گمنام صارف
"دعائے یا من ارجوہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Syedehsanahmad کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Mudabbirhusainrizvi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 30: | سطر 30: | ||
یہ دعا بغیر اس فقرے }}عربی |یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ{{ کہ جو آخر دعا میں ہے، کتاب [[کافی]] میں وارد ہوئی ہے<ref>کلینی، الکافی،۱۴۲۹ ھ، ج۴، ص۵۵۹۔</ref> کہ جس کی سند کو علامہ مجلسی نے ضعیف جانا ہے۔<ref>مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ ھ، ج۱۲، ص۴۵۸۔</ref> حسین بن عمارہ و ابی جعفر جیسے نا معتبر افراد کا اس سلسلہ سند میں پایا جانا، سند کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے۔<ref>پیشگر، «گونهها اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۶۹۔</ref> | یہ دعا بغیر اس فقرے }}عربی |یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ{{ کہ جو آخر دعا میں ہے، کتاب [[کافی]] میں وارد ہوئی ہے<ref>کلینی، الکافی،۱۴۲۹ ھ، ج۴، ص۵۵۹۔</ref> کہ جس کی سند کو علامہ مجلسی نے ضعیف جانا ہے۔<ref>مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ ھ، ج۱۲، ص۴۵۸۔</ref> حسین بن عمارہ و ابی جعفر جیسے نا معتبر افراد کا اس سلسلہ سند میں پایا جانا، سند کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے۔<ref>پیشگر، «گونهها اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۶۹۔</ref> | ||
یہ دعا بعض عبارات کی تبدیلی کے ساتھ [[شیخ طوسی]] کی کتاب [[ | یہ دعا بعض عبارات کی تبدیلی کے ساتھ [[شیخ طوسی]] کی کتاب [[مصباح المتهجد]] میں ذکر ہوئی ہے۔<ref>شیخ طوسی، مصباح المتهجد، ۱۴۱۱ ھ، ج۱، ص۳۵۳ و ص۳۵۶۔</ref> | ||
کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دعا [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]]، کشی، شیخ طوسی اور سید ابن طاووس جیسے بزرگ علمائے تشیع کے ذریعہ نقل ہوئی ہے لہذا اس بات کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کے مضامین [[امام صادق علیهالسلام|امام صادق(ع)]] سے ہی صادر ہوئے ہیں۔<ref>غفورینژاد، [http://hadith.riqh.ac.ir/article_13092.html «متن کاوی، اعتبارسنجی و دلالت پژوهی روایات دعای یا من ارجوه لکل خیر»]، در فصلنامه علمی علوم حدیث۔</ref> | کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ دعا [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]]، کشی، شیخ طوسی اور سید ابن طاووس جیسے بزرگ علمائے تشیع کے ذریعہ نقل ہوئی ہے لہذا اس بات کا اطمینان ہو جاتا ہے کہ اس کے مضامین [[امام صادق علیهالسلام|امام صادق(ع)]] سے ہی صادر ہوئے ہیں۔<ref>غفورینژاد، [http://hadith.riqh.ac.ir/article_13092.html «متن کاوی، اعتبارسنجی و دلالت پژوهی روایات دعای یا من ارجوه لکل خیر»]، در فصلنامه علمی علوم حدیث۔</ref> |