گمنام صارف
"حدیث قسیم النار و الجنہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←متن حدیث) |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 15: | سطر 15: | ||
|قرآنی تائیدات = | |قرآنی تائیدات = | ||
}} | }} | ||
'''حدیث قَسیمُ النّار و الجنّۃ'''، [[پیغمبر اکرمؐ]] سے منقول فضیلت [[حضرت علیؑ]] کے لئے ایک روایت ہے جس میں حضرت علیؑ کو [[جنّت]] و [[جہنم]] کو تقسیم کرنے والے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔ یہ [[حدیث]] [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] کے منابع میں مختلف عبارات کے ساتھ موجود ہے۔ | |||
روایات اور علمائے [[اسلام]] کے نقطۂ نظر کے مطابق اس حدیث کے مضمون سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں: ایک یہ کہ حضرت علیؑ کے چاہنے والے جّنت اور ان کے دشمن جہنّم میں جائیں گے۔ دوسری یہ کہ حضرت علیؑ [[قیامت]] کے دن جنّتیوں اور جہنّمیوں کو معیّن فرمائیں گے۔ | |||
علمائے شیعہ اور اہل سنت میں سے بعض نے اس حدیث کو [[متواتر]] جانا ہے لیکن بعض علمائے اہل سنت نے اس روایت کی خاص سند کو ذکر کرتے ہوئے ضعیف شمار کیا ہے۔ | |||
علمائے شیعہ اور | |||
حدیث قَسیمُ النّار و الجنّۃ کو عربی اور فارسی کے شعراء نے بھی اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے۔ | حدیث قَسیمُ النّار و الجنّۃ کو عربی اور فارسی کے شعراء نے بھی اپنے اشعار میں استعمال کیا ہے۔ | ||
==متن حدیث== | ==متن حدیث== | ||
حدیث قَسیمُ النّار و الجنّۃ وہ حدیث ہے جو پیغمبر اکرمؐ سے حضرت علیؑ کے بارے میں مختلف عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہے: | حدیث قَسیمُ النّار و الجنّۃ وہ حدیث ہے جو پیغمبر اکرمؐ سے حضرت علیؑ کے بارے میں مختلف عبارات کے ساتھ نقل ہوئی ہے: | ||
* {{عربی|یا عَلِی إِنَّکَ قَسِیمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ}}<ref> شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۲۷؛ | * {{عربی|یا عَلِی إِنَّکَ قَسِیمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ}}<ref> شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۲۷؛ ابن عقدہ کوفی، فضائل امیرالمؤمنینؑ، ۱۴۲۴ھ، ص۱۰۲؛ طبری آملی، بشارۃالمصطفی، ۱۳۸۳ھ، ص۵۶ و۱۰۲ و۱۶۴</ref> اے علی آپ جنّت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں۔[[صحیفۂ امام رضاؑ]] میں جہنم کا لفظ جنّت سے پہلے آیا ہے {{عربی|یا عَلِی إِنَّکَ قَسِیمُ النَّارِ وَ الْجَنَّةِ}}<ref> صحیفہ امام رضاؑ، ۱۴۰۶ھ، ص۵۶ و ۵۷</ref> بعض دیگر منابع میں اس حدیث کے آگے اس طرح وارد ہوا ہے کہ {{عربی|تُدخِلُ مُحِبِّیکَ الْجَنَّةَ وَ مُبْغِضِیکَ النَّارَ}}<ref> خزاز رازی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۱۵۱و۱۵۲</ref> آپ اپنے چاہنے والوں کو جنّت اور دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں گے۔ | ||
* {{عربی|یا عَلِی أَنْتَ قَسِیمُ الْجَنَّةِ یوْمَ الْقِیامَةِ تَقُولُ لِلنَّارِ هَذَا لِی وَ هَذَا لَکِ}}<ref>شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۸۶؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۵۱۱، ح۶۶۷</ref> یا علی آپ جنّت کو تقسیم کرنے والے ہیں، قیامت کے دن آتش دوزخ سے کہیں گے یہ تمہارا یہ میرا۔ | * {{عربی|یا عَلِی أَنْتَ قَسِیمُ الْجَنَّةِ یوْمَ الْقِیامَةِ تَقُولُ لِلنَّارِ هَذَا لِی وَ هَذَا لَکِ}}<ref> شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۸۶؛ کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۵۱۱، ح۶۶۷</ref> یا علی آپ جنّت کو تقسیم کرنے والے ہیں، قیامت کے دن آتش دوزخ سے کہیں گے یہ تمہارا یہ میرا۔ | ||
