مندرجات کا رخ کریں

"تولی" کے نسخوں کے درمیان فرق

6,610 بائٹ کا اضافہ ،  10 جولائی 2014ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Smnazem
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 84: سطر 84:


[[خواجہ نصیر الدین طوسی]] نے اس کتاب میں تولی اور تبری کا یوں تجزیہ کیا ہے: "ہرگاہ بہیمی (حیوانی) نفس، "[[نفس ناطقہ]]" کے فرمان کے تحت آتا ہے [[شہوت]] اور [[غضب]] کی دو قوتیں نرم تر ہوجاتی ہیں اور شوق و إعراض میں تبدیل ہوتی ہیں اور جب نفس ناطقہ عقل کی فرمانبرداری اختیار کرے، شوق و اعراض میں مزید لطافت اور نرمی حاصل ہوتی ہے اور عقیدت و کراہیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور بالآخر جب عقل حاکم و سالار حقیقت کے زیر فرمان آتی ہے عقیدت و کراہیت تولی اور تبری میں تبدیل ہوتی ہے۔<ref>خواجه نصیر، اخلاق محتشمی، ص563</ref> انھوں نے تولی اور [[تبری]] کا کمال اور عروج یہ ہے کہ ان کے چاروں عناصر ـ یعنی [[معرفت]]، [[حب و بغض|محبت]]، [[ہجرت]] اور [[جہاد]] کو عملی جامہ پہنایا جائے<ref>خواجه نصیر، وہی ماخذ، ص 565۔</ref> تاہم ان کی رائے ہے کہ دینداری کے عروج کا رتبہ اس سے بالاتر ہے اور وہ رتبہ [[رضا]] اور [[تسلیم]] ہے اور یہ رتبہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب تولی اور [[تبری]] دونوں ایک ہوجائیں؛ یعنی [[تبری]] تولی میں مستغرق ہوجائے۔<ref>خواجه نصیر،وہی ماخذ، ص566۔</ref> بالآخر [[خواجہ نصیر الدین طوسی|خواجہ نصیر]] کے نزدیک، ایمان اس وقت حاصل ہوتا ہے جب تولی، [[تبری]]، [[رضا]] اور [[تسلیم]] سب ایک انسان کے اندر یکجا اور متحقق ہوجائیں۔ اور اس صورت میں اس پر مؤمن کا نام رکھا جاسکتا ہے۔<ref>خواجه نصیر، وہی ماخذ، ص567</ref>
[[خواجہ نصیر الدین طوسی]] نے اس کتاب میں تولی اور تبری کا یوں تجزیہ کیا ہے: "ہرگاہ بہیمی (حیوانی) نفس، "[[نفس ناطقہ]]" کے فرمان کے تحت آتا ہے [[شہوت]] اور [[غضب]] کی دو قوتیں نرم تر ہوجاتی ہیں اور شوق و إعراض میں تبدیل ہوتی ہیں اور جب نفس ناطقہ عقل کی فرمانبرداری اختیار کرے، شوق و اعراض میں مزید لطافت اور نرمی حاصل ہوتی ہے اور عقیدت و کراہیت میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور بالآخر جب عقل حاکم و سالار حقیقت کے زیر فرمان آتی ہے عقیدت و کراہیت تولی اور تبری میں تبدیل ہوتی ہے۔<ref>خواجه نصیر، اخلاق محتشمی، ص563</ref> انھوں نے تولی اور [[تبری]] کا کمال اور عروج یہ ہے کہ ان کے چاروں عناصر ـ یعنی [[معرفت]]، [[حب و بغض|محبت]]، [[ہجرت]] اور [[جہاد]] کو عملی جامہ پہنایا جائے<ref>خواجه نصیر، وہی ماخذ، ص 565۔</ref> تاہم ان کی رائے ہے کہ دینداری کے عروج کا رتبہ اس سے بالاتر ہے اور وہ رتبہ [[رضا]] اور [[تسلیم]] ہے اور یہ رتبہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب تولی اور [[تبری]] دونوں ایک ہوجائیں؛ یعنی [[تبری]] تولی میں مستغرق ہوجائے۔<ref>خواجه نصیر،وہی ماخذ، ص566۔</ref> بالآخر [[خواجہ نصیر الدین طوسی|خواجہ نصیر]] کے نزدیک، ایمان اس وقت حاصل ہوتا ہے جب تولی، [[تبری]]، [[رضا]] اور [[تسلیم]] سب ایک انسان کے اندر یکجا اور متحقق ہوجائیں۔ اور اس صورت میں اس پر مؤمن کا نام رکھا جاسکتا ہے۔<ref>خواجه نصیر، وہی ماخذ، ص567</ref>
== تولی کے مصادیق ==
اللہ کے دوستوں سے محبت کے مختلف درجات و مراتب ہیں اور ظاہر ہے کہ محبتِ تامہ و کاملہ اطاعت و پیروی کو بھی ساتھ لاتی ہے۔
[[شیخ یوسف بحرانی]] رقمطراز ہیں: <br/> [[شیعہ]] [[حدیث|احادیث]] کی تاکید سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کی محبت سے مراد یہ ہے کہ ان کی [[امامت]] کو تسلیم کیا جائے اور ان کے لئے اس رتبے اور درجے کا قائل ہوا جائے جو ان کے لئے مقرر ہے؛ چنانچہ اس سلسلے میں دوسروں کو ان پر مقدم رکھنا در حقیقت ان کی محبت کے دائرے سے خارج ہونے کے مترادف ہے۔<ref>بحرانی، الشهاب الثاقب فی بیان معنی الناصب، ص144</ref>
