confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مضمون) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 70: | سطر 70: | ||
==داڑھی پر ہاتھ رکھنا اور انگلی کو جنبش دینا == | ==داڑھی پر ہاتھ رکھنا اور انگلی کو جنبش دینا == | ||
بعض نقل روایت کی بنیاد پر [[امام صادق | بعض نقل روایت کی بنیاد پر [[امام صادق علیہالسلام|امام صادقؑ]] جب بھی یہ دعا پڑھتے تھے تو اپنا ہاتھ ڈاڑھی پر رکھتے اور اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے۔ امامؑ اس عمل کو کب اور کیسے انجام دیتے اس سلسلے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں: | ||
[[ | [[علامہ مجلسی]] اپنی کتاب [[زاد المعاد (کتاب)|زاد المعاد]] میں سید ابن طاووس سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ امام صادقؑ اس جملے {{عربی |یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ}} سے آخر دعا تک اپنا بایاں ہاتھ داڑھی پر رکھتے اور داہنے ہاتھ کی اشارے کی انگلی کو جنبش دیتے تھے۔<ref>مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔</ref> | ||
[[ | [[عبداللہ جوادی آملی]]، [[تفسیر قرآن|مفسر قرآن]] اس بات کے معتقد تھے کہ سید ابن طاووس کی کتاب [[الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ (کتاب)|اقبال الاعمال]] کے متن کے مطابق امامؑ ابتدائے دعا سے ہی اس عمل کو انجام دیتے تھے۔<ref>جوادی، [https://www.eshia.ir/feqh/archive/text/javadi/feqh/89/900311/صادقیہ درس خارج فقہ مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش]، مدرسہ فقاہت۔</ref> | ||
کتاب اقبال الاعمال میں وارد ہوا ہے کہ امامؑ ابتدائے دعا سے آخر تک بغیر داڑھی پہ ہارکھ رکھے اور انگلی کو جنبش دئے راوی سے فرماتے کہ اسے لکھتے رہو، اس کے بعد اپنے ہاتھ کو ڈاڑھی پر رکھتے اور انگلی کو جنبش دیتے اور ابتدا سے آخر تک دوبارہ اسی حال میں دعا پڑھتے تھے۔<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> | کتاب اقبال الاعمال میں وارد ہوا ہے کہ امامؑ ابتدائے دعا سے آخر تک بغیر داڑھی پہ ہارکھ رکھے اور انگلی کو جنبش دئے راوی سے فرماتے کہ اسے لکھتے رہو، اس کے بعد اپنے ہاتھ کو ڈاڑھی پر رکھتے اور انگلی کو جنبش دیتے اور ابتدا سے آخر تک دوبارہ اسی حال میں دعا پڑھتے تھے۔<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> | ||
[[شیخ عباس قمی]]نے بھی اپنی کتاب [[مفاتیح الجنان (کتاب)|مفاتیح الجنان]] میں اس عمل کو ابتدائے دعا سے جانا ہے۔<ref>قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۹۔</ref> اسی طرح سے [[شیعہ مجتہد]] محمد علی اسماعیلپور | [[شیخ عباس قمی]]نے بھی اپنی کتاب [[مفاتیح الجنان (کتاب)|مفاتیح الجنان]] میں اس عمل کو ابتدائے دعا سے جانا ہے۔<ref>قمی، مفاتیح الجنان، ۱۳۸۸ش، ص۲۲۹۔</ref> اسی طرح سے [[شیعہ مجتہد]] محمد علی اسماعیلپور قمشہای (متوفی 2019ء) نے بھی اس عمل کو ابتدائے دعا سے [[مستحب]] جانا ہے۔<ref>اسماعیلپور قمشہای، الدلائل الظاہرات، ۱۳۹۴ش، ج۲، ص۱۲۰۔</ref> | ||
=== فلسفہ اور کیفیت === | ===فلسفہ اور کیفیت === | ||
عبد اللہ جوادی آملی معتقد ہیں کہ امام صادقؑ اپنے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھتے تھے نہ کہ ریش مبارک پر کیونکہ انسان جب کبھی پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو ٹھوڑی پر ہی ہاتھ رکھتا ہے، اس اعتبار سے یہ دعا، خواتین اور بچے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان عذر خواہی کے وقت اپنے ٹھوڑی ہی پر ہاتھ رکھتا ہے۔<ref>جوادی، [https://www.eshia.ir/feqh/archive/text/javadi/feqh/89/900311/ | عبد اللہ جوادی آملی معتقد ہیں کہ امام صادقؑ اپنے ہاتھ کو ٹھوڑی پر رکھتے تھے نہ کہ ریش مبارک پر کیونکہ انسان جب کبھی پریشانی کی حالت میں ہوتا ہے تو ٹھوڑی پر ہی ہاتھ رکھتا ہے، اس اعتبار سے یہ دعا، خواتین اور بچے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان عذر خواہی کے وقت اپنے ٹھوڑی ہی پر ہاتھ رکھتا ہے۔<ref>جوادی، [https://www.eshia.ir/feqh/archive/text/javadi/feqh/89/900311/صادقیہ درس خارج فقہ مبحث بیع، ۱۱ خرداد ۱۳۹۰ش]، مدرسہ فقاہت۔</ref> | ||