* {{عربی|یا علی إنَّکَ قَسیمُ النّارِ وَ إِنَّکَ تَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ فَتَدْخُلُهَا بِلَا حِسَاب}}<ref> | * {{عربی|یا علی إنَّکَ قَسیمُ النّارِ وَ إِنَّکَ تَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ فَتَدْخُلُهَا بِلَا حِسَاب}}<ref> ابن مغازلی، مناقب الامام علی بن ابیطالبؑ، ۱۴۲۴ھ، ص۱۰۷؛ خوارزمی، مناقب، ۱۴۱۱ھ، ص۲۹۵؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۲۵۔</ref> اے علی آپ جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں اور آپ جنّت میں بغیر حساب داخل ہونے والے ہیں۔ | ||
حضرت علیؑ نے بھی مختلف مشابہ عبارات کے ساتھ خود کو جنت و جہنم کا تقسیم کرنے والا بتایا ہے۔<ref>صفار، | حضرت علیؑ نے بھی مختلف مشابہ عبارات کے ساتھ خود کو جنت و جہنم کا تقسیم کرنے والا بتایا ہے۔<ref> صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۴۱۵؛ ابنعساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۴۲، ص۲۹۸؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۲۶؛ ابن مردویہ اصفہانی، مناقب علی بن ابی طالب، ۱۴۲۴ھ، ص۱۳۳</ref> جیسے: {{عربی|أنَا الفارُوقُ الّذِی أَفرُقُ بَینَ الحَقِّ و البَاطِلِ، أنَا أُدْخِلُ أَوْلِیائی الجَنَّةَ و أَعْدائی النَّارَ}}<ref> کوفی، تفسیر فرات الکوفی، ۱۴۱۰ھ، ص۶۷</ref> میں فاروق ہوں اور حق و باطل کے درمیان جدائی کرنے والا ہوں۔ میں اپنے چاہنے والے کو جنت اور دشمن کو جہنم میں داخل کروں گا۔ | ||
«قسیم الجنۃ والنار» کو بھی حضرت علیؑ کے القاب میں شمار کیا گیا ہے۔<ref>خوارزمی، مناقب، ۱۴۱۱ھ، ص۴۱و۴۲؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۰۸</ref> حضرت علیؑ کی زیارات میں بھی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص۵۷۰؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۶، ص۲۹</ref> | «قسیم الجنۃ والنار» کو بھی حضرت علیؑ کے القاب میں شمار کیا گیا ہے۔<ref> خوارزمی، مناقب، ۱۴۱۱ھ، ص۴۱و۴۲؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۰۸</ref> حضرت علیؑ کی زیارات میں بھی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص۵۷۰؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۶، ص۲۹</ref> | ||
==مفہومِ حدیث== | ==مفہومِ حدیث== | ||
علمائے اسلام کے اعتبار سے عبارتِ «قسیم ِجنت وجہنم» کی دو تفسیر پائی جاتی ہے: | علمائے اسلام کے اعتبار سے عبارتِ «قسیم ِجنت وجہنم» کی دو تفسیر پائی جاتی ہے: | ||
* ایک یہ کہ حضرت علیؑ کے چاہنے والے ہدایت یافتہ اور وارد بہشت ہوں گے اور ان کے دشمن گمراہ اور داخل جہنم ہوں گے۔<ref>ابن | * ایک یہ کہ حضرت علیؑ کے چاہنے والے ہدایت یافتہ اور وارد بہشت ہوں گے اور ان کے دشمن گمراہ اور داخل جہنم ہوں گے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱۹، ص۱۳۹؛ مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۲ھ، ج۱۱، ص۲۸۹ وج۱۲، ص۱۷۲؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰؛ حمویی جوینی، فرائد السمطین، مؤسسہ محمودی، ج۱، ص۳۲۶</ref> جب کسی نے [[احمد بن حنبل]] (متوفی 241 ھجری) کے سامنے اس روایت (میں قسیم جہنم ہوں) کا انکار کیا تو ابن حنبل نے پیغمبر اکرمؐ کی روایت جو حضرت علیؑ کے بارے میں ہے کہ (اے علی آپ کا چاہنے والا مؤمن اور آپ کا دشمن منافق ہوگا) اور جنت میں مؤمن کا مقام اور جہنم میں منافق کا مقام سے استدلال کیا اور یہ نتیجہ نکالا کہ حضرت علیؑ ہی قسیم جہنم ہیں۔<ref> ابن ابی یعلی، طبقات الحنابلہ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۳۲۰</ref> | ||