بنیادی طور پر ہمہ جہت اور سچی محبت کا لازمہ یہ ہے کہ جس سے محبت کی جاتی ہے اس سے اتفاق کیا جائے، اس کی تصدیق کی جائے اور اس کی پیروی اختیار کی جائے۔<ref>بهبهانی، مصباح الهدایة فی اثبات الولایة، صص298ـ299.</ref> لہذا وہ محبت جو ان کی تولی ـ یعنی [[ائمۂ طاہرین علیہم السلام|ائمہ]] کی [[ولایت]] قبول کرنے اور ان کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر منتج نہ ہو اور وہ [[تبری|تبرا]] جس کا نتیجہ ان کے مخالفین سے نظری اور عملی بیزاری کی صورت میں برآمد نہ ہو، وہ اصولی طور محبت محسوب نہ ہوگی۔ جیسا کہ ایک [[حدیث]] کے ضمن میں [[ولایت]] [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] کا کمال و عروج ان سے مخلصانہ محبت ان کے قریب اور دور کے دشمنوں سے برائت و بیزاری کے بغیر حاصل نہيں ہوتا۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج27، ص58 ـ 59</ref>
چنانچہ، [[حب و بغض]] اور [[ولایت]] و [[برائت]] ـ جن پر روایات میں مکرر در مکرر تاکید ہوئی ہے ـ کو ائمہ(ع) سے تولی و محبت اور ان کی ولایت و سرپرستی تسلیم کرنے اور تمام تر امور میں ان کی مرجعیت قبول کرنے کے مترادف سمجھنا چاہئے۔ اسی بنیاد پر، [[ائمۂ طاہرین علیہم السلام|ائمۂ اثنیٰ عشر علیہم السلام]] کی [[امامت]] کی تصدیق کو ـ جس کا لازمہ ان کی [[عصمت]] اور اللہ اور اس کے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول(ص)]] کی جانب سے ان کے منصوص ہونے، اور دنیا اور آخرت کے امور کی مصلحتوں پر ان کے علم  پر اعتقاد اور نتیجتاً ان کے اوامر و نواہی کی اطاعت کے وجوب، کا عقیدہ ہے ـ نہ صرف ایمان کی تشکیل کی ضرورت بلکہ مذہب [[امامیہ]] کی ضروریا میں سے قرار دیا گیا ہے۔<ref>شهید ثانی، ص404ـ 405۔</ref>
اسی بنا پر [[ولایت]] اور ـ معمول کے مطابق ـ اس کو تسلیم کرنا، [[نماز]]، [[زکوٰۃ]]، [[حج]]، اور [[روزہ]] وغیرہ کے ساتھ ساتھ، اسلام کے ارکان اور ستونوں میں سے [اور فروع دین کا جزء ترکیبی] ہے؛ حتی کہ ان ارکان میں اہم ترین رکن ہے۔<ref>برقی، کتاب المحاسن، ج1، ص286</ref> نیز تولی کو [[تبری]] کے ہمراہ، جزءِ تقویمی (Righting Part) کے طور پر ـ [[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمہ(ع)]] کی جانب سے دین صحیح و [[ایمان]] صحیح کے اظہار کے سلسلے میں صادر ہونے والے تمام انشائات و تائیدات کے تمام صیغوں میں ـ مورد تاکید قرار دیا گیا ہے۔<ref>برای نمونه رجوع کنید به مجلسی، بحارالانوار، ج66، ص2، 4ـ5، 14</ref>
بطور خلاصہ، تولی کا مفہوم کے مختلف مراتب و مصادیق ہیں، جیسے:
* خداوند متعال، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا(ص)]] اور [[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمۂ]] [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]](ع) کی ولایت پر یقین رکھنا اور اس کو قبول کرنا؛
* خداوند متعال [[انبیاء علیہم السلام|انبیاء(ع)]]، [[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمۂ]] [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]](ع) [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|حضرت زہرا(س)]] سے محبت (مودت) کرنا؛
* مؤمنین اور اولیاء اللہ (خدا کے دوستوں) سے محبت کرنا۔
[[امام محمد باقر علیہ السلام|حضرت امام محمد باقر علیہ السلام]] نے فرمایا:
:<font color= mauve> '''"إذا أردت أن تعلم أن فيك خيرا فانظر إلى قلبك، فإن كان يحب أهل طاعة الله ويبغض أهل معصيته ففيك خير والله يحبك وإن كان يبغض أهل طاعة الله ويحب أهل معصيته فليس فيك خير والله يبغضك، والمرء مع من أحب"۔''' </font> <br/>  اگر جاننا چاہو کہ تم اچھے انسان ہو [یا نہیں تو] اپنے قلب پر ایک نگاہ ڈالو اور دیکھو کہ اگر تمہارا دل محبت کرتا ہو ار لوگوں سے جو اللہ کے مطیع و فرمانبردار ہیں اور اللہ کے نافرمانوں سے بيزآر ہے انہیں دشمن سمجھتا ہے تو جان لو کہ تم اچھے انسان ہو اور اللہ بھی تم سے محبت کرتا ہے اور اگر تم اہل اطاعت کو دشمن رکھتے ہو اور اور اس کے دشمنوں سے محبت کرتے ہو تو جان لو کہ تمہار اندر کچھ بھی نہیں ہے اور خدا بھی تمہیں دشمن رکھتا ہے؛ اور انسان ہمیشہ اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص127۔</ref>


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==
گمنام صارف