گمنام صارف
"حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا" کے نسخوں کے درمیان فرق
←ازدواج
imported>E.musavi (←ازدواج) |
imported>E.musavi (←ازدواج) |
||
سطر 48: | سطر 48: | ||
===ازدواج=== | ===ازدواج=== | ||
{{اصلی|حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شادی}} | {{اصلی|حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شادی}} | ||
حضرت فاطمہؑ کے لئے بہت سے رشتے تھے۔ لیکن آپ نے حضرت علی کا رشتہ قبول کیا اور ان سے شادی کی۔ بعض محققین کے مطابق، پیغمبر اکرم کی [[مدینہ]] [[ہجرت]]، [[اسلامی]] معاشرے کی رہبری اور آپ (ص) سے نسبت کی وجہ سے [[مسلمانوں]] کے درمیان مورد احترام اور بلند مرتبہ کی حامل تھیں۔<ref> طباطبایی، ازدواج فاطمہ، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۱۲۸.</ref> اس کے علاوہ آنحضرت (ص) کا آپ سے اظہار محبت کرنا،<ref> طبری، ذخائر العقبی، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۱۶۷؛ متقی هندی، کنز العمال، ۱۴۰۱ق، ج۷، ص۱۲۹.</ref> اپنی ہم عصر خواتین<ref> کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۱۶۵؛ مغربی، شرح الاخبار، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۲۹. سهمی، تاریخ جرجان، ۱۴۰۷ق، ص۱۷۱.</ref> کے درمیان مقائسہ میں آپ میں پائی جانے والی خصوصیات سبب بنیں بعض مسلمان آپ کا رشتہ طلب کریں۔<ref> طباطبایی، ازدواج فاطمہ، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۱۲۸.</ref> بعض بزرگان قریش جو سابق الاسلام اور مالی اعتبار سے مضبوط تھے، انہوں نے رشتہ طلب کیا۔<ref> اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۳۶۳؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۳.</ref> [[ابوبکر]]، [[عمر]]<ref> نسایی، السنن الکبری، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۴۳؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، دار المعرفة، ج۲، س۱۶۷ و ۱۶۸.</ref> اور [[عبد الرحمن بن عوف]]<ref> طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.</ref> نے بھی آپؑ کا رشتہ مانگا لیکن رسول اللہؐ نے سوائے حضرت علیؑ کے باقی سب کا رشتہ یہ فرماتے ہوئے مسترد کیا<ref> خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۳.</ref> کہ میری بیٹی فاطمہؑ کا رشتہ ایک الہٰی امر ہے لہذا اس حوالے سے میں [[وحی]] کا منتظر ہوں۔<ref> ابن سعد، طبقات، ح8، ص11۔</ref> اسی طرح کچھ موارد میں حضرت فاطمہؑ کی نارضایتی کا بھی ذکر فرمایا۔<ref> طوسی، محمد بن حسن، الامالی، 1414ھ، ص39۔</ref> [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] [[پیغمبر اکرم|پیغمبر اکرمؐ]] کے ساتھ خاندانی تعلق اور خود حضرت فاطمہؑ کی [[اخلاق|اخلاقی]] و دینی خصوصیات کی وجہ سے اس رشتے کی دلی خواہش رکھتے تھے۔<ref> صدوق، الامالی، 1417ھ، ص653؛ اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص364۔</ref> لیکن مورخین کے بقول آپؑ میں یہ جرأت پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ رسول اکرمؐ کی بیٹی کا رشتہ مانگتے۔<ref> مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص148۔</ref> [[سعد بن معاذ]] نے | حضرت فاطمہؑ کے لئے بہت سے رشتے تھے۔ لیکن آپ نے حضرت علی کا رشتہ قبول کیا اور ان سے شادی کی۔ بعض محققین کے مطابق، پیغمبر اکرم کی [[مدینہ]] [[ہجرت]]، [[اسلامی]] معاشرے کی رہبری اور آپ (ص) سے نسبت کی وجہ سے [[مسلمانوں]] کے درمیان مورد احترام اور بلند مرتبہ کی حامل تھیں۔<ref> طباطبایی، ازدواج فاطمہ، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۱۲۸.</ref> اس کے علاوہ آنحضرت (ص) کا آپ سے اظہار محبت کرنا،<ref> طبری، ذخائر العقبی، ۱۴۲۸ق، ج۱، ص۱۶۷؛ متقی هندی، کنز العمال، ۱۴۰۱ق، ج۷، ص۱۲۹.</ref> اپنی ہم عصر خواتین<ref> کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۱۶۵؛ مغربی، شرح الاخبار، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۲۹. سهمی، تاریخ جرجان، ۱۴۰۷ق، ص۱۷۱.</ref> کے درمیان مقائسہ میں آپ میں پائی جانے والی خصوصیات سبب بنیں بعض مسلمان آپ کا رشتہ طلب کریں۔<ref> طباطبایی، ازدواج فاطمہ، ۱۳۹۳ش، ج۱، ص۱۲۸.</ref> بعض بزرگان قریش جو سابق الاسلام اور مالی اعتبار سے مضبوط تھے، انہوں نے رشتہ طلب کیا۔<ref> اربلی، کشف الغمہ، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۳۶۳؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۳.</ref> [[ابوبکر]]، [[عمر]]<ref> نسایی، السنن الکبری، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۱۴۳؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، دار المعرفة، ج۲، س۱۶۷ و ۱۶۸.</ref> اور [[عبد الرحمن بن عوف]]<ref> طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.</ref> نے بھی آپؑ کا رشتہ مانگا لیکن رسول اللہؐ نے سوائے حضرت علیؑ کے باقی سب کا رشتہ یہ فرماتے ہوئے مسترد کیا<ref> خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۴۳.</ref> کہ میری بیٹی فاطمہؑ کا رشتہ ایک الہٰی امر ہے لہذا اس حوالے سے میں [[وحی]] کا منتظر ہوں۔<ref> ابن سعد، طبقات، ح8، ص11۔</ref> اسی طرح کچھ موارد میں حضرت فاطمہؑ کی نارضایتی کا بھی ذکر فرمایا۔<ref> طوسی، محمد بن حسن، الامالی، 1414ھ، ص39۔</ref> | ||
[[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] [[پیغمبر اکرم|پیغمبر اکرمؐ]] کے ساتھ خاندانی تعلق اور خود حضرت فاطمہؑ کی [[اخلاق|اخلاقی]] و دینی خصوصیات کی وجہ سے اس رشتے کی دلی خواہش رکھتے تھے۔<ref> صدوق، الامالی، 1417ھ، ص653؛ اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص364۔</ref> لیکن مورخین کے بقول آپؑ میں یہ جرأت پیدا نہیں ہو رہی تھی کہ رسول اکرمؐ کی بیٹی کا رشتہ مانگتے۔<ref> مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص148۔</ref> [[سعد بن معاذ]] نے حضرت علیؑ کی درخواست کو پیغمبر اکرمؐ تک منتقل کیا۔ پیغمبر اکرمؐ نے اس رشتے پر اپنی رضایت کا اظہار کرتے ہوئے<ref> مفید، الاختصاص، 1414ھ، ص148۔</ref> اسے اپنی بیٹی کے سامنے رکھا اور انہیں حضرت علیؑ کے اخلاقی فضائل اور حسن کردار سے آگاہ فرمایا جس پر حضرت فاطمہؑ نے بھی اپنی رضایت کا اظہار فرمایا۔<ref> طوسی، محمد بن حسن، الامالی، 1414ھ، ص40۔</ref> آپ (ص) نے بحکم الہی حضرت فاطمہ کی شادی حضرت سے علی سے کر دی۔<ref> طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۱۵۶؛ خوارزمی، المناقب، ۱۴۱۱ق، ص۳۳۶.</ref> [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کے ابتدائی ایام میں دوسرے [[مہاجرین]] کی طرح حضرت علیؑ کی اقتصادی حالت بھی مناسب نہیں تھی۔<ref> ابن اثیر جزری، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، انتشارات اسماعیلیان، ج5، ص517۔</ref> اس بنا پر آپؑ نے [[پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبر اکرمؐ]] کے کہنے پر اپنی زرہ بیچ کر یا اسے گروی رکھ کر حضرت فاطمہؑ کا [[حق مہر]] ادا کیا۔<ref> اردبیلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، 1405ھ، ج1، ص358۔</ref> یوں [[مسجد نبوی]] میں مسلمانوں کی محفل میں حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کا عقد پڑھا گیا۔<ref> طبری امامی، دلائل الإمامۃ، 1413ھ، ص88-90؛ خوارزمی، المناقب، 1411ھ، ص335-338۔</ref> مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ عقد کس تاریخ کو پڑھا گیا۔ اکثر مصادر میں ہجرت کے دوسرے سال کا تذکره ملتا ہے۔<ref> ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، 1404ھ، ج12، ص391؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج1، ص73؛ کلینی، الکافی، 1363 شمسی، ج8، ص340۔</ref> رخصتی [[غزوہ بدر|جنگ بدر]] کے بعد [[شوال المکرم|شوال]] یا [[ذیالحجۃ|ذوالحجہ]] [[سنہ 2 ہجری]] میں ہوئی۔<ref> طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص43؛ طبری، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، 1420ھ، ص410۔</ref> | |||
===ازدواجی زندگی=== | ===ازدواجی زندگی=== |