* دوسری یہ کہ حضرت علیؑ قیامت کے دن واقعی جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں اور لوگوں کو جنت یا جہنم میں بھیجیں گے۔<ref>ابن | * دوسری یہ کہ حضرت علیؑ قیامت کے دن واقعی جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں اور لوگوں کو جنت یا جہنم میں بھیجیں گے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۱۹، ص۱۳۹؛ ابن مغازلی، مناقب الامام علی بن ابی طالبؑ، ۱۴۲۴ھ، ص۱۰۷؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰</ref> | ||
یہ دو مضمون بعض روایات میں بھی وارد ہوئے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۸۶؛ شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۶۲؛ | یہ دو مضمون بعض روایات میں بھی وارد ہوئے ہیں۔<ref> شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۸۶؛ شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۱۶۲؛ ابن ابی یعلی، طبقات الحنابلہ، دارالمعرفۃ، ج۱، ص۳۲۰۔</ref> | ||
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ حضرت علیؑ مقام [[امامت]] پر فائز ہیں لہذا ان کا قول و فعل حجت ہے۔ اس اعتبار سے ان کی پیروی کرنے والے جنت اور دشمن جہنم میں جائیں گے۔<ref>حسینی تہرانی، | بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ چونکہ حضرت علیؑ مقام [[امامت]] پر فائز ہیں لہذا ان کا قول و فعل حجت ہے۔ اس اعتبار سے ان کی پیروی کرنے والے جنت اور دشمن جہنم میں جائیں گے۔<ref> حسینی تہرانی، امام شناسی، ۱۴۲۶ھ، ج۱، ص۱۵۰۔</ref> | ||
==اعتبار و سند == | ==اعتبار و سند == | ||
حدیث قسیم النار و الجنّۃ [[علامہ مجلسی]] <ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰</ref> اور بعض علمائے | حدیث قسیم النار و الجنّۃ [[علامہ مجلسی]]<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۹، ص۲۱۰</ref> اور بعض علمائے اہل سنت کے اعتبار سے متواتر ہے۔<ref> ابن مغازلی، مناقب الامام علی بن ابی طالبؑ، ۱۴۲۴ھ، ص۱۰۷</ref> جابر ابن عبداللہ انصاری،<ref> صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ھ، ص۴۱۵ و ۴۱۶۔</ref> عبداللہ ابن عباس،<ref> طبری آملی، بشارۃ المصطفی، ۱۳۸۳ھ، ص۱۰۲ و۱۵۳۔</ref> عبداللہ بن عمر،<ref> طبری آملی، بشارۃ المصطفی، ۱۳۸۳ھ، ص۵۶۔</ref> عبداللہ بن مسعود،<ref> طبری آملی، بشارۃ المصطفی، ۱۳۸۳ھ، ص۱۶۴۔</ref> ابو الطفیل، <ref> خزاز رازی، کفایۃ الاثر، ۱۴۰۱ھ، ص۱۵۱۔</ref> اور ابا صَلت ہِرَوی <ref> شیخ صدوق، عیون اخبار الرضاؑ، ۱۳۷۸ھ، ج۲، ص۸۶۔</ref> اس حدیث کے راوی ہیں۔ اس کے باوجود بھی علمائے اہلسنت کے ایک گروہ نے اس حدیث کی سلسلۂ سند کو ضعیف شمار کیا ہے۔<ref> دارقطنی، العلل الواردۃ فی الاحادیث النبوی، ۱۴۰۵ھ، ج۶، ص۲۷۳؛ ذہبی، میزان الاعتدال، ۱۳۸۲ھ، ج۲، ص۳۸۷ و ج۴، ص۲۰۸؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ۱۴۱۵ھ، ج۴۲، ص۲۹۸-۳۰۱؛ ابن حجر عسقلانی، لسان المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۳، ص۲۴۷ و ج۶، ص۱۲۱؛ ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۳۵۵؛ البانی، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، ۱۴۱۲ھ، ج۱۰، ص۵۹۷</ref> | ||
== اشعار کی روشنی میں== | == اشعار کی روشنی میں== | ||
عربی اشعار میں حدیث قسیم النار۔<ref>دیکھئے: ابن شہرآشوب، آل ابیطالبؑ، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۵۹و۱۶۰</ref> | عربی اشعار میں حدیث قسیم النار۔<ref> دیکھئے: ابن شہرآشوب، آل ابیطالبؑ، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۵۹و۱۶۰</ref> | ||
نمونہ کے طور پر یہاں پر محمد بن ادریس شافعی (متوفی 204 ھجری | نمونہ کے طور پر یہاں پر محمد بن ادریس شافعی (متوفی 204 ھجری) جو شافعی مذہب کے امام ہیں ان کا شعر پیش کیا جا رہا ہے۔ | ||
{{شعر2 | {{شعر2 | ||