[[طریحی]] صاحب [[مجمع البحرین و مطلع النیرین (کتاب)|مجمع البحرین]] نے اس عبارت {{عربی |یَلوذ | [[طریحی]] صاحب [[مجمع البحرین و مطلع النیرین (کتاب)|مجمع البحرین]] نے اس عبارت {{عربی |یَلوذ بِسَبّابَتِہ}} کو جو روایت میں وارد ہوئی ہے<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> انگلی کے جنبش دینے کو عاجزی و انکساری کی دلیل بتایا ہے<ref> طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۷۵ش، ج۳، ص۱۸۸۔</ref> علامہ مجلسی نے بھی انگلی کو دائیں بائیں جنبش دینے کی تفسیر کی ہے۔<ref>مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶۔</ref> البتہ بعض علما یہ کہتے ہیں کہ انگلی کو اوپر نیچے کرنے سے مراد آہستہ آہستہ مارنے سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ حالت اس وقت طاری ہوتی ہے جب انسان پریشانی اور اضطراب کی حالت میں ہوتا ہے۔<ref>پیشگر، «گونہہا، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۷۰۔</ref> | ||
بعض لوگوں نے اس طرح سے نقل کیا ہے کہ دعا پڑھتے وقت وہ عمل جوامام صادقؑ انجام دیتے تھے یہ امام (ع)کے حالت کی نشاندہی کرتا ہے جس کو راوی نے یہاں پر بعنوان حالت امامؑ ذکر کیا ہے اور اس عمل کے لئے خود مضمون دعا میں کوئی دستور نقل نہیں ہوا ہے، لہذا س عمل کو انجام دینا ضروری نہیں ہے۔<ref>پیشگر، | بعض لوگوں نے اس طرح سے نقل کیا ہے کہ دعا پڑھتے وقت وہ عمل جوامام صادقؑ انجام دیتے تھے یہ امام (ع)کے حالت کی نشاندہی کرتا ہے جس کو راوی نے یہاں پر بعنوان حالت امامؑ ذکر کیا ہے اور اس عمل کے لئے خود مضمون دعا میں کوئی دستور نقل نہیں ہوا ہے، لہذا س عمل کو انجام دینا ضروری نہیں ہے۔<ref>پیشگر، «گونہہا، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۷۰۔</ref> | ||
محمد بن عمر کشی کے نقل کے مطابق ، امام صادقؑ نے دعا پڑھتے وقت نہ ہی ہاتھوں کو ریش مبارک پر رکھا نہ ہی انگلیوں کو حرکت دی، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور اسی حالت میں دعا کے آخری عبارت کی تلاوت فرمائی اور جب دعا ختم ہوئی تو امامؑ نے اپنے دست مبارک کو اپنی ریش مبارک پر رکھا اور جب اٹھایا تو امامؑ کا دست مبارک آنسوؤں سے تر تھا۔<ref>کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔</ref> اس قول کے مطابق، امامؑ نے دعا کے اختتام میں جو عمل انجام دیا وہ یہ ہے کہ امامؑ نے اپنے دست مبارک کو ریش مبارک پر رکھا تھا اور یہ وہ عمل ہے کہ جس کے بارے میں بعض لوگ معتقد ہیں کہ یہ عمل انسان سے اس وقت سرزد ہوتا ہے جب وہ اضطراب کی حالت میں ہو۔<ref>پیشگر، | محمد بن عمر کشی کے نقل کے مطابق ، امام صادقؑ نے دعا پڑھتے وقت نہ ہی ہاتھوں کو ریش مبارک پر رکھا نہ ہی انگلیوں کو حرکت دی، بلکہ ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کیا اور اسی حالت میں دعا کے آخری عبارت کی تلاوت فرمائی اور جب دعا ختم ہوئی تو امامؑ نے اپنے دست مبارک کو اپنی ریش مبارک پر رکھا اور جب اٹھایا تو امامؑ کا دست مبارک آنسوؤں سے تر تھا۔<ref>کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔</ref> اس قول کے مطابق، امامؑ نے دعا کے اختتام میں جو عمل انجام دیا وہ یہ ہے کہ امامؑ نے اپنے دست مبارک کو ریش مبارک پر رکھا تھا اور یہ وہ عمل ہے کہ جس کے بارے میں بعض لوگ معتقد ہیں کہ یہ عمل انسان سے اس وقت سرزد ہوتا ہے جب وہ اضطراب کی حالت میں ہو۔<ref>پیشگر، «گونہہا، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوہ»، ص۷۱۔</ref> | ||
== شروحات == | == شروحات == |