائے تو اس کے لیے شرعی حکم کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر اصلاح کے لیے سخت اقدام کی ضرورت ہو تو [[حاکم شرع]] سے اجازت لینی چاہیے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۲۲، ص۱۷۰.</ref>
نیز [[سورۃ الحجرات]]کی نویں آیت کے مطابق جب مؤمنین کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو سب سے پہلے نصیحت اور قرآن و خدا کے فرمان کی طرف دعوت کے ذریعے ان میں صلح کرانی چاہیے، لیکن اگر کوئی گروہ مصالحت کی پیشکش قبول نہیں کرتا تو ان سے لڑنا چاہیے۔ <ref> طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۶، ص۸۰-۸۱؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۵۰.</ref>
نیز [[سورۃ الحجرات]]کی نویں آیت کے مطابق جب مؤمنین کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے تو سب سے پہلے نصیحت اور قرآن و خدا کے فرمان کی طرف دعوت کے ذریعے ان میں صلح کرانی چاہیے، لیکن اگر کوئی گروہ مصالحت کی پیشکش قبول نہیں کرتا تو ان سے لڑنا چاہیے۔<ref> طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۶، ص۸۰-۸۱؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۵۰.</ref>
===رکاوٹیں===
===رکاوٹیں===
قرآن مجید کی تفسیر کی کتابوں میں شیطان کی پیروی،<ref>مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۱۱.</ref> دنیاداری<ref> ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، ۱۳۸۶ش، ج۶، ص۳۰۲.</ref> اور کنجوسی<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۵۱.</ref> کو اصلاح ذات‌البین کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کی تفسیر کی کتابوں میں شیطان کی پیروی،<ref>مغنیہ، الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۱۱.</ref> دنیاداری<ref> ہاشمی رفسنجانی، تفسیر راہنما، ۱۳۸۶ش، ج۶، ص۳۰۲.</ref> اور کنجوسی<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۵۱.</ref> کو اصلاح ذات‌البین کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
سطر 35: سطر 35:
== شرعی حکم==
== شرعی حکم==
[[فقها]] اور مجتہدین نے اصلاح ذات‌البین کے سلسلے میں چند فرعی حکم بیان کیا ہے:
[[فقها]] اور مجتہدین نے اصلاح ذات‌البین کے سلسلے میں چند فرعی حکم بیان کیا ہے:
* ایک دوسرے سے بغض اور عداوت رکھنے والے دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان صلح کرنا ایک [[مستحب]] عمل ہے اور ایسی صورتوں میں جہاں کسی [[ایمان|مومن]] کی جان خطرے میں ہو، یہ عمل [[واجب]] ہوجاتا ہے۔ <ref>کاشف الغطاء، وجیزۃ الاحکام، ۱۳۶۶ق، ج۲، ص۱۶.</ref>  
* ایک دوسرے سے بغض اور عداوت رکھنے والے دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان صلح کرنا ایک [[مستحب]] عمل ہے اور ایسی صورتوں میں جہاں کسی [[ایمان|مومن]] کی جان خطرے میں ہو، یہ عمل [[واجب]] ہوجاتا ہے۔<ref>کاشف الغطاء، وجیزۃ الاحکام، ۱۳۶۶ق، ج۲، ص۱۶.</ref>  
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق دو مسلمان گروہ جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں، ان میں صلح کرانا واجب کفائی ہے۔ <ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۷۰.</ref>
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق دو مسلمان گروہ جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں، ان میں صلح کرانا واجب کفائی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ۱۳۷۴ش، ج۲۲، ص۱۷۰.</ref>
* [[زکات]] کی رقوم کو اصلاح ذات‌البین کے لیے خرچ کرنا جائز ہے<ref> نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۵، ص۳۶۱-۳۶۲.</ref>  
* [[زکات]] کی رقوم کو اصلاح ذات‌البین کے لیے خرچ کرنا جائز ہے<ref> نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۵، ص۳۶۱-۳۶۲.</ref>  
* مستحب ہے کہ [[قاضی]] فیصلہ جاری کرنے سے پہلے دونوں فریقوں کو صلح کے لیے بلائے، اور اگر فریقین مصالحت سے انکار کریں تو فیصلہ جاری کریں۔<ref>نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۰، ص۱۴۵.</ref>
* مستحب ہے کہ [[قاضی]] فیصلہ جاری کرنے سے پہلے دونوں فریقوں کو صلح کے لیے بلائے، اور اگر فریقین مصالحت سے انکار کریں تو فیصلہ جاری کریں۔<ref>نجفی،‌ جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۴۰، ص۱۴۵.</ref>
سطر 73: سطر 73:
{{فضائل اخلاقی}}
{{فضائل اخلاقی}}
{{آداب اسلامی}}
{{آداب اسلامی}}
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]
[[Category:اخلاقی اصطلاحات]]
[[Category:قرآنی اصطلاحات]]
[[Category:اخلاقی فضائل]]
[[Category:آداب معاشرت]]
[[Category:اسلامی آداب]]


[[زمرہ:اخلاقی اصطلاحات]]
[[زمرہ:اخلاقی اصطلاحات]]
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
7,945

ترامیم