|خط اول= | |خط اول= | ||
سطر 50: | سطر 49: | ||
|{{عربی|قسیمُ النَّار و الجَنّّة}} | |{{عربی|قسیمُ النَّار و الجَنّّة}} | ||
|{{عربی|وصیّ المصطفی حقاً}} | |{{عربی|وصیّ المصطفی حقاً}} | ||
|{{عربی|إمام الإنس و الجِنَّة۔}} <ref>قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوہ، ج۱، ص۲۵۴</ref> | |{{عربی|إمام الإنس و الجِنَّة۔}} <ref> قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوہ، ج۱، ص۲۵۴</ref> | ||
}} | }} | ||
'''ترجمہ''': علیؑ کی محبّت جہنم کی سپر ہے اور وہ جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں، پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور جنّ و انس کے رہبر و پیشوا ہیں۔ | '''ترجمہ''': علیؑ کی محبّت جہنم کی سپر ہے اور وہ جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے ہیں، پیغمبر اکرمؐ کے جانشین اور جنّ و انس کے رہبر و پیشوا ہیں۔ | ||
اسی طرح یہ دو شعر شعیوں کے بزرگ محدث قطب الدین راوندی (متوفی | اسی طرح یہ دو شعر شعیوں کے بزرگ محدث قطب الدین راوندی (متوفی 573 ھجری) کے ہیں: | ||
{{شعر2 | {{شعر2 | ||
|قسیم النار ذو خیر و خیر | |قسیم النار ذو خیر و خیر | ||
|یخلّصنا الغداۃ من السعیر | |یخلّصنا الغداۃ من السعیر | ||
|فکان محمّد فی الدین شمسا | |فکان محمّد فی الدین شمسا | ||
|علی بعد کالبدر المنیر<ref>نوری، مستدرک الوسایل، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۸۰۔</ref> | |علی بعد کالبدر المنیر<ref> نوری، مستدرک الوسایل، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۸۰۔</ref> | ||
}} | }} | ||
سطر 69: | سطر 68: | ||
==مآخذ== | ==مآخذ== | ||
{{مآخذ}} | {{مآخذ}} | ||
* | *ابن ابی الحدید، عبدالحمید بن ہبۃاللہ، شرح نہجالبلاغہ، تصحیح محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، مکتبۃ آیتاللہ مرعشی نجفی، چاپ اول، ۱۴۰۴ھ۔ | ||
* | *ابن ابی یعلی، محمد بن محمد، طبقات الحنابلہ، تحقیق محمد حامد الفقی، بیروت، دارالمعرفۃ، بیتا۔ | ||
* | *ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، لسان المیزان، بیروت، مؤسسہ اعلمی، چاپ دوم، ۱۳۹۰ق/۱۹۷۱ء۔ | ||
* | *ابن شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالبؑ، قم، علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ھ۔ | ||
* | *ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ دمشق، تحقیق عمرو بن غرامۃ العمروی، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ق/۱۹۹۵ء۔ | ||
* | *ابن عقدہ کوفی، احمد بن محمد، فضائل امیرالمؤمنینؑ، تحقیق و تصحیح عبدالرزاق محمد حسین حرزالدین، قم،دلیل ما، چاپ اول، ۱۴۲۴ھ۔ | ||
* | *ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶ء۔ | ||
* | *ابن مردویہ اصفہانی، مناقب علی بن ابیطالب و ما نزل من القران فی علی، قم، دارالحدیث، چاپ دوم، ۱۴۲۴ھ۔ | ||
* | *ابن مغازلی، علی بن محمد، مناقب الامام علی بن ابیطالبؑ، دارالاضواء، چاپ سوم، ۱۴۲۴ھ۔ | ||
*البانی، محمد | *البانی، محمد ناصر الدین، سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ و الموضوعۃ و اثرہا السیئ فی الأمۃ، ریاض، دارالمعارف، چاپ اول، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲ء۔ | ||
*حسینی تہرانی، سید | *حسینی تہرانی، سید محمد حسین، امام شناسی، مشہد، علامہ طباطبایی، چاپ سوم، ۱۴۲۶ھ۔ | ||
*حمویی جوینی، ابراہیم بن محمد، | *حمویی جوینی، ابراہیم بن محمد، فرائد السمطین، تحقیق محمد باقر محمودی، مؤسسہ محمودی، بیتا۔ | ||
*خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تحقیق عبداللطیف حسینی کوہکمری، قم، بیدار، ۱۴۰۱ھ۔ | *خزاز رازی، علی بن محمد، کفایۃ الاثر فی النص علی الائمۃ الاثنی عشر، تحقیق عبداللطیف حسینی کوہکمری، قم، بیدار، ۱۴۰۱ھ۔ | ||
*خوارزمی، موفق بن احمد، مناقب، تحقیق شیخ مالک المحمودی، مؤسسہ نشرالاسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۱ھ۔ | *خوارزمی، موفق بن احمد، مناقب، تحقیق شیخ مالک المحمودی، مؤسسہ نشرالاسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۱ھ۔ | ||
*دارقطنی، علی بن عمر، العلل الواردۃ فی الاحادیث النبوی، ریاض، دار طیبۃ، ۱۴۰۵ھ۔ | *دارقطنی، علی بن عمر، العلل الواردۃ فی الاحادیث النبوی، ریاض، دار طیبۃ، ۱۴۰۵ھ۔ | ||
*داوودی، یوسف بن جودۃ، مَنْہج الإمام الدارقطنی فی نقد الحدیث فی کتاب العِلَل، | *داوودی، یوسف بن جودۃ، مَنْہج الإمام الدارقطنی فی نقد الحدیث فی کتاب العِلَل، دار المحدثین، چاپ اول، ۲۰۱۱م/۱۴۳۲ھ۔ | ||
*ذہبی، | *ذہبی، شمس الدین، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، تحقیق علی محمد بجاوی، بیروت، دارالمعرفۃ، چاپ اول، ۱۳۸۲ق-۱۹۶۳ء۔ | ||
*شیخ صدوق، محمد بن علی، | *شیخ صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، تہران، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، ۱۳۸۵ ہجری شمسی۔ | ||
*شیخ صدوق، محمد بن علی، معانیالاخبار، تصحیح | *شیخ صدوق، محمد بن علی، معانیالاخبار، تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۳ھ۔ | ||
*شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، | *شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضاؑ، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، ۱۳۷۸ھ۔ | ||
*صحیفۃ الامام الرضاؑ، تحقیق | *صحیفۃ الامام الرضاؑ، تحقیق محمد مہدی نجف، مشہد، گنگرہ جہانی امام رضاؑ، چاپ اول، ۱۴۰۶ھ۔ | ||
*صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل | *صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، تحقیق و تصحیح محسن کوچہباغی، قم، کتابخانہ آیت اللہ مرعشی نجفی، چاپ دوم، ۱۴۰۴ھ۔ | ||
*طبری آملی، | *طبری آملی، عماد الدین محمد بن ابی القاسم، بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی، نجف، مکتبۃالحیدریہ، چاپ دوم، ۱۳۸۳ھ۔ | ||
*طوسی، محمد بن حسن، | *طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق حسن موسوی خرسان، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔ | ||
*قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی، | *قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ لذوی القربی، دار الاسوہ، بیتا۔ | ||
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح | *کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ھ۔ | ||
*کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق و تصحیح | *کوفی، فرات بن ابراہیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق و تصحیح محمد کاظم، تہران، وزارت ارشاد اسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۰ھ۔ | ||
*مازندرانی، | *مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی (اصول و روضہ)، تحقیق و تصحیح ابوالحسن شعرانی، تہران، مکتبۃ الاسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۲ھ۔ | ||
*مجلسی، | *مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔ | ||
*نوری، حسین بن | *نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسہ آلالبیت، چاپ اول، ۱۴۰۸ھ۔ | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} | ||
{{فضائل امام علی}} | {{فضائل امام علی}} | ||
[[زمرہ:متواتر احادیث]] | [[زمرہ:متواتر احادیث]] | ||
[[زمرہ:فضائل امام علی]] | [[زمرہ:فضائل امام علی]] | ||
[[زمرہ:احادیث نبوی]] | [[زمرہ:احادیث نبوی]